| تحریر: لال خان |
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ عہد میں دہشت گردی ہو یا ’’قدرتی آفات‘‘، لقمہ اجل غریب ہی بنتے ہیں۔ ملک کوئی ہو، براعظم کوئی بھی ہو، برق انہی پر گرتی ہے جن کی زندگیاں پہلے ہی مصائب اور محرومیوں کا شکار ہیں۔ یہ بھی ٹھوس حقیقت ہے کہ بھاری دولت کے بغیر دہشت گردی کے اخراجات پورے ہو سکتے ہیں نہ ہی اس بربریت کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔
پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر بھی کچھ اینکرز اور مضمون نگاروں میں تھوڑی سی جرات پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے اس قتل و غارت گری میں ملوث کچھ بڑی شخصیات اور طاقتور اداروں کا ذکر کیا ہے۔ فاٹا، بلوچستان، کراچی اور جنوبی پنجاب میں سرگرم دہشت گردوں کا ذکر تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن اب چونکہ مغربی میڈیا بھی خوب شور مچا رہا ہے لہٰذا یہاں بھی لاہور اور اسلام آباد جیسے ’پرامن‘ سمجھے جانے والے شہروں میں سر عام دندناتے پھرنے والے دہشت گردوں کی بات ہو رہی ہے۔ جب دارلحکومت کے دل میں داعش کی کھلے عام حمایت اور نجی زندگیوں کو اجیرن کرنے والے بیٹھے ہوں تو پھر ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی بڑھک بازیاں مذاق بن جاتی ہیں۔ اس دوغلے پن کا سرسری ذکر میڈیا پر ہو تو رہا ہے لیکن یہ سب جلد ہی ختم ہو جائے گا یا کروا دیا جائے گا۔
’’آؤٹ سورسنگ‘‘ آج کی معیشت میں ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی کلیدی پالیسی ہے۔ اس طریقہ واردات کے تحت یہ کمپنیاں پیداوار یا سروسز وغیرہ اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوئے چھوٹی کمپنیوں یا ٹھیکیداروں کے سپرد کر دیتی ہیں۔ مثلاً یورپ میں کسی ٹیلی کمیونی کیشن کی بڑی کمپنی کی ہیلپ لائن پر کال کی جائے گی تو وہ بنگلور یا منیلا میں بیٹھے آپریٹر کو ملے گی۔ ایپل امریکی کمپنی ہے لیکن آئی فون تائیوان کی کمپنی ’فاکس کون‘ چین کے شہر شین زن میں بناتی ہیں۔ یہی صورتحال روز مرہ استعمال کی ہر مشہور پراڈکٹ کی ہے۔
آؤٹ سورسنگ پیداواری لاگت کم اور شرح منافع بڑھانے کے لئے کی جاتی ہے۔ تیسری دنیا میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بدترین استحصال کے لئے انتہائی سستی لیبر ملتی ہے جن سے دہاڑی یا کنٹریکٹ پر دن رات غیر انسانی حالات میں کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی پر قدغن لگانے والے قوانین سے بھی ان کمپنیوں کی جان چھوٹ جاتی ہے۔ اب تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی محنت کش طبقے سے مراعات مسلسل چھینی جا رہی ہیں۔ اس دہائی کے آخر تک چین میں 60 فیصد لیبر ٹھیکیداری نظام پر منتقل کر دی جائے گی۔ امریکہ میں یہ شرح پہلے ہی 72 فیصد ہو چکی ہے۔
آؤٹ سورسنگ کا طریقہ کار سامراجی ریاستیں اپنے عسکری مقاصد کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔ افغانستان اور عراق پر جارحیت کے دوران امریکی سامراج نے جتنے باوردی فوجی بھیجے اتنے ہی غیر سرکاری فوجی کرائے پر حاصل کئے۔ یہ ’خدمات‘ فراہم کرنے والی بلیک واٹر جیسی نجی عسکری کمپنیوں نے خوب مال بنایا۔ جنگ کے اس طریقہ کار سے جہاں ان نجی کمپنیوں کی چاندی ہوتی ہے وہاں سیاستدان اور ریاستی اہلکار بھی بھاری کمیشن بناتے ہیں۔ بش حکومت کا نائب صدر ڈک چینی تو براہ راست اس کاروبار میں ملوث تھا۔ چونکہ کرائے کے ان فوجیوں کا تعلق سرکاری فوج سے نہیں ہوتا لہٰذا وہ جنگی قوانین سے مبرا ہوتے ہیں اور ان کی اموات کو بھی جنگ کے جانی نقصان میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اس طرح سامراجی ریاستیں PR کے مسائل سے بچی رہتی ہیں۔
