قدامت پرستی کا جبر

[تحریر: لال خان]
پاکستان کے سرکاری مذہبی ادارے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ نے کچھ دن پہلے 1929ء کے بچوں کی شادی پر پابندی کے قانون اور 1961ء میں بنائے گئے فیملی لا آرڈیننس کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملاؤں کے اس ٹولے نے نوعمر بچیوں کی شادی اور دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت پر سے پابندی ہٹانے کی سفارش کی ہے۔ یہ ادارہ کچھ عرصہ قبل جنسی زیادتی کے کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ کے استعمال کو بھی ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دے چکا ہے۔ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا اصرار ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار خاتون اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے چار عاقل، بالغ، نیک اور صالح مرد حضرات کو پیش کرے جنہوں نے سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ بصورت دیگر اسے قصور وار سمجھا جائے گا اور سزا ملے گی۔ موجودہ دائیں بازو کی حکومت کے وزیر مذہبی امورنے کونسل کی حالیہ سفارشات کی تائید کی ہے جس سے اس ملک کے حکمران طبقات کی نفسیات اور پورے معاشرے پر ریاست کی طرف سے رجعتی اقدار ٹھونسنے کا عمل ایک بار پھر واضح ہوکر سامنے آیا ہے۔ اس ادارے کا قیام 1962ء کے آئین کے تحت ’’مشاوراتی کونسل برائے نظریہ اسلام‘‘ کے نام سے وجود میں آیا تھا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ادارے کی تنظیم نو کی گئی اور نام تبدیل کر کے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ رکھ دیا گیا۔
آج کل اسلامی شریعت کا نفاذ کا شور بہت بڑھ گیا ہے۔ ’’طالبان‘‘ کا نقطہ نظر ہے آئین غیر شرعی ہے اور وہ نفاذ شریعت کے لئے 70 ہزار بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے میں حق بجانب ہیں۔ دوسری طرف سرکاری مذاکراتی کمیٹی کے ’’سافٹ طالبان‘‘ اس نقطہ نظر کے تحت طالبان کی منتیں کر رہے ہیں کہ آئین تو شریعت کے عین مطابق ہے لہٰذہ ’’امن‘‘ قائم کیا جائے۔ ایک دھڑا سوات کے ملا ریڈیو کو امیر المومنین بنانا چاہتا ہے تو دوسرا اسی ریاستی ڈھانچے اور قوانین کو تھوڑا مزید ’’اسلامی‘‘ بنا کر طاقت، اقتدار اور دولت کے مزے لوٹنا چاہتا ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ دونوں اطراف ریاست کے مختلف حصوں کی پشت پناہی کے بغیر ایک ہفتے تک بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مولانا مودودی کے صاحب زادے فاروق مودودی نے جناح صاحب کے بارے میں اپنے والد کے خیالات بیان کئے ہیں کہ ’’جو آدمی اسلامی لباس نہیں پہن سکتا وہ اسلامی ریاست کیسے بنا سکتا ہے۔ ‘‘ تاہم ایک بات حیرت انگیز ہے ابھی تک کسی مولانا نے جناح صاحب کے ناشتے کے مینیو کے بارے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا!
یہاں ہر فرقے کے علما نے اپنی اپنی شریعت گھڑی ہوئی ہے۔ یہ حضرات اپنی طاقت، مقبولیت اور سماج پر نفسیاتی تسلط میں اضافے کے لئے چال ڈھال، رہن سہن، لباس، عادات و اطوار، زبان اور ’’جنسی فرائض‘‘ جیسے انتہائی نجی معاملات پر فتویٰ بازی کرتے رہتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر اور احادیث کی تشریح، ہر ایک کی اپنی اپنی ہے۔ شلوار ٹخنوں سے کتنی اوپر ہونی چاہئے، اس بات پر بھی نوبت مار دھاڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ اذان اور نماز کا طریقہ کار ہر کسی کا اپنا اپنا ہے اور اکثر مساجد کے باہر مخالف فرقے کا داخلہ ممنوع قرار دینے والی تختیاں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ داڑھی اور پگڑیوں کے سٹائل تک مختلف ہیں۔ اسی طرح خواتین کے حجاب اور برقعوں کی بھی کئی ’’فرقہ وارانہ ورائٹیاں‘‘ موجود ہیں۔ اب تو منڈی میں بہت سے ڈیزائنر بھی کود پڑے ہیں جو برقعے، شیروانی، کرتے اور پگڑیوں کے رنگ برنگ سٹائل متعارف کروا کے خوب پیسہ کما رہے ہیں۔
جب معاشرے کا سماجی و معاشی ارتقاء اور نفسیاتی نشونما رک جائے تو ایسے مظاہر ہی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ یورپ کے تاریک عہد میں چرچ کی سب سے اہم بحث یہ تھی کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے سما سکتے ہیں۔ اسی طرح چرچ نے مقتول کے طبقے کو معیار بناتے ہوئے قاتل کا گناہ معاف کرنے کے معاوضے بھی مقرر کئے ہوئے تھے۔ معاشرتی جمود کے ان حالات میں رجعت حاوی ہوجاتی ہے۔ زبان و کلام میں مذہبیت بڑھ جاتی ہے۔ جھوٹ، چوری اور استحصال پر مذہب کا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے۔ مشہور زمانہ فراڈئیے ’’حاجی صاحب‘‘ ہوجاتے ہیں اور دن رات غریب کا خون پی کر اپنی دولت اور جائیداد میں اضافہ کرنے والے آخرت سنوارنے کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ آج تک کسی نے یہ سوال کیا ہے اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کی دولت، جائیدادیں اور ہزاروں ایکڑ زمین کہاں سے آئی ہے؟ مساجد اور مدرسوں کے نام پر قبضے کرنا کب سے جائز ہوگیا ہے؟ خواتین کی طرف بھی یہی منافقانہ رویہ نظر آتا ہے۔ اس ملک میں 15سال یا اس سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح 25فیصد سے زائد ہے۔ کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کی عمر میں ان بچیوں کی شعوری سطح بھلا اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا سب سے اہم ترین فیصلہ کرسکیں، یا اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار ہی کرلیں؟غربت اور کم عمری کی شادی زچگی کے دوران پیچیدگیوں اور اموات کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر روز درجنوں خواتین نئی زندگانی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہاں ہر روز 1184 بچے غربت، بھوک اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں۔ لیکن اس معاشی قتل عام کا سد باب کرنے سے زیادہ ضروری مسائل شاید یہ ہیں کہ عورت نے پردہ پورا کیا ہوا یا آدھا، شلوار ٹخنوں سے اوپر ہے یا نیچے اور وضو کا پانی کہنیوں تک پہنچا ہے یا نہیں۔
یہ کوئی حادثاتی امر نہیں ہے بلکہ ایک شعوری منصوبہ بندی ہے جس کا حصہ قدامت پرستی کے ساتھ ساتھ لبرل ازم بھی ہے۔ یہ نان ایشوز اور بے معنی اختلافات کو مسلسل سماجی نفسیات پر مسلط رکھ کے اسے مسخ کرنے کی واردات ہے۔ جہاں برقعوں کا رجحان بڑھا ہے وہاں نیم عریاں لباسوں اور خواتین کو جنس بنانے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں میک اپ، فیشن اور کاسمیٹکس کی ایک بڑی اور منافع بخش منڈی پروان چڑھی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے خوبصورتی کے بے ہودہ اور جعلی معیار متعارف کروائے ہیں اورایک دوسرے سے زیادہ حسین نظر آنے کی دوڑ میں درمیانے طبقے کے خواتین وحضرات پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ حکمران اور بالائی درمیانے طبقے کی یہی اقدار اور سوچ محنت کش طبقے پر مسلط کی جاتی ہے۔ اس سے محرومی اور بیگانگی کے احساسات زیادہ گہرے ہوجاتے ہیں۔ آج بے روزگاری اور مہنگائی کے دور میں غریب انسان دوسری تو کیا پہلی شادی کرنے کے قابل بھی نہیں رہا ہے۔ مغربی طرز زندگی کے فیشن، لباس، عادات و اطوار اور بیرون ملک عیاشی کے دورے اگر مہنگے ہیں تو حج بھی سستا نہیں ہے۔
یہ کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہر مذہب کے ٹھیکیدار عقائد کو اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کا استحصال قائم رکھنے کے لئے اسی طرح استعمال کرتے ہیں۔ 1890ء میں جب بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 10 سے 12 سال کرنے کا قانونی مسودہ پیش کیا گیا تھا تو ہندو اور مسلمان مذہبی پیشواؤں نے مشترکہ طور پر اس کی مخالفت کی تھی۔ اس ملک میں اگر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کو ’’خاموشی‘‘ اختیار کرنے کا درس دیا جاتا ہے تو دہلی بھی دنیا میں ’’ریپ کے داراحکومت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ لہٰذہ صرف قوانین پاس کرنے سے خواتین اور کچلے ہوئے طبقات کو ان عذابوں سے چھٹکارہ نہیں مل سکتا ہے۔ قوانین بہت پاس ہوئے ہیں اور ہوں گے، لیکن صدیوں سے سرمائے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسان کو رہائی نہیں مل سکی۔ جب تک فرسودہ سماجی رشتے، خاندانی جبر کے ڈھانچے اور پسماندگی و قدامت پرستی کی روایات پاش پاش نہیں ہوں گی ان تعصبات اور اذیتوں سے معاشرہ آزاد نہیں ہوگا۔ ان تمام رشتوں، ڈھانچوں، روایات اور اقدار کی جڑیں نجی ملکیت اور منافع خوری کی بنیادوں میں پیوست ہیں۔

متعلقہ:
مدد چاہتی ہے حوا کی بیٹی
’’طالبان‘‘ کا مفروضہ
آپس کے مذاکرات
وجود زن ہے آھن!
سوشلزم: عورت کی نجات