| تحریر: راہول |
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ حکومت کی پرانی کابینہ کو تحلیل کر کے نئے وزرا کو منتخب کیا جاچکا ہے، حکومت کی کئی اہم وزارتوں سمیت 83 سالہ قائم علی شاہ کو بطور وزیراعلیٰ ہٹا کر 54 سالہ ’’نوجوان‘‘ سید مراد علی شاہ کے ہاتھوں میں اب سندھ حکومت کی باگ دوڑ سونپی جاچکی ہے، سندھ بھر میں مٹھائیاں تقسیم ہوچکی ہیں اور علاقائی جشن سمیت چمچا گیری کے تمام تر پرانے ریکارڈ اب ٹوٹ رہے ہیں۔
سید مراد علی شاہ 1937ء سے اب تک اپنے والد عبداﷲ شاہ سمیت سندھ کے ایسے 24 ویں حکمران بن چکے ہیں جنہوں نے خطے کے وسائل کی لوٹ مار میں نہ صرف سامراجی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیا بلکہ خودبھی مستفید ہوتے ہوئے عوام کو غربت اور محرومی کی اتھا ہ گہرائیوں میں غرق کرتے چلے گئے۔ اسی راہ پر چلتے ہوئے 1972ء سے اب تک کے چوالیس سالوں میں پیپلز پارٹی اس صوبے پر چھ وزرائے اعلیٰ کے ساتھ 19 سال برسراقتدار رہی ہے۔ اس تمام تر عرصے میں چاہے وہ فوج، مسلم لیگ و دیگر حکومتوں کے پچیس سال ہوں یا پاکستان پیپلزپارٹی کے انیس سال، ہر دور کے حکمرانوں نے عوام کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج تک یہ سفر جاری ہے۔ سندھ، جسے پاکستان پیپلزپارٹی کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے، کی عوام کو بدقسمتی سے یہاں اس کے ہر دورِ اقتدار میں بھاری قیمت چکانی پڑی ہے اور اب تک پڑ رہی ہے۔ پارٹی سندھ کے ہاریوں، مزدوروں اور کسانوں کی نمائندہ ہونے کی بجائے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور نوسر بازوں کے نرغے میں ہے لیکن متبادل کی عدم موجودگی نے یہاں ایک ایسے بحران کو جنم دے دیا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے اور ہر چند سالوں بعد کچھ پرانے اور کچھ نئے چہروں کے ساتھ عوام کو لوٹنے اور ٹھگنے کے نئے طریقہ کار دریافت کر لئے جاتے ہیں۔ مراد علی شاہ نے بھی عوام کو گمراہ کرنے کے نئے طور طریقوں کے ساتھ اقتدار کی شروعات کر لی ہے اورعوامی مسائل پر حکومتی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حلف اٹھانے کے پہلے ہی ہفتے میں جناب نے ’’واٹس ایپ‘‘ کے ذریعے حکومتی اموار چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور کابینہ کا ایک ’’واٹس ایپ گروپ‘‘ تشکیل دیا جاچکا ہے، صرف اسی ایک مثال سے کوئی بھی باشعور آدمی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ پارٹی قیادت اور حکومت کی عوامی معاملا ت میں دلچسپی کی کیا کیفیت ہے۔ اب یوں محسوس ہو نے لگا ہے کہ اگر سات ارب آبادی کی اس پوری دنیا میں چراغ لیکر بھی ڈھونڈا جائے تو شاید ہی پاکستان جیسے شرم اور غیرت سے پاک حکمران تلاش کئے جاسکتے ہوں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے بھی نئے وزیر اعلیٰ پر بھرپور اعتماد ظاہر کیا گیا ہے اور امیدیں لگائی گئی ہیں کہ وہ ’’سندھ میں غربت کے خاتمے اور روزگار پیدا کرنے‘‘ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ غربت کے خاتمے اور روزگار کا حقیقی نسخہ تو پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور میں ضرور موجود ہے جس کا نام لینے سے بھی پارٹی قیادت گریزاں ہے۔ ایسے میں نہ جانے ایسا کونسا چراغ نئے وزیر اپنے ساتھ لائے ہیں کہ جس سے غربت سمیت تمام مسائل کا خاتمہ ہوسکے گا! پیپلزپارٹی کے دورِ اقتدار کو دیکھا جائے تو موجودہ حکمرانوں کے پچھلے نو سالوں میں یہاں غربت اور سماجی بدحالی کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی گئی ہے، اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں غربت کی انتہاؤں میں بسنے والی آبادی 75.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، یہ شرح بلوچستان کی 84.6 فیصد کے بعد پاکستان کی دوسری بدترین غربت کا منظر پیش کرتی ہے۔ دیہی آبادی کی صورتحال حالیہ حکومتی دور میں بدترین گراوٹ پر پہنچ چکی ہے جہاں صرف عمرکوٹ ضلع میں 84.7 فیصد جبکہ تھرپارکر میں 87 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود شہروں میں زندگی بسر کرنا اور مشکل ہوتا جارہا ہے اور دیہاتوں سے شہروں کی جانب رخ کرنے والے افراد یا تو بدترین حالات میں گھٹ گھٹ کر مرجاتے ہیں یا پھر مایوس ہوکر واپس دیہاتی زندگی میں لوٹ جاتے ہیں، جب زندگی کی بنیادی ضرورت پانی شہروں میں ملنے سے قاصر ہو تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ کن حالات میں زندگی گزارتے ہوں گے، ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی کے رہائشی ہر ماہ تقریباََ 18 ہزار روپے صرف پانی خریدنے پر خرچ کرتے ہیں۔ جو حکومت اپنی عوام کو پانی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات مہیا نہ کرسکتی ہو اس سے خوشحال زندگی کی توقع اب سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ بھی نہیں۔
حالیہ سرکاری لٹیروں کی تبدیلی کے متعلق ’’میڈیائی اداکار‘‘ اپنے ہر ٹاک شو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو قائم علی شاہ کی ’’بے باکی اور بہادری‘‘ سے بڑا خطرہ تھا لہٰذا ان کے مطالبے پر ہی انہیں ہٹایا گیا اور رینجرز کی کراچی میں مدت کے اضافے پر شدید اختلافات اور تنازعات کی وجہ سے ہی یہ ساری تبدیلی کی گئی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت میں تاج حیدر جیسے حضرات یہ تاثر دے رہے ہیں کہ قائم علی شاہ جیسے سادہ آدمی کی ’’معصومیت‘‘ کی بدولت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی جاسکتی تھی اور انہیں ان کی نسبت ’’مضبوط‘‘ وزیر اعلیٰ درکار تھا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ چاہے رینجرز سے لوٹ مار کے معاملات پر لاکھ اختلافات ہی کیوں نہ ہو ں، کیا آج پاکستان کے کسی بھی سیاسی حکمران میں اتنی جرات ہے کہ وہ ان کے سامنے چھینک بھی سکے، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا تو بہت دور کی بات ہے ! نئی کابینہ نے بھی آکر وہی کیا جو ہمیشہ سے ہی ہوتا رہا ہے اور رینجرز مدت میں اب توسیع کی جارہی ہے۔
درحقیقت پیپلزپارٹی کی قیادت کشمیر الیکشن میں اپنی شکست کے بعدچہروں کی تبدیلی کا ڈھونگ کر رہی ہے اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کی باتیں کر کے مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن جن عوام نے 1968-69ء میں انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر پیپلز پارٹی کو حمایت دی تھی انہوں نے تاریخ کے اس طویل سفر سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اس طرح کے نان ایشوز کی بجائے ان کا بنیادی مطالبہ آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان ہی ہے۔ اس طرح کے ڈھونگ اور فریب کاری کو پاکستان کے محنت کش یکسر مسترد کر چکے ہیں۔ وہ جب سیاسی تحرک میں آئے تو ان حکمرانوں سے پورا حساب اور انتقام لیں گے اور سوشلسٹ نظریات سے لیس پارٹی ہی عوام کی امنگوں پر کھری اتر سکے گی۔
