[رپورٹ:پال جان]
ُPTUDC اور BNT کے زیر اہتمام ایک روزہ مارکسی سکول بروز اتوار 02 دسمبر 2012ء کوارتقاء انسٹیٹیوٹ گلشن اقبال میں منعقد کیا گیا۔ سکول میں دو سیشن ہوئے۔ پہلا سیشن ’’جرمنی انقلاب سے ردانقلاب تک‘‘ تھا جس کو کامریڈ ہردل کمارنے چیئر کیا اور کامریڈ فارس نے لیڈ آف دی۔ کامریڈ فارس نے اپنی لیڈ آف میں کہا کہ پاکستان میں موجودہ صورت حال کے پیش نظر انقلابی جد وجہد کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انسانی تاریخ میں ہونے والے انقلابات کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ اسباق حاصل کریں جو ہماری جد وجہد کے لئے معاون ثابت ہوں۔ 1918ء کا جرمن انقلاب بھی عالمی تاریخ کے نقطہ نظر سے ایک ایسا واقعہ ہے جس نے پوری دنیا پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کی کامیابی نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو تاریخ کے میدان میں اتارا تھا۔ جرمنی کے محنت کشوں نے بھی سوویت انقلاب سے وہ حوصلہ اور جرأت لی تھی اور اپنی قسمت کو اپنے ہاتھوں میں لے کر تمام جرمنی کا کنٹرول مزدوروں اور سپاہیوں کی کونسلزکے حوالے کر دیا تھا۔ 1918ء سے1933ء تک جرمنی میں انقلاب اور رد انقلاب کی زبردست کشمکش رہی۔ جس میں محنت کشوں نے متعدد بار طاقت اپنے ہاتھوں میں لی۔ مگر بد قسمتی سے ایک بالشویک انقلابی پارٹی کے فقدان اور سوشل ڈیموکریٹوں کی تاریخی غداریوں کی وجہ سے محنت کشوں کا انقلاب اپنی حتمی فتح سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ کامریڈ نے 1920ء میں بویریا ریپبلک میں بادشاہت کے خاتمے، 1923ء میں فرانسیسوں کے Ruhr پر قبضے، 1925ء کے صدارتی انتخابات اور 1928ء کے جنرل الیکشن پربھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشن کیے گئے جس میں کامریڈ ریاض لنڈ اور کامریڈ پال جان نے کنٹر ی بیوشن کیا۔ کامریڈ ریاض نے SPD اور PPP کا تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اور وقت نے پاکستان میں انقلاب کی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد کی ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے کام کو پارٹی کے اندر اور باہر نوجوانوں اورمزدوروں تک لے کر جانے کی ضرورت ہے۔ کامریڈ پال جان نے اپنے کنٹری بیوشن میں جرمنی میں ادب کے ارتقاء کا تفصیل سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مارکس سے پہلے جرمنی میں ہیگل، کانٹ اور فیورباخ اور دیگر نامور فلسفی رہے تھے۔
آخر میں سیشن کا سم اپ کامریڈ پارس جان نے کیا۔ کامریڈپارس جان نے سم اپ کرتے ہوئے جرمنی کی تاریخی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ مارکس اور اینگلز محض فلسفی ہی نہیں تھے بلکہ وہ خود سرگرم انقلابی کارکن تھے اور انہوں نے جرمن کمیونسٹ لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی اشاعت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جو سیاسی ادب کی تاریخ میں اہم ترین مقام رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ1871ء کے پیرس کمیون کی ناکامی کے بعد1910ء تک سرمایہ دارانہ نظام کو طویل عروج ملا۔ اور اس عرصے میں ہی جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی اجارا دارانہ بنیادوں میں منتقلی ہوئی وہا ں اسی عرصے میں ہی یورپ کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کی نشوونما ہوئی۔ اس معاشی عروج کے دور میں یورپ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اصلاحات کی گئیں اس طرح یورپ بھر کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں میں اصلاح پسندی اور سرمایہ داری سے مصالحت کے رجحانات در آئے۔ انہوں نے کہا کہ 1918ء اور 1923ء میں محنت کشوں نے انقلاب کر کے متعدد مواقعے پیدا کیے تھے جب اقتدار پر قبضہ کیا جا سکتا تھا۔ مگر قیادت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ مواقعے ضائع ہوئے۔ جس کی قیمت بعد میں جرمنی کے محنت کشوں نے ادا کی۔ جب ان پر ہٹلر کی صورت میں فاشزم کو مسلط کیا گیا۔ آخر میں کامریڈ نے کہا کہ آج سرمایہ داری کے ضعف میں اب ممکن نہیں رہا کہ ماضی کی طرح پھر سے فاشزم کا ابھارہو۔ اور اگر ایسا کرنے کی حکمران طبقات نے کوشش کی تو عالمی محنت کش طبقے کی جڑت بناتے ہوئے اس کو ناکام بنایا جائے گا۔
