تحریر: ذیشان شہزاد
نسلِ انسان کی تاریخ میں کچھ افراد اور شخصیات کا سماج پر اثر حیرت انگیز حد تک نمایاں ہوتا ہے، جن کے نظریات اور عمل نہ صرف اس وقت کے سماج کی بے چینی اور تضادات کا اظہار ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات نسلِ انسانی کی بقا اور بڑھوتری کے لئے بھی ناگزیر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد اور شخصیات اور ان کے انقلابی نظریات جہاں انسانی سماج کی تبدیلی کے عمل کے لئے لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں، وہیں اُن کی عدم موجودگی کے باعث سماجی تبدیلی کا عمل پر پیچ اور متشد د راستوں پر گامزن ہوجاتا ہے اور پھر بالاآخر اس کا نتیجہ نسلِ انسانی کو کئی نسلوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر 1917ء کے روس کے بالشویک انقلاب کے بعد، جس کی قیادت عظیم انقلابی لیڈر لینن اور ٹراٹسکی کر رہے تھے، 1918ء میں پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد جرمنی میں بننے والی انقلابی صورتحال میں انقلابی رہنماؤں روزا لکسمبرگ اور کارل لائبنیخت کے قتل کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی۔ سٹالن کی قیادت میں زوال پذیر تیسری انٹرنیشنل کے لئے تحریک کو مصالحت پسندی اور تذبذب کے راستوں پر ڈالنا آسان ہو گیا اور نازی فاشزم کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ پھر اس کے بعد 1939-45ء تک دنیا کو ایک اورعالمی جنگ کا سامنا کرنا پڑا، جس میں کم و بیش 6 کروڑ انسان لقمہ اجل بن گئے۔ برصغیر کی جدید تاریخ میں برطانوی استعمار سے آزادی کی جدوجہد کی راہ میں ایسا ایک ہی انقلابی کردار بھگت سنگھ کا تھا۔
بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907ء کو لائل پور ( فیصل آباد) کی تحصیل جڑانوالہ کے گاؤں 105-GBمیں کشن سنگھ اور وِدیاتی کے ہاں پیدا ہوا۔ بھگت سنگھ کو برصغیر کی آزادی کے لئے جدوجہد خاندانی طور پر وراثت میں ملی، کیونکہ اس کے والد اور چچا کا تعلق ایک قوم پرست اور حریت پسند پارٹی (غدرپارٹی) سے تھا۔ مگر اُس پر سب سے زیادہ اثر 1919ء کے جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا ہوا، جہاں معصوم لوگ بیساکھی کا میلہ منانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے، مگر جنرل ڈائر نے پنجاب کے گورنر اوڈوائر کی سرپرستی میں ہزاروں معصوم اور نہتے انسانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس وقت بھگت سنگھ کی عمر12 سال تھی۔ مگر یہ وہ زمانہ تھا جب پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جہاں جرمنی اور آسٹریا ہنگری وغیرہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا وہیں برطانیہ اور امریکہ فاتحین کے طور پر سامنے آئے تھے، مگر ان سب سے بڑھ کر دنیا میں ایک نئی طاقت کا ظہورہوچکا تھا جس کانام تھا یونین آف سو ویت سوشلسٹ ریپبلکس (USSR)، جہاں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ کر ایک مزدور ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی، جو عالمی سطح پر مزدور تحریک اور انقلابی بغاوتوں کے لئے روشنی کا مینارہ بن چکی تھی۔ اُسی انقلاب نے دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں کو بھی شکتی دی، جن میں سے برصغیر کی قومی آزادی کی تحریک بھی شامل تھی۔
برصغیر کی قومی آزادی کی تحریک میں جہاں مختلف سیاسی پارٹیاں اور رجحانات مختلف سیاسی نظریات کے ساتھ عمل پیرا تھے، جیسا کہ انڈین نیشنل کانگریس یا آل انڈیا مسلم لیگ جیسی بورژوا پارٹیاں، وہیں بہت بڑی تعداد میں لوگ انقلابی نظریات کے تحت مختلف انقلابی گروہوں اور تنظیموں میں مجتمع ہورہے تھے، جن میں سے ایک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی تھی جس کا جنم 1920ء میں تیسری انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس کے موقع پر ہواتھا۔ اس کا باقاعدہ اظہار 1925ء میں کانپور اجلاس کے موقع پر کیا گیا۔ اسی عرصے میں 1926ء میں نوجوانوں میں کا م کرنے کے لئے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے نوجوان بھارت سبھا کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) کی بنیاد رکھی، جس کا منشور برصغیر کی قومی آزادی کی جدوجہد کو سرمایہ داری کے خلا ف جدوجہد سے جوڑنا تھا، تاکہ قومی غلامی کے ساتھ ساتھ طبقاتی استحصال کا خاتمہ کیا جائے اور غربت، پسماندگی، ذلت اور محرومیوں کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔ اسی لئے بھگت سنگھ نے’ انقلابی پروگرام کاخاکہ ‘ میں لکھا، ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ محنت کشوں اور کسانوں کو جدوجہد میں سرگرم کریں تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کو کسی جذباتی نعرے بازی کے ذریعے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ وہ آپ سے واضح طور پر پوچھیں گے کہ آپ کا انقلاب ان کو کیا دے گا؟ جس کے لئے آپ ان سے قربانی کا تقاضا کر رہے ہیں ؟ اگر لار ڈریڈنگ کی جگہ پر شوتم داس ٹھاکر حکومت کا نمائندہ بن جائے تو اس سے لوگوں کو کیا فرق پڑے گا؟ اگر لارڈ اِرون کی جگہ سر تیج بہادر سا پرو آجائے تو کسان کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ قومی جذبات پر تکیہ کرنا ایک فریب ہے۔‘‘
1928ء میں سائمن کمیشن کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے لالہ لجپت رائے کو انگریزوں نے لاٹھی چارج کرتے ہوئے جب بے رحمی سے قتل کیا تو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے اس کا بدلہ لینے کی ٹھان لی اور بدلے میں ایک انگریز افسر جان ساؤنڈرز کو17دسمبر 1928ء کو قتل کردیا۔ اس کے اگلے دن HSRA نے لاہور کی گلیوں میں اِن الفاظ پر مشتمل پوسٹر آویزاں کئے: ’’جے- پی ساؤنڈر کا خاتمہ لالہ لجپت رائے کی موت کا بدلہ ہے۔ اس انسان کے مرنے کا مطلب ہندوستان میں برطانوی سامراج کے ایک نمائندے کا خاتمہ ہے۔ انسانی خون بہانے پر ہم افسردہ ہیں مگر انقلاب کی راہ میں ایسے کچھ افراد کی بلی چڑھانا ناگزیر ہوتا ہے۔‘‘
اس واقعہ کے چار ماہ بعد 8 اپریل1929ء کو HSRA کے نوجوان ساتھیوں نے اسمبلی میں پیش ہونے والے مزدور دشمن قوانین کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے یہ طے ہوا کہ بھگت سنگھ اور بٹکیشور دَت اسمبلی میں جائیں گے اور وہاں پڑے خالی بنچوں پر وہ بم پھینکیں گے جو انہوں نے خود تیار کئے تھے اور یہ خاص طور پر اس طرح سے تیار کئے گئے تھے کہ اس سے کسی بھی انسان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ منصوبہ تھا کہ اس کے بعد وہ گرفتاری بھی خود ہی دے دیں گے تاکہ مقدمے کے دوران جب ان سے سوالات کئے جائیں تو اخبار ان کے نظریات کو چھاپنے پر مجبور ہوجائیں۔ گرفتاری کے بعد جیل میں امتیازی سلوک کے خلاف بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے 63 دن کی بھوک ہڑتال بھی کی۔ انگریز سامراج اپنی تمام تر طاقت اور جبرکے باوجود ان کی بھوک ہڑتال کو توڑنے میں ناکام رہا اور بالاآخر ان کے مطالبات مان کر ہی بھوک ہڑتال کا خاتمہ ممکن ہوسکا۔ مگر بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے انقلابی نظریات کا اثر اتنا دیرپا تھا کہ انگریزوں نے ہر حال میں ان سے نجات حاصل کرنے کی ٹھان لی اور ایک خصوصی عدالتی کاروائی کے ذریعے ان میں سے تین لوگوں، بھگت سنگھ، راج گرواور سُکھ دیو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس فیصلے کے مطابق 24 مارچ 1931ء کو ان کو لاہور سنٹرل جیل میں پھانسی دی جانی تھی، مگر ہڑبڑاہٹ میں ان تینوں انقلابیوں کو 23 مارچ 1931ء کی شام 07:30 بجے ہی پھانسی پر چڑھادیا گیا۔
بھگت سنگھ کے 23 سال کی عمر میں پھانسی پر جھول جانے کے 16 سال بعد ہندوستان کو برطانوی سامراج سے مذہبی فرقہ واریت میں لپٹی ’آزادی‘ تو مل گئی لیکن یہ وہ آزادی نہیں تھی جس کے لئے بھگت سنگھ، سُکھ دیو، راج گرو، رام پرسادبسمل، اشفاق اللہ خان اور دیگر ان گنت انقلابیوں نے اپنی زندگیاں قربان کی تھیں۔ اُن کا مقصد تو اس طبقاتی استحصال اور معاشی ناہمواری کا خاتمہ اور انسانی ضروریات کے تحت منصوبہ بند معیشت پر مبنی ایک سوشلسٹ سماج کی تشکیل تھا، جس کے لئے آج تلک برصغیر کا سماج تڑپ رہا ہے۔ آج بھی برصغیر کی تقریباً پونے دو ارب آبادی جس محرومی، ذلت، پسماندگی اور غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے، اس سے نجات کے لئے بھگت سنگھ کے انقلابی نظریات مشعل راہ ہیں۔
اپنی جدوجہد کے دوران بھگت سنگھ نے کئی نتائج اخذ کئے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ رہا تھا کہ قومی و طبقاتی آزادی کا راستہ انفرادی دہشت گردی نہیں بلکہ محنت کش طبقے کو منظم و متحرک کرنے والی انقلابی پارٹی کی تعمیر ہے۔ اکتوبر1929ء میں پنجاب سٹوڈنٹس کانفرنس کے لئے بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں نے جو پیغام بھیجا اس سے ان کی مسلسل نظریاتی بڑھوتری کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے لکھا: ’’آج ہم نوجوانوں کو بندوق اور بم اٹھانے کا نہیں کہہ سکتے۔ آنے والے لاہور کے اجلاس میں پارٹی کانگریس ملک کی آزادی کے لئے سخت جدوجہد کی کال دے گی۔ قومی تاریخ کے اس مشکل وقت میں نوجوانوں پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اُنہیں صنعتی علاقوں کی کچی آبادیوں میں رہنے والے لاکھوں مزدوروں اور تباہ حال جھونپڑیوں میں رہنے والے کسانوں کو بیدار کرناہوگا۔‘‘ تاریخ نے اسی عظیم فریضے کا بوجھ آج کے انقلابی نوجوانوں کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