| تحریر: لال خان |
بہت شورو غل تھا۔ کارپوریٹ میڈیا کا ہر ٹیلیوژن چینل اور اخبار ’’ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری پاک چین دوستی‘‘ کے گن گاتا نظر آیا۔ لمبا انتظار کروانے کے بعد چینی سربراہ مملکت نے آخر پاکستان کو اپنے دورے کا شرف بخش ہی دیا۔ کئی سالوں میں کسی چینی صدر کا یہ پہلا دورہ تھا۔ شی جن پنگ کے لئے سرخ قالین بچھائے گئے۔ صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا، ملٹری قیادت سب چکلالہ ایئربیس پر موصوف کے استقبال کے لئے بنفس نفیس موجود تھے۔ اس سے قبل پاکستان کی حدودمیں داخل ہوتے ہی ایئرفورس کے JF-17 تھنڈر طیاروں نے چینی صدر کے بوئنگ 737 کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ شی جن پنگ اکیس توپوں کی گھن گرج میں اپنے جہاز سے اترے جس کے بعد گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور ایئر فورس کے طیارے سلامی دیتے ہوئے محو پرواز رہے۔
ہندوستان کے قومی دن (26 جنوری) کی تقریب میں جب باراک اوباما نے شرکت کی تھی تو پاکستانی حکمرانوں میں بھی تڑپ جاگ اٹھی تھی کہ چینی صدر 23 مارچ کی تقریب میں ’’جوابی شرکت‘‘ کرے۔ لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوپائی اور شی جن پنگ نے انہیں خاصا مایوس کیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ چین کی کسی بڑی ریاستی شخصیت نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ مسٹر شی جن پنگ نے پاک چین تعلقات کی تاریخ بڑے گرمجوش انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دوستی کو ’’پاکستانی بھائی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی قرار دیتے ہیں جبکہ چین کے عوام پاکستانی عوام کو اچھے دوست، اچھے پارٹنر اور اچھے بھائی سمجھتے ہیں…دونوں ممالک کو علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر سٹریٹجک ہم آہنگی برقرار رکھنی چاہئے۔ چین، افغانستان میں پاکستان کے تعمیری کردار کو سراہتا ہے۔‘‘
بھانڈا تو میاں نواز شریف نے پھوڑا اور بے صبری میں سب کچھ کہہ گئے۔ خیر مقدمی تقریر میں موصوف نے فرمایا ہے کہ ’’ایسی شراکت داری تخلیق کرنا ہمارے عزم کی علامت ہے جس میں ہر فریق کی جیت ہو، سب کا فائدہ ہو اور کسی کا نقصان نہ ہو۔‘‘ میاں صاحب درحقیقت ’’سب دا بھلا، سب دی خیر‘‘ کی آواز ہی لگا رہے تھے۔ سیاست کے لبادے میں چھپا کاروبار لپک لپک کر باہر آرہا تھا۔ پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت کے رہنما اپنی ’تو تو میں میں‘ پس پشت ڈال کر ’یکجا‘ نظر آئے۔ یہاں کی سیاسی اشرافیہ کی شعوری سطح کے پیش نظر ان میں بیشتر شاید واقعی ’’چینی معجزے‘‘ سے کینسر زدہ پاکستانی سرمایہ داری کو بحال کرنے کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ ہر کوئی چین کے نودولتی مگر کھرب پتی سرمایہ دار طبقے کے اس سیاسی نمائندے کی راہ میں بچھ بچھ جانے کو بے تاب تھا۔
