تحریر: لال خان
اس سال 5 مئی کو کارل مارکس کی 200ویں سالگرہ ہے۔ یہ سالگرہ ایک ایسے وقت میں منائی جارہی ہے جب پوری دنیا میں ہونے والے واقعات اس کی پیش گوئیوں اور تناظر کو درست ثابت کر رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے نہ ختم ہونے والے بحران نے ایک دفعہ پھر انسانیت کی آزادی کی جدوجہد کے لیے مارکس کے تجزئیے اور تناظر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ مارکس کی 200ویں سالگرہ کے موقع پر اس کی زندگی اور نظریات پر لکھے جانے والے مضامین اور میڈیا پر اس حوالے سے ہونے والے مباحث پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ بلکہ مارکس بارے اتنی بحث شاید تب بھی نہیں ہوئی ہو گی جب ’سوشلسٹ بلاک‘ قائم تھا۔
سرمایہ داری کے انیسویں صدی کے دیگر ناقدین کے برعکس مارکس ایک انقلابی تھا جس نے جبر و استحصال سے پاک غیر طبقاتی سماج کی جدوجہد کو سائنسی نظریات کی بنیادیں فراہم کیں۔ سرمایہ داری پر مارکس کی تنقید اس کی اصلاح کے لئے نہیں بلکہ اسے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تھی۔ اس نے اپنی زندگی کو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا جس کا واضح پروگرام اُس نے مشہورِ زمانہ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میں پیش کیا۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے علاوہ مارکس کی وفات کے بعد برپا ہونے والے سوشلسٹ کردار کے حامل انقلابات کلاسیکی مارکسی سطور پر استوار نہیں تھے۔ اگرچہ انقلابِ چین جیسے دیوہیکل تاریخی واقعات پر کسی نہ کسی شکل میں مارکس کے نظریات کا گہرا اثر موجود تھا۔ اسی لئے یہ اس کے نام سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط تک پوری دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی اپنے آپ کو مارکسسٹ، سوشلسٹ یا کمیونسٹ کہلانے والی حکومتوں کے تحت زندگی گزار رہی تھی۔ ان انقلابات میں شامل بہت سے رہنما اور کارکنان سنجیدگی سے خود کو مارکسسٹ سمجھتے تھے۔ لیکن مخصوص معروضی حالات اور نظریاتی کمزوریوں کے پیش نظر ان انقلابات کی مسخ شدگی کے نتائج کے لیے مارکس کو مورد الزام ٹھہرانا بددیانتی ہوگی۔
مارکس نے مادیت پسندی فلسفی فیورباخ پر اپنے مشہور گیارہویں تھسیس میں لکھا: ’’فلسفیوں نے اب تک مختلف طریقوں سے دنیا کی محض تشریح کی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے۔ ‘‘ یہ وہ نکتہ ہے جو مارکس کو ماضی کے تمام فلسفیوں سے ممتاز کر دیتا ہے۔ مارکس کے نزدیک فلسفہ غیرمتعلقہ یا غیر ضروری نہیں ہے بلکہ فلسفیانہ مسائل زندگی کے مادی حالات سے جنم لیتے ہیں اور اس کا مقصد بھی ایک بہتر سماج کا قیام ہونا چاہئے۔ یوں مارکس نے فلسفے کو عملی جہت عطا کی اور اُس کے نظریات اس دنیا میں سرمایہ داری کی وجہ سے جنم لینے والی غربت، محرومی، بربادی اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے کل بھی اور آج بھی مشعل راہ ہیں۔
مارکس 14 مارچ 1883ء کو چونسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اپنی زندگی کے دوران وہ وسیع تر منظرنامے سے غائب اور بڑی حد تک غیرمعروف تھا۔ اس کے جنازے میں صرف گیارہ لوگ شریک تھے۔ لیکن جو کچھ اُس نے اپنی انتھک زندگی کے دوران لکھا اُسے حقیقی معنوں میں انسانیت کا اثاثہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے زندگی بھر کے دوست اور ساتھی فریڈرک اینگلز کے علاوہ بہت کم لوگوں کو یہ اندازہ تھا کہ مستقبل میں اس کے نظریات کتنی اہمیت اختیار کرجائیں گے۔ اس جنازے میں اینگلز نے مارکس کے نظریات اور جدوجہد کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا، ’’مارکس نے انسانی تاریخ کے ارتقا کا قانون دریافت کیا۔ اُس نے وہ سادہ سی حقیقت دریافت کی جو ضرورت سے زیادہ نظریاتی مغز ماری کے نیچے دب چکی تھی۔ اُس نے دریافت کیا کہ سیاسیات، سائنس، مذہب اور فن کی جستجو سے پہلے انسان کو کھانے، پینے، سر چھپانے اور بدن ڈھکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے زندگی کی مادی ضروریات کی پیداوار اور اس کے نتیجے میں کسی عہد کے دوران حاصل کردہ معاشی ترقی کی سطح ہی وہ بنیاد ہے جس پر متعلقہ سماج کے ریاستی ادارے، قانونی تصورات، فن اور یہاں تک کہ مذہبی خیالات ارتقا پذیر ہوتے ہیں۔ چنانچہ اسی بنیاد پر ان چیزوں کی وضاحت ہونی چاہیے، نہ کہ اس کے برعکس، جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے… مارکس سب سے پہلے ایک انقلابی تھا۔ زندگی میں اس کا حقیقی مقصد کسی نہ کسی طریقے سے سرمایہ دارانہ سماج اور اس کے تخلیق کردہ ریاستی اداروں کو اکھاڑ پھینکنا اور محنت کش طبقے کی آزادی میں اپنا حصہ ڈالنا تھا۔ جدوجہد اس کابنیادی وصف تھا۔ بہت کم لوگ اس کی طرح جوش و جذبے، مستقل مزاجی اور کامیابی سے لڑے ہوں گے۔ اس کی تحریریں، پیرس، برسلز اور لندن میں اس کا تنظیمی کام اور سب سے بڑھ کر محنت کشوں کی بین الاقوامی انجمن کی تشکیل ایسی کامیابیاں تھیں جن پر اس کے معمار کو بھی فخر ہوگا۔ نتیجتاً مارکس کو وقت کے حکمرانوں کی بدترین نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ جمہوری اور آمرانہ حکومتیں اسے اپنے ملکوں سے جلاوطن کرتی رہیں۔ حکمران طبقات، چاہے قدامت پسند ہوں یا مہا جمہوری، اُس پر بہتان تراشی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن اس سب کو وہ ایسے جھٹک دیتا تھا گویا مکڑی کا جالا ہو، نظر انداز کر دیتا تھا اور صرف انتہائی ضرورت کے تحت ہی جواب دیتا تھا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج اُس کے بہت سے مخالفین ہوں گے لیکن کوئی بھی ذاتی دشمن نہیں ہو گا۔ اس کا نام اور اس کا کام زمانوں تک یاد رکھا جائے گا۔ ‘‘
تاہم اگر روس میں 1917ء کا بالشویک انقلاب برپا نہ ہوتا تو شاید مارکس گمنام ہی رہتا۔ دنیا کو جھنجوڑ دینے والے انقلابِ روس نے مارکسزم کو ایک عالمی تعارف اور اہمیت عطا کر دی۔ 1917ء کے بعد کمیونزم کوئی یوٹوپیا نہیں رہا تھا۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کے انہدام اور دیوار برلن گرنے کے بعد بھی عالمی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے مارکسی نظریات کے اثرو نفوذ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1999ء میں بی بی سی کے ایک سروے میں مارکس کو پچھلے ایک ہزار سال کا ’عظیم ترین فلسفی‘ قرار دیا گیا۔ پھر 2013ء میں بھی بی بی سی کے ہی ایک سروے میں مارکس کو ’دنیا کا سب سے بااثر سکالر‘ قرار دیا گیا۔
مارکس مئی 1818ء میں جرمنی کے ایک چھوٹے شہر ٹریئر میں پیدا ہوا۔ اس کا والد اسے قانون دان بنانا چاہتا تھا لیکن اس نے فلسفے کا انتخاب کیا۔ اس نے فریڈرک ویلیم یونیورسٹی برلن سے تعلیم حاصل کی جہاں ایک وقت میں مشہور فلسفی ہیگل پڑھاتا تھا۔ اس نے دانشوروں کے ایک گروہ ’’نوجوان ہیگلیوں‘‘ میں شمولیت کی لیکن جلدہی ہیگل کے فلسفے کے اہم نکات سے اختلاف کرنا شروع کر دیا۔ مارکس اور اینگلز نے ’نوجوان ہیگلیوں‘ میں موجود اپنے سابقہ ساتھیوں کی جامد اور فرقہ پرست سیاست کے خلاف ایک کتاب ’مقدس خاندان‘ لکھی جس میں مادی حقائق سے کٹ کر صرف دانشورانہ مباحث تک محدود رہنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مارکس کو جینی سے بہت محبت تھی۔ وہ مارکس سے چار سال بڑی تھی اور بقول مارکس ’’شہر کی سب سے خوبصورت دوشیزہ تھی۔ ‘‘ مارکس نے اس کے لیے محبت بھرے اشعار بھی لکھے۔ 25 سال کی عمر میں اُس نے جینی سے شادی کر لی۔ جینی نے پوری عمر مارکس کا ساتھ نبھایا اور انتہائی کٹھن حالات میں بھی ڈٹی رہی۔ نجی زندگی میں مارکس میانہ رو اور خوش مزاج انسان تھا۔ وہ اکثر اپنی تین بیٹیوں کے لیے کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ سستے سیگار اور ریڈ وائن پیتا تھا۔ ایک حکومتی جاسوس، جس نے 1852ء میں مارکس کے گھر کا چکر لگایا، یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ کتنا شریف اور نفیس شخص تھا۔
مارکس نہ صرف ایک انتھک لکھاری بلکہ انتھک قاری بھی تھا۔ وہ ساری رات تمباکو کے دھویں اور کتابوں کے اوراق میں ڈوبا رہتا تھا۔ دنیا میں بہت کم انسان اتنے وسیع مطالعے کے حامل ہوں گے۔ مارکس اور اینگلز نے بہت سے موضوعات پر اتنی تفصیل سے لکھا ہے کہ اب تک ان تحریروں کی 54جلدیں بن چکی ہیں۔ جہاں تک نظریاتی اصولوں کا تعلق تھا تو مارکس کا رویہ غیرمصالحانہ تھا۔ وہ ایک دلنشین مقرر تھا لیکن لکنت کی وجہ سے روانی سے بات نہیں کرسکتا تھا اور اس وجہ سے شاذ و نادر ہی عوامی اجتماعات سے خطاب کرتا تھا۔ نظریات پر مصالحت نہ کرنے کی وجہ سے اس کے بہت سے پرانے دوست بھی مخالف بنتے گئے۔ اس کے باوجود اس کی عزت کی جاتی تھی۔ جب مارکس کی عمر صرف اٹھائیس سال تھی تو ایک دوست نے اسے ’’عوام کے فطری رہنما‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ وہ ایک محتاط ایڈیٹر تھا اور پہلی انٹرنیشنل (محنت کشوں کی پہلی عالمی تنظیم) کا روح رواں تھا۔
چند کتابوں کی پیشگی رقوم کے علاوہ مارکس کا واحد ذریعہ معاش صحافت تھا۔ وہ 1852ء سے 1862ء تک دنیا کے اُس وقت کے سب سے بڑے اخبار ’نیویارک ڈیلی ٹریبون‘ میں کالم نگار تھا۔ جب صحافتی کام ختم ہوا تو اسے سخت مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔ ان برے حالات میں اینگلز نے معاشی حوالے سے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ مارکس نے اپنی زیادہ تر زندگی بہت غربت میں گزاری۔ یوں ’’سرمایہ‘‘ کے مصنف کے پاس ہمیشہ پیسے کی قلت رہی۔ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود مارکس نے ایک فاقہ مست انقلابی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ وہ بخوشی ایک خستہ حال گھر میں رہتا تھا۔ اگرچہ اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا۔ اس کے تین بچے غربت کی وجہ سے کم عمری میں ہی مر گئے۔ چوتھا بچہ برے حالات زندگی کی وجہ سے مردہ پیدا ہوا۔
اپنی انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں اُسے پوری عمر مسلسل جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1843ء میں اسے ایک اخبار ’Rheinische Zeitung‘ میں ’تخریبی‘ تحریروں کی وجہ سے کولون سے نکال دیا گیا۔ مارکس یہاں سے پیرس چلا گیا جہاں فریڈرک اینگلز کے ساتھ اس کی سیاسی اور ذاتی رفاقت پروان چڑھی۔ 1845ء میں مارکس کو فرانس سے نکال دیا گیا جہاں سے اُسے برسلز جانا پڑا۔ 1848ء میں پورے یورپ میں انقلابات پھوٹ رہے تھے۔ مارکس اور اینگلز نے انہی غیر معمولی حالات میں’’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ تحریر کیا۔ یہ ایک ایک ایسی تحریر ہے جس نے وقت اور زمانے کو مات دی اور آج بھی سرمایہ دارانہ نظام سماج کا سب سے جدید تجزیہ ہے۔ اِس سال لندن میں 26 اَپریل کوکتاب کے چھپنے والے نئے ایڈیشن کے تعارف میں یونان کے بائیں بازو کے سابقہ وزیرخزانہ یانس ویروفاکس نے لکھا ہے کہ ’’ایک منشور کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ وہ شاعری کی طرح ہمارے دلوں کو چُھو لے جبکہ دماغوں کو حیران کن نظریات اور تصویروں سے بھر دے۔ اسے ہمارے اردگرد حیران کن اور پریشان کن تبدیلیوں کی وضاحت کرنی چاہیے اور موجودہ حالات میں پوشیدہ امکانات کو واضح کرنا چاہیے۔ آخر میں اس کے پاس بیتھوون کی سمفونی کی سی طاقت ہونی چاہیے جو ہمیں ایک ایسے مستقبل کا عامل بنا دے جہاں عوام کی محکومی کا خاتمہ ہو اور انسانیت حقیقی آزادی حاصل کرے۔‘‘
1848ء کے طوفانی واقعات کے دوران جب تحریک برسلز پہنچی تو مارکس پر باغیوں کو مسلح کرنے کا الزام لگا کر بیلجیم سے نکال دیا گیا۔ وہ واپس پیرس آگیا۔ 1848ء کے انقلابات کی شکست پر مارکس نے لکھا کہ ’’ تاریخ خود کو پہلے ایک المیے اور پھر ایک تماشے کے طور پر دہراتی ہے۔ ‘‘ المیے سے مراد نپولین کے دور میں انقلاب فرانس کی حالت اور تماشے سے مراد دسمبر 1848ء میں نپولین کے بھتیجے لوئی نپولین، جو اوسط صلاحیتوں کا مالک تھا، کا فرانس کے صدر کے طور پر انتخاب تھا۔ 1849ء میں مارکس کو پھر جلاوطن ہونا پڑا۔ وہ اپنے خاندان کیساتھ لندن چلا گیا جہاں اس نے اپنی بقیہ زندگی گزاری۔ برٹش میوزیم میں آج بھی وہ کرسی محفوظ ہے جس پر صبح سے رات تک بیٹھ کر مارکس اپنی شہرہ آفاق تصنیف’سرمایہ‘ کے لیے مواد اکٹھا کرتا تھا۔
مارکس کی زندگی میں 1871ء کا پیرس کمیون واحد کامیاب انقلاب تھا جس میں پیرس کے محنت کشوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے انسانی تاریخ کی پہلی مزدور ریاست قائم کی۔ لیکن صرف ستر دن بعد کمیون کو خون میں ڈبویا گیا۔ فرانس اور جرمنی کے حکمران، جو صدیوں تک لڑتے رہے تھے، اچانک باہمی دشمنیاں ختم کرکے اِس انقلاب کو کچلنے کے لیے متحد ہوگئے۔ اس سے عالمی سطح پر مزدور تحریکیں اور انقلابی رجحانات پسپائی کا شکار ہوئے۔ ایک دفعہ پھر مارکس کو کٹھن معروضی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن نسل انسان کے سوشلسٹ مستقبل پر اُس کا یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ اُس نے پیرس کمیون کا انتہائی گہرا تجزیہ کیا اور اس کی ناکامی سے وہ نتائج اخذ کئے جو بالشویکوں کے لئے مشعلِ راہ بنے اور آج تک انقلابیوں کے لئے بیش قیمت اسباق سمیٹے ہوئے ہیں۔ اپنی موت تک مارکس انقلابی سوشلزم اور کمیونزم کی فتح کے بارے میں پرامید رہا۔
مارکسزم کے بڑے ناقدین میں عالمی سرمایہ داری کا سب سے دبنگ ترجمان ’دی اکانومسٹ‘ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے صف اول میں رہا ہے۔ مارکس خود بھی تمام عمر ’اکانومسٹ‘کا باقاعدہ قاری رہا کیونکہ اس کے نزدیک کسی نظام کا تجزیہ کرنے کے لئے اُس نظام کے اپنے ماہرین اور پالیسی سازوں کی آرا جاننا بہت اہم تھا۔ مارکس کے اِس یوم پیدائش پر بھی اس جریدے نے ایک طویل مضمون شائع کیا ہے۔ یہ مضمون مارکس پر زہریلی تنقید اور سفاک ذاتی حملوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس مضمون کو جریدے کے ایڈیٹروں نے’’دنیا بھر کے حکمرانوں مارکس کو پڑھو!‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے جو مارکس کے تاریخ ساز نعرے ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ!‘‘ سے ماخوذ ہے۔ مضمون کے آخر میں اکانومسٹ مادی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے،’’ آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے خلاف ردعمل دنیا بھر میں تیزی سے ابھر رہا ہے… آج سرمایہ داری کے لبرل اصلاح پسند اور ماہرین اپنے پرکھوں کی نسبت بونے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ اُن سے کہیں کم علم ہیں اور کم تر مہارت کے حامل ہیں۔ اس لئے کوئی ٹھوس حل نکالنے میں ناکام ہیں۔ اِن کو مارکس کے 200 ویں یوم پیدائش پر اس عظیم شخص سے شناسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اس نظام کے ایسے سنجیدہ اور خطرناک نقائص کو سمجھا جائے جن کی مارکس نے شاندار انداز میں شناخت اور وضاحت کی تھی۔ اِن ماہرین کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر سرمایہ داری کی اِن خرابیوں کو دور نہیں کریں گے تو ایک مکمل تباہی ا س نظام کو برباد کر دے گی۔ ‘‘ گویا اس مضمون میں بھی مارکس کے یہ سب سے عیار مخالفین اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر رہ نہیں سکے کہ مارکس سے بہتر اس نظامِ سرمایہ کا تجزیہ اور سائنسی تناظر کوئی دوسرا سماجی سائنسدان، ماہر معیشت یا فلسفی تخلیق نہیں کرسکا۔
جہاں کارل مارکس کی ساری باشعور زندگی کے دوران اس کے خلاف زہر اگلنے والوں کی بھر مار تھی وہاں اس کی موت کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد بھی یہ سلسلہ کبھی تھما نہیں ہے۔ مذہبی پیشواؤں سے لے کر اس نظام کے لبرل اور سیکولر رکھوالوں نے مارکسزم کے خلاف حملے جاری رکھے ہیں۔ مارکس آج بھی زمین کے اِن خداؤں اور دیوتاؤں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ انقلابِ روس کے قائد ولادیمیر لینن نے اپنے مضمون ’مارکسزم کے تین سرچشمے اور تین اجزائے ترکیبی‘ میں لکھا تھا : ’’مارکس کا نظریہ نا قابلِ شکست ہے کیونکہ یہ سچ ہے۔ یہ نظریہ مکمل اور مربوط ہے او ر انسانوں کو ایک ایسا باضابطہ عالمی نقطہ نظر مہیا کرتا ہے جو توہم پرستی، رجعت اور بورژوا جبر کے دفاع کی ہر شکل سے ناقابل مصالحت ہے۔ یہ نظریہ ان بہترین خیالات کا جا ئز وارث ہے جو بنی نوع انسان نے انیسویں صدی کے جرمن فلسفے، انگریزی سیاسی معاشیات اور فرانسیسی سوشلزم کی صورت میں تخلیق کئے تھے۔‘‘ صرف یہی نہیں بلکہ لینن تو یہاں تک کہا کرتا تھا کہ اگر دنیا کو سمجھنے اور بدلنے کا مارکسزم سے بہتر کوئی نظریہ ہمیں میسر آتا ہے تو ہم مارکسزم کو ترک کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ لیکن لینن کے تقریباً سو سال بعد بھی ایسا کوئی ’’نیا نظریہ‘‘ تخلیق نہیں ہوا ہے جو مارکسزم کو منسوخ کر سکے۔ مارکس کا بنیادی تجزیہ و تناظر آج بھی درست اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے مشعل راہ ہے۔ اقبال نے مارکس کو کیسے خوبصورت الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا:
وہ کلیمِ بے تجلی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب