| تحریر: لال خان |
لاہور کو نہ صرف پاکستان کا بلکہ تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان کا بھی ثقافتی اور سیاسی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ صحافتی اور سماجی شعور میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہونے کے باعث لاہور میں پچھلے دنوں ہونے والا دہشت گردی کا حملہ ملک اور دنیا بھر میں محسوس کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق سات پولیس اہلکاروں اور چھ عام شہریوں سمیت کم از کم تیرہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ چند گھنٹوں بعد ہی پاکستانی طالبان کے دھڑے جماعت الاحرار نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس گروپ کے ترجمان کے مطابق یہ ’’غازی عبدالرشید آپریشن‘‘ کا ’’محض آغاز‘‘ ہے۔ 2016ء میں لاہور ہی میں ایسٹر کے تہوار کے دن بھی ایک بدترین حملے میں 70 افراد قتل کر دیے گئے تھے جس کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔
(اس مضمون کی تحریر کے دوران ہی خبر ملی ہے کہ سیہون شریف میں بھی خود کش بم دھماکہ ہوا ہے جس میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ )
ؑ غربت اور ذلت کے مارے عوام ان دہشت گرد حملوں کی نئی لہر سے مزیدمجروح ہو چکے ہیں۔ اس نظام اور ریاست کے سماج پر لگائے ہوئے طبقاتی جبر کے زخموں پر یہ دہشت گردی نمک پاشی کر رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ نے حسب معمول مذمتی بیانات اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ سول اور ملٹری حکام کی اس بڑھک بازی سے عوام بیزار ہو چکے ہیں۔ جلد ہی یہ المناک واقعات بھی فراموش کر دئیے جائیں گے اور نسبتاً جمود کے اس دور میں پھر وہی کرپشن کے الزامات، سکینڈل اور حکمران طبقات کے دھڑوں کی کراہت آمیز تکرار میڈیا اور سماجی شعور پر مسلط کر دی جائے گی۔ میڈیا کے ’عظیم‘ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے بقول ملک بھر میں دہشت گردی کی اس نئی لہر کی وجہ فوج کی ہائی کمانڈ میں برائے نام تبدیلی ہے۔ یہ انتہائی سطحی وضاحت ہے جس کا اس پژمردہ سماج کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ضیا کی فوجی آمریت کے بعد ریاست اور سیاست میں متعارف کروائی گئی رجعتی بنیاد پرستی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی ایما پر اس سب کا مقصدافغانستان میں 1978ء کے ثور انقلاب کو تباہ کرنا تھا۔ آج امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ لیکن مر نے والے آج بھی غریب ہی ہیں۔ ریاستی اداروں کے بالائی اور درمیانی ڈھانچوں میں ر چ بس چکی رجعتی اخلاقیات اور نفسیات اور ضیا دور کی سیاسی میراث اور ثقافت کی موجودگی میں پرہیز گاری کا لبادہ اوڑھے دہشت گردوں کے خلاف کوئی جامع ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ کالے دھن کی بے پناہ دولت اس گٹھ جوڑ کا محور ہے اور یہ دہشت گردتنظیمیں ا س دولت کے حصول کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ریاستی ڈھانچوں میں کالے دھن کی بڑے پیمانے پر سرائیت سے ا س طرح کی ذہنیت اور سوچ کو مادی بنیادیں میسر آئی ہیں۔ کب کوئی نام نہاد ’اعتدال پسند‘فرقہ یا گروہ، انتہا پسند اور دہشتگرد بن جائے، کوئی پتا نہیں چلتا۔
جہاں نصاب سے لے کر سماجی اخلاقیات تک، قدامت پسند خیالات اور رجعتی سماجی ڈھانچوں میں جکڑی ہوں وہاں مذہبی منافرت کا خاتمہ نا ممکن ہو جاتا ہے۔ یہی تعصبات اور مذہبی منافرتیں دہشت گردی کی کاروائیوں کو اکساتی ہیں اور ان کے تدارک کے لیے پورے سماج کی انقلابی تطہیر اور جراحی کی ضرورت ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ مذمتی بیانات اور جھوٹے وعدے خود ان حکمران اشرافیہ کے اس دہشت گردی کے سامنے خصی پن اور بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہ تشدد اور وحشت ان کی اپنی معیشت اور حکمرانی کے ڈھانچوں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی تمام کوششوں کا مقصد صرف فوری حملے کو ٹالنا ہوتا ہے۔ مذہبی لبادے میں کالے دھن کے ان مافیاؤں کے اثر و رسوخ اور معیشت میں حصہ داری کی موجودہ کیفیت میں اس سے کہیں زیادہ بھیانک بربریت کے خطرات سماج پر منڈلا رہے ہیں۔
ریاست کے کچھ حصے واقعی اس عفریت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے منصوبوں اور آپریشنوں کا نشانہ چند مخصوص گروپ ہوتے ہیں۔ اسلامی سیاست کے ’قومی نظرئیے‘ کے نام پر کالے دھن کے سرغنہ سیاسی جماعتوں اور ریاستی طاقت کے اداروں اور حلقوں میں بے پناہ مال لگاتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ریاست کے ڈسپلن اور ڈھانچوں کو کمزور کر دیا ہے بلکہ اب تہذیب اور سماجی وجود کوخطرہ لاحق ہے۔ کسی شیطانی عفریت کی طرح یہ اپنے اُنہی خالقوں کو کھانے لگے ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے لیے انہیں تخلیق کیا تھا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی اور سیاسی طاقت کے حصہ داروں کی جانب سے پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ انہی پالیسیوں کو جاری رکھنا ان کی مجبوری ہے کیونکہ یہ اس رجعتی، کرپٹ اور جرائم پیشہ حکمران طبقے کے مفادات کے لیے ضروری ہیں۔
اس دور میں پراکسی جنگیں نئی حکمت عملی بن چکی ہیں کیونکہ اب بورژوازی مالی وسائل اور دیگر وجوہات کی بنا پر قومی اور عالمی جنگوں کی متحمل نہیں ہے اور اس سے دونوں طرف کے حکمران طبقات کی مکمل تباہی کا خطر ہ ہے۔ چنانچہ دہشت گردی ساری دنیا میں معمول بن چکی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا اور افریقہ تک سماج تاراج ہو رہے ہیں۔ سامراجی فوجی مداخلتوں اور معاشی لوٹ مار کے نتیجے میں یہ عمل اور بھی شدید ہوا ہے۔ آخری تجزیے میں یہ عفریت ان ریاستوں کی پیداوار ہے جو ماضی میں انہیں خفیہ آپریشنوں کے لیے استعمال کرتی تھیں جب سامراج اور قومی ریاستوں کی طاقت کا توازن آج سے مختلف تھا۔ یہ تاریخ کا مکافات عمل ہے۔ پراکسی جنگوں اور مختلف استحصالی مفادات کے ٹکراؤ سے ملک میں سماج کا تانا بانا بکھرتا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کے انہدام اور روایتی پارٹیوں کے لیڈروں کی غداری کی وجہ سے یہ بے حسی مزید گہری اورعوام کی رجعت کے خلاف لڑائی کمزور پڑی ہے۔ کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں درمیانے طبقے کے نوجوان اور اپنا مستقبل تاریک دیکھنے والے بے روزگار ان تنظیموں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔
سرمایہ داری کا نیو لبرل معاشی ماڈل انتہائی تیزی سے عدم مساوات اور سماجی خلفشار میں اضافہ کر رہا ہے۔ سماجی و معاشی بحران ریاست کے بالائی اداروں کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا ابھار بھی سرمایہ داری کے بحران اور اس کی تاریخی متروکیت کی علامت ہے۔ دہشت گردی نہ تو ان درندوں کے ساتھ امن معاہدوں کے ذریعے ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی انہیں تخلیق اور پالنے والی ریاستیں انہیں تباہ کر سکتی ہیں۔
دہشت گردوں کے گنجان آباد شہروں اور مضافات میں سرائیت کر جانے کے بعد انہیں عام آبادی میں تلاش کرکے سرجیکل آپریشن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگرچہ سماج میں ان مذہبی جنونیوں کی حمایت بہت قلیل ہے لیکن یہ بہت منظم اور مالدار ہیں اور ریاست کے اندر تک گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ یہ ان کرپٹ اور نااہل حکمرانوں پر دباؤڈالنے کے لیے مظاہرے تک کروا سکتے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور ملک بھر کے شہروں میں قائم ان کے مدرسے حکام کی سر عام حکم عدولی کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے اسلام آباد میں بیٹھ کر داعش جیسی تنظیموں کی سر عام حمایت پر ریاست کا معمولی سا بھی رد عمل سامنے نہیں آتا۔ بلکہ وزرا اور ریاستی حکام ان کے ہولناک بیانات اور عام شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کی توجیحات گھڑتے نظر آتے ہیں۔ وہ عدلیہ کو دھمکا کر یا رشوت دے کر سر عام قانون شکنی کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ ریاستی اور سیاسی حکام کے مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کا استحصال کرتے ہیں اور ان کے مالی و سیاسی مفادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اس کرپٹ ریاست اور سیاست میں ان انسانیت سوز جرائم کے باوجود یہ دندناتے پھرتے ہیں۔
ایسے ادوار اور معروضی حالات میں اس رجعت اور منافرت کی سماجی و معاشی وجوہات کا خاتمہ کیے بغیر دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس متروک اور تعفن زدہ معاشی، سیاسی اور ریاستی نظام کو اکھاڑ پھینکے بغیر ان وجوہات کا خاتمہ ناممکن ہے۔