کہ ہم غریب ہوئے…

| تحریر: لال خان |

دنیا کے سب سے مستند اور مشہور خیراتی ادارے ’’ آکسفیم‘‘ نے ڈاؤوس (سوئٹزر لینڈ) سے اپنی شائع کردہ جنوری 16 کی رپورٹ میں یہ تہلکہ انگیز انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے صرف آٹھ افراد اس کرہِ ارض کی آدھی آبادی، یعنی 3.6 ارب خلق سے زیادہ دولت رکھتے ہیں۔ یہ افراد بل گیٹز، عمانیکا اور ٹیگا، وارن بفٹ، کارلوس سلم، جیف بیزوس، مارک زکربرگ، لیری ایلی سن اور مائیکل بلوم برگ ہیں۔ ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ کی اس کانفرنس میں دنیا کے امیر ترین اشخاص اور انکی پروردہ سیاست اور ریاستوں کے سربراہان اور اعلیٰ افسران شرکت کرتے ہیں۔ عمران خان اور آصف زرداری بھی شرکت کرچکے ہیں۔ اس مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف نے ڈاؤوس قدم رنجا فرمایا ہے۔ ا س رپورٹ میں حکمرانوں کے ماہرین معیشت، اہم جرائد اور کارپوریٹ میڈیا کے اس پراپیگنڈے کو بھی مسترد کیا گیا ہے کہ دنیا میں غربت میں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ اس حوالے سے خصوصی ذکر چین اور ہندوستان کا کیا گیا ہے جہاں غربت میں کمی یا خاتمے کی تعریف کے گن سامراجی ذرائع ابلاغ گاتے ہیں۔ درحقیقت ان ممالک اور دنیا بھر میں غربت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ہے۔
آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق نے نسل انسان کی تاریخ میں امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع کبھی نہیں رہی ہے۔ آکسفیم نے اس امارت کو ’’ بے ہودہ‘‘ اور ’’شرمناک‘‘ قرار دیا۔ 2010 ء میں صرف 62 افراد کے پاس دنیا کی آدھی دولت تھی، جبکہ6 سال میں ان دولت کے درندوں کی خونخواری اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب سب سے بڑا سرمائے کا اجتماع صرف 8 افراد کے پاس ہے۔ اس تفریق سے حکمرانوں کے سنجیدہ نمائندے کسی حد تک گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈ اور ویٹیکن میں کیتھولکوں کے سب سے بڑے پادری پوپ فرانسس نے حکمرانوں کو یہ انتباہ کیا ہے کہ اس تقسیم کے خطرناک اور مجروع کرنے والے اثرات مرتب ہورہے ہیں، جس کی عکاسی سیاسی ہلچل اور دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے سماجی خلفشار کی صورت میں ہو رہی ہے۔ آکسفیم کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسی نہج پر پہنچ گیا ہے کہ سوائے اس تفریق کو بڑھانے کے اور کوئی راستہ نہیں دے رہا۔ اس کا طریقہ واردات یہ ہوگیا ہے کہ آج کے حکمران کچھ نہ کرکے بھی اتنی دولت کماتے ہیں کہ ہزاروں سال تمام تر شاہ خرچیوں کے باوجود وہ ختم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت کا دنیا کا امیرترین شخص بل گیٹز2006 ء میں ’’مائیکروسافٹ‘‘کمپنی کے کاروبار سے دستبردار ہوگیا تھا جس کے ذریعے وہ ابتدا میں دنیا کا امیر ترین فرد بن گیا تھا۔ لیکن ان دس سالوں میں بل گیٹز کی دولت میں50 فیصد اضافہ نہ جانے کہاں سے اور کیسے ہوگیا ہے ! بل گیٹز جہاں دنیا کا امیر ترین شخص ہے وہاں وہ دنیا کا سب سے’’ مخیر ‘‘آدمی بھی ہے، جس کی خیراتی رقوم سب سے زیادہ ہیں۔ وہ دس سال سے صرف خیرات ہی کرتا جارہا ہے، جبکہ اس کی دولت کسی الہامی برکت سے دگنی تو نہیں ہوسکتی، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!لیکن سب سے کلیدی انکشاف، جس کا آکسفیم خود اعتراف کرتا ہے، یہ ہے کہ خیرات سے دنیا میں غربت ختم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس میں کوئی کمی لائی جاسکتی ہے۔ بلکہ اس عرصے میں جب ایک طرف سرمایہ دارانہ استحصال بڑھا ہے وہاں دنیا میں خیرات کا رحجان بھی تاریخی طور پر سب سے زیادہ بڑھا ہے۔ لیکن اسی عرصے میں غربت میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔
آکسفیم جیسا دنیا کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ اگر اس حقیقت کو تسلیم کررہا ہے تو پھر خیرات سے معاشرے میں کسی بہتری کی سوچ اور رجحان محض ایک فریب، ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ لیکن آکسفیم کوئی انقلابی ادارہ یا تنظیم نہیں ہے۔ بلکہ اسی نظام کا ہی کل پرزہ ہے۔ اس قسم کے غیرسرکاری یا نیم سرکاری ادارے اس نظام کے ماہرین اسی لیے استوار کرتے ہیں کہ وہ اس نظام میں غربت اور طبقاتی استحصال کے خلاف ابھرنے والی سوچ اور توانائی کو ایک اصلاح پسندی کی دلدل میں زائل کرسکیں۔ وہ ایسے اعدادوشمار ایک جانب غریب پرور ہونے کے ناٹک کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دوسری جانب حکمرانوں کے پالیسی سازوں کو یہ تنبیہ کرتے ہیں کہ کچھ اصلاحات کرکے اس کچل دینے والی غربت اور امارت کی ان بے ہودہ انتہاؤں کو کسی حد تک مندمل کریں۔ ڈاؤوس میں اس وقت انہی پالیسی ساز ماہرین اور مالکان کی کانفرنس ہی تو ہورہی۔ آکسفیم بھی اس کانفرنس میں شریک ہے۔ لیکن جس بنیادی مسئلہ کی سمجھ شاید آکسفیم جیسے اداروں کے ماہرین کی وقعت سے باہر ہے، وہ حقیقت میں بڑا سادہ ہے۔ سرمایہ داراس نظام میں سرمایہ کاری صرف منافع کے حصول کے لیے نہیں کرتے، بلکہ سرمایہ کاری شرح منافع میں اضافے کی خاطر کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے اس نظام میں منافع کی ہوس بڑھتے بڑھتے ان سرمایہ داروں کی حالت ایک ایسے خونی بھیڑیے کی مانند ہوگئی ہے جس کے جبڑوں کو جب انسانی خون لگ جاتا ہے تو اسکی ہوس مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ خونی ہوس والا درندہ بن جاتا ہے جو معصوم بچوں کو بھی چیر پھاڑ کر ان کا خون چوس لیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تقریباً تین سو سال کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جب یہ شرح منافع کی ہوس کا عمل جاری رہتا ہے تو معاشرے کی معیشت میں ایک ایسا مرحلہ آجاتا ہے کہ اسکے مزید حصول کی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ اس سے حکمرانوں کے تضاد اتنے بڑھتے ہیں کہ پہلے وہ داخلی طور پر آپس میں دست وگریبان ہوتے ہیں، جیسا کہ اس وقت’’پاناما لیکس‘‘ کے نام پر یہ بیہودہ کھلواڑ جاری ہے۔ لیکن پھر یہ بیرونی منڈیوں اور وسائل کے ذریعے جب اس ہوس کو پورا کرنے کی ڈگر پر چل نکلتے ہیں تو قوموں اور ریاستوں کے درمیان جنگیں ہوتی ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی بنیادی وجہ یہی تھی، جس میں سامراجی اس سرمایہ دارانہ ہوس میں باہمی طور پر ہی ٹکرانا شروع ہوگئے اور کروڑوں انسانوں کا خون کیا۔ تباہی کے آلات سے بھی یہ منافع حاصل کرتے ہیں اور زخموں کے مرہم اور تعمیر نو کے میٹریل اور آلات کے ذریعے بھی!
آجکل اس نظام کے مزید گل سڑنے سے اور شرح منافع کا بحران ایک کینسر کی طرح اسکے جسم اور رگوں میں پھیل جانے سے یہ مزید رجعتی اور فسطائی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ان میں پراکسی جنگیں، مذہبی اور فرقہ وارانہ تصادم اور ریاستی وغیر ریاستی دہشت گردی کی وارداتیں شامل ہیں۔ ان سب کے پیچھے اسی منافع خوری کی ہی بنیادی ہوس کارفرما ہوتی ہے۔ جو ہر طرح سے ہر ظلم اور بربریت کی مرتکب ہوکر بھی اس دولت کے حصول کے عمل کو رکنے نہیں دیتی۔ آج جس مقام پر اس نظام زر کا ارتقا پہنچ گیا ہے وہاں یہ اتنا متروک اور بوسیدہ ہوچکا ہے کہ ہر طرف سے سماجی ترقی، تنزلی کا شکار ہے اور انسانی زندگی مزید محرومی اور غربت کی کھائی میں گرتی چلی جارہی ہے۔ ا س نظام میں اب کسی ملک میں بھی کوئی اصلاحات یا بہتری کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت دان ہر حربہ اور اقتصادی طریقہ کار استعمال کرچکے ہیں۔ بڑے بڑے نوبل انعام یافتہ معیشت دانوں کے نسخے ردی کی ڈھیر بن کر کوڑے میں پھینکے جاچکے ہیں۔ کوئی نیا اوزار اور نسخہ اب ایجاد بھی نہیں ہوسکتا۔ اب صرف مکروفریب کی سیاست، مذہبی ٹھیکیداری کی ذہنوں کو ماؤف کرنے کی وارداتیں، قومی و نسلی اور فرقہ وارانہ جذبات اور شاونزم کو ابھار کر عوام کو مزید مجروع کرنے جیسے ہولناک ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کی سیاست اور ثقافت سے مرعوب ہو کر اس غربت پھیلانے والی معیشت کو قبول کروانا محنت کشوں کے خلاف سیاسی اور یونین لیڈروں کی غداری بن جا تی ہے۔ طبقاتی کشمکش ناقابلِ مصالحت ہے۔ میر تقی میر کو ڈھائی سو سال پیشتر اس کا ادراک ہوگیا تھا۔

امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے انہی کی دولت سے

یہ بات محنت کش طبقہ سمجھ کر اس نظام کے خاتمے کی لڑائی میں اتر رہا ہے۔ اس نظام کے خاتمے میں دیر ہوسکتی ہے، لیکن یہ اندھیر چل نہیں سکتا۔ لیکن دیر شاید اب زیادہ نہیں رہی ہے۔

متعلقہ:

نظام کی غربت

ملینیم ڈویلپمنٹ گول مول

مرتے ہوئے نظام کی وحشت