| تحریر: لال خان |
12 جون کو امریکی ریاست فلو ریڈا کے شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے ایک نائٹ کلب میں ماس شوٹنگ میں 49 بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 53 زخمی ہوئے اور تین گھنٹے کے محاصرے کے بعد پولیس قاتل کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ دہشت گردی امریکہ میں ماس شوٹنگ کا سب سے مہلک واقع ہے اور (ایل جی بی ٹی )ہم جنس پرستوں، خواجہ سراؤں وغیرہ کے خلاف ملک کی تاریخ کا سب سے جان لیوا حملہ ہے۔ یہ 11 ستمبر 2011ء کے حملوں کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی کاروائی ہے۔
اس بہیمانہ قتل عام کے امریکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور کارپوریٹ میڈیا دہشت گردی کے خوف اور مذہبی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو مزید بھڑکا رہا ہے۔ 29 سالہ حملہ آور عمر متین امریکہ میں پیدا ہوا اور اس کے والدین افغان پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے دوران اس نے فون پر داعش کی اطاعت کا اعلان کیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ اس کلب میں اکثر آیا کرتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں وہ ہم جنس پرستوں کی ڈیٹنگ ایپ (App) کے ذریعے ان میں سے کچھ لوگوں کے ساتھ رابطے میں بھی تھا۔
سیاست دانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگائی اور اس حملے کو مسلمانوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہونے والی بیان بازی کا ثبوت قرار دیا۔ ری پبلکن پارٹی کا ممکنہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پیرس اور سان برناڈینو کیلیفورنیا میں ہوئے دہشت گردی کے حملوں کو انتہائی مکاری سے اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کر چکا ہے۔ اتوا ر کو اس نے ٹوئٹر پر کہا کہ مغرب میں ریڈیکل اسلام سے لاحق خطرے کے بارے میں اس کی دور اندیشی کی تعریف کی جارہی ہے۔ اس نے لکھا کہ ’’میں ریڈیکل اسلامی دہشت گردی پر درست موقف رکھنے کے لیے ملنے والی مبارک بادوں کا مشکور ہوں، لیکن مجھے مبارک باد نہیں چاہیے، میں سختی اور چوکس نگرانی چاہتا ہوں۔ ہمیں ہوشیار رہنا ہو گا!‘‘ اس نے صدر اوباما اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو مذمتی بیانات میں ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کا لفظ استعمال نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس نے الفاظ کے اس چناؤ پر اوباما کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’’اگر ہیلری کلنٹن اس حملے کے بعد بھی دو لفظ ’ریڈیکل اسلام‘ نہیں کہہ سکتی تو اسے صدارتی مہم سے باہر ہو جانا چاہیے… اگر امریکہ سخت اور ہوشیار نہیں ہوا تو پھر ہمارا ملک نہیں رہے گا اور ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا‘‘۔ ٹرمپ نے امریکہ میں مسلمان کمیونٹی کو تحقیر کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں غدار اور دہشت گردوں کا ہمدرد اور امیگریشن کو خطرے کا سر چشمہ قرار دیا۔ اس کے الفاظ میں’’مسلمانوں کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہو گا… وہ سب جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے… جو کوئی بھی قانون کے نفاذ میں مدد نہیں کرتا اسے سخت نتائج بھگتنے چاہیے‘‘۔ کلنٹن کی امیگریشن پالیسی پر جنونی حملہ کرتے ہوئے اس کی مسلمانوں سے نفرت واضح تھی۔ وہ امریکیوں کے دہشت گردی کے خوف کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اس نے ہیلری کلنٹن پرالزام لگایا کہ وہ ’’مشرق وسطیٰ سے لاکھوں مہاجرین قبول کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور ان کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام نہیں ہے، ان کے بچوں کو ریڈیکلائزیشن سے روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے… نہ صرف ان کے بچے، بلکہ وہ ہمارے بچوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ داعش کتنی شاندار ہے اور اسلام کتنا شاندار ہے‘‘۔
دوسری جانب ہیلری بر سر اقتدار اسٹیبلشمنٹ کا موقف دہرا رہی ہے۔ لیکن یہ کئی برسوں سے بحران میں گھرے سماج کے لیے اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ ہیلری نے داعش اور دوسرے ’’ریڈیکل جہادی گروپوں‘‘ سے نمٹنے کے لیے تین نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس میں حکومت کے تمام شعبے، سیلیکان ویلی (کمپیوٹر کی صنعت) کے بہترین دماغ اور کمیونٹی گروپ شامل ہیں۔ اس کے اس ’’معجزاتی نسخے‘‘ میں دہشت گردوں کے درمیان پیسے کی ترسیل کو روکنا اور سوشل میڈیا پر شدت پسند پوسٹس کی خبر رکھنا شامل ہے۔ اس نے منیاپولس میں جاری ایک ’آزمائشی پروگرام‘ کی تعریف کی جس کی مدد سے ’’والدین، اساتذہ، امام اور ذہنی صحت کے پیشہ ور ماہرین وغیرہ… ریڈیکل ہونے والے نوجوانوں پر نظر رکھتے ہیں اور قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں‘‘۔ اس نے باراک اوباما اور داعش مخالف اتحاد کی شدت پسندوں سے علاقہ واپس لینے کی کوششوں کی بہت تعریف کی۔ مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی میں نئی تبدیلیوں کے مد نظر اس نے امریکی سامراج کے انتہائی دیرینہ اتحادیوں اور کٹھ پتلی حکومتوں خصوصاً سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’سعودی عرب، قطر، کویت اور دوسرے ممالک کو بہت پہلے ہی اپنے شہریوں کو انتہا پسندوں کی فنڈنگ سے اور دنیا بھر میں ریڈیکل مدرسوں اور مسجدوں کی مدد سے روک دینا چاہیے تھا‘‘۔
حالیہ انتخابی مہم کے دوران برنی سینڈرز اور ڈونلڈ ٹرمپ کا ابھار عام امریکیوں کی مروجہ سیاسی ڈھانچوں، وال سٹریٹ، حکمران طبقے، اسٹیبلشمنٹ اور سب سے بڑھ کر امریکہ کے سیاسی و معاشی نظام سے نفرت اور بیزاری کی علامت ہے۔ اس بحر ان کی شدت اور انتخابی مہم پر اس کے اثرات پر اکانومسٹ خاصی تشویش میں ہے۔ تازہ شمارے کے مطابق ’’13 جون کو ایک دن قبل اورلینڈو فلوریڈا میں ہم جنس پرستوں کے کلب میں خود کو داعش کے دہشت گرد نیٹ ورک سے منسوب کرنے والے 29 سالہ رائفل بردار کے ہاتھوں 49 افراد کے قتل پر ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے متصادم بیان دئیے۔ دونوں کی تقاریر ایک دوسرے سے بالکل متضاد تھیں، یہ عام انتخابات کی مہم کی ایک جھلک ہے جو کئی دہائیوں میں امریکیوں کے لیے سب سے واضح چناؤ ہو گا‘‘۔
جہاں سینڈرز آکو پائے وال سٹریٹ کے بعد امریکی سماج میں بائیں بازو کے جھکاؤ کا نمائندہ ہے وہاں ٹرمپ نہ صرف سامراجی سیاست کے پنڈتوں کا نا پسندیدہ ہے بلکہ اس نے ری پبلکن پارٹی کے ڈھانچوں کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس کی مخالف ہے اور امریکی بورژوازی کے لیے وہ ناقابل اعتماد اور نا قابل اعتبار ہے۔ اس کا انتخابی مہم کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہر مسئلے پر انتہائی دائیں بازو کی ’’ریڈیکل نعرہ بازی‘‘ اور بد تمیزی اور بے عزتی سے بھرپور لفاظی سے مروجہ سیاسی، ریاستی اور سماجی طریقہ ہائے کار اور مخالفین کی تضحیک جائے۔ سامراجی اور سرمایہ دارانہ مفادات کے ماہرین کے لیے اس کی مقبولیت باعث پریشانی ہے۔ اکانومسٹ مزید لکھتا ہے، ’’بحران میں اس نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کے خوف، بد گمانی اور تعصب کو چھیڑا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی ایک حقیقی خطرہ ہے۔ مسز کلنٹن کو کروڑوں خوف زدہ امریکیوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ وہ اس کے خلاف لڑنا جانتی ہیں، اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنا ہو گی۔ لیکن مسٹر ٹرمپ نا قابل عمل سیاست کی پیش کش کر رہا ہے جس کو عملی جامہ پہنانے سے وہ مسلمان اتحادی کٹ کر دور چلے جائیں گے جو مدد کر سکتے ہیں، اس سے امریکہ کو نقصان پہنچے گا۔ مسٹر ٹرمپ غیر متوقع اور حیران کن باتیں تو بہت کرتا ہے لیکن ایک چیز پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مایوس ضرور کرے گا‘‘۔
ہیلری کلنٹن بورژوازی کے سنجیدہ حلقوں کی نور نظر اور ان کی حقیقی امیدوار ہے۔ لیکن منتخب ہونے پر وہ اوباما سے زیادہ جارج بش کی طرح ہو گی۔ خارجی اور داخلی دونوں محاذوں پر اس کی جارحیت میں شدت آئے گی۔ لیکن اس سے امریکی سامراج کا بحران حل ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرے گا۔ اوباما کی پالیسیاں ہر محاذپر ناکام ہوئی ہیں۔ امریکی سماج پر جیسے کوئی مرض طاری ہو چکا ہے۔ تشدد اور محرومی کے ہاتھوں سماج کے بڑے حصے گھٹن کا شکار ہیں جو معاشی بحران سے نکل ہی نہیں سکے۔ مذہبی دہشت گردی کے علاوہ ماس شوٹنگز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خلفشار بڑھتا جا رہا ہے اور عوام تبدیلی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔
ایک طرح سے اورلینڈو کا حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’امریکی سپنا‘ (American Dream) اب ایک بھیانک خواب بنتا جا رہا ہے۔ موجودہ صدی کے آغاز پر نامیاتی زوال کے شکار سرمایہ دارانہ نظام میں مصنوعی بنیادوں پر پھیلتی معیشت کی رعونت میں امریکی سامراجیوں نے بیرون ملک جنگیں اور اندرون ملک امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں پر منظم سماجی و معاشی جبر شروع کیا۔ سامراج کی معاشی متروکیت اور2008ء کے مالیاتی کریش سے تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت کی معاشی، فوجی اورسفارتی قوت پر بڑی ضرب لگی ہے۔ صدارتی امیدوار کے طور پر سینڈرز کا راستہ تو روک دیا گیا ہے لیکن سوشلزم کی سیاست کو سماج اور خصوصاً نوجوانوں میں ملنے والی مقبولیت، انقلابی جذبے کے ساتھ ایک بلند تر پیمانے پر پھر سے ابھرے گی۔