| تحریر: حسن جان |
سرمایہ دارانہ نظام کا موجودہ عالمی بحران وقت کے ساتھ زائد پیداواری صلاحیت کا بحران بن چکا ہے۔ گودام اجناس سے بھرے پڑے ہیں اور ان کی قیمتیں بھی گر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی قوت خرید میں سکت نہیں ہے۔ایسے میں سرمایہ دار صنعتیں بند کررہے ہیں یا پھر منافعوں میں اضافہ برقرار رکھنے کے لیے محنت کشوں کی اجرت مسلسل گرا رہے یا پھر انہیں فارغ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری مزید بڑھ رہی ہے۔ اس سے بحران مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے سیاسی اور سماجی نتائج بھی نکل رہے ہیں۔
چین میں معاشی زوال کی وجہ سے اس سال چین کی سٹیٹ کونسل نے اعلان کیا ہے کہ سال 2016ء میں فولاد کی پیداوار میں 100 ملین ٹن سے 150 ملین ٹن کی کمی کرے گی ۔ اس کمی کے نتیجے میں چین میں تقریباً چار لاکھ محنت کش بے روزگار ہوجائیں گے۔ پیداوار میں کمی کی ایک بڑی وجہ مغربی منڈیوں کا سکڑنا اور داخلی طور پر چین میں اس پیداوار کو جذب کرنے کی مزید صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ اس وقت چین کی فولاد کی صنعت کو 340 ملین ٹن زائد پیداوار کا سامنا ہے۔چین میں فولاد اور لوہے کی صنعت میں ساٹھ لاکھ سے زائد مزدور کام کرتے ہیں جو مجموعی صنعتی ورک فورس کا تقریباً چار فیصد ہے۔ سرمایہ دارانہ پالیسی سازوں میں قنوطیت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے فولاد کی صنعت میں ایک ’آئس ایج‘ کی پیش گوئی کی ہے۔ ورلڈ سٹیل ایسو سی ایشن کے مطابق ستمبر 2015ء میں عالمی سطح پر فولاد کی پیداوار میں 3.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا مطلب ہزاروں کارخانوں کی بندش اور لاکھوں مزدوروں کی بیروزگاری ہے۔
پچھلے دس سال میں چین کی عالمی منڈی میں سٹیل کے شعبے میں حصہ داری 10 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہوگئی ہے۔ اس کی فولاد کی سالانہ پیداواری صلاحیت 1.1 ارب ٹن سے زیادہ ہے جو ظاہر ہے کہ اس کی اپنی داخلی منڈی میں کھپ نہیں سکتی۔ اس زائد پیداوار کی وجہ سے 2014ء سے اب تک سٹیل کی قیمت میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔ یہ زائد پیداوار یورپی یونین کی سٹیل کی طلب کا دوگنا ہے۔
حال ہی میں ہندوستان کے ٹاٹا سٹیل نے برطانیہ میں اپنی غیر منافع بخش صنعتیں بیچنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے پندرہ ہزار مزدور فوراً بے روزگار ہوجائیں گے۔ اس اعلان کے بعد فولاد کی صنعت کو نیشنلائز کرنے کا مطالبہ برطانیہ کی مزدور تحریک میں بڑی شدت سے ابھرا ہے اور سروے کے مطابق 90 فیصد لوگ ٹاٹا سٹیل کو قومی تحویل میں لینے کے حق میں ہیں۔برطانیہ کی چین سے سٹیل کی خرید پچھلے عرصے میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ 2014ء میں اس نے چین سے 687,000 ٹن سٹیل درآمد کیا جبکہ 2013ء میں یہ عدد 303000 ٹن تھا۔ یورپی یونین میں پیداوار کے مقابلے میں چین سے سٹیل کی درآمدات کہیں زیادہ سستی پڑتی ہیں (یورپی یونین کے 897 یورو فی ٹن کے مقابلے میں 583 یورو فی ٹن)۔ یہ برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی سٹیل کی صنعت کے زوال میں ایک اہم عنصر ہے۔ سستی چینی مصنوعات نے ایک کے بعد دوسری صنعتوں کو اپنے دام میں پھنسا لیا ہے۔ وہ چین جو ایک وقت میں عالمی سرمایہ داری کو بحرانوں سے نکالنے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا تھا اب اس کی سستی مصنوعات عالمی سطح پر نئے بحرانوں کا سبب بن رہی ہیں۔
