نجات

| تحریر: منشی پریم چند |

دکھی چمار دروازے پر جھاڑ رہا تھا اور اس کی بیوی جھُریا گھر کو لیپ رہی تھی۔ دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارِن نے کہا۔ ’’تو جا کر پنڈت بابا سے کہہ آؤ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں‘‘۔

دُکھی: ہاں جاتا ہوں لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں گے کس چیز پر؟

جُھریا: کہیں سے کوئی کھٹیا نہ مل جائے گی۔ ٹھکرانی سے مانگ لانا۔

دُکھی: تو توُ کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتی ہے کہ بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ بھلا ٹھکرانے والے مجھے کھٹیا دیں گے؟ جاکر ایک لوٹا پانی مانگو تو نہ ملے۔ بھلا کھٹیا کون دے گا۔ ہمارے اوپلے، ایندھن، بھوسا لکڑی تھوڑے ہی ہیں کہ جو چاہے اٹھا لے جائے اپنی کھٹولی دھو کر رکھ دے۔ گرمی کے تو دن ہیں۔ ان کے آتے آتے سوکھ جائے گی۔

جُھریا: ہماری کھٹولی پر وہ نہ بیٹھیں گے۔ دیکھتے نہیں کتنے دھرم سے رہتے ہیں۔

دُکھی نے کسی قدر مغموم لہجے میں کہا۔ ’’ہاں یہ بات تو ہے۔ مہوے کے پتے توڑ کر ایک پتل بنا لوں، تو ٹھیک ہو جائے۔ پتل میں بڑے آدمی کھاتے ہیں۔ وہ پاک ہے۔ لا تو لاٹھی، پتے توڑ لوں‘‘۔

جُھریا: پتّل میں بنا لوں گی۔ تم جاؤ لیکن ہاں انہیں سیدھا بھی جائے اور تھالی۔ چھوٹے بابا تھالی اٹھا کر پٹک دیں گے۔ وہ بہت جلد غصہ میں آجاتے ہیں۔ غصّہ میں پنڈتانی تک کو نہیں چھوڑتے۔ لڑکے کو ایسا پیٹا کہ آج تک ٹوٹا ہاتھ لیے پھرتا ہے۔ پتّل میں سیدھا بھی دے دینا مگر چھونا مت۔ بھوری گونڈکی لڑکی کو لے کر شاہ کی دکان سے چیزیں لے آنا۔ سیدھا بھرپور، سیر بھر آٹا، آدھ سیر چاول، پاؤ بھر دال، آدھ پاؤ گھی، نمک، ہلدی اور تیل میں ایک کنارے چار آنہ کے پیسے رکھ دینا۔ گونڈکی کی لڑکی نہ ملے تو پھرمہا جن کے ہاتھ پیر جوڑ کر لے آنا۔ تم کچھ نہ چھونا ورنہ گجب ہو جائے گا۔

ان باتوں کی تاکید کر کے دکھی نے لکڑی اٹھالی اور گھاس کا ایک بڑا سا گٹھا لے کر پنڈت جی سے عرض کرنے چلا۔

خالی ہاتھ بابا جی کی خدمت میں کس طرح جاتا۔ نذرانے کے لیے اس کے پاس گھاس کے سوا اور کیا تھا۔ اسے خالی دیکھ کر تو بابا جی دور ہی سے دھتکار دیتے۔

پنڈت گھاسی رام ایشور کے پرم بھگت تھے۔ نیند کھلتے ہی ایشوراپاسنا میں لگ جاتے، منہ ہاتھ دھو تے آٹھ بجے، تب اصلی پوجا شروع ہوتی۔ جس کا پہلا حصہ بھنگ کی تیاری تھی۔ اس کے بعد آدھ گھنٹہ تک چندن رگڑ تے۔ پھر آئینے کے سامنے ایک تنکے سے پیشانی پر تلک لگاتے۔ چندن کے متوازی خطوط کے درمیان لال روئی کا ٹیکہ ہوتا۔ پھر سینہ پر، دونوں بازوؤں پر چندن کے گول گول دائرے بناتے اور ٹھاکر جی کی مورتی نکال کر اسے نہلاتے۔ چندن لگاتے، پھول چڑھاتے، آرتی کرتے اور گھنٹی بجاتے۔ دس بجتے بجتے وہ پوجن سے اٹھتے اور بھنگ چھان کر باہر آتے۔ اس وقت دوچار دروازے پر آ جاتے۔

