کفارہ

تحریر: لال خان

نواز شریف کی اچانک سعودی عرب یاترا اتنی حیران کن بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ تاریخ میں فرد کا کردار بدلتا نہیں ہے۔ بالخصوص پسماندہ معاشروں میں افراد بعض اوقات غیر معمولی اہمیت حاصل کر جاتے ہیں۔ لیکن ان معاشروں کی خلق میدان عمل میں اتر کر بعض اوقات اپنی تحریک کی شدت اور تپش سے بالادست طبقات کی سیاست میں کلیدی کردار حاصل کر جانے والی شخصیات کو بھی اپنے طبقے سے بغاوت کر کے انقلاب کے راستے چلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ لیکن ایسی شخصیات انتہائی نادر ہوتی ہیں۔ ان میں 20ویں صدی کی ایک اہم شخصیت چین کے انقلابی رہنما چو این لائی کی ہے، جو چین کا تیسرا بڑا جاگیر دار ہونے کے باوجود اپنے طبقے سے بغاوت کر کے انقلابی تحریک کی صفوں میں شامل ہو گیا تھا۔ایسی اور بھی بہت سی شخصیات ہیں لیکن انقلابی تحریکوں کی وسیع تاریخ دیکھی جائے تو انکی تعداد نہایت ہی قلیل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کئی مرتبہ یہ اعلان کیا تھاکہ وہ اپنے طبقے کو ’چھوڑ‘ کر محنت کشوں اور غریبوں کی تحریک میں شامل ہوئے ہیں۔ لیکن نواز شریف میں ایسی کوئی رمق کبھی نظر آئی ہی نہیں تھی اور معزولی کے وقت اور بعد کے مہینوں میں کوئی ایسی عوامی تحریک ابھری بھی نہیں جو اس نظام کے لئے خطرہ بنتی اور کسی متبادل سیاست اور انقلابی منزل کی نوید دیتی۔ نواز شریف کی لڑائی بالادست طبقات اور ریاستی دھڑوں اور ڈھانچوں کے باہمی تنازعات تک محدود تھی۔ سعودی عرب جانے سے پیشتر نواز لیگ کے مختلف دھڑوں میں جو کشمکش موجود تھی وہ محض اپنے ہی طبقے اور نظام کی حاکمیت کے مختلف حصوں کے متضاد مفادات اور پالیسیوں کے تناؤ پر مبنی تھی۔ شہباز شریف، چوہدری نثار اور پارٹی کی دیگر اکثریتی قیادت اس جمہوریت کو مقتدر قوتوں کی جکڑ سے باہر نکالنے کی کوشش کو مہم جوئی قرار دے کر اسی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار تھے جس پر انہیں اگر بھاری ٹھیکے اور بڑے حصے نہیں بھی ملتے تو بھی حاکمیت کی مصنوعی اور مغلوب شان و شوکت تو حاصل ہے! لیکن نواز شریف اور مریم نے کچھ بڑے بول بول دئیے تھے۔ یہ نہیں سوچا کہ ان کی پارٹی اور طبقہ اتنا مضبوط، شفاف، دلیر اور ترقی پسند نہیں ہے کہ اس ملک کو بوسیدہ سرمایہ داری میں یورپی طرز کی گھسی پٹی جمہوری اور پارلیمانی سیاست کو بھی فعال اور با اختیار بنا سکے۔ پاکستان جیسے نوآبادیاتی ممالک کی معاشی اور صنعتی پسماندگی یہاں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس کی سیاسی عکاسی کرنے والے جمہوری اور پارلیمانی ادارے بھی اسی کردار کے حامل ہیں جو اس رائج الوقت نظام کا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ نواز شریف کو انتخابی اکثریت حاصل تھی لیکن ایسا نہیں ہے کہ انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹ کسی امید اور جذبے سے دیئے گئے تھے۔ بلکہ طویل عرصے سے مروجہ سیاست سماج میں بالادست اور درمیانے طبقے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ وسیع تر محنت کش عوام کی اس سیاست سے بیزاری اور بیگانگی کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
مسلم لیگ نواز بنیادی طور پر اس ملک کے سرمایہ داروں، کاروباری حضرات، ٹھیکیداروں اور کاروباری پیٹی بورژوازی (درمیانے طبقے) کی نمائندہ پارٹی تھی اور ہے۔ ایسے طبقات ووٹ تو دے سکتے ہیں، جلسے جلوسوں میں شرکت بھی کرتے ہیں لیکن جیسا کہ انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے مادیت پسند فلسفی تھامس ہابز کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ’’امیر ہو جانے والے دکانداروں سے جرات کی توقع رکھنا یا مطالبہ کرنا بے سود ہوتا ہے، کیونکہ اُنہیں اپنے وقتی فائدے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا… اور وہ لٹ جانے کے امکان کے خیال سے ہی تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔‘‘
مریم نے جو مہم شروع کی تھی وہ اس نظام کے کچھ اداروں کے خلاف تھی، نظام کے خلاف نہیں تھی۔ نوا ز اور مریم کی مزاحمت میں جس جمہوریت اور آئین کی پاسداری کومرکزی نعرہ اور محور بنانے کی کوشش کی گئی تھی اس کی حاکمیت میں اب تک تو اس ممالک کے محنت کش عوام کو صرف دکھ، درد اور محرومی کی اذیتیں ہی ملی ہیں۔ ان عذابوں کے خاتمے کا اس مزاحمت میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس لیے یہ ایک نیم تحریک قسم کا مظہر بنا جس میں نواز شریف کی مظلومیت کا رونا زیادہ رویا گیا۔ لیکن ایسی مظلومیتیں سیاست میں