تحریر: لال خان
آج ذوالفقار علی بھٹو کی 38 ویں برسی ماضی کے جذبوں اور امیدوں سے خالی خالی لگتی ہے۔ بحریہ ٹاؤن لاہور کے بلاول محل میں بھاری قلعہ نما دیواروں کے اندر گرج چمک کے ساتھ کیمروں کے سامنے بڑے بڑے دعوے چل رہے ہیں۔ اس مرتبہ ٹرینوں، بسوں کی بکنگ نہیں کروائی گئی، البتہ پی آئی اے نے اضافی فلائٹس چلانے کا اعلان ضرورکیا ہے۔ اس سالانہ برسی کے موقع پر پارٹی کارکنان کے قافلے سکڑتے سکڑتے اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سفر کے کوئی انتظامات ہی نہیں کیے جاسکے۔ کارکنان ’’اپنے خرچے‘‘ پر جانے کے حکم پر غور کررہے ہیں۔ کبھی وہ اپنے خرچے پر واقعی جایا بھی کرتے تھے، کیونکہ کوئی نظریہ، دل میں کوئی اُمنگ اور دکھ، انتقام کا جذبہ اور امید کی کوئی کرن ہوتی تھی۔ آج یہ احساس مٹ سا گیا ہے۔ عوامی بسوں اور ٹرینوں سے ’فلائٹس‘ تک کا سفر، پارٹی کی اپنی زوال پذیری کے سفر کی غمازی کرتا ہے۔ آج گڑھی خدا بخش میں ماضی کی ہل چل اور ملک بھر سے آنے قافلوں کی شورش بھی نہیں ہے۔ جہاں پارٹی قیادت کے محلات کی بلند دیواروں اور دیوہیکل دروازوں پر درباریوں کا قبضہ ہے، وہاں گڑھی خدا بخش کے میدان میں بھی ایک ویرانی عود آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ضیا الحق نے امریکی سامراجی کی ایما پر 4 اپریل 1979 ء کو بھٹو کا عدالتی قتل کروایا تھا۔ یہ واقعہ ایک زخم، خلش اور درد بن کر عوام کے دلوں اور دماغوں میں اتر گیا۔ اس کے خلاف انتقام کا جذبہ ایک پوری سیاسی تحریک کی شکل میں پارٹی کی رگوں میں طویل عرصے تک دوڑتا رہا، جس کا رخ حکمران طبقات، سامراج اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی طرف تھا۔ لیکن آج بھٹو کی میراث پر قابض پارٹی کی قیاد ت اس سے کسی خاندانی رشتے کی دعویدار تو ہوسکتی ہے، لیکن اس کی سیاست اُن سوشلسٹ نظریات سے نہ صرف یکسر اجتناب ہے جنہوں نے بھٹو کوعوام کا بھٹو بنایا تھا، بلکہ ان کی یکسر نفی کرتی ہے۔ عوام دشمن اقتصادی پروگرام اور سیاسی پالیسیوں پر بھٹو کی تصویر چھاپ کر اور اُس کی قربانی کے مرثیے پڑھ کر مفادات اور دولت وطاقت کی اندھی ہوس کے بازار میں بھٹو کو نیلام کیا جا رہا ہے۔
ہر سیاستدان اور انقلابی تحریکوں کے سرکردہ لیڈروں کی طرح بھٹو کی اپنی زندگی، رویوں، رحجانات، نظریات اور لائحہ عمل میں بھی تغیر رہا۔ بھٹو ایک فوجی آمریت کے وزیر کے طور پر سیاست میں داخل ہوا۔ پھر ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور اسی فوجی حکومت میں وزیر خارجہ کے اعلیٰ عہدے پر بھی فائز رہا۔ اس دوران وہ ایک پاکستانی قوم پرست تھا۔ پھر ریڈیکل ڈیموکریت ہوا، لیکن ایوبی آمریت سے استعفے کے بعد بھٹو نے جس بغاوت کا پرچم بلند کیا وہ نہ ’جمہوری‘ تھا نہ آئینی، بلکہ اس کا واضح پیغام انقلابی سوشلزم تھا۔ انہی نظریات پر پیپلز پارٹی قائم ہوئی۔ پھر 1968-69ء کی انقلابی تحریک اٹھی۔ بھٹو اس کی بنیاد پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے مقبول لیڈر بنا اور مانا بھی گیا۔ لیکن انقلابی سرکشی مکمل فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکی۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو نے جس اقتدار کو قبول کیا وہ بنیادی طور پر اسی سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی، سیاسی اور ریاستی حدود و قیود میں تھا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے جتنی بھی ممکنہ ریڈیکل اصلاحات اس نظام میں ممکن تھیں، کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جس ریاست اور افسر شاہی کے ذریعے وہ ان کو لاگو کرواناچاہتے تھے، نہ اس میں ان کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت تھی نہ خواہش۔ اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کی بوسیدہ اور تاخیر زدہ سرمایہ داری میں اتنی گنجائش ہی نہیں تھی کہ اس معاشرے کو ایک فلاحی سماج بنا سکتی۔ لیکن بھٹو کا عدالتی قتل درحقیقت حکمران طبقات اور امریکی سامراج کا اس سے انتقام تھا، اُن کے نظام پر ضرب لگانے کا انتقام۔