ایشور اپاسنا کا فی الفور پھل مل جاتا۔ یہی ان کی کھیتی تھی۔ آج وہ عبادت خانے سے نکلے تو دیکھا دکھی چمار گھاس کا ایک گٹھا لئے بیٹھا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی کھڑا ہوا ورنہایت ادب سے ڈنڈوت کر کے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ ایسا پُر جلال چہرہ دیکھ کراس کا دل عقیدت سے پرہو گیا۔ کتنی تقدس مآب صورت تھی۔ چھوٹاسا گول مول آدمی۔ چکنا سر، پھولے ہوئے رکسار، روحانی جلال سے منور آنکھیں اس پر روئی اور چندن نے دیوتاؤں کی تقدس عطا کر دی تھی۔ دکھی کو دیکھ کر شیریں لہجہ میں بولے۔ ’’آج کیسے چلا آیا رے دُکھیا؟‘‘ دُکھی نے سر جھکا کر کہا۔ ’’بٹیا کی سگائی کر رہا ہوں مہاراج!ساعت شگن بچارنا ہے۔ کب مرجی ہو گی؟‘‘ گھاسی۔ ’’آ ج تو مجھے چھٹی نہیں۔ شام تک آجاؤں گا‘‘۔

دکھی: نہیں مہاراج! جلدی مرجی ہو جائے۔ سب سامان ٹھیک کر کے آیا ہوں۔ یہ گھاس کہاں رکھ دوں؟

گھاسی: اس گائے کے سامنے ڈال دے۔ اور ذرا جھاڑو دے کر دروازہ تو صاف کر دے۔ یہ بیٹھک بھی کئی دن سے لیپی نہیں گئی۔ اسے بھی گوپر سے لیپ دے۔ تب تک میں بھوجن کر لوں۔ پھر ذرا آرام کر کے چلوں گا۔ ہاں یہ لکڑی بھی چیر دینا۔ کھلیان میں چار کھانچی بھوسہ پڑا ہے اسے بھی اٹھا لانا اور بھوسیلے میں رکھ دینا۔

دکھی فوراًحکم کی تعمیل کرنے لگا۔ دروازے پر جھاڑو لگائی۔ بیٹھک گور سے لیپا۔ اس وقت بارہ بج چکے تھے۔ پنڈت جی بھوجن کرنے چلے۔ دکھی نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اسے بھی زور کی بھوک لگی۔ لیکن وہاں کھانے کو دھرا ہی کیا تھا۔ گھر یہاں سے میل بھر تھا۔ وہاں کھانے چلا جائے تو پنڈت جی بگڑ جائیں۔ بے چارے نے بھوک دبائی اور لکڑی پھاڑنے لگا۔

لکڑی کی موٹی سی گرہ تھی جس پر کتنے ہی بھگتوں نے اپنا زور آزما لیا تھا۔ وہ اسی دم خم کے ساتھ لوہے سے لوہا لینے کے لئے تیار تھی۔ دکھی گھاس چھیل کر بازار لے جاتا۔ لکڑی چیرنے کا اسے محاورہ نہ تھا۔ گھاس اس کے کھرپے کے سامنے سر جھکا دیتی تھی۔

یہاں کس کس کر کلہاڑی کا بھر پور ہاتھ جماتا لیکن اس گرہ پر نشان تک نہ پڑتا۔ کلہاڑی اچٹ جاتی۔ پسینہ سے تر تھا۔ ہانپتا تھا۔ تھک کر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر اٹھتا تھا۔ ہاتھ اٹھائے نہ اٹھتے تھے۔ پاؤن کانپ رہے تھے۔ ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ پھر بھی اپنا کام کئے جاتا تھا۔ اگر ایک چلم تمباکو پینے کو مل جاتا تو شاید کچھ طاقت آجاتی۔ اس نے سوچا یہاں چلم اور تمباکو کہاں ملے گا۔ برہمنوں کا گاؤں ہے۔ برہمن ہم سب نیچ جاتوں کی طرح تمباکو تھوڑا ہی پیتے ہیں۔ یکا یک اسے یاد آیا کہ گاؤں میں ایک گونڈ بھی رہتا ہے۔ اس کے یہاں ضرور چلم تمباکو ہو گی۔ فوراً اس کے گھر دوڑا۔