اس دورے کے ہر اعلامیہ، اعلان اور تقریر سے عیاں ہے کہ معاملات دو ممالک کے عوام نہیں بلکہ اشرافیہ کے درمیان طے ہورہے ہیں۔ چین کے صدر نے پاکستان کے ’’خیر سگالی‘‘ دورے کی دعوت قبول کرنے سے پہلے ہی پاکستانی حکمرانوں سے کڑی یقین دہانیاں کروائیں تھیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق’’مسٹر شی کے دورے سے پہلے پاکستان نے یقین دلایا تھا کہ وہ اپنی بحریہ کے لیے آٹھ چینی آبدوزیں خریدے گا…جن کی مالیت 4 سے 5 ارب ڈالر ہو سکتی ہے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا دفاعی معاہدہ ہو گا… اس کے علاوہ چین پاکستان کو تیس سے چالیس FC-31 جنگی طیارے بھی فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
مجوزہ ’میگا پراجیکٹس‘ میں چینی کمپنیوں، نجی ٹھیکیداروں، ذیلی ٹھیکیداروں اور کمیشن ایجنٹوں کے لیے مال ہی مال ہے۔ ریاست، سیاست اور مافیا سرمایہ داری کے جغادری تجوریاں بھرنے کو بے تاب ہیں لیکن معاملات اتنے سیدھے اور آسان بھی نہیں ہیں۔ یہ خیال کج فہمی نہیں تو خوش فہمی ضرور ہے کہ ان ’’باہم اتفاق کی یادداشتوں‘‘ (MOUs) کے ذریعے پاکستان کی مفلوج معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔
چین کا یہ کرپٹ اور نودولتیا حکمران طبقہ کسی ’’ہمالیہ سے بلند دوستی‘‘ کے چکر میں خیرات نہیں بلکہ خطے میں اپنے دور رس سٹریٹجک مفادات اور بلند شرح منافع کے لیے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان کا سب سے اہم ہدف جغرافیائی اور کاروباری لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل گوادر پورٹ پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے جس کے ذریعے خلیج اومان اور بحیرہ عرب پر چین کا اثر و رسوخ بڑھایا جائے گا۔ یہ معاشی راہداری ان کے لیے نئے کاروباری مواقع پیدا کرے گی۔ چین کے نسبتاً کم ترقی یافتہ مغربی علاقوں کا سمندر سے فاصلہ کم ہوجائے گا، گوادر کے ذریعے تجارت سے چین کی درآمدات اور برآمدات کو کم و بیش 10 ہزار میل کم فاصلہ طے کرنا پڑے گا اور ایک مہینے کا سفری وقت بچے گا۔ خطے میں چین کی عسکری دھاک میں بھی اضافہ ہو گا، گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں پر چینی بحری بیڑہ براجمان کرنے کے امکانات بڑھیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے قدرتی وسائل اور منڈی تک چینی کمپنیوں کی رسائی آسان ہوجائے گی۔
پہلے ہی پاکستان سب سے زیادہ اسلحہ چین سے درآمد کرتا ہے۔ افغانستان میں چین کی سرمایہ کاری کسی دوسری سامراجی طاقت سے زیادہ ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے ساتھ چین کا اثرورسوخ خطے پر مزید بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں اس کی مداخلت فی الوقت کاپر اور لوہے وغیرہ کے ذخائر تک رسائی کے لیے ہے۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک مسلسل شکوہ کرتے رہے ہیں کہ سکیورٹی کے اخراجات وہ اٹھا رہے ہیں جبکہ منافع چینی کمپنیاں کما رہی ہیں۔ اب جبکہ نیٹو افغانستان سے جانے کی تیاریوں میں ہے تو چین اپنا کنٹرول بڑھانے میں سرگرداں ہے۔ افغان طالبان کے کئی دھڑے چین کے پے رول پر ہیں۔ مزید برآں افغانستان میں استحکام چین کے سنکیانگ صوبے میں جاری انتشار پر قابو پانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اپنے ان مقاصدکے لیے پاکستان کی عسکری مشینری کو خریدنے یا کرائے پر لینے میں بھی چین دلچسپی رکھتا ہے۔ شی جن پنگ کو اسی لیے ’’پاک چین دوستی‘‘ بہت یاد آرہی تھی۔ ہندوستان پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے بھی چین کے لئے پاکستان کی ’’دوستی‘‘ بہت اہم ہے۔ امریکی صدر کا حالیہ دورہ ہندوستان اشارہ دیتا ہے کہ امریکہ بھی چین کے خلاف ایسا ہی کھیل کھیل رہا ہے۔ ہندوستان کو خطے میں چین کا حریف بنا کر ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپنے سامراجی عزائم کی وجہ سے دونوں ممالک کے حکمرانوں کا ٹکراؤ موجود ہے لیکن منافقانہ سفارتکاری کے ذریعے ’’اچھے تعلقات‘‘ کی خواہش کا ناٹک بھی جاری رہتا ہے اور اگلے مہینے چین بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی میزبانی کرے گا۔
اپنی معاشی قوت اور عیار سفارت کاری کے ذریعے چین خطے پر اپنی ’نرم گرفت‘ بڑھا رہا ہے۔ چین کے پھیلتے اثر و رسوخ کی اہم وجہ، جس کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے، وہاں کا سیاسی استحکام اور ایک پارٹی کی حکومت بھی ہے۔ لیکن چینی معیشت کی اپنی حالت کو دیکھا جائے تو 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تناظر ڈانواڈول ہی لگتا ہے۔ اتنی دیوہیکل سٹریٹجک پالیسیوں اور سرمایہ کاری کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحت چینی معیشت تیزی سے کھو رہی ہے۔
2008ء کے بعد سے چین کا حکمران طبقہ تیزی سے گرتی ہوئی معاشی شرح نمو کو بحال کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔ 2014ء میں چین کی شرح نمو 25 سالوں کی کم ترین سطح پر آگری ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2015ء میں یہ شرح نمو مزید گراوٹ کے ساتھ 7.1 فیصد سے 6.8 فیصد پر آ جائے گی۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ’’چین کے 31 میں سے 30 صوبے 2014ء میں معاشی شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ صرف تبت میں یہ ہدف حاصل کیا گیا جو چین کی سب سے چھوٹی معاشی اکائی ہے۔ یہ اعداد و شمار چین کے ’معجزانہ ابھار‘ کے خاتمے کی علامات ہیں، سرمایہ دارانہ بحران کی حقیقت دنیا کی سب سے بڑی برآمدی معیشت پر آشکار ہو رہی ہے۔‘‘
2008ء میں عالمی مالیاتی کریش کے بعد چین کی سالانہ معاشی شرح نمو 14.2 فیصد سے 9.6 فیصد پر آن گری تھی۔ یورپ اور امریکہ میں منڈی کے سکڑاؤ کا ازالہ کرنے کے لئے چینی حکومت نے 586 ارب ڈالر کے ’’سٹیملس پیکج‘‘ کا آغاز کیا جس کے تحت انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا گیا تاکہ صنعتی کھپ کو برقرار رکھا جاسکے۔ معیشت میں پہلے سے موجود زائد پیداوار صلاحیت میں مزید اضافے اور سٹہ بازے کے بلبلے بننے کے باوجود چینی ریاست نے یہ عمل جاری رکھا جس سے شرح نمو کسی حد تک بحال ہوئی لیکن وقتی طور پر۔ پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری درحقیقت گرتی ہوئی معیشت کو کینشین اسٹ طریقہ کار سے سہارے دینے کی ہی کڑی ہے۔
چین کے پاس اس وقت 3.7 کھرب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں اور اس نے شاہراہِ ریشم اور نئی معاشی راہداری کے لیے کُل 62 ارب ڈالرکی رقم کا اعلان کیا ہے۔اس منصوبے کے تحت جنوبی ایشیا کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں بھی سڑکیں، ریلوے اور دیگر انفرااسٹرکچر تعمیر کیا جائے گا۔