پرانے یورپ میں نیا معمول

[تحریر: لال خان]
چھ ماہ قبل یورپ انتہائی شدید اور گہرے معاشی بحران کی زد میں تھا اور یونان کی یورپی یو نین سے بے دخلی، یورو کرنسی کے انہدام اور یورپی یونین کے ٹوٹ جانے کا خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ ظاہری طور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ معاشی اور مالیاتی قیامت ٹل گئی ہے، لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ حل تو درکنار، اب یہ بحران ثانوی معیشتوں سے بڑھتا ہوا یورپ کے مرکزی ممالک تک سرائیت کر چکا ہے جنہیں ریاستی دیوالیہ پن اور اس بھی کہیں بد تر حالات کا سامنا ہے۔
سٹاک ایکس چینجوں کی انتہائی مایوسی، ہیجانی کیفیات اور تیزی سے بدلتی صورتحال، سرمایہ داری کے عدم استحکام اور اسکے منصوبہ سازوں کے اعتماد کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا اظہار ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں چھپے مضمون ’’ الٹی چھلانگ‘‘ میں رابرٹ جے سیمیول سن اس بحران کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’’جو ہم یورپ میں دیکھ رہے ہیں اور جو امریکہ پر منڈلا رہا ہے، وہ در اصل جدید سماجی نظام کی فرسودگی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل سے، صنعتی سماج معاشی ترقی اور سماجی استحکام کے ملاپ پر قائم تھے۔ معاشی ترقی لوگوں کی زندگیوں کو بہتر اور انہیں ریاست کا وفادار بنا رہی تھی۔ جنگیں، معاشی بحرانات، انقلابات، اور طبقاتی لڑائیاں توازن کو بگاڑ دیتیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ خوشحالی نے امریکہ، یورپ اور ایشیا کے کچھ حصوں میں جمہوریت کو مستحکم کیا۔ موجودہ معاشی بحران اس خوبصورت عمل کو واپس لے جا سکتا ہے۔ معاشی ترقی میں سست روی سماجی عدم استحکام کا باعث بنے گی اور سماجی عدم استحکام معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈالے گا۔ یہ ایک تاریخی مگرتباہ کن تبدیلی ہو گی‘‘۔
ماہرین معاشیات کی پر ہیجان کوششیں اور’بحالی‘ کے بے بنیاد دعوے ایک طرف، لیکن یورپی یونین کی معیشت 2008ء کی سطح تک بھی نہیں لوٹ سکی جب یہ کریش کر کے کساد بازاری میں چلی گئی تھی اور اب یہ ایک نئی کساد بازاری کی کیفیت میں گرتی جا رہی ہے۔ اس بحران سے پہلے، عالمی سرمایہ داری کے ابھار کی بنیاد قرضوں کے پھیلاؤ کے ذریعے طلب میں اضافے پر تھی۔ لیکن جب سرمایہ دارانہ نظام کو قرضوں کی مدد سے چلایا جائے تو یہ اپنی قدرتی حدوں سے نکل کر خود اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرنے لگتا ہے۔ قرضے کی منڈیاں اندھی کھایاں ہوتی ہیں۔ در حقیقت یہ بحران زا ئد پیدا وار کے کہیں زیادہ گہرے بحران کا اظہار ہے۔
دولت مند کمپنیوں کے کھربوں ڈالر بینکوں میں بے کار پڑے ہیں لیکن تقریباً پانچ برس سے یہ سرمایہ کاری نہیں کر رہے۔ پیسے کو اس طرح روک کر رکھنا سرمایہ داروں کی مایوسی اور معیشت کے مستقبل کے متعلق ان کی نا امیدی کو ظاہر کرتا ہے۔ کساد بازاری کے عالم میں سرمایہ داری کے دونوں اہم طریقے معیشت کو بحران سے نکالنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ مانیٹر ازم پر یقین رکھنے والے یا نام نہان ٹریکل ڈاؤن معیشت کے حامیوں نے اخراجات میں بڑے پیمانے کی کٹوتیاں کیں، جس سے کھپت میں مزید کمی آئی، اور بحران اور بھی گہرا ہو گیا۔ اس کی مثال یونان، سپین، اٹلی اور دوسرے ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب کینشن ازم کے ماننے والے یا ’ریاستی سرمایہ داری‘ کے طرف دار اخراجات اور اجرتوں میں اضافے کی حمایت کر رہے ہیں تا کہ کھپت میں اضافے کیا جا سکے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ قرضوں میں اضافہ، ریاستوں کے دیوالیہ پن اورخزانے کی بربادی ہے۔ معاشی ترقی میں جمود، بے روزگاری اور افراطِ زر کی کیفیت کے ساتھ مزید نوٹ چھاپنے سے معاشی بحران بد تر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ منڈیاں حرکت میں آ کر سٹاک ایکس چینجوں پر سٹے بازی کے حملے کررہی ہیں۔
یورپی معیشت کا انجن جرمنی، معاشی سست روی کا شکار ہو رہا ہے۔ موجودہ برس اس کی شرح نمو2فیصد سے گر کر 0.4 فیصد تک آنے کی پیش بندی ہے۔ اس سال اٹلی میں گھریلو آمدنی ستائیس سال پہلے کی سطح تک گر جائے گی۔ یورپی یونین کی زیادہ تر معیشتیں جمود یا کساد بازاری کا شکار ہیں اور فرانس گزشتہ پانچ سالوں میں اپنی 20 فیصد منڈیوں سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ فرانس کا ریاستی قرضہ 1850 ارب یورو ہے جو اس کی مجموئی قومی پیداوار کا91 فیصد بنتا ہے۔ سپین کی شرح نمو منفی2فیصد ہے جو گہری کساد بازاری کی علامت ہے۔ بے روزگاری کی سرکاری شرح26فیصدہے جبکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح56فیصد تک جا پہنچی ہے۔ گھروں کی تجارت کا بلبلہ پھٹ چکا ہے اور گزشتہ تین برسوں میں 350,000 گھر بینکوں نے واپس چھین لیے ہیں۔ ستم ہے کہ سپین کی حکومت کی جانب سے چرچ کو دی جانے والی مالی معاونت کی رقم سماجی سہولیات میں کی گئی کٹوتیوں کے برابر ہے۔ برطانیہ میں یورپی یونین سے نکل جانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے، لیکن اس سے معاشی بحران حل نہیں ہوگا اور نہ ہی تیسری مرتبہ کساد بازاری ٹل سکے گی۔ ایسے ہتھکنڈوں کا مقصد قومی شاؤنزم کو بھڑکا کر طبقاتی جبر کو جاری رکھنا ہے۔
بینکار وں اور سیاست دانوں سے لوگ شدید نفرت کر رہے ہیں۔ بائیں بازو کے اصلاح پسند سرمایہ دارانہ گِدھوں کے آگے بِک چکے ہیں اور لوگ ان سے نا امید ہیں۔ لیکن یورپ میں ان معاشی پالیسیوں اور اقدامات کے سیاسی نتائج مرتب ہوں گے۔ یورپ میں بورژوا جمہوریت کا وجو د عوام کے لیے کچھ مراعات کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونینوں اور اصلاح پسند پارٹیوں کی مظبوطی کی بنا پر قائم ہے۔ سرمایہ داری کو جاری رکھنے کے لیے پچھلے پچاس سال سے زیادہ عرصے میں دی گئی مراعات اور اصلاحات کو واپس لینا پڑے گا۔ معاشی بحران میں بھی سرمایہ دار بے پناہ منافع کما رہے ہیں، لیکن اس نظام سے سمجھوتہ کرنے والی کوئی بھی حکومت یا جماعت عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس بے شمار دولت کو ضبط کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے پاس ’واحد راستہ‘ عوام کے میعار زندگی پر حملہ اور فلاحی ریاست کا خاتمہ ہے۔
لیکن ان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ یورپی پرولتاریہ کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں تھا جتنا وہ آج ہے۔ اس لیے حکمران طبقات کے لیے دوسری عالمی جنگ سے پہلے کی طرز پر جبر کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ تیزی سے بڑھتے بحران میں یونان اور اٹلی میں پارلیمانی بوناپارٹ ازم کی شکلیں سامنے آئی ہیں۔ ’قومی یکجہتی‘ کی حکومت کا طریقہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ’قومی یکجہتی‘ کھوکھلے نعروں میں سب سے زیادہ کھوکھلا نعرہ ہے۔ مفت خور بینکاروں اور سٹاک مارکیٹ کے خونخواروں کے مفادات بے روزگار محنت کشوں اور محروم عوام کے ساتھ کیسے مشترک ہو سکتے ہیں؟
2011ء اور 12ء میں اٹھنے والی تحریکوں کے زوال اورضائع ہو جانے کی بنیادی وجہ محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں اور یونینوں کے لیڈروں کی دھوکہ دہی اور غداری ہے۔ لیکن عوام تیزی سے سیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ نپولین نے کہا تھا کہ’’شکست خوردہ افواج بہت جلد سیکھتی ہیں‘‘۔ طبقاتی جدوجہد میں کسی حد تک پسپائی اور ٹھہراؤ ہو سکتا ہے، لیکن یورپ کے پرولتاریہ کو شکست نہیں ہوئی۔ انہیں کٹوتیوں اور محرومی کا ایک ’نیا معمول‘ اپنانے پر مجبور کیا جا رہاہے۔ کوئی بھی سنجیدہ بورژوا معاشی ماہر، معیشت کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ ایک سست رو اور کمزور بحالی کی پیش بندی کر رہے ہیں جو لمبے عرصے تک چلے گی۔
یورپ ایک طوفان کا خاموش مرکز ہے۔ لیکن جیسے رات کے بعد دن آتا ہے اسی طرح آنے والے ماہ و سال میں طبقاتی جدوجہد کی نئی لہریں اٹھیں گی۔ انقلابی قیادت اور پارٹی کے بغیر یہ جدوجہدیں طویل ہو جائیں گی۔ عدم استحکام اور سماجی و معاشی خلفشار جاری رہے گا۔ اسے مسترد کرنے کے لیے محنت کش طبقے کو آخری لڑائی تک لڑنا ہو گا تاکہ اس نظام کا خاتمہ ممکن ہو جو انہیں انسانی زندگی کے معقول حالات دینے میں ناکام ہو گیا ہے۔

متعلقہ:
پہلی یورپ گیر عام ہڑتال

سپین انقلاب کی دہلیز پر