خیر محنت سپھل ہوئی۔ اس نے تمباکو اور چلم دی۔ لیکن آگ وہاں نہ تھی۔

دکھی نے کہا ’’آگ کی فکر نہ کرو بھائی، پنڈت جی کے گھر سے آگ مانگ لوں گا۔ وہاں تو ابھی رسوئی بن رہی تھی‘‘۔

یہ کہتا ہوا وہ دونوں چیزیں لے کر چلا اور پنڈت جی کے گھر میں دالان کے دروازہ پر کھڑا ہو کر بولا۔ ’’مالک ذرا سی آگ مل جائے تو چلم پی لیں‘‘۔ پنڈت جی بھوجن کر رہے تھے۔ پنڈتانی نے پوچھا ’’یہ کون آدمی آگ مانگ رہا ہے؟‘‘

’’تو دے دو‘‘

پنڈتانی نے بھنویں چڑھا کر کہا۔ ’’تمہیں تو جیسے پوڑی پیڑے کے پھر میں دھرم کرم کی سدھ بھی نہ رہی۔ چمار ہوا، دھوبی ہوا، پاسی ہو۔ منہ اٹھائے گھر میں چلے آئے۔ پنڈت کا گھر نہ ہوا، کوئی سرائے ہوئی۔ کہہ دو ڈیوڑھی سے چلا جائے ورنہ اسی آگ سے منہ جھلسا دوں گی۔ بڑے آگ مانگنے چلے ہیں‘‘۔

پنڈت جی نے انہیں سمجھا کر کہا۔ ’’اندر آگیا تو کیا ہوا۔ تمہاری کوئی چیز تو نہیں چھوئی، زمین پاک ہے۔ ذرا سی آگ کیوں نہیں دے دیتیں۔ کام تو ہمارا کر رہا ہے۔ کوئی لکڑہارا یہی لکڑی پھاڑتا تو کم از کم چار آنے لیتا۔‘‘

پنڈتانی نے گرج کر کہا۔ ’’وہ گھر میں آیا ہی کیوں؟‘‘ پنڈت نے ہار کر کہا۔ ’’سسرے کی بد قسمتی‘‘۔

پنڈتانی: اچھا اس وقت تو آگ تو دے دیتی ہوں لیکن پھر جو اس گھر میں آئے گا تو منہ جھلس دو گی۔

دکھی کے کانوں میں ان باتوں کی بھنک پڑ رہی تھی۔ بیچارہ پچھتا رہا تھا۔ نا حق چلا آیا۔ سچ تو کہتی ہیں پنڈت کے گھر چمار کیسے آئے۔ یہ لوگ پاک صاف ہوتے ہیں۔ تب ہی تو اتنا مان ہے۔ چمار تھوڑے ہی ہیں۔ اسی گاؤں میں بوڑھا ہو گیا۔ مگر مجھے اتنی عقل بھی نہ آئی۔

اسی لئے جب پنڈتانی جی آگ لے کر نکلیں تو جیسے اسے جنت مل گئی۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر زمین پر سر جھکاتا ہوا بولا۔ ’’پنڈتانی ماتا! مجھ سے بڑی بھول ہوئی کہ گھر میں چلا آیا۔ چمار کی عقل ہی تو ٹھہری۔ اتنے مورکھ نہ ہوتے تو سب کی لات کیوں کھاتے؟‘‘

پنڈتانی چمٹے سے پکڑ کر آگ لائی تھی۔ انہوں نے پانچ ہاتھ کے فاصلہ پر گھونگھٹ کی آڑ سے دکھی کی طرف آگ پھینکی۔ ایک بڑی سی چنگاری اس کے سر پر پڑ گئی۔ جلدی سے ہٹ کر جھاڑنے لگا۔

اس کے دل نے کہا یہ ایک پاک برہمن کے گھر کو ناپاک کرنے کا نتیجہ ہے۔ بھگوان نے کتنی جلدی سزا دے دی۔ اسی لئے تو دنیا پنڈتوں سے ڈرتی ہے۔ اور سب کے روپے مارے جاتے ہیں۔ برہمن کے روپے بھلا کوئی مار تو لے۔ گھر بھر کا ستیا ناس ہو جائے۔ ہاتھ پاؤں گل گل گرنے لگیں۔