سندھ کی سیاست میں کراچی آپریشن سے لیکر اب تک واضح تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس آپریشن کے بعد چند نئے کھلاڑی اس کھیل کا حصہ اور کراچی میں ہر روز پھیلنے والی دیوہیکل کالی معیشت کے دعویدار بنتے چلے گئے ہیں، پہلے جو کام ایم کیو ایم کے ذریعے کروایا جاتا رہا اب اس کے لئے قانون کے رکھوالے خود میدان میں آن پڑے ہیں اور بھوکے گدِھوں کی طرح کراچی کو نوچنے پر تلے ہیں۔ بنیادی طور پر کرپشن، بھتے، زمینوں پر قبضوں اور جرائم کی کالی معیشت کی حصہ داری پر ہی تمام لڑائی لڑی جارہی ہے۔ امن قائم کرنے کے نام پر یہاں لوٹ مار کا کھلواڑ جاری ہے اور تمام ترجھوٹے دعوے اب بے نقاب ہوتے جارہے ہیں، آپریشن کی کامیابی کا واویلا کیا جارہا ہے لیکن اسی دوران پچھلے سال سے اب تک 1400 سے زائد افراد صرف ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں مارے جاچکے ہیں۔ دوسری جانب ریاستی دھڑوں کی آپسی لڑائیاں بھی جاری و ساری ہیں جو ان کے مقاصد کو خوب بے نقاب کرتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں لاڑکانہ اور کراچی میں رینجرز پر ہونے والے حملے بھی اس لڑائی کی شدت میں اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
سندھ سمیت پورا پاکستان آج بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور ’’پاک سر زمین‘‘ سے لیکر پے رول پر موجود تمام نئی اور پرانی سیاسی جماعتیں اب انہی لوگوں سے بھری جارہی ہیں جنہوں نے عوام کو صرف بربادی اور محرومی ہی دی ہے۔ سندھ میں قوم پرست جماعتیں بھی ’’کچھ دو کچھ لو‘‘ کی پالیسی کے تحت شدید نظریاتی اور سیاسی بحران کی کیفیت میں ہیں اور ساری سیاست کا مرکز ’’بحریہ ٹاؤن نامنظور‘‘ بناہوا ہے تاکہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع مل جائے۔ ایم کیو ایم آج اپنے بدترین بحران کے دور سے گزر رہی اور ہر آنے والا دن اس کے لئے مشکلات بڑھا رہا ہے اور فی الوقت سندھ کی سیاست میں اس کی حیثیت استعمال شدہ ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔ سندھ کے عوام نے بار بار پیپلز پارٹی سے امیدیں وابستہ کی ہیں لیکن پارٹی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نرغے میں ہے اور قیادت کی مسلسل غداریوں، بدعنوانیوں اورحملوں نے نہ صرف عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ انہیں سکتے کی سی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ عوام موجودہ قیادت کی عوام دشمنی اور دھوکہ دہی کو اب اور زیادہ برداشت نہیں کرسکتے۔ محنت کش عوام کی موجودہ خاموشی بنیادی طور پر کسی طوفان سے پہلے جیسے سکوت سے مطابقت رکھتی ہے۔ محنت کش طبقہ ماضی کی تمام غداریوں، دھوکوں اور جعلسازیوں سے سیکھتے ہوئے انقلابی تبدیلی کے لئے ضرور میدان عمل میں آئے گا، انقلابی سوشلزم کے نظریات اس تحریک پر آشکار ہوئے تو پھر چہرے نہیں سماج کو بدلا جائے گا۔