اگر بھٹو صاحب کی زندگی کے ان تمام پہلوؤں اور ادوار کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بہت واضح ہے کہ بھٹو جن سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر ایک انقلابی تحریک کا محور بنا، وہی اُس کی تاریخی میراث ہے۔ پھر مطیع ہو کر اپنی جان بچانے سے انکار اور فوجی آمر کے سامنے ڈٹ کر اسکی طاقت کے عروج پر اس کا استرداد بھٹو کو ممتاز کر دیتا ہے۔ موت کو اپنے طرف آتے ہوئے دیکھ کر اسکی آنکھوں میںآنکھیں ڈالنا اور پھر بھی جھکنے سے انکار کرنا کسی اچانک یا ناگزیر موت سے قطعاً مختلف فعل ہوتا ہے۔
لیکن اس نظام کی حدود میں بھٹو کا اقتدار میں آنا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جس نظام کے ڈھانچوں میں کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے وہ نظام ہی حکومت کو چلاتا ہے۔ ایسی حکومت نظام کے تابع ہوتی ہے، اسے بدل نہیں سکتی۔ پھانسی کی کال کوٹھری میں اپنی تحریر’’ اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں بھٹو نے سب سے پہلے خود اپنی اس غلطی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا: ’’میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلاہوں کہ میں نے دومتضاد مفادات کے حامل طبقات میں آبرو مندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، مگر موجودہ فوجی بغاوت ثابت کرتی ہے کہ متضاد طبقات میں مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ اس ملک میں ایک طبقاتی کشمکش ناگزیر ہے، جس میں کوئی ایک طبقہ ہی فتح یاب ہوگا۔ ‘‘
جن اقدامات کو بھٹو نے خود غلطی تسلیم کیا، آج انہیں ہی ابھار کر بھٹو کے کردار کو مسخ کیا جاتا ہے۔ اس کی اسلامی سربراہی کانفرنس، ایٹمی پروگرام، آئین و جمہوریت وغیرہ پاکستان کے سرمایہ دارانہ حکمران طبقات اور اس ریاست کے تقاضوں کے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ اس انقلاب کی میراث قطعاً نہیں جس نے بھٹو کو تاریخ کے اوراق پر ثبت کیا تھا۔ لیکن یہ لیڈر اس لیے ان اقدامات کو بھٹو کی میراث بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ اس مالیاتی سیاست و اقتدار کے کھیل میں اپنی وارداتوں کا جواز ڈھونڈ سکیں۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے تمام معیشت اور صنعت کو ضبط کرکے نیشنلائز کرنے کا منشور دیا تھا۔ اس نے منڈی کی جگہ سوشلسٹ معیشت کے قیام اور ذرائع پیداوار کی ملکیت کے رشتوں کو یکسر بدل کر اشتراکی ملکیت کی بات کی تھی۔ لیکن صرف یہی چند نکات آج کی پیپلز پارٹی قیادت کی سیاست اور طریقہ واردات کے لیے موت کا پیام بن جاتے ہیں۔ اس پیسے کی جمہوریت کے نام پر اس قیادت نے پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام کا قتل کیا۔ پیپلز پارٹی کے سامراج دشمن کردار کو گماشتگی کی سیاست میں بدل دیا۔ نظام کو ختم کرنے اور بدلنے کے منشور کو اس نظام کی غلامی کی تحریر میں بدل دیا۔ نیشنلائزیشن کو مسترد کرکے نجکاری اور ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ کی مزدور دشمن پالیسی اپنا لی۔ پھر بھی بھٹو کا نام لے کر، اس کی میراث سے جنم لینے والی سیاسی روایت پر براجمان ہو کر، اپنی دولت اور اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ بھٹو کے بدترین دشمنوں کو بھی بھٹو پر کرپشن کا الزام لگانے کی کبھی جرات نہ ہوئی۔ بھٹو نے اپنی سیاست کے دوران اپنا کوئی مکان نہیں بنایا۔ وہ اپنے قدیم آبائی گھر کی آج سے کہیں بہتر فن تعمیر سے خوش تھا۔ اس کو کبھی کوئی کرپٹ نودولتیا کوئی محل ’گفٹ‘ کرنے کی جرات نہ کرسکا! لیکن بھٹو کی تصویر کو استعمال کرنے والوں نے بھٹو کا کیا حشر کیا ہے! اُس نے کہا تھا کہ ’’میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے ایک آمر کے ہاتھوں مرنا چاہوں گا۔ ‘‘ یہ اب بھٹو کو تاریخ کے ہاتھوں اپنے کرتوتوں کے ذریعے مارنا چاہتے ہیں۔ لیکن جس سوشلسٹ میراث اور عوام کی انقلابی امنگ کو وہ مٹا دینا چاہتے ہیں وہ ان سے بھی انتقام لے سکتی ہے۔ تاریخ کا مکافات عمل محنت کش عوام سے غداری اور اُن کی تضحیک کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ اس مرتبہ جب محنت کش بیدار ہو کر تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو دولت کی اس سیاست کو بھسم کردیں گے۔ اس آگ سے جو پارٹی ابھرے گی اسے انقلابی سرکشی کو حتمی فتح کی منزل تک لے جانا ہوگا۔