تحریر: راہول
زیرِ نظر مضمون مورخہ 27 فروری 2018ء کو لکھا گیا۔
اس سال کے آغازسے ہی سینیٹ کے انتخابات کا شور شروع ہو چکا ہے۔ یہ انتخابات اسی ماہ یعنی تین مارچ کو ہونے متوقع ہیں اور ہر طرف گہما گہمی ہونے کے ساتھ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا بازار بھی گرم ہے۔ ایوان اعلیٰ کی ریس میں اپنے گھوڑے دوڑانے کے لئے کم و بیش سبھی سیاسی پارٹیاں سرگرم ہیں اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پیادوں کو ادھر سے ادھر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کا سب سے پہلا اظہار بلوچستان اسمبلی کی تبدیلی میں دیکھا گیا جہاں اچانک تمام ’’ارکان اسمبلی‘‘ نے اپنی وفاداریوں کو تبدیل کر لیا اور راتوں رات وزیر اعلیٰ تبدیل کردیا گیا۔ سرمایہ درانہ نظام کی اس جمہوریت میں ایسے اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ کسی کے لئے حیران کن ہیں۔ دراصل یہی وہ وقت ہوتا ہے جب نظریاتی رشتوں اور مالیاتی رشتوں کے درمیان ایک واضح فرق دیکھا جاسکتاہے۔ جہاں نظریاتی سیاست کرنے والوں کی نظریاتی وفاکو بھاری سرمائے سے بھی نہیں خریدا جاسکتا وہاں مالیاتی سرمائے ہی کو اپنے نظریات ماننے والوں کے لئے یہ انتخابی موسم کسی تہوار سے کم نہیں ہوتا جہاں ہر کوئی اپنی قیمت لگائے نیلامی کی اس ریس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ ایوان میں کوئی ایک ایسی سیاسی قوت موجود ہی نہیں جو کسی بھی قسم کی نظریاتی سیاست کرتی ہو بلکہ ہر جماعت کا منشور اور نظریہ صرف سرمایہ ہے۔
جمہوریت سے لیکر آمریت تک ہر قسم کی طرز حکمرانی کو یہاں آزمایا گیا لیکن کوئی بھی طریقہ عوام کے کسی بھی بنیادی مسئلے کو حل کرنے سے قاصر رہا۔ ہر آنے والی حکومت تمام برائیوں کو پچھلی حکومت پر ڈالتی رہی ہے۔ وفاق صوبوں پر اور صوبے وفاق الزام لگا کر اپنی جان چھڑاتے ہیں اور بعض اوقات ضرورت پڑنے پر صوبوں کے درمیان مصنوعی اختلافات اور بے بنیاد بڑھک بازیوں سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں قومی اسمبلی کی نشستوں کو کچھ اس طرح مرتب کیا گیا تھا کہ اگر تمام صوبوں اور قبائلی علاقوں کی سیٹوں کو بھی جمع کر لیا جائے تو پنجاب کی نشستیں اس کی آبادی کی بدولت سب سے زیادہ تھیں۔ پچھلی کئی دہائیوں ہی سے یہ معاملہ محنت کشوں کو قومی بنیادوں پر ایک دوسرے کا دشمن بنانے کے لئے استعمال میں لایا جاتا رہا اورآج بھی لایاجا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد چھوٹے صوبوں کو لالی پاپ تھمانے کے لئے سینیٹ کا ادارہ تخلیق کیا گیا تھا۔ جس میں قومی اسمبلی کے برعکس تمام وفاقی یونٹوں کو یکساں نمائندگی دی گئی، اس خواہش کے ساتھ کہ سینیٹ کی موجودگی میں کوئی ایک وفاقی یونٹ قومی اسمبلی میں محض اپنی عددی برتری کے سبب وفاقی قانون سازی کے عمل کو مسمار نہیں کرپائے گا۔ اس ادارے کو یوں تو تمام یونٹوں کے وفاقی حقوق کا تحفظ کرنے اور وفاق کی مضبوطی کا سمبل قرار دیا گیا تھا لیکن بعد کے حالات یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہر انتخاب میں جو پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت رکھتی وہی اس ادارے کی بھی مائی باپ بنی۔ کیونکہ کسی بھی قانونی تبدیلی کے لئے اگر اتفاق رائے نہ ہوسکے تو آخر میں فیصلہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس اور ووٹوں کے نتیجے سے ہی ممکن ہوتا ہے اور لازمی طور پر جو جماعت قومی اسمبلی میں اکثریت رکھتی ہو وہی دراصل گیم چینجر کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوں یہ ادارہ اپنی بنیادوں میں ہی ربڑ اسٹیمپ سے زیادہ کچھ نہیں اور اس کا فیصلہ یہاں محض کالی معیشت کے ان داتاؤں کے سوا کوئی کرنے کا اہل نہیں۔ وہ جسے چاہیں جب چاہیں یہاں پہنچا دیتے ہیں اور اپنے عزائم کے لئے ان کا استعمال بھی کرتے رہتے ہیں۔ پورے ملک میں ان ٹکٹوں کا فیصلہ کون اور کیسے کررہا ہے یہ بات اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔
حکمران طبقات ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود کبھی کبھی ان معاملات پر ایسے ردعمل دیتے ہیں کہ جیسے یہ سب کچھ عوامی مفادات کے لئے کررہے ہوں۔ سندھ میں بھی ان ڈمی انتخابات کے گرد بڑی بھاگ دوڑ کی جا رہی ہے جہاں پیپلز پارٹی محترمہ ’ٹکٹ تالپور ‘کی قیادت میں پیش پیش ہے۔ پیپلز پارٹی نے گزشتہ سینیٹ انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی اور ہارس ٹریڈنگ کے کئی نئے ریکارڈ مرتب کئے تھے۔ چنانچہ اس بار تھرپارکر کی ایک خاتون کو ’خیرات ‘ میں ٹکٹ دیکر یہ جتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سبھی ٹکٹیں ایسے ہی ’’میرٹ‘‘ پر دی گئی ہوں!
سندھ کی ایک اورانتخابی جماعت ایم کیو ایم بھی سینیٹ کے ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ کچھ روز قبل تک محسوس یوں ہورہا تھا جیسے ایم کیو ایم ان انتخابات کا سب سے ’ہاٹ ایشو‘ ہو۔ کراچی کی اہمیت پاکستانی سیاست اور معیشت میں واضح ہے۔ ہر پارٹی کی نظر یہاں کی اکیس قومی اسمبلی اور 51 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہے۔ پچھلی چند دہائیوں سے ایم کیو ایم کراچی میں اپنی اکثریت کا بھرپور استعمال کرتی رہی اور 2013ء تک یہاں کی سب سے متحد جماعت گردانی جاتی تھی۔ لیکن اس وقت ایم کیو ایم چار دھڑوں میں بٹ چکی ہے اور پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت سبھی ایم کیو ایم کی اس اندرونی لڑائی کا بھرپورفائدہ اٹھانے کی کوششوں میں ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی بھی جماعت کے پاس کراچی کے عوام کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔
ایم کیو ایم کا حالیہ تنازعہ یوں تو کامران ٹیسوری کے گرد گھومتا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا دکھایا جا رہا ہے۔ اگر معاملہ صرف کامران ٹیسوری کے سینیٹ ٹکٹ کا ہوتا تو شاید یہ تنازعہ بہت پہلے کھڑا ہوجانا تھا۔ ٹیسوری بحران کے دنوں میں مسلم لیگ فنکشنل سے ایم کیو ایم میں شامل ہوا تھا اور ایک سال میں ہی ’ایم کیو ایم پاکستان‘ کے رہنما فاروق ستار کے سب سے قابل اعتماد لوگوں میں شامل ہوگیا تھا۔ وہ رابطہ کمیٹی کا ڈپٹی کنوینر بھی بنا اور حلقہ پی ایس 117 کا ٹکٹ بھی اسے دیا گیا۔ ٹیسوری کے اس چمتکار کی بھی اصل وجہ سرمایہ ہے۔ ٹیسوری کی فاروق ستار کی نظر میں اہمیت ایسے ہی ہے جیسے جہانگیر ترین کی عمران خان کی نظر میں۔ ٹیسوری ہی کے ذریعے ایم کیو ایم پاکستان اور ’پاک سر زمین پارٹی‘ کے درمیان گو کہ کچھ دیر ہی سہی لیکن نزدیکیاں ضرور پیدا ہوئیں جسے مصطفی کمال نے اسٹیبلشمنٹ کی کرامات قرار دیا۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کا یہ کھیل ایک رات میں ہی بگڑ گیا۔ بنیادی طور پر آج ایم کیو ایم میں پیدا ہونے والا بحران اس کا نامیاتی بحران ہے جس کا اظہار مختلف اوقات میں ہوتا رہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ریاست اس کے مختلف دھڑوں کو مختلف حوالوں سے آج بھی اسی طرح استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جیسے چند سال پہلے کرتی تھی۔ جس ایم کیو ایم کے خلاف پچھلے بیس سالوں سے وقفے وقفے سے آپریشن جاری رہے وہی آج بلدیاتی الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کر گئی اور جیل میں بیٹھا ایک مجرم کراچی کا میئر منتخب ہوگیا۔ اگر ریاست کی اسے ختم کرنے یا اس کی رٹ کو کمزور کرنے میں تھوڑی بھی دلچسپی ہوتی تو بلدیاتی انتخابات ان کے سامنے ایک بھرپور موقع تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ انہیں یہی موقع فراہم کرکے کراچی میں مزید لسانیت کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ الطاف حسین کو قیادت سے فارغ کرنے والی واردات بھی بنیادی طور پر ایم کیوایم کو لگام دینے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی کیونکہ تاریخی طور پر ریاست ہمیشہ بوقت ضرورت جہاں ایم کیو ایم کا تعاون حاصل کرتی رہی وہیں زیادہ من مانی کرنے پر اس کی لگام بھی کھینچ دیتی رہی۔
بنیادی طور پر کراچی ، حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجروں کی نمائندہ جماعت کے طور پر ایم کیوایم کا ابھار ایک رجعتی عہد کا نتیجہ تھا جوکہ 1968-69 ء کی انقلابی تحریک کے بھٹو حکومت کی اصلاحات میں زائل ہونے کی شکل میں برآمد ہوا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک تاریک زمانہ تھا جب ضیا الحق کی قیادت میں رد انقلاب محنت کش عوام اور نظریاتی سیاست کو کچل رہا تھا۔ اُس وقت پیپلز پارٹی اور بایاں بازو ریاستی جبر کا خاص ہدف تھے۔ ریاست ترقی پسند رجحانات کو خوب نشانہ بنا رہی تھی۔ اسی دوران سماج پر مذہبی رجعت کو ٹھونس کر پروان چڑھایا جا رہا تھا۔ اسی کے نتیجے میں عوام کی پسماندہ پرتوں میں فرقہ وارانہ ، لسانی اور نسلی تعصبات نے جنم لیا۔ تحریک کی ایک طویل پسپائی کی کیفیت میں حکمران طبقے کے تعصبات کا علمبردار درمیانہ طبقہ بن جاتا ہے۔ محنت کش طبقہ جب سیاسی طور پر متحرک نہ ہو تو معاشرے پر مڈل کلاس اور شعوری طور پر پچھڑی ہوئی پرتو ں کی رجعتی سوچ حاوی ہو جاتی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر کراچی میں لسانی بنیادوں پر ایم کیو ایم کے ابھار نے محنت کش طبقے کی جڑت کو توڑ کر ضیا الحق آمریت کے ہاتھ اور بھی مضبوط کئے۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن (APMSO) کو اولین سیاسی بنیادیں نظریاتی طور پر دو حریف طلبہ تنظیموں ( اسلامی جمعیت طلبہ (IJT) اور نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (NSF)) کا پس منظر رکھنے والے درمیانے طبقے کے طلبہ اور نوجوان سیاسی کارکنوں نے فراہم کی تھیں۔ یہ ایک انوکھا آمیزہ تھا۔ 1972ء کے بعد سے کراچی میں طبقاتی بنیادوں پر ہونے والی سیاست کے زوال سے پیدا ہونے والے خلا کو لسانیت نے پر کیا۔ مہاجروں کے اس سماج میں سموئے نہ جاسکنے کی وجہ سے ان کی بیگانگی، بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کو استعمال کرتے ہوئے ایم کیو ایم پروان چڑھی اور الطاف حسین جیسے متشدد ذہنیت کے شخص کو کراچی جیسے محنت کشوں کے پیٹروگراڈ کی حیثیت رکھنے والے شہر کا لیڈر بنا دیاگیا۔ ایم کیو ایم ایک ایسے فسطائی رجحان کے طور پر محنت کشوں کے اس شہر پر حاوی رہی جس کی بنیادیں بھتہ خوری اور دوسرے جرائم سے جڑیں تھیں اور اسی کے ذریعے یہ اپنی سیاسی تنظیم اور مسلح ونگ چلاتی تھی۔ اسی جبر اور خوف کی بدولت پچھلے لمبے عرصے سے کراچی اور حیدرآباد کی انتخابی سیاست میں بھاری اکثریت بھی حاصل کرتی رہی لیکن جوں جوں کالا دھن اس میں سرایت کرتا گیا حصہ دار بڑھنے لگے اور زیادہ حصہ داری کے لئے زیادہ دہشت اور وحشت کی ضرورت پڑنے لگی۔ اپنی اسی ہوس کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے اپنے آقاؤں کو نشانہ بنانے اور بعض اوقات انہیں ڈسنے تک سے گریز نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ہی ایم کیوایم کی فرمائشوں میں اضافہ ہوتا گیا اور اس دھندے میں اس نے خود سے بڑے ’بدمعاشوں‘ پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا جوکہ اس کے اپنے آقاؤں کے لئے بھی ناقابل برداشت تھا۔ اسی کیفیت نے ریاست پر دباؤ ڈالا جس نے ایم کیو ایم پر وار کرکے اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ دراصل حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ یہ جن قوتوں کو فائدہ پہنچاتی رہی تھی اب انکے نقصان کا باعث بن رہی تھی۔
اپنی اگست 2016ء کی تقریر میں الطاف حسین نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھاجو وہ پہلے کبھی نہ کہتا ہو۔ لیکن الطاف حسین کی ذہنی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی رٹ کو پارٹی میں کمزور کرنے کے لئے ایک ایسے جواز کی ضرورت تھی جو اس نے اس دن مہیا کردیا۔ وہی بیان فاروق ستار و دیگر کے لئے نام نہاد ’ایم کیو ایم پاکستان‘ کی بنیاد بنایا گیا۔ پچھلے چند سالوں میں کراچی کی سیاست کو کنٹرول کرنے کے لئے بیشتر تجربات کیے گئے لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ درحقیقت آج ایم کیو ایم جس بحران سے دوچار ہے اگر ٹیسوری کا مسئلہ نہ بھی ہوتا تو یہ ٹوٹ پھوٹ ناگزیر تھی۔ ایم کیو ایم کے سبھی گروپ اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح کراچی کے عوام کو اس عمل میں متحرک کیا جائے تاکہ ایم کیو ایم کی کھوئی ساکھ کو بحال کیا جاسکے۔ لیکن جتنے بھی جلسے اور تقاریب کی گئیں ان میں لوگوں کی بہت قلیل تعداد میں شرکت رہی۔ پاک سر زمین کو اس ساری صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک متبادل کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا لیکن عوام اتنے بیوقوف نہیں ہیں۔ مصطفی کمال کی ہر تقریر و پریس کانفرنس سوائے الزام تراشیوں کے کچھ نہیں تھی۔ وہ کسی قسم کا سیاسی اور معاشی پروگرام دینے سے پہلے دن ہی سے قاصر رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فلاپ فلم بھی زیادہ عرصے تک نہیں چلائی جاسکتی۔
اس ساری صورتحال میں جہاں ایک طرف ایم کیو ایم بالکل بے نقاب اور پارہ پارہ ہو رہی ہے وہیں محنت کش طبقے کی جڑت کے امکان بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ اپنے دورِ تسلط میں ایم کیو ایم نے کراچی و حیدرآباد میں جس قسم کے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی اس نے اردو بولنے والوں کی اکثریت کو سیاست میں عدم دلچسپی پر مجبور کر دیا۔ شہری آبادی کی اکثریت ایم کیو ایم کی اس فسطائیت سے تنگ آکر پچھلے کئی سالوں سے محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ صورتحال ایم کیو ایم کے تسلط کیساتھ اِس جمود کو بھی توڑنے کا باعث بن سکتی ہے جس نے یہاں کے محنت کش عوام کو سیاست سے کنارا کشی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج یہاں ایک بار پھر اردو بولنے والی آبادی میں ترقی پسند رجحانات اور بحثیں جنم لے رہی ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں کراچی میں ایسا پرولتاریہ ضرور پیدا ہوچکا ہے جو اس فرسودہ نظام کی تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ کسی بھی انقلابی تحریک کے آغاز کے درست وقت اور مقام کا تعین تو نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جلد یا بدیر اِس طبقاتی کشمکش کو پھٹنا ہے!