[تحریر: قمرالزماں خاں]
سرمایہ دارانہ نظام اس حد تک کمزور ہوکر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اسکے تحت سیاست،حکومت اور فیصلے کرنے والا حکمران طبقہ اعتماد کی نعمت سے محروم ہوچکا ہے۔ ان کو کسی طور پر بھی یقین نہیں کہ اس نظام کی موجودہ حالت میں ان کا اپنا وجود کس طرح سلامت رہ سکتا ہے۔ یہ خوف ہی ہے جس کی وجہ سے دوستی اور دشمنی کی تمیزکے بغیر انتخابی اتحاد،کولیشن حکومتیں بنائی جارہی ہیں اور اپنی پارٹیاں اور سیاسی وراثتیں دیرینہ دشمنوں کے سپرد کی جارہی ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے جرائم اور اپنے استحصالی نظام کی شکستگی اور کسی وقت بھی محنت کش طبقے کی تحریک کے امنڈ آنے کے خوف سے لرز رہا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے سیاست کے میدان میں تمام صحت مندو غیر صحت مند،توانا و بیمار گھوڑے اتارے جارہے ہیں۔ ریاستی ایجنسیاں اور انکے تمام ہرکارے ایک جنگی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے تمام مہروں کو میدان میں لے آرہے ہیں تاکہ بظاہرنہ نظر آنے والی ممکنہ طبقاتی بغاوت سے قبل ہی اپنے بچ بچاؤ کا بندوبست کرسکیں۔ ہر بھوکا،بے روزگار،علم کی نعمت سے محروم،بیمار اور افلاس کی چکی میں پستا ہوا شخص حکمران طبقے کو ایک آسیب دکھائی دیتا ہے جو کسی بھی لمحے ان کو اور ان کے نظام کو ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس کیفیت کا تدارک کرنے کے لئے تمام جعلی تقسیموں کو ختم کرکے ایک فی صد طبقہ اپنے بچاؤ کے لئے میدان میں نکل آیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ قاتل لیگ کے ٹائٹل ہولڈرزکا شریک اقتدار ہونا اور پھرآنے والے عام انتخاب کے اتحادی قرار دئیے جانا، یا بھٹو ازم کی بجائے ’وٹو ازم‘ اور پھر اس سے بھی نیچے گر کر ’’میرے پاؤں میں بیس ہزار کی جوتی ہے،دس لاکھ کی گھڑی میری کلائی پر ہے اور میں اسی لاکھ کی گاڑی سے اتر کر آیا ہوں،میرے طبقے اور عام آدمی کے مسائل مشترک نہیں ہیں‘‘ کے برسر عام خیالات کا اظہارکرنے والے مخدوم سید احمد محمود ہوں جن کو پنجاب کی گورنری کے لئے منتخب کیا گیا ہے، یہ سب واضح کرتا ہے کہ عوام کے مدمقابل قوتیں کس حد تک حواس باختہ ہوکر اپنے طبقاتی اور فطری اتحاد کو ننگا کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔
مخدوم احمد محمود جنہوں نے اپنے والد مخدوم زادہ حسن محمود کی وفات کے بعد اپنی سیاست کا آغاز 1985ء میں تب کیا تھا جب علاقے کے تمام جاگیرداروں کے گرینڈ جرگے نے فیصلہ کیا کہ جائیداد کی طرح سیاسی ترکے میں بھی احمد محمود کو جانشین بنایا جائے اور اس طرح الیکشن کی بجائے ان کو بلا مقابلہ اسمبلی کے ایوان میں پہنچا دیا گیا۔ پھر سیاسی طور پر نومولود احمد محمود کوانہی’’ مقتدر حلقوں‘‘ نے اپنی گود میں لے لیا جو اس ملک کے طبقہ امراء کی تربیت اور راہنمائی کا کردار قبل از تقسیم سے کرتا چلا آرہے ہے۔ جس کے بعد ان کی ساری سیاسی زندگی میں ریاستی اعانت کا پہلو غالب ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ 90ء کی دہائی میں ریٹرنگ آفیسر کی بجائے مخدوم احمد محمود فیصلہ کیا کرتے تھے کہ الیکشن کے لئے اہل کون ہے اور کس کونااہل ہونا چاہئے۔ پیپلز پارٹی مخالفت جذبات مخدوم احمد محمود کو گھٹی میں ہی ملے تھے جس کے ٹھوس اسباب موصوف کے طبقاتی پسِ منظر اور مفادات میں پنہاں تھے۔ پاکستا ن پیپلز پارٹی کی اولین حکومت میں (ادھوری ہی سہی)زرعی اصلاحات نے ان فیوڈل لارڈز کو خراشیں ڈالیں تھیں جس کا دکھ ان کی جاگیردارانہ منتقم مزاجی میں ہمیشہ رچا بسا رہااور اسکا اظہار ہر سطح پر برسرعام کیا گیا۔ ضیاء الحق،محمد خان جونیجو اور نوازشریف کی حکومتوں میں تمام ریاستی اختیارات کے مالک احمد محمود کو ضلع رحیم یارخاں کا ان داتا اور سیاہ و سفید کا مالک بننے اور قبائلی و پسماندہ سماجی پرتوں میں اثر رسوخ بنانے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا مگریہ اثر رسوخ ہمیشہ ریاستی طاقت کا محتاج رہا۔ جب کسی بھی وجہ سے حکمران طبقے کے مقامی گروہوں میں تضادات ابھرے اوراحمد محمود کی طاقت کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تو احمد محمود کبھی بھی اس چیلنج کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ اس کی تازہ ترین مثال 2004ء کے بلدیاتی الیکشن تھے جس میں ضلعی سیاست سے اس وقت کے ضلعی ناظم احمد محمود کواسی قسم کے ایک اور ’’مافیا ٹائپ‘‘ ریاستی مہرے (جس کو ایک عرب ملک کی اعانت بھی حاصل ہے) نے بلدیاتی سیاست سے باہر رہنے پر مجبور کر کے ایک اور سیاسی کٹھ پتلی کو ضلع ناظم بنادیا۔ مخدوم احمد محمود کو ہر الیکشن میں اپنے زیرِ اثر حلقوں میں کراچی طرز کی پولنگ کا ’’بندوبست ‘‘ کرنا پڑتا ہے تاکہ سو فی صد ووٹ انکے امیدواروں کی صندوقچی سے نکلیں، اس قسم کے ’’جمہوری اعمال‘‘ سے ان کی ’’سیاسی مقبولیت‘‘ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ سید احمد محمود نے قبل ازیں بھی اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا۔ نوازشریف سے مسلم لیگ ہم خیال، پھر ق لیگ اور اسکے بعد فنگشنل لیگ، اور بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی کی گورنرشپ۔ مگر اس دفعہ جہاں مخدوم احمد محمود نے اپنی سیاسی زوال پذیری کو پیپلز پارٹی کی چھتری تلے چھپانے کا بندوبست کیا ہے وہاں ’’عقل کل‘‘ کے طور پر مشہور کئے جانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کو یقینی طور پر کمزور پوزیشن پر کھیلنا پڑا ہے۔ نام نہاد ’’مفاہمت کی پالیسی‘‘ کے زیرِ اثرانتہائی بے شرمی سے ہر قسم کی موقع پرستی میں پارٹی کو دھکیلنے کے اقدامات اب اپنی حدوں کو چھوتے نظر آرہے ہیں۔ موجودہ گورنری کی ڈیل جس کو پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ موقع پرست قائدین اورغیرنظریاتی کارکن آصف زرداری اور پارٹی کی بڑی فتح یابی قراردے رہے ہیں دراصل مخدوم سید احمد محمود کی کئی سال پہلے بچھائی گئی بساط کے مطابق تکمیل کے مراحل تک پہنچی ہے،اس ڈیل کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ انتخابی سیاست میں ظاہری طور پر کچھ دیر کے لئے اپنی فتح یابی کے تاثر سے لطف اندوز ہوسکتی ہے مگر لمبے تناظر میں خسارے کاتناسب بہت زیادہ ہوگا۔ احمد محمود کی موجودہ سیاسی قلابازی کے گرد مکمل چانکیہ طرز سیاست کے گر شامل ہیں اور وہ ایک ہی وقت میں کئی کارڈکھیل رہے ہیں۔ گورنری لینے کے باوجود احمد محمود نے پنجاب فنکشنل لیگ کو (جوصرف ضلع رحیم یارخاں میں ہی ہے اور حقیقی طور پر احمد محمود کے سیاسی نیٹ ورک کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی) کو تحلیل نہیں کیا بلکہ پنجاب فنگشنل لیگ کا صدر اپنے بڑے بیٹے مرتضی محمود کو بنوا کر عندیہ دے دیا ہے کہ وہ ڈبل گیم کھیلیں گے۔ اپنی سیاسی زندگی میں دوسرے سرائیکی وڈیروں کی طرح احمد محمود ہمیشہ تخت لاہور کے خدمت گزار رہے ہیں اور سیاسی سکو ر بنانے کے لئے تخت لاہور کی نعرہ بازی بھی جوش و خروش سے کرتے رہے ہیں۔ درحقیقت ’’سرائیکی صوبے ‘‘ کے مطالبے کے برعکس میاں برادران کی خواہش اور مرضی سے انہوں نے بہاولپور صوبے کی بحالی کانعرہ لگا کر سرائیکی علاقوں پر مشتمل صوبے کے مطالبے کے سامنے مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی تھی اوریہ کردار اب گورنر بن کر ادا کرنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں۔ سرائیکی یا بہاولپور صوبہ ؟یا پھر دونوں؟ یہ تنازعہ اب زیادہ شدت سے کنفیوژن کا شکار ہوگا اورسیاسی پراگندگی میں اضافہ کرے گا۔ ایک طرف احمد محمود پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا رونا روتے رہے اور تخت لاہور کوللکارتے رہے تو دوسری طرف جب بھی شہباز شریف ضلع رحیم یارخاں کے دورے پر آئے تو انکی گاڑی کی ڈرائیونگ کرنے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل کئے رکھا۔ کچھ مہینے پیشتر وزیر اعلی پنجاب نے دورہ جمال دین والی کیا تو انکا بھاری بھرکم استقبال کیا گیا اور آئندہ الیکشن مل کر لڑنے کا اعلان کیا گیا،اسی دوران اپنے ایک سیاسی حریف رئیس منیر احمد سے صلح کی اور تحصیل صادق آباد کی سیٹوں کی مقامی جاگیرداروں اور چوہدریوں میں بندر بانٹ کا فارمولہ وضع کرنے کا عہد کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے گورنر نامزد ہونے سے محض چھ دن پہلے احمد محمود نے سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف فنکشنل لیگ کے جلسے میں پارٹی کے خلاف تقریر کی اور ابھی ان کے لفظوں کی بازگشت فضاؤں میں ہی تھی کہ ان کو گورنری کاتحفہ موصول ہوگیا۔ اس کے بعد موصوف نے 23 دسمبر کو اپنے مسلم لیگی ہونے پر فخر کرنے اور پیپلزپارٹی میں نہ جانے کی واضح طور پر وضاحت کرکے ان ’’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے‘‘ کا کردار ادا کرنے والے جیالوں اور موقع پرستوں کو تصویر کا اصل رخ بھی دکھا دیا۔ قبل ازیں احمد محمود نے 2005-6ء سے ہی اپنے کچھ مہروں کو پیپلز پارٹی ضلع رحیم یارخاں میں داخل کرادیا تھا جو پارٹی کے اندر اثررسوخ حاصل کررہے تھے اور ان میں سے کچھ نے 2008ء کے الیکشن میں پارٹی کا ٹکٹ بھی کامیابی سے حاصل کرلیا تھا۔ 2008ء کے بعدمخدوم سید احمد محمود کے خالہ زاد بھائی یوسف رضا گیلانی نے مشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے بڑے سپوت عبدالقادر گیلانی کو(جو عام الیکشن میں ملتان سے شکست کھا چکے تھے) جہانگیر ترین کے پنجاب صوبائی اسمبلی کے حلقہ 295 کی چھوڑی ہوئی نشست سے تقریباََ بلا مقابلہ کامیاب کروا دیا،اسکے عوض ضلع رحیم یارخاں میں تمام وفاقی اداروں میں مسلم لیگ فنکشنل کو بلا شرکت غیر تمام اختیارات مل گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ ضلع رحیم یا رخاں میں پارلیمانی مینڈیٹ کی حامل پارٹی تھی اپنے ہی اقتدار میں حالت یتیمی کاشکار رہی،اسکے کارکنوں کے سوئی گیس اور واپڈا جیسے محکموں میں معمولی نوعیت کے کام بھی نہیں ہوتے تھے اور انکو فنکشنل لیگ کے پیشہ ورراہنماؤں سے رابطہ کرنے کا کہا جاتا تھا۔ اب جب کہ ضلع رحیم یارخاں میں انتخابی ٹکٹوں کا اختیار بھی احمد محمود کو دے دیا گیا ہے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس سارے کھیل میں فائدہ، سیاسی زوال پذیری کے شکار احمد محمود کو ہوگا جو پیپلز پارٹی کی طاقت،ووٹرزاور ورکرز کو استعمال کرکے اپنے نیٹ ورک کو اور زیادہ مضبوط بنائے گا اور پیپلز پارٹی کی ضلعی تنظیم (جو پہلے ہی بہت نحیف ہے) کو مکمل غیر فعال یا پھر اپنی کٹھ پتلی بننے پر مجبور کردے گا۔ اسی طرح عام ووٹروں کو اب اپنے روز مرہ کام کروانے کے لئے پارٹی قائدین کی بجائے جمال دین والی کاراستہ دکھایا جائے گا اور بتدریج یہ عمل پارٹی کی بجائے شخصیت کے ساتھ وابستگی کی راہ ہموار کرے گا۔ ظلم ان ورکرز کے ساتھ ہونے جارہا ہے جو پچھلے چوالیس سال مخدوم خاندان کی آمریت اور جاگیردارانہ فرعونیت کے سامنے سینہ سپر رہے اور مقدمات،انتقامی کاروئیاں اور دیگر ہتھکنڈوں کا سامنا کرتے رہے مگر کبھی اطاعت نہیں کی، مگر ا ب ان کو بھی ’’پارٹی ڈسپلن‘‘ کے نام پر ’’بیعت‘‘کرنے کا کہا جائے گا۔ مگر یہ ایک مشکل عمل ہوگا، صرف مفاد پرست اور نظریاتی طور پر دیوالیہ پن کا شکار کارکنوں اور عہدیداروں کی ایک تعداد پارٹی قیادت کے اس فیصلے کو قبول کرے گی جبکہ سنجیدہ کارکنوں میں گہری مایوسی پائی جارہی ہے۔ موقع پرستوں کے ایک گروہ کے مطابق پنجاب میں الیکشن جیتنے اور نواز لیگ کو شکست دینے کے لیئے پارٹی قیادت کا یہ فیصلہ بہت خوش آئنداور کامیابیوں کا آئینہ دار ہوگا لیکن اس خوش گمانی کا حقیقت سے کسی قسم کا تعلق نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پارٹی اگر چاہتی تو 2008ء کے جنرل الیکشن میں پنجاب میں آسانی سے حکومت بنا سکتی تھی۔ اگر پارٹی قیادت محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد امریکی سفارت کارزلمے خلیل زادکی مشاورت کے بعد چالیس دن سوگ میں نہ جاتی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو نظریاتی اور سیاسی معنوں میں واضح کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن مہم چلائی جاتی توپنجاب میں انتخابی نتائج مختلف ہونے تھے۔ پھر الیکشن کے نتائج آنے کے بعد شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے چالیس سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی کو جو کہ آزاد جیتے تھے پارٹی میں لینے کی بجائے ان کو خود نواز لیگ کا راستہ دکھایا تھا۔ ایک تاثر یہ ہے کہ پارٹی پوری طاقت لینے سے خود گریز کرتی ہے کیوں کہ قیادت کو معلوم ہے کہ گرتے اور مرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے زیرِ اثر عام لوگوں کے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے۔ دوسری طرف مالیاتی مفادات اور ریاست و سامراج کی کاسہ لیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اعتراف بھی نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ سامراجی نظام ناکام ہوکر ٹوٹ رہا ہے، لہذا کمزورو ناقابلِ اعتماد اکثریت، دانستہ طور پر بڑے صوبے میں حکومت نہ بناپانے اور مصنوعی اپوزیشن کے ساتھ مصنوعی تضادات کو غربت، بیروزگاری اور دہشت گردی کا شکار عوام کے سامنے جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں کبھی حکومت بنانے میں سنجیدہ نہیں رہی ورنہ گیارہ سالہ بھیانک فوجی آمریت کے بعد، اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعے ریاستی سطح پر پارٹی کو الیکشن میں ہرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور پیپلز پارٹی نے لاہور کی قومی اسمبلی کی نو میں سے سات نشستیں جیت لی تھیں،اسی طرح ضلع شیخوپورہ اور فیصل آباد میں پارٹی اکثریت سے جیتی تھی مگر بعد ازاں پارٹی قیادت کی دائیں بازو کی پالیسیوں،مفاہمت،’’عملیت پسندی‘‘ اور اپنے منشور کی بجائے اسکے برعکس اقدامات نے لوگوں کو سخت مایوس کردیا،ایک پست سوچ طاقتور ہوتی گئی کہ اگر سرمایہ داری نظام کا ہی دم بھرنا،امریکی سامراج اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد ہی حاصل کرنا ضروری ہے تو پھر پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی بجائے ان شیطانی طاقتوں کے حقیقی وارثوں سے کیوں نہ ناطہ جوڑا جائے،اسی سوچ نے پیپلز پارٹی کے گڑھ کہلوانے والے پنجاب میں پارٹی کو کمزور کیا۔ آج بھی تمام تر ناکامیوں،غلطیوں،جرائم اور انحراف کے بعد اگر پارٹی قیادت صرف بھٹو شہید کے تاسیسی سوشلسٹ منشور کو پھر سے اپنالے تو اس کو کسی دشمن،منافق یا موقع پرست کے ساتھ اتحاد بنانے یا اسکو پارٹی میں شامل کرنے کی ضرورت ہی نہیں،اسکی اپنی حقیقی طاقت اس ملک کے کروڑوں مزدور اور کسان ہی اس کو فتح یاب کراسکتے ہیں۔
متعلقہ:
پاکستان پیپلز پارٹی کی میراث
پیپلز پارٹی کا 45واں یوم تاسیس؛ پیپلز پارٹی توُ کہاں ہے؟
سیاسی بے حسی اور پاکستان پیپلز پارٹی
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام: بھیک کے ذریعے غربت میں کمی کا فلسفہ
اداریہ جدوجہد؛ 27 دسمبر کا وار