[تحریر : قمرالزماں خاں]
اشتعال انگیزی کا حربہ طاقتور فریق کے لئے ہمیشہ فائدہ مند رہتا ہے۔اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے کمزور فریق کو اپنی مرضی کے میدان میں لڑنے پر مجبور کرکے نقصان پہنچانے کا سلسلہ ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اشتعال انگیزی پر مبنی نفرت آمیز فلم کے ذریعے رجعتی انتہا پسندوں نے پوری دنیا میں زیر بحث مسائل، بحرانوں اورموضوعات کا محور بدلنے کی کوشش کی ہے۔یہ بنیادی کامیابی تھی جو اس مذموم حرکت کرنے اور کرانے والوں کو مطلوب تھی۔ مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی ذات پر ہرزہ رسائی اور انکی توہین کرنے کی موجودہ کوشش سے بلاشبہ اسلام کے ایک ارب سے زائد پیروکاروں کی شدید دل آزاری ہوئی ہے، مگر وہ جو دیگر مذاہب اور نظریات کے ماننے والے ہیں ان میں بھی شائد کوئی ذہنی طور پر غیر متوازن فرد ہی ہوگا جس نے اس قابل نفرت حرکت پر خوشی یا اطمینان محسوس کیا ہو۔ یہ اشتعال انگیزی قابل مذمت ہے مگر سوال یہ ہے کہ اسکے مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ محض کچھ دیوانوں کی تفریح طبع کا ساماں ہے یا اس کے مقاصد اس سے بڑھ کر ہیں۔اگر کوئی تہذیبوں اور مذاہب کے تصاد م کی تھیوری کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے تو وہ بھی شعوری یا لا شعوری طور پر امریکی سامراجی پالیسی کی حمایت کر رہا ہے۔دنیا میں اس قسم کی تقسیم جذباتی سطح پر تو ہوسکتی ہے مگر زندگی کی تلخ حقیقتوں اور زمینی حقائق برعکس تقسیم کی نشاندہی کرتے پائے جاتے ہیں۔وال سٹریٹ کی لڑائی میں امریکیوں کا نعرہ کہ ’’مصریوں کی طرح لڑو‘‘ کی گونج تل ابیب میں بھی سنائی دی جب وہاں کے محنت کش سرمایہ داری کے خلاف مظاہرے کررہے تھے۔یہ واقعات مختلف قسم کی دنیا کی تشریح کرتے ہیں۔اس وقت دنیا پر رائج نظام معیشت اور اسکی سیاست کو تاریخی شکست کا سامنا ہے۔اس کے بین الاقوامی ادارے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں یا اپنی ساکھ کھوکر بے معنی ہوچکے ہیں،سرمایہ داری کے تحت ہونے والے معاہدے ردی کے کاغذوں سے زیادہ فرسودہ ہوچکے ہیں۔یورپی یونین تک اپنے بنانے سے لیکر اب تک اپنا ایک ہدف بھی پورا کئے بغیر‘بکھرنے کے قریب ہے۔2008ء کے معاشی بحران پر قابو نہیں پایا جاسکا،قریب ترین بہالی(Recovery) کا سنہ 2030ء بتایا جارہا ہے۔دنیا بھر کو اپنے نظام کی ترغیب دینے والے امریکہ کے اندر ’’وال سٹریٹ تحریک‘‘کئی مہینوں سے کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اور عام لوگوں کے خیالات اور نظریات بدلنے کا کام کررہی ہے۔یونان دیوالیہ ہوچکا ہے،اٹلی اور سپین کے دیوالیہ ہونے کے خوف سے جرمنی اور فرانس کے بنک اور سرمایہ کار لرز رہے اور ایسا ہونے پر جو منظر دنیا دیکھے گی وہ اس نظام کے انہدام کے عمل کو بہت زیادہ تیز کرنے کا باعث بنے گا۔اوبامہ کے پاس کوئی ایسی معاشی پالیسی نہیں جو اس کو نجات دہندہ ثابت کرسکے۔دوسری طرف افغانستان میں امریکہ کی مسلسل شکست اور حزیمت کا عمل کسی طور پر نہیں رک رہا۔معاشی اور عسکری شکست وریخت کے اس عالم میں ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر سامراج اور نظام کا تصور عام آدمی کے سامنے بھی بے نقاب ہوتا جارہا ہے۔نائن الیون کا قضیہ اب پرانا اور فرسودہ ہوکر مزید قتل و غارت گری کے اسباب پیدا کرنے سے قاصر ہوچکا ہے۔ اس کیفیت میں سامراجی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت اس با ت کی ہے کہ عالمی ایجنڈے کے موضوعات،نفسیاتی کیفیات اورمباحثوں کو بدل دیا جائے۔بالخصوص جب اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت اور القاعدہ کی کمر توڑ دینے کے دعووں کے باوجود امریکی مشکلات میں کسی طور کمی نہیں آرہی تو پھر ضرورت ایک ایسے ہی دشمن کی ہے جو نظر تو دشمن آئے اور دشمن شکل کی بنا پر حملے کی دعوت بھی دیتا ہو مگر حقیقی طور پر وہ ٹف ٹائم دینے والا دشمن نہ ہو۔جدید بنیاد پرستی کے جنم اور اسکے امریکہ کے کنڑول میں ہونے کی تاریخ ایک ہی ہے۔انڈونیشیا کی سراکت اسلام،مصر کی اخوان المسلمین اور وطن عزیز کی بیشتر شدت پسند مذہبی تنظیموں کو ہمیشہ سے سامراجی مفادات کے لئے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے،تبدیلی محض اتنی آئی ہے کہ ماضی میں بنیاد پرستی کو دوست کے طور پر استعمال میں لایا جاتا تھا اب اس کی ضرورت ایک دشمن کے بہروپ کی ہے۔یہ دشمنی جب کمزور پڑتی ہے تو اسکو مضبوط اور توانا بنانے کے لئے بھی خود امریکہ اور اسکے معاونین کو اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ایسی فضا جس میں عام لوگوں کو اس ’’ساختہ‘‘ دشمنی میں فریق بنا دیا جائے‘ کے لئے ایسی ہی جذباتی فضا بنا دینا ضروری ہے جس کا منظر اس وقت پوری دنیا میں توہین رسالت پر مبنی فلم کے رد عمل میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ایک طرف مسلمانوں کے انتہائی جذباتی پرتوں کو دیگر مذاہب کے بنیاد پرستوں کے ذریعے چھیڑ کر انکو اشتعال کی انتہاؤں پر پہنچا دیا گیا ہے تو دوسری طرف اپنے کنڑول میں بنیاد پرستی کے ذریعے ’’اسلام اور مسلمانوں‘‘ کے خونخوار اور قتل و غارت گری پر ہر وقت آمادہ چہرے کو نمایاں کرکے یورپ اور امریکہ کے عام لوگوں کو اپنی جارحیت کی حمائت کے لئے قائل کیا جاتا ہے۔
ٍٍ امریکہ کے حکمرانوں کی طرح اس شیطانی فلم نے پاکستان اور دیگر امریکی پٹھو ممالک اور انکے حکمرانوں کی بہت مدد کی ہے۔ان حکومتوں کی ناکامیوں اور عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہ دینے کے خلاف جو نفرت اور حقارت انکے خلاف پیدا ہوئی تھی اس غصے کو بہاؤ کے لئے ایک اورہی راستہ فراہم کردیا گیا ہے۔پاکستان میں چیف جسٹس کی بحالی کی ’’ تحریک‘‘ کی طرح پچھلے چار پانچ سالوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب عوام کے صبر کے پیمانے کو لبریز ہونے سے قبل ہی’’دیگر‘‘ راستوں پر گامزن کردیا گیا ہے۔حکمرانوں کے مختلف دھڑے چاہے جو بھی بیان بازی کررہے ہوں اور گرگٹ کی طرح مختلف رنگ بدلیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کو کچھ دنوں کے لئے زندگی کی حقیقتوں سے اعتقادات کے جذباتی معاملات کی طرف موڑدینے سے حکمرانوں کو ایک طرح سے عارضی ریلیف ملا ہے۔اس جذباتی کیفیت میں ان بنیاد پرست اور مذہبی تنظیموں کو بھی ایک نئی زندگی ملی ہے جن کو عوام انتخابات میں ہمیشہ مسترد کردیتے ہیں کیوں کہ لوگوں کی حقیقی زندگیوں کے تقاضوں اور ان جماعتوں کے ایجنڈوں میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔اس قسم کی مذہبی جماعتوں اور راہنماؤں کایہ مصنوعی ابھار امریکہ کے لئے ہمیشہ کے لئے فائدہ مند رہتا ہے کیوں کہ تمام تر احتجاج اور چیخ و پکار کے باوجود، آخری تجزیے میں یہ جماعتیں اور ان کے راہنما امریکہ کے بنیادی مفادات سے کسی طور بھی متصادم نہیں ہوتے۔یہ علماء و مشائخ تمام نعرے لگاتے ہیں مگر عام آدمی کو غریب سے غریب تر کردینے والے اس استعماری معاشی نظام کے خلاف ایک لفظ کہنے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔
مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والی یہ فلم کسی طور بھی نہ تو فلم ہے اور نہ ہی فلم کے میڈیم سے اسکوکوئی مطابقت حاصل ہے،گالیوں،تہمتوں،الزامات اور تاریخی واقعات کو مسخ کرتے ہوئے مصنف،فلمساز اور ڈائریکٹر نے اپنی ذہنی کمینگی کو فلمی شکل دے کردنیا بھر میں طے شدہ ہیجان پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہ مذموم حرکت ایک کھلا ہتھیار ہے جس کا ایک ہی مقصد تھا کہ مسلمانوں کو ہر حالت میں اشتعال میں لایا جائے اور یہ اشتعال انگیزی کامیاب ہوچکی ہے۔
لیبیا کے خونی ہنگاموں کے بعد پاکستان میں بھی انتہائی جذباتی مذہبی صورتحال کو جرائم پیشہ افراد،بلوہ گیروں،ڈاکووں، قاتلوں اور سماج کی پسماندہ پرتوں نے اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا۔لوٹ مار میں 12سے 15سال کے بچوں کی خاطر خواہ تعداد جن کو جہادی جھنڈوں سے لیس تربیت یافتہ کیڈر کنٹرول کررہا تھانے اپنے ناعاقبت اندیش بزرگوں سے بڑھ کر تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں حصہ لیا اور لوٹ مارسے زیادہ نقصان کیا۔ مسلمانوں کے خلاف جس تعصب کو ابھارا جاتا ہے موجودہ فسادات میں ہونے والے واقعات اس کی نفی کرنے کی بجائے تصدیق کرتے پائے جاتے ہیں حالانکہ پاکستان کی غالب اکثریت کو ٹیلی وژن سکرینوں پر ہی پتا چلا کہ بازاروں اور سڑکوں پر کچھ گروہ سارا دن کیا کرتے رہے۔ ناموس رسالت اور عشق رسول کے نام پر بنک ڈکیتیاں،لوٹ مار،بلوے اور تیس کے قریب معصوم لوگوں کی ہلاکتیں‘ جو پیغام یہاں سے دنیا بھر کو پہنچا پائی ہیں یہ یقیناًمنفی تاثر ہے جس کا فائدہ ان حکمران طبقا ت کو ہوگا جواس عالمی وحدت سے خائف تھے جو موجودہ عہد میں ایک طبقاتی تحریک کے ذریعے( اپنے ا نتہائی ابتدائی اظہار کے ساتھ) معرض وجود میں آرہی تھی۔ یہ تحریک امریکہ،لاطینی امریکہ،یورپ اور مڈل ایسٹ میں عروج و زوال کے دائروں میں آگے بڑھتی ہی چلی جارہی ہے،یہی عالمی وسائل پر قابض اور دنیا بھر کے لوگوں کو انسانی زندگی سے محروم رکھنے والے سرمایہ داروں کے لئے بہت بڑے خطرے کا باعث بن سکتی ہے جس کا ان کو واضع ادراک ہے۔انتشار، عدم استحکام اور نفرت کے پھیلاؤ سے اس قسم کی تحریکوں کو کاٹنے کا حربہ سامراج کے پرانے تجربات کا حصہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ جذبات اور اعتقادات کی اہمیت کے باوجود مادی مسائل کو ایک دن کے لئے بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔بھوک،افلاس،بیماری،جہالت اور بے چارگی کا حل اس کا تدارک ہے نہ کہ اس کو فراموش کردینا۔
پچھلے پنسٹھ سالوں سے پاکستان کی دوتہائی آبادی غربت اور پسماندگی کی چکی تلے پستی چلی آرہی ہے حالانکہ وہ اپنے اعتقادات اور مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔ہر نئی حکومت اور حکمرانی میں غربت اورافلاس میں ہونے والا اضافہ ثابت کرتا ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔حکمران طبقے کے پاس لوگوں کے حقیقی مسائل حل کرنے کے لئے نہ تو کوئی راہ ہے اور نہ ہی وہ اس کام کے لئے سنجیدہ ہیں۔موجودہ حکومت کے اقتدار کے پچھلے چار سال نان ایشوز کے سہارے ’’کامیابیوں‘‘ سے ہمکنار ہوئے ہیں جس میں ان کی بھرپور مدد آفیشل اور نان آفیشل اپوزیشن نے فراہم کی ہے۔حکومت کے پاس صرف ایک ہی سنجیدہ ٹاسک ہے وہ امریکی سامراج کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے احکامات اور پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے چلے جانا۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ خود امریکہ اپنے ہی نظام کی گرداب میں ڈوبتا جارہا ہے۔یہ سنجیدہ بحران ہے جو دراصل سرمایہ داری کے بطور نظام نحیف اور ناقابل اصلاح ہونے کا غماز ہے۔اشتعال انگیز فلمیں،مضامین،خاکے اور دیگر حربے اور انکے حقیقی مقاصد لمبے عرصے تک لوگوں سے مخفی نہیں رہیں گے اور ان کے پیچھے سامراجی مقاصد آشکار ہوکر رہیں گے۔نائن الیون طرز کے ڈرامے بھی روز روز نہیں کئے جاسکتے،جنگیں اور ممالک پر یلغار کافی منافع بخش عنصر ہے اگر وہاں پھنس کہ رہ جانے کا امکان نہ ہو ورنہ غیر معینہ مدت کی جنگیں وبال جان بن جاتی ہیں۔ ان کے اخراجات اور جانی نقصان کے ساتھ ساتھ سیاسی ساکھ داؤ پر لگ جانے سے حاصلات سے زیادہ نقصان ہوتا ہے جس کا بوجھ لڑکھڑاتی معیشتیں اور بکھرتا ہوا نظام اٹھانے سے قاصر ہیں۔امریکہ اور اسکے سامراجی نظام کے لئے اب کوئی روشن مستقبل نہیں ہے،انتشار اور عدم استحکام کے’’حربے‘‘ خود امریکہ کے لئے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔امریکہ اپنے مذموم نظام زراور اسکے مضمرات کی وجہ سے دنیا بھر کے اکثریتی انسانوں کے لئے نفرت کا استعارہ بن چکا ہے،یہ نفرت جس دن طبقاتی اور نظریاتی بنیادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تب اس سیارے پر حقیقی تبدیلی کے عمل کو دنیا کی کوئی طاقت کسی بھی حربے سے نہیں روک سکے گی۔
متعلقہ:
اسلام مخالف فلم: عیسائی اور اسلامی بنیاد پرستی کا بھائی چارہ