چھ ستمبر کی رات برسلز (بیلجیئم) کے ایک ہسپتال میں کینسر کی موذی مرض سے لڑتے ہوئے کامریڈ جین لیونز انتقال کر گئے۔ ان کے جسم میں کینسر کی تشخیص صرف ایک ماہ قبل ہی ہوئی تھی لیکن بیماری بری طرح پھیل چکی تھی۔ جین لیونز کے ساتھیوں کے لئے ان کی اس اچانک وفات کی خبر انتہائی کربناک اور صدمے سے لبریز تھی۔
کامریڈ جین اپنی آخری سانس تک لگن، اخلاص اور جذبے سے بھرپور مارکسسٹ انقلابی تھے۔ مارکسی معاشیات پر انہیں بالخصوص بہت عبور حاصل تھا۔ اس موضوع پر ان کا مطالعہ وسیع اور گرفت مضبوط تھی۔ انہوں نے عہد حاضر میں تکنیکی ترقی اور نئی ایجادات اور دریافتوں کے تناظر میں معاشیات کے مارکسی تجزئیے کے لئے بہت محنت طلب کام کیا۔ وہ اس دور کے قابل ترین مارکسسٹوں میں سے ایک تھے۔ نہ صرف بیلجیئم بلکہ دنیا بھر میں سیاسی، نظریاتی اور تنظیمی امور میں انہیں تخلیقی مہارت حاصل تھی۔
اپنے ساتھیوں کی طرف ان کا رویہ انتہائی عاجزی اور انکسار پر مبنی ہوتا تھا۔ لیکن حکمران طبقات، ریاست اور رجعتی قوتوں کے خلاف وہ اتنے ہی بے باک اور جارح تھے۔ افسر شاہانہ چالبازیوں اور دھونس کے خلاف ان کی سرکشی بہت دلیرانہ اور پراعتماد ہوتی تھی۔ جین کی صحبت ان کے ساتھیوں کے لئے ہمیشہ خوشگوار اور راحت بخش ہوتی تھی۔ انتہائی پیچیدہ موضوعات پر ان کی گفتگو ٹھوس سائنسی دلیلوں پر مبنی ہوتی تھی۔ اپنے ویب پیج پر انہوں نے آئن سٹائن کا یہ قول آویزاں کر رکھا تھا: ’’اگر آپ کسی چیز کو سادہ الفاظ میں بیان نہیں سکتے تو آپ نے اسے اچھی طرح سمجھا ہی نہیں ہے‘‘۔ جین کے آداب اور عادات و اطوار اتنے شائستہ اور تسکین آمیز تھے کہ وہ ان سے دوری میں بھی طبیعت پر خوشگوار اثر چھوڑتے تھے۔
ایک دوست کے طور پر وہ مخلص، سخی، وفاشعار اور قربانی دینے والے انسان تھے۔ اس عہد میں یہ خصوصیات بڑی نادر ہیں۔ دوسرے انسانوں کی مشکلات پر وہ گہری تکلف محسوس کرتے تھے اور جہاں ممکن ہوتا انقلابی سوشلزم کے مشن کے لئے قربانی دینے کو ہمیشہ تیار رہتے۔جب ان کی بیماری کی تشخیص ہوئی اور انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا اس وقت انہوں نے عالمی معیشت پر ایک اہم نظریاتی مضمون ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ کے لئے لکھنے کا آغاز ہی کیا تھا۔ پاکستان میں انقلابی مارکسسٹ قوت کی تعمیر میں سرگرم ’طبقاتی جدوجہد‘ کے کامریڈز کی انہوں نے ہمیشہ ہر ممکن طریقے سے تائید اور مدد کی۔ ان کے اس ہمت افزائی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور پاکستان میں جن کامریڈز نے ان کے ساتھ کام کیا ہے وہ اس مشکل وقت میں طبقاتی جدوجہد کی تعمیر میں ان کے کردار کو نہیں بھول سکتے جب ہم 1980ء میں ہالینڈ اور بیلجیئم میں جلاوطن انقلابیوں کا چھوٹا سا گروہ تھے۔
جین کی دلکش شخصیت، دھار دار حس مزاح اور ان کے ساتھ گزارے شادمانی کے لمحات کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ ان کی یاد اس جدوجہد میں ہمارے لئے ہمت، حوصلے اور شکتی کا باعث ہے جس کے لئے ہم نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔
(ایڈیٹر ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘)