| تحریر: لال خان |
پاکستان کے حکمران طبقات کے مختلف متحارب دھڑوں کے سیاست دانوں کے درمیان جتنی بھی عدالتی محاذ آرائی اور تکرار ہو، محنت کش طبقے کے خلاف سرمایہ دارانہ مفادات کے دفاع میں وہ ہمیشہ متحد ہیں۔ مزدور دشمن نجکاری پالیسی کے خلاف وہ نہ آواز اٹھاتے ہیں بلکہ درحقیقت وہ اس نظام کی بنیادی استحصالی پالیسیوں اور دولت کے اجتماع پر متفق ہیں۔ اس نظام کی نمائندگی کرنے والے حکمران طبقات کے ان لیڈروں اور پارٹیوں کا اس ملک کے محنت کشوں کی طرف ایک حقارت آمیز رویہ ہے۔ ایک اور معاشی حملے میں دائیں بازو کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے محنت کشوں کے خلاف ایک اور تباہ کن نجکاری کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے پچھلے بدھ کو اعلان کیا، ’’اس سال جون تک حکومت تین قومی اداروں کی نجکاری مکمل کرلے گی‘‘، اس نے سال 2017ء کو ’نجکاری کے لیے سازگار‘ قرار دیا۔
حکومت نے پاکستان سٹیل ملز کے علاوہ اس سال جون تک پی آئی اے اور اوجی ڈی سی ایل کی بھی نجکاری مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ چار مزید قومی ادارے، فرسٹ وومین بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پاکستان ری انشورنش کمپنی اور نیشنل انشورنس کمپنی کو بھی نجکاری کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ جب ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیا تو نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے کہا، ’’یہ نئی کمپنی کی انتظامیہ پر منحصر ہوگا کہ انہیں کتنے ملازمین کی ضرورت ہوگی۔ جن ملازمین کی خدمات کی ضرورت نہیں ہوگی انہیں ریٹائرمنٹ پیکج پیش کئے جائیں گے۔‘‘
پاکستان کا تاریخی طور پر تاخیرزدہ، معاشی طور پر پسماندہ، سماجی طور پر رجعتی اور ثقافتی طور پر بھونڈاحکمران طبقہ ایک جدید صنعتی ملک تعمیر کرنے میں ناکامی پر مزید رجعتی بن گیا ہے۔ ان کی موجودہ انٹیلی جینشیا، کارپوریٹ میڈیا اور سیاسی دانش ایک روشن مستقبل کی امید کھو بیٹھے ہیں اور بیہودہ انداز میں مغرب کی نقالی کرتے ہیں اور سامراج کے غلام ہیں۔ ان کا خصی پن ایک زرعی انقلاب برپا کرنے میں ناکامی اور جاگیرداروں کے ساتھ مصالحت میں نظر آتا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی حکمرانی کے لیے زیادہ سے زیادہ رجعتی قوتوں پر انحصار کرتے ہوئے پسماندگی اور سماجی قدامت پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں جس سے محنت کش طبقہ مزید کمزور ہو اوران کا سماجی شعور متعصب اور گھٹن زدہ ہوجائے۔
لیکن یہ بدعنوان اور جابر حکمران سامراجی اداروں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی ادارے ہی دراصل یہاں کی معاشی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں اور ملک کے وسائل پر قابض ہیں۔ ان اداروں کی پالیسیوں اور دباؤ کی وجہ سے ہی پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کو مقروض بنا دیا ہے اور اب اداروں کی نجکاری کررہے ہیں، قطع نظر اس چیز کے کہ اس سے ملک کی مجموعی معیشت کتنی برباد ہوگی۔ ان سامراجی اداروں کے مرتب کیے گئے نئے نوآبادیاتی نظام کا حصہ بننے سے ملک کے محنت کشوں کا استحصال اور وسائل کی لوٹ مار، سامراج کی براہ راست نوآبادیاتی حکمرانی سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کے سیاستدان اور ماہرین معیشت زیادہ تر مغرب سے فارغ التحصیل ہیں اور سرمایہ دارانہ سامراجی پالیسیوں کی اندھادھند پیروی کرتے ہیں۔ ’معاشی ترقی‘ کے ان مزدور دشمن نسخوں نے نہ صرف محنت کشوں کی زندگیاں برباد کردی ہیں بلکہ آبادی کی اکثریت کے لیے ضروریات زندگی تک رسائی کوبھی مزید مشکل بنا دیا ہے۔
یہاں کی سیاسی اشرافیہ برطانیہ سے اتنی متاثر ہے کہ تمام تر عدالتی مقدمات، سیاسی نظام اور معاشی نظریات اپنے ان سابقہ نوآبادیاتی آقاؤں سے نقل کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی جانب سے شروع کی جانے والی نجکاری کے عمل کو غور سے دیکھیں تو یہ واضح ہوگا کہ اس سے برطانیہ کے محنت کشوں کی زندگیاں برباد ہوگئیں۔ برٹش ریل کی نجکاری ایک واضح ناکامی ہے۔ نجکاری کے بعد ریل انڈسٹری کو ملنے والی حکومتی سبسڈی نجکاری سے پہلے کی نسبت مزید بڑھ گئی ہے۔ برطانوی دارالعوام کے عوامی اخراجات کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ سبسڈی 1980ء کی دہائی کے ایک ارب پاؤنڈ سے بڑھ کر 2006-7ء میں سالانہ 6 ارب پاؤنڈ تک پہنچ گئی۔
2011ء میں برطانیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ فلپ ہیمنڈ نے نجکاری کے بعد ریل کرایوں میں اضافے کے متعلق کہا کہ برطانیہ میں ریل کا سفر ’’امیر آدمی کا کھلونا‘‘ ہے۔ یو بی ایس بینک کے ماہرین نے 2006ء میں کہا کہ برطانیہ میں ریل کا سفر دنیا میں سب سے مہنگا ہے۔ برطانیہ میں نجکاری کی سب سے تباہ کن میراث روزگار کا خاتمہ ہے۔ 1985ء میں میڈیا کی یلغار اور لیڈروں کی غداری کی وجہ سے کانکنوں کی ہڑتال کی ناکامی کے بعد کوئلے کی صنعت کی نجکاری کے نتیجے میں دولاکھ ملازمتیں ختم ہوگئیں۔ برٹش ٹیلی کام کی نجکاری کے بعد ایک لاکھ ملازمتیں ختم ہوئیں جبکہ امپریل کیمیکل انڈسٹریز (ICI)میں ری اسٹرکچرنگ کے نتیجے میں پندرہ ہزار نوکریاں ختم ہوگئیں۔ میڈیا کے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود پوری دنیا میں نجکاری کی تباہ کاری ایک جیسی ہے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے ہر حکومت اور بالخصوص پچھلے تین سالوں میں مسلم لیگ نواز کی سرمایہ دارانہ حکومت نجکاری کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ معاشی زوال اور عالمی سطح پر سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے وہ اب تک ناکام رہے ہیں۔ لیکن ایک اور وجہ ان اداروں کے محنت کشوں کی وہ بغاوتیں تھیں جس کی وجہ سے وہ ان قومی اثاثوں کو اپنے رشتہ داروں کو اونے پونے بیچنے میں ناکام ہوگئے۔ 2014ء میں او جی ڈی سی ایل کے محنت کشوں نے ہڑتال کی اور حکومت کو مجبور ہوکر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اسی طرح پی آئی اے کے محنت کشوں نے 2016ء میں تاریخی ہڑتال کی اور ایئر لائن کے جہازوں کو گراؤنڈ کردیا۔ جھوٹے وعدوں، فریب اور تاخیری حربوں کے ذریعے حکومتی گماشتوں نے ہڑتال کو ناکام بنا دیا۔
واپڈا کے محنت کش بھی نجکاری کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ سٹیل مل کے محنت کشوں نے اپنی ملازمتوں کو لاحق خطرات اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے متعدد احتجاج کیے ہیں۔ ریلوے کے محنت کشوں میں بھی احتجاج اور ہڑتالی اقدامات پنپ رہے ہیں۔ حکومت کو اکثر پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے لیکن ان ہڑتالوں کی الگ تھلگ کیفیت، اتحاد کے فقدان اور انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے محنت کشوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ اس وقت پاکستان میں ٹریڈ یونین کی ممبرشپ اور منظم مزدوروں کی تعداد 2 فیصد سے بھی کم تک گر چکی ہے۔ نجی شعبے میں یونین سازی تقریباً ناپید ہے۔ لیکن ان ہڑتالوں نے پاکستان کے پرولتاریہ کی وسیع طاقت کو آشکار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مین سٹریم سیاست میں محنت کشوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور جمود کے شکار سماج پر رجعتی رجحانات حاوی ہیں، محنت کش طبقے کے وسیع تر حصوں میں عمومی طور پر کسی حد تک مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ تاہم یہ ایک عارضی مظہر ہے جیساکہ اکثر تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ لیکن محنت کش کب تک ری اسٹرکچرنگ، عارضی ملازمتوں، نجکاری اور لبرلائزیشن کی تباہ کن پالیسیوں کو برداشت کرتے رہیں گے؟ ہر جمہوری اور فوجی حکومت نے ان پالیسیوں کو لاگو کیا ہے اور نتیجے میں اس سے نہ صرف عوام کی زندگیاں اجیرن ہوئی ہیں بلکہ پاکستان کی سرمایہ دارانہ معیشت میں بھی سنبھالا نہیں آیا جو اپنی جڑوں تک بوسیدہ ہے۔ صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب اور دوسرے سماجی شعبوں کی نجکاری نے عوام کی زندگیوں پر قہر نازل کردیا ہے۔ اس کے باوجود کچھ شعبوں میں محنت کشوں کی ہڑتالوں کی طاقت نے دکھا دیا ہے کہ اگر تمام محنت کش متحد ہوکر ایک عام ہڑتال کی طرف جائیں تو پھرکیا ہوگا! اس سے واضح طور پر نظام کو چیلنج کیا جائے گا اور ایک ایسی انقلابی کیفیت پیدا ہوگی جس میں بنیادی سماجی و معاشی تبدیلی ایک حقیقت بن جائے گی۔
لیکن ریاستی سرمایہ داری کے معاشی بحران کا حل نجکاری نہیں ہے جس سے محرومیوں اور بربادیوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے نیشنلائزیشن، نجکاری کی بدعنوانی اور خرابیوں کو ختم کرسکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت کو تبدیل کرکے ایک منصوبہ بند معیشت کو رائج کرنا ہوگا، ورنہ سرمایہ داری کی حکمرانی میں سماج اسی طرح برباد ہوتا رہے گا۔ سماج کی یہ تاریخی تبدیلی صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