فولاد کی صنعت تمام تر صنعتوں کی بنیاد ہے۔ مینوفیکچرنگ کے تمام شعبے اسی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس صنعت میں زوال کا مطلب باقی ملحقہ صنعتوں میں زوال ہے۔ عالمی معیشت میں اس بحران کی وجہ سے چین کی معیشت کی کیفیت ایک ٹائم بم کی طرح ہے اور چینی بیوروکریسی کے اس بحران کو ٹالنے کے لیے کئے جانے والے اقدامات سے یہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ رائٹرز کے مطابق چین اگلے دو سالوں میں ری سٹرکچرنگ کے نام پر پانچ سے چھ ملین روزگار ختم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ چینی حکام کے مطابق یہ کیفیت ’عارضی‘ ہوگی لیکن معروضی حقائق اس کے بالکل برعکس ہے۔ سرمائے کے پالیسی ساز کسی معاشی بحالی کے امکان سے مکمل مایوس ہیں۔ تب ہی تو وہ ’سیکولر جمود‘ (یعنی لمبے عرصے تک معاشی جمود) کی بات کرتے ہیں جو ایک تباہ کن صورت حال ہوگی۔
عالمی سطح پر اسی طرح تمام تر شعبوں میں چھانٹیوں اور برطرفیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ صنعتوں اور خدمات کے تمام شعبوں میں لوگوں کو بیروزگار کرنے کا عمل روز بروز مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ستمبر 2015ء میں ایچ پی (Hewlett Packard) نے تیس ہزار ملازمتیں ختم کردیں۔ اس کمپنی نے 2011ء سے اب تک 88000 محنت کشوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا ہے۔ بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران ریاست کو بچانے کا آخری سہارا سمجھے جانی والی فوج میں بھی اب ڈاؤن سائزنگ کی جارہی ہے۔ پچھلے سال امریکہ میں اوباما انتظامیہ نے امریکی فوج میں چالیس ہزار سپاہیوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سب ایسی کیفیت میں ہورہا ہے کہ جب ریاست کے پاس بینکوں کو بچانے کے لیے تو بہت پیسے ہوتے ہیں لیکن سماج کو آگے کی جانب لے جانے والی صنعتوں کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ ان صنعتوں کو اسی طرح برباد ہوجانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ صورت حال صرف ایک صنعت یا ایک ملک تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی مظہر ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی دوڑ میں انسانیت کا وسیع حصہ بربادیوں اور غربت کی اتاہ گہرائیوں میں غرق ہورہا ہے جبکہ دولت کم سے کم ہاتھوں میں مرکوز ہورہی ہے۔ کھربوں ڈالر بینکوں میں ایسے ہی پڑے ہوئے ہیں جن کو کسی طرح کے پیداواری عمل میں خرچ نہیں کیا جا رہا ہے اور کیوں پیداواری عمل میں خرچ کریں جبکہ مارکیٹ پہلے سے ہی اجناس سے لبریز ہے اور ہر جگہ زائد پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ حقیقت ہے کہ مزید پیداوار سے خاطر خواہ منافع حاصل نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ سماج میں تمام تر اجناس کی اب بھی آبادی کی وسیع اکثریت کو ضرورت ہے لیکن سرمایہ داری کی ہوس زر کی نفسیات لوگوں کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہے کیونکہ یہ نظام انسانی ضرورت کی بجائے منافع کے تابع ہے۔
زائد پیداواری صلاحیت کے باوجود سماج میں آج بھی تعلیمی اداروں، خوراک، ہسپتالوں، رہائشی مکانات ، تفریح گاہوں، مناسب ذرائع آمد و رفت اور سماجی انفراسٹرکچر وغیرہ کی ضرورت ہے۔ لیکن ان پیداواری قوتوں کی انفرادی ملکیت انہیں سماج کے لیے استعمال نہیں ہونے دے رہی۔یوں سرمایہ دارانہ نظام ذرائع پیداوار کی ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے جو شرح منافع کی بندش کی وجہ سے ہزاروں سال کی انسانی تہذیب کی حاصلات کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔
مغربی ممالک میں سٹیل کی صنعت کا حالیہ بحران ثابت کرتا ہے کہ کس طرح عالمی منڈی کی جکڑ سے بچنا آج ناممکن ہے۔ اس سے سرمایہ داری کے خلاف عالمی سطح پر جدوجہد کی ناگزیر ضرورت بھی واضح ہوتی ہے۔اگر معیشت کے کلیدی حصوں کو مزدور ریاست کی تحویل میں لے کر سماج کی اجتماعی ضروریات کے تحت محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں منصوبہ بندی کے ذریعے چلایا جائے تو ہر کسی کو تعلیم، روزگار، رہائش ، صحت سمیت ایک انسانی زندگی کو درکار دوسری تمام تر سہولیات فراہم کی جاسکتی ہے۔صرف اسی صورت میں ہی سرمایہ داری کے اس بے ہنگم نظام کو ختم کرکے استحکام پر مبنی انسانی معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہے۔