باہر آکر اس نے چلم پی اور کلہاڑی لے کر مستعد ہو گیا۔ کھٹ کھٹ کی آوازیں آنے لگیں۔ سر پر آگ پڑ گئی تو پنڈتانی کو کچھ رحم آگیا۔ پنڈت جی کھانا کھا کر اٹھے تو بولیں۔ ’’اس چمار کو بھی کھانے کو دے دو۔ بے چارا کب سے کام کر رہا ہے۔ بھوکا ہو گا‘‘۔ پنڈت نے اس تجویز کو فنا کر دینے کے ارادے سے پوچھا۔ ’’روٹیاں ہیں؟‘‘۔

پنڈتانی: دو چار بچ جائیں گی۔

پنڈت: دو چار روٹیوں سے کیا ہو گا؟ یہ چمار ہے۔ کم از کم سیر چڑھا جائے گا۔

پنڈتانی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔ ’’ارے باپ رے۔ سیر بھر، تو پھررہنے دو‘‘۔ پنڈت جی نے اب تیر بن کر کہا۔ ’’کچھ بھوسی چوکر ہو تو آٹے میں ملا کر موٹی موٹی روٹیاں توے پر ڈال دو۔ سالے کا پیٹ بھر جائے گا۔ پتلی روٹیوں سے ان کمینوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ انہیں تو جوار کا ٹکڑا چاہئیے‘‘۔ پنڈتانی نے کہا۔ ’’اب جانے بھی دو، دھوپ میں مرے‘‘۔

دکھی نے چلم پی کر کلہاڑی سنبھالی۔ دم لینے سے ذرا ہاتھوں میں طاقت آگئی تھی۔ تقریباً آدھ گھنٹہ تک پھر کلہاڑی چلاتا رہا۔ پھر بے دم ہو کر وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں وہی گونڈ آ گیا۔ بولا ’’بوڑھے دادا جان کیوں دم دیتے ہو۔ تمہارے پھاڑے یہ گانٹھ نہ پھٹے گی۔ نا حق ہلکان ہوتے ہو‘‘۔

دکھی نے پیشانی کا پسینہ صاف کر کے کہا۔ ’’بھائی ابھی گاڑی بھر بھوسہ ڈھونا ہے‘‘۔

گونڈ: کچھ کھانے کو بھی دیا یا کام ہی کرونا جانتے ہیں۔ جا کے مانگتے کیوں نہیں؟

دکھی: تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو۔ بھلا برہمن کی روٹی ہم کو پچے گی؟

گونڈ: پچنے کو تو پچ جائے گی۔ مگر ملے تو۔ خود تو مونچھوں پر تاؤ دے کر کھانا کھایا اور آرام سے سو رہے ہیں۔ تمہارے لیے لکڑی پھاڑنے کا حکم لگا دیا۔ زمیندار بھی کچھ کھانے کو دیتا ہے۔ یہ ان سے بھی بڑھ گئے۔ اس پر دھرماتما بنتے ہیں۔

دکھی نے کہا۔ ’’بھائی آہستہ بولو۔ کہیں سن لیں گے تو بس!‘‘ یہ کہہ کر دکھی پھر سنبھل پڑااور کلہاڑی چلانے لگا۔ گونڈ کو اس پر رحم آگیا۔ کلہاڑی ہاتھ سے چھین کر تقریباً نصف گھنٹہ تک جی توڑ کر چلاتا رہا لیکن گانٹھ پرذرا بھی نشان نہ ہوا۔

بالآخر اس نے کلہاڑی پھینک دی اور یہ کہہ کر چلا گیا۔ ’’یہ تمہارے پھاڑے نہ پھٹے گی۔ خواہ تمہاری جان ہی کیوں نہ نکل جائے‘‘۔

دکھی سوچنے لگا۔ یہ گانٹھ انہوں کہاں سے رکھ چھوڑی تھی کہ پھاڑے نہیں پھٹتی۔ میں کب تک اپنا خون پسینہ ایک کروں گا۔ ابھی گھر پر سو کام پڑے ہیں۔ کام کاج والا گھر ہے۔ ایک نہ ایک چیز گھٹتی رہتی ہے۔ مگر انہیں اس کی کیا فکر؟چلوں جب تک بھوسہ ہی اٹھا لاؤں۔ کہہ دوں گا آج تو لکڑی نہیں پھٹی۔ کل آکر پھاڑ دوں گا۔

