جدوجہد میں زندہ رہیں گے!

اس ملک کے ہر کونے میں اس نظامِ سرمایہ کی بالواسطہ اور بلاواسطہ قتل و غارت اور خون کی ہولی مسلسل جاری و ساری ہے۔ غربت اور قابل علاج بیماریوں سے لے کر خودکش بم دھماکوں، ریاستی دہشت گردی اور بے ہنگم ٹریفک کے حادثات تک،درجنوں قیمتی اور معصوم جانیں موت کے گھاٹ ہر روز اتاردی جاتی ہیں۔ اس ملک کی گلی سڑی سرمایہ داری کی مردار کیفیت میں حکمران طبقات اسی بربریت کو تقدیر گردان کر صبر کی تلقین کا راگ الاپتے آ رہے ہیں۔ 70 سال سے یہ سرمایہ دارانہ نظام اس ملک کے عام باشندوں کو دکھ، تکالیف، اذیتوں اور لاشوں کے سوا کچھ نہیں دے سکا۔ کسی بھی سماج میں سوشل یا فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر کا فریضہ حکمران طبقات کا ہوتا ہے۔ یہاں کے کرپٹ اور نااہل حکمران طبقات سرمایہ داری کا بھی کوئی تاریخی فریضہ ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ پینے کے پانی اور ہسپتالوں سے لے کر ٹریفک اور ٹرانسپورٹ تک، انفراسٹرکچر کی زبوں حالی ایک طرف کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو عذاب مسلسل بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف سینکڑوں قیمتی جانیں اس کی وجہ سے ہر روز ضائع ہو رہی ہیں۔ 12 فروری کا دن بھی ڈھلتے ڈھلتے فضا کو سوگوار بنا گیا۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کا ایک سچا اور بے باک سپاہی کامریڈ یوسف جتوئی اپنی اہلیہ، معصوم بیٹی اور بھانجے سمیت ایک دردناک روڈ حادثے میں ہم سے بچھڑ گیا۔ کامریڈ یوسف کو ان کے ساتھی ساقی جتوئی بھی پکارتے تھے۔ اس کی وجہ ان کی شائستہ طبیعت اور ساتھیوں کی محبت تھی۔ ان کی پہچان ان کا خوشگوار مزاج اور قہقہے تھے۔ وہ ایک زندہ دل انسان تھا۔ 2002ء میں زمانہ طالب علمی کے دوران وہ مارکسزم کے نظریات سے آشنا ہوا۔ یوسف گیارہویں جماعت سے ہی عملی جدوجہد میں داخل ہوگیا۔ وہ حقیقی معنوں میں غیرمعمولی صلاحتیوں کا حامل نوجوان تھا۔ زندہ دلی اور نفاست اس کو شاعری اور ادب سے ملی۔ اسی عمر میں اس نے فارسی سیکھی اور فارسی میں اشعار لکھے۔ دیگر زبانیں جاننے کا بہت شوق تھا۔ وہ ہندی پڑھ اور تحریر کر سکتا تھا۔ افسوس کہ شاعری اور زبان شناسی کے شوق کو وہ اپنی آنے والی زندگی میں وقت نہیں دے پایا اور زندگی نے اسے مہلت نہ دی۔ بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے اسے نوجوانی میں ہی گھر کو سنبھالنا پڑا اور اس نے یہ فریضہ بھی بخوبی سرانجام دیا۔
ساقی 15 سال سے انتھک جدوجہد میں مصروف عمل تھا۔ اس دوران مختلف تنظیمی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ یوتھ فرنٹ ’بیروزگار نوجوان تحریک‘ (BNT) میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ جن حالات اور جس خطے میں کامریڈ ساقی نے عملی جدوجہد کی شروعات کی وہ کسی بھی حوالے سے موافق نہیں تھے۔ یہ اندرونِ سندھ کی پسماندگی میں ماضی کے تمام رجعتی، مذہبی، قومی اور ذات برادری کے تعصبات میں گھرا ماحول تھا۔ 1986-88ء کے سیاسی ابھار کے بعد سے 2007ء تک بالخصوص نوجوانوں میں ایک گہرا جمودتھا۔ ان حالات میں سوشلزم کا پرچار کرنا ایک غیرمعمولی اور جرات مندانہ کام تھا۔ انہی حالات میں ایک انقلابی کی پرکھ ہوتی ہے، جس پر کامریڈ ساقی کھرا اترا۔ اس کا صبر بہت گہرا تھا۔ وہ ایک مستقل مزاج انقلابی تھا۔ بات چیت اور اظہارِ خیال کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے باعث وہ ہر طبیعت اور مزاج کے نوجوانوں کو متوجہ کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ اپنی 15 سالہ جدوجہدکے سفر میں اس نے ذاتی طور پر درجنوں نوجوانوں کو ریکروٹ کیا۔ تلخ اور مشکل معروض کے باجود کامریڈ ساقی نے تنظیم کو مقداری اور معیاری طور پر بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اندرون سندھ کے ان چند نوجوانوں میں سے تھا جنہوں نے سندھ میں انقلابی سوشلزم کو درجنوں شہروں، دیہاتوں اور تعلیمی اداروں میں متعارف کروایا۔ کامریڈ ساقی اِن دنوں بھی نواب شاہ میں ساتھیوں کے ساتھ انقلابی کام میں مصروف تھا۔ کامریڈ ساقی نے انقلاب کی جو نرسری لگائی تھی آج اس میں سینکڑوں نوجوان شامل ہیں۔
کامریڈ ساقی اپنی آخری سانس تک سوشلسٹ انقلاب کا سپاہی رہا۔ اس نے آخری بار محنت کشوں کا عالمی ترانہ (انٹرنیشنل) اپنی موت سے چند گھنٹے قبل گایا تھا۔ 12 فروری کو دادو کے تنظیمی ایگریگیٹ میں کامریڈ نے نظریاتی بحث میں بھرپور حصہ لیا اور انقلابی جدوجہد کو تیز کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
افسوس کہ کامریڈ ساقی ہم سے انقلاب کے اس کٹھن سفر کے دوران ہی بچھڑ گئے۔ ہم کامریڈ ساقی کے دوستوں اور بالخصوص ان کے خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں کامریڈ ساقی جتوئی کو ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ جس نصب العین کو انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا، وہ ادھورا نہیں رہے گا۔ طبقاتی جدوجہد کے ساتھی سوشلسٹ انقلاب تک ظلم و استحصال کے خلاف اُن کی لڑائی جاری رکھیں گے۔ وہ اِس جدوجہد میں ہمیشہ زندہ رہیں گے!