دوسرا سیشن مارکسی معیشت پر تھا جس پر کامریڈ ماجد کی لیڈ آف تھی اور اسے کامریڈ خالد جمالی نے چیئر کیا۔ کامریڈ نے اپنی لیڈ آف میں مارکسی معیشت کی بنیادی اصطلاحات سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے وضاحت کی کہ مارکس کا قدر کا قانون ساری مارکسی معیشت کی بنیاد ہے۔ جنس کے کردار اور اس کی قدر کا تعین اس میں صرف شدہ انسانی محنت کی مقدار اور معیار سے کیا جا سکتا ہے۔ مزدور فیکٹری میں کام کرنے کے لیے سرمایہ دار سے جو معاہدہ کرتا ہے اس کے تحت وہ اپنی محنت فروخت نہیں کرتابلکہ قوتِ محنت فروخت کرتا ہے۔ مزدور کی محنت کے اوقات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا وہ جس میں وہ اپنے لیے محنت کرتا ہے اسے ضروری محنت کہتے ہیں اور دوسرا جب وہ سرمایہ دار کے لیے محنت کر کے قدرِ زائد پیدا کرتا ہے اسے اضافی محنت کہا جا تا ہے۔ مزدور کی قوتِ محنت بھی باقی تمام اشیا کی طرح ایک جنس ہے جس کی قیمت کا تعین بھی اس کی پیداوار کی لاگت اور اس کی طلب اور رسد کے قانون کے تحت ہی کیا جا تا ہے۔ کامریڈ نے لیڈ آف کے آخر میں سامراجیت کی معاشی بنیادوں کا تجزیہ کیا اور اسے سرمایہ داری کا جدید ترین مرحلہ قرار دیا اور کہا کہ سامراجی قوتوں کی منڈی کی ہوس نے دو عالمی جنگوں میں بے شمار بربادی کی ہے اگر آئندہ ہم نے بربادی اور تباہی سے بچنا ہے تو ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے محنت کشوں کی ریاست قائم کرنی ہو گی جو صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس کے بعد سوالات ہوئے اور کامریڈ ریاض اور پال جان نے بحث میں حصہ لیا۔ کامریڈ ریاض نے قدرِ زائد کے کردار کا جائزہ لیا اور اسے محنت کشوں کے استحصال کا بنیادی اوزار قرار دیا اور کامریڈ نے یہ بھی وضاحت کی کہ سوشلسٹ سماج میں محنت کشوں کے استحصال کو اس طرح روکا جائے گا کہ قدرِ زائد کسی کی جیب یا تجوری میں نہیں جائے گی بلکہ ریاست کی ملکیت ہو گی اور سارے سماج کے معیارِ زندگی کو بہتر کرنے پر خرچ کی جائے گی۔ کامریڈ پال جان نے مارکسی نقطہ نظر سے محنت کش طبقے کی سماجی بیگانگی کا ذکر کیا اور طبقاتی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے انقلابی پارٹی کی تعمیر کی جدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
آخر میں کامریڈ پارس جان نے دوسرے سیشن اور ریجنل سکول کا سم اپ کیا اور سولات کے جوابات دیئے۔ کامریڈ نے کہا کہ تاریخی مادیت کے اصول کو رسمی منطق کے تحت ہر جگہ ایک ہی انداز سے لاگو نہیں کیا جا سکتا اور تاریخ کا ارتقا مشترکہ مگر انتہائی ناہموار طریقے سے ہوا ہے اور خاص طور پر طبقوں کی ایک سے دوسرے میں منتقلی کا فلسفہ جس کے تحت غلاموں کے آقا جاگیردار اور جاگیر دار بعد میں سرمایہ دار بن گئے سراسر غلط ہے بلکہ جاگیردار وں کو بحیثیتِ طبقہ ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا اور سب سے قدیم ترین سرمایہ داری تجارتی سرمایہ داری ہے جس میں تجارتی سرمائے کے ارتکاز اور ذرائع پیداوار کے ارتقا نے ایسے حالات پیدا کر دیئے جس سے سرمایہ دارانہ انقلابات ممکن ہو سکے۔ کامریڈ نے مزید کہا کہ تبادلے کے لیے اجناس میں لگی انسانی محنت کی پیمائش ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس کے لیے ذرائع پیداوار کی ترقی کی سطح اور مزدور کی محنت کے معیار سے اس صنعت میں اوقاتِ محنت کا اوسط نکالا جاتا ہے اور یہ کسی ایک جنس یا صنعت کی نہیں بلکہ بحیثیتِ مجموعی تمام صنعتوں میں ذرائع پیداوار اور محنت کی معیار کے مطابق سماجی معیاری ضروری محنت نکال لی جاتی ہے جس کی بنیاد پر چیزوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص ایک کرسی لے کر بازار میں گھومتا رہے کہ اس کے عوض اسے روٹی چاہیے اس سارے عمل کو مربوط اور منظم کرنے کے لیے پیمائش کے آلے کی ضرورت پڑتی ہے جس کی جدید ترین شکل کرنسی ہے۔ کامریڈ نے کہا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ کرنسی بیک وقت جنس بھی ہے اور پیمائش یا تبادلے کی اکائی بھی۔ آج عالمی منڈی میں ڈالر اور دیگر تمام کرنسیاں خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ کامریڈ نے کہا کہ کچھ سرمایہ داری کے معذرت خواہ کہتے ہیں کہ سرمایہ دار چونکہ بجلی کا بل، جگہ کا کرایہ، خام مال کی خرید، مشینوں کی گھسائی اور مزدوروں کی تنخواہ دیتا ہے اس لیے قدرِ زائد سے منافع کمانا اس کا حق ہے تو یہ بالکل غلط دلیل ہے۔ کامریڈ نے وضاحت کی کہ یہ تمام اخراجات سرمایہ دار اپنی اصل پونجی سے نہیں بلکہ محنت کشوں کی ادا نہ کی گئی اجرت سے دیتا ہے یوں محنت کش ہی یہ تمام اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ کامریڈ نے کہا کہ اب زائد پیداوار کا بحران ناقابلِ حل تضادات کا شکار ہو چکا ہے۔ عالمی محنت کش طبقے کو اپنی نجات کے لیے ایک سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی طرف بڑھنا ہو گا۔ ساری دنیا میں آج اس کی شکلیں نمودار ہو رہی ہیں صرف ہماری شعوری اور منظم مداخلت سے ہی حتمی فتح ممکن ہو سکے گی۔
آخر میں انٹرنیشنل گا کر ریجنل سکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