اس نے ٹوکرا اٹھایا اور بھوسہ ڈھونے لگا۔ کھلیان یہاں سے دو فرلانگ سے کم نہ تھا۔ اگر ٹوکرا خوب بھر بھر کر لاتا تو کام جلد ہوجاتا۔ مگر سر پر اٹھاتا کون؟ خود اس سے نہ اٹھ سکتا۔اس لیے تھوڑا تھوڑا لاتا تھا۔ چار بجے بھوسہ ختم ہوا۔ پنڈت کی نیند بھی کھلی، منہ ہاتھ دھو کے پان کھایا اور باہر نکلے۔ دیکھا تو دکھی توکرے پر سر رکھے سو رہا ہے۔ زور سے بولے۔ ’’ارے دکھیا! تو سو رہا ہے۔ لکڑی تو ابھی جوں کی توں پڑی ہے۔ اتنی دیر تو کیا کر رہا تھا؟ مٹھی بھر بھوسہ اٹھانے میں شام کر دی۔ اس پر سو رہا ہے۔ کلہاڑی اٹھا لے اور لکڑی پھاڑ ڈال۔ تجھ سے ذرا بھر لکڑی نہیں پھٹتی۔ پھر ساعت بھی ویسی ہی نکلے گی۔ مجھے دوش مت دینا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں جہاں نیچ کے گھر کھانے کو ہوا اس کی آنکھ بدل جاتی ہے‘‘۔

دکھی نے پھر کلہاڑی اٹھائی۔ جو باتیں اس نے پہلے سوچ رکھی تھیں، وہ سب بھول گیا۔ پیٹ پیٹھ میں دھنسا جاتا تھا۔ دل ڈوبا جاتا تھا۔ پر دل کو سمجھا کر اٹھا۔ پنڈت ہیں۔ کہیں ساعت ٹھیک نہ بچاریں تو پھر سفینہ ناس ہو جائے۔ تب ہی تو ان کا دنیا میں اتنا مان ہے۔ ساعت ہی کا تو سب کھیل ہے۔ جسے چاہیں بنا دیں، جسے چاہیں بگاڑدیں گے۔ پنڈت جی گانٹھ کے پاس آکر کھڑے ہو گئے اور حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ ہاں ایسے زور سے مار، تیرے ہاتھوں میں جیسے دم ہی نہیں۔ لگا کس کے۔ کھڑا کھڑا سوچنے کیا لگتا ہے۔

دکھی اپنے ہوش میں نہیں تھا۔ نہ معلوم کوئی غیبی طاقت اس کے ہاتھوں کو چلا رہی تھی۔ تھکان، بھوک، پیاس، کمزوری سب کے سب جیسے ہو اہو گئی تھیں۔ اسے اپنے قوت بازو پر خود تعجب ہو رہا تھا۔ ایک ایک چوٹ پہاڑ کی مانند پڑتی تھی۔ آدھ گھنٹے تک وہ اسی طرح بے خبری کی حالت میں ہاتھ چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ لکڑی بیچ سے پھٹ گئی اور دکھی کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر گر پڑی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھی چکر کھا کر گر پڑا۔ بھوکا پیاسا تکان خوردہ جسم جواب دے گیا۔ پنڈت جی نے پکارا۔ ’’اٹھ کر دو چار ہاتھ اور لگا دے۔ پتلی پتلی ہو جائیں۔‘‘

پنڈت جی نے اب اسے دق کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اندر جا کر بوٹی چھانی۔ حاجات ضروری سے فارغ ہوئے، نہایا اور پنڈتوں کا لباس پہن کر باہر نکلے۔ دکھی ابھی تک وہیں پڑا تھا۔

زور سے پکارا۔ ’’ارے دکھی! کیا پڑے ہی رہو گے۔ چلو تمہارے ہی گھر چل رہا ہوں سب سامان ٹھیک ہے نا؟‘‘ دکھی پھر بھی نہ اٹھا۔ اب پنڈت جی کو کچھ فکر ہوئی۔ پاس جاکر دیکھا تو دکھی اکڑا ہوا پڑا تھا۔

بدہواس ہو کر بھاگے اور پنڈتانی سے بولے۔ ’’دکھیا تو جیسے مر گیا‘‘۔ پنڈتانی جی تعجب انگیز لہجے میں بولیں۔ ’’ابھی تو لکڑی چیر رہا تھا!؟‘‘

’’ہاں لکڑی چیرتے چیرتے مر گیا۔ اب کیا ہو گا؟‘‘ پنڈتانی نے مطمئن ہو کر کہا۔ ’’چمروٹے میں کہلا بھیجو مردہ اٹھا لے جائیں‘‘۔