اس مقصد میں چین کے اعلان کردہ نئے سامراجی مالیاتی ادارے ایشیا انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے لیے بھی 50 ممالک نے حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انفرااسٹرکچر کے ان منصوبوں کے ذریعے چین کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا کیونکہ ان ٹھیکوں کی اکثریت چینی کمپنیوں کے پاس ہو گی۔اسی دوران نئے بینک کے ذریعے ان ممالک کو قرضے دے کر بھی چین اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو زیادہ آمدن کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔چین کے تین ریاستی تحویل میں موجود بنیادی بینکوں (چائنہ ڈویلپمنٹ بینک، ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنہ اور ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ بینک آف چائنہ) میں بھی اربوں ڈالر سرکاری خزانے سے انڈھیلے جا رہے ہیں تاکہ ان نئے منصوبوں کے لیے درکار سرمایہ مہیا کیا جا سکے۔ اسی دوران امریکہ میں معاشی بحران کے باعث ایکسپورٹ امپورٹ بینک آ ف امریکہ کو جون 2015ء میں مکمل طور پر بند کیے جانے کا امکان ہے۔عالمی معاشی صورتحال کے باعث چینی معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری کا تناظر روشن نہیں ہے۔ چینی سامراج اس وقت ورلڈ بینک یا ایشین ڈویلپمنٹ بینک، جہاں جاپان کا اثر ورسوخ ہے، کے مقابلے میں سامراجی مالیاتی ادارے تعمیر کر رہا ہے جب عالمی معیشت شدید بحران کا شکار ہے۔ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک جہاں ابھی تک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے چنگل سے آزادنہیں ہو سکے، اب نئے سامراجی بینکوں کی ہوس کا نشانہ بننے جا رہے ہیں۔ چین کے قرضوں اور سرمایہ کاری کے باعث پہلے سے مقروض ملک اور دیوالیہ معیشت کئی گنا زیادہ مقروض ہو جائے گی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس ملک کے حکمران اس نئی قتل گاہ میں عوام کو لے جاتے وقت انہیں خوشیاں منانے کی تلقین بھی کر رہے ہیں۔
چین کے معاشی پالیسی ساز گرتے ہوئے گروتھ ریٹ میں اضافے کے لئے ’’مقداری آسانی‘‘ جیسے کٹھن اقدامات پر مجبور ہو چکے ہیں جس کے تحت گزشتہ سال ستمبر میں 500 ارب یوان (81 ارب ڈالر) چھاپے گئے ہیں۔ لیکن بحران کو جتنا ٹالا جائے گا یہ اتنی ہی شدت سے ابھرے گا۔ یہی جدلیات کا قانون اور سرمایہ دارانہ معیشت کی تاریخ ہے۔ منڈی کی کوئی معیشت سرمایہ داری کے قوانین سے فرار اختیار نہیں کر سکتی۔
دوسری طرف یورپ اور امریکہ کی معیشتیں بھی سست روی کا شکار ہیں اور نام نہاد ’’بحالی‘‘ کے بعد بحران کے ایک اور شدید جھٹکے کے آثار واضح ہورہے ہیں جس سے چینی مصنوعات کی منڈی مزید سکڑ جائے گی۔ چینی معیشت کا بنیادی مسئلہ زائد پیداواری صلاحیت ہے جس کی وجہ زوال پذیر عالمی معیشت میں چینی مصنوعات کی طلب میں کمی ہے۔ پیداواری صلاحیت کا استعمال اس وقت 70 فیصد سے بھی نیچے گر چکا ہے۔ معیشت کو سہارے دینے کے لیے ریاست نے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جس سے ریاستی قرضہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران کو حل کرنے کے لئے جو اقدامات کیے جارہے ہیں اس سے بنیادی تضادات زیادہ واضح ہو کر سطح پر آ رہے ہیں۔