جنگ کی آؤٹ سورسنگ اب تمام بڑی سرمایہ دارانہ ریاستیں کر رہی ہیں۔ پراکسی جنگیں بھی اسی آؤٹ سورسنگ کی ہی ایک شکل ہیں۔ یہ جارحیت کا ’کم خرچ بالا نشیں‘ نسخہ ہے۔ جدید تاریخ میں اس کا آغاز افغانستان کے ڈالر جہاد سے ہوا تھا جب اپریل 1978ء کے ثور انقلاب کوکچلنے کے لئے سی آئی اے نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ کاروائی ’’آپریشن سائیکلون‘‘ کا آغاز جولائی 1979ء میں کیا۔ ان سامراجی قوتوں نے یہی کھلواڑ اب شام، لیبا اور عراق سمیت کئی دوسرے ممالک میں شروع کر رکھا ہے۔ اپنے مغربی آقاؤں کے دیکھا دیکھی جنوب ایشیا، خلیج اور مشرق وسطیٰ کی کئی ریاستوں نے بھی یہ طریقہ سیکھ لیا ہے اور یہ ان کی مستقل پالیسی بن چکی ہے۔ مضحکہ خیز المیہ ہے کہ کئی جگہوں پر یہ حکمران اپنے آقاؤں کے خلاف ہی پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔
پراکسی جنگ کی یہ پالیسی تضاد در تضاد سے لبریز ہے۔ جن پراکسی گروپوں کو پال پوس کر، یا کرائے پر حاصل کر کے مذہبی یا فرقہ وارانہ جنون کی بنیاد پر سرگرم کیا جاتا ہے وہ اپنے ریٹ بڑھانے لگتے ہیں اور گاہک بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح یہ پراکسی جنگیں پیچیدہ اور گھمبیر ہو جاتی ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور حتیٰ کہ پاکستان میں یہی کیفیت ہے۔ اپنی قیمت زیادہ سے زیادہ لگوانے کے لئے ان دہشت گرد گروہوں کو اپنی دہشت بھی مسلسل بڑھانا پڑتی ہے۔ جنگ کی تمام دوسری اشکال کی طرح ان پراکسی جنگوں کا ایندھن بھی غریب ہی بنتے ہیں۔ غربت اور پسماندگی سے دوچار نوجوان ان گروہوں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور تعصب کے جنون میں پاگل ہو کر عام انسانوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔
پراکسی جنگ کی یہ پالیسی اس وقت بیک فائر کرتی ہے جب پے رول پر کام کرنے والے گروہ خود اتنے طاقتور یا خودکار ہو جاتے ہیں کہ آقاؤں کو انکھیں دکھانے لگتے ہیں۔ اسی طرح ریاستی پالیسی سازوں کے درمیان بھی اپنے پراکسی گروہوں سے متعلق اختلافات جنم لیتے ہیں۔ ریاست مشینری بھی آخر کار انسانوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے اور ان میں سے کئی ایک سنجیدگی سے خود ان مذہبی نظریات پر یقین کرنے لگتے ہیں جن کے تحت پراکسی گروہوں کو جنم دیا گیا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو ایک ہی ریاست کا ایک دھڑا کسی دہشت گرد گروہ کو دوسرے ریاستی دھڑے کے خلاف استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ریاست کے اندر دراڑیں ڈالنے کا باعث بنتی ہے۔ ریاست کی ظاہری یکجائی کو توڑنا بھی ان برسر پیکار دھڑوں کے لئے مہلک ہوتا ہے لیکن آپسی لڑائی میں ریاست اندر ہی اندر کھوکھلی اور مفلوج ہوتی چلی جاتی ہیں۔ نئے دھڑے اور نیٹ ورک تشکیل پاتے ہیں جس سے دہشت گردی زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس داخلی ریاستی جنگ کا ہر وار معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی ضرب لگاتا ہے۔
مذاکرات ہوں یا آپریشن، ایسی ریاستوں کا بحران وقت کے ساتھ بڑھتا ہی ہے۔ معیشت میں کچھ جان ہو تو یہ داخلی تضادات وقتی طور پر دب جاتے ہیں۔ لیکن معیشت کا بحران جب بڑھتا ہے تو ریاست کی سماجی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور سماج پر سے گرفت ٹوٹنے لگتی ہے۔ ان حالات میں ریاست اپنا جبر تو بڑھا سکتی ہے لیکن اس کی رِٹ اور کنٹرول زوال پزیر ہوتے ہیں۔ یہ جبر ریاست کی طاقت کی نہیں بلکہ نا اہلی اور کمزوری کی غمازی کرتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جب مذہبی جنون کا پرچار کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں اور ریاستی دعووں کی دھجیاں ریاست کے ہی کسی دھڑے کی سرپرستی میں اڑاتے ہیں۔
یہ مہلک بیماری کسی ریاست کو تب لاحق ہوتی ہے جب وہ نظام خود بستر مرگ پر گر جاتا ہے جس کے تحفظ کے لئے ریاست قائم ہوتی ہے۔ آج یہ سرمایہ دارانہ نظام جس تاریخی متروکیت کا شکار ہے اس کے پیش نظر سرمایہ دارانہ ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ ناگزیر ہے۔ جب تک یہ بیمار نظام رائج ہے پراکسی جنگوں کی خون ریزی اور ریاستی جبر میں اضافہ ہی ہو گا۔ اس دہشت کا جواب محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی جدوجہد کے ذریعے اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر ہی دینا ہوگا۔
متعلقہ:
مشرق وسطیٰ: داعش اور اردگان کا گٹھ جوڑ بے نقاب!