دم کے دم میں یہ خبر گاؤں بھر میں پھیل گئی۔ گاؤں میں زیادہ تر برہمن ہی تھے۔ صرف ایک گھر گونڈ کا تھا۔ لوگوں نے ادھر کا راستہ چھوڑ دیا۔ کنویں کا راستہ ادھر ہی سے تھا۔ پانی کیونکر بھرا جائے؟ چمار کی لاش پاس ہو کر پانی بھرنے کون جائے۔ ایک بڑھیا نے پنڈت جی سے کہا۔ ’’مردہ کیوں نہیں اٹھواتے۔ کوئی گاؤں میں پانی پیے گا یا نہیں؟‘‘ ادھر گونڈ نے چمرونے میں جا کر سب سے کہہ دیا۔ ’’خبردار مردہ اٹھانے مت جانا۔ ابھی پولیس کی تحقیقات ہو گی۔ دل لگی ہے کہ ایک غریب کی جان لے لی۔ پنڈت ہوں گے تو اپنے گھر ہوں گے۔ لاش اٹھاؤ گے تو تم بھی پکڑے جاؤ گے۔‘‘

اس کے بعد ہی پنڈت جی پہنچے۔ پر چمرونے میں کوئی آدمی لاش اٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ ہاں دکھی کی بیوی اور لڑکی دونوں ہائے ہائے کرتی وہاں سے چلیں اور پنڈت جی کے دروازے پر آکر سر پیٹ کر رونے لگیں۔ ان کے ساتھ دس پانچ اور چمارنیں تھیں۔ کوئی روتی تھی، کوئی سمجھاتی تھی، پر چمارایک بھی نہ تھا۔ پنڈت جی نے ان سب کو بہت دھمکایا، سمجھایا، منت کی۔ پر چماروں کے دل پر پولیس کا ایسا رعب چھایا کہ ایک بھی مان نہ سکا۔ آخر نا امید ہو کر لوٹ آئے۔

آدھی رات تک رونا پیٹنا جاری رہا۔ دیوتاؤں کا سونا مشکل ہو گیا۔ مگر لاش اٹھانے کوئی نہ آیا۔ اور برہمن چمار کی لاش کیسے اٹھاتے؟ بھلا ایسا کسی شاستر پوران میں لکھا ہو، کہیں کوئی دکھا دے۔

پنڈتانی نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’ان ڈائنوں نے تو کھوپڑی چاٹ ڈالی۔ ان سبھوں کا گلا بھی نہیں تھکتا‘‘۔ پنڈت نے کہا۔ ’’چڑیلوں کو رونے دو۔ کب تک روئیں گی۔ جیتا تھا تو کوئی بات نہ پوچھتا تھا۔ مر گیا تو شورو غل مچانے کے لئے سب آپہنچیں‘‘۔

پنڈتانی: چماروں کا رونا منحوس ہوتا ہے؟

پنڈت: ہاں بہت منحوس۔

پنڈتانی: ابھی سے بو آنے لگی۔

پنڈت: چمار تھا سسرا کہیں کا۔ ان سبھوں کو کھانے پینے میں کوئی بچار نہیں ہوتا۔

پنڈتانی: ان لوگوں کو نفرت بھی معلوم نہیں ہوتی۔

پنڈت: سب کے سب بھرشٹ ہیں۔

رات تو کسی طرح کٹی مگر صبح بھی کوئی چمار نہ آیا۔ چمارنی بھی رو پیٹ کر چلی گئی۔ بدبو پھیلنے لگی۔ پنڈت جی نے ایک رسی نکالی۔ اس کا پھندہ بنا کر مردے کے پیر میں ڈالا اور پھندے کو کھینچ کر کس دیا۔ ابھی کچھ کچھ اندھیرا تھا۔ پنڈت جی نے رسی پکڑ کر لاش کو گھسیٹنا شروع کیا اور گھسیٹ کر گاؤں سے باہر لے گئے۔

وہاں سے آ کر نہائے، درگاپٹھ پڑھا اور سر میں گنگا جل چھڑکا۔ ادھر دکھی کی لاش کو کھیت میں گیدڑ، گدھ اور کوے نوچ رہے تھے۔ یہی اس کی تمام زندگی کی بھگتی، خدمت اور اعتقاد کا انعام تھا۔