چین کی ریاستی پالیسیوں نے محنت اور سرمائے کا تضاد بھی شدید تر کر دیا ہے۔ حقیقی اجرت میں کمی ہورہی ہے۔ آبادی کی اکثریت کو ریاستی سٹیملس پیکج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سرکاری اعداد و شمار کے برعکس بیروزگاری کی حقیقی شرح 20 فیصد ہے۔ اپنے ہی وطن میں تارکین وطن تقریباً 27 کروڑ محنت کش روزگار کے اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں ہیں۔ 1978ء میں سرمایہ داری کی بحالی کے سفر کے آغاز کے بعد چین میں ’’غربت میں بے نظیر کمی‘‘ کا شور پوری دنیا کا کارپوریٹ میڈیا مچاتا ہے۔ زمینی حقائق اس سے مختلف ہی نہیں متضاد ہیں۔ چین کے جی ڈی پی کا تو بہت چرچا ہوتا ہے لیکن فی کس جی ڈی پی کا اعشاریہ لیا جائے تو چین عراق، کولمبیا، مالدیپ اور سربیا سے بھی نیچے ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس لحاظ سے کل 187 ممالک کی فہرست میں 89 ویں نمبر پر ہے۔ اس مساوات میں اگر ملکی دولت کی طبقاتی اور علاقائی تقسیم بھی شامل کر لی جائے تو ’’چین کا معجزہ‘‘ اور بھی واضح ہو جاتا ہے جس میں مٹھی بھر افراد ہی معجزاتی طور پر امیر ہوئے ہیں۔ شہری اور دیہاتی، ساحلی اور اندرونی علاقاؤں کے درمیان شدید ترقیاتی ناہمواری موجود ہے۔ دولت اور امارت کی سب سے وسیع خلیج چین میں موجود ہے۔ صرف ایک فیصد افراد ملک کی ایک تہائی دولت پر قابض ہیں۔
فوربس میگزین کے مطابق ’’چینی کمیونسٹ پارٹی کی نیشنل پیپلز کانگریس میں 83 ارب پتی (ڈالروں میں) افراد شامل ہیں جبکہ امریکی ایوان نمائندگان یا سینیٹ میں ایک بھی ارب پتی نہیں۔‘‘ یہ کمیونسٹ پارٹی نہ کیمونسٹ ہے نہ پارٹی ہے بلکہ مافیا سرمایہ داروں کا گروہ ہے جو چین کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں لوٹ مار کے لیے اپنے سامراجی عزائم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ دولت کے چند ہاتھوں میں اجتماع اور بڑھتے معاشی بحران کے واضح سیاسی و سماجی مضمرات نظر آرہے ہیں۔ 2014ء میں چین میں محنت کشوں کی 1380 بڑی ہڑتالیں ہوئیں جن میں سے زیادہ تر کامیاب رہیں۔ حکمران طبقہ عوامی قہر سے خوفزدہ ہے۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کی ’’داخلی سکیورٹی‘‘ کا بجٹ (464 ارب ڈالر) بیرونی دفاعی بجٹ (435 ارب ڈالر) سے زیادہ ہے۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی ایک اہم وجہ چینی معیشت کی سست روی بھی تھی۔ مرتی ہوئی سرمایہ داری کو مرکزی بینک کی آکسیجن کے ذریعے مصنوعی طور پر زندہ رکھا جارہا ہے۔ پانچ سال پہلے ایک ڈالر کا قرضہ چین میں ایک ڈالر کی معاشی نمو پیدا کرتا تھا۔ لیکن 2013ء میں ایک ڈالر کی معاشی نمو کے لئے چار ڈالر کا قرضہ درکار تھا۔ نئے قرضے کا ایک تہائی حصہ پرانے قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے۔ چین کا مجموعی ریاستی قرضہ (بشمول صوبائی حکومتیں) 2008ء میں مجموعی داخلی پیداوار کے147 فیصد سے تجاوز کر کے 2015ء میں 287 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا بڑا حصہ اگرچہ داخلی قرضے پر مشتمل ہے لیکن یہ عمل لا متناہی طور پر جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ معیشت کو ’کک سٹارٹ‘ کرنے کی اندھی دوڑ میں چینی اشرافیہ دیوانوں کی طرح بھاگ رہی ہے۔
چینی معیشت کی بحالی کے امکانات معدوم ہیں۔ شی جن پنگ کی نئی حکومت بھی ماضی کی طرح چینی حکمران طبقے کی نمائندہ ہے۔ اس بدعنوان حکمران طبقے سے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کی امید کرنا خاصی بیہودگی ہے جس کی اپنی معیشت ڈوب رہی ہے۔ اگر کچھ سرمایہ کاری ہوتی بھی ہے تو اس کے سماجی اثرات ہی انتہائی بھیانک ہوں گے۔ امریکی سامراج کیا صرف تماشا دیکھے گا؟ پاکستان (خاص کر بلوچستان) میں اسٹریٹجک مفادات اور معدنی وسائل کے لئے جاری مختلف سامراجی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی اور یہ آگ پورے ملک میں پھیلے گی۔ علاوہ ازیں اس سرمایہ کاری سے ’’فیض یابی‘‘ میں حصہ داری کے پاکستان کے حکمرانوں میں نئی لڑائیاں جنم لیں گی، سیاسی انتشار اور ریاست کا خلفشار بڑھے گا۔
1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں چینی معیشت کی بنیاد منافع اور منڈی کی بجائے منصوبہ بندی تھی۔ اس وقت چین کے داخلی اخراجات اور بیرونی امداد کا کردار آج کی ’’سرمایہ کاری‘‘ سے بالکل الٹ تھا۔ پاکستان میں ٹیکسلا کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسے منصوبے چین کی تکنیکی اور مالی معاونت سے لگائے گئے تھے جن کی قوت محرکہ سود یا منافع نہ تھی۔ آج چین ایک سرمایہ دارانہ ملک ہے جس کی سرمایہ کاری کے مقاصد خالصتاً سرمایہ دارانہ ہیں۔ چینی سرمایہ داری کے کردار اور عالمی معیشت کے زوال کی وجہ سے اس سرمایہ کاری کا کردار معمول سے زیادہ استحصالی اور جارحانہ ہے۔ اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پاکستان سے زیادہ خود چین کو ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ پہلے چینی سرمایہ کاری کے ساتھ چینی انجینئر یا ٹیکنیشن ہی آیا کرتے تھے، اب لیبر بھی چین سے ہی آتی ہے۔ اس لئے سرمایہ کاری کے یہ MOUs کوئی احسان نہیں ہیں بلکہ چینی سرمایہ داری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شرح منافع کے لئے یہ منصوبے شروع کئے جارہے ہیں۔ قابل غور بات ہے کہ سرمایہ کاری کی شرائط اور سود وغیرہ کوپوشیدہ رکھا جارہا ہے۔ خود بورژوا معاشی ماہرین کا خیال ہے شرح سود کم از کم 27 فیصد ہے اور یہ پیسہ شریف خاندان نے نہیں پاکستان کے عوام نے ادا کرنا ہے۔ اس سرمایہ کاری کی شرائط اور اثرات آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں سے مختلف نہیں ہوں گے۔
لینن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سامراجیت، سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں وضاحت کی تھی کہ جب کوئی ملک سرمایہ برآمد کرنے لگے تو ناگزیر طور پر سامراجی کردار اختیار کر لیتا ہے۔ چین آج دنیا میں سرمائے کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی میں دیوہیکل سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں اس کے عزائم امریکہ یا دوسری سامراجی طاقتوں سے مختلف نہیں۔ نپولین نے کہا تھا کہ ’’چین جب جاگے گا تو ساری دنیا لرزے گی۔ ‘‘وہ چین درحقیقت چین کا پرولتاریہ اور محنت کش عوام ہیں جو کروٹ لے رہے ہیں اور تاریخ کے میدان میں ایک بار پھر اترنے کو ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اصل دوستی اور بے لوث رشتہ چین کے انہی عوام سے ہے۔ سرمائے کے جبر کے خلاف محنت کا یہی رشتہ پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
متعلقہ:
پاک چین معاشی راہداریاں: ہمالیہ سے بلند دوستی یا لوٹ مارکے نئے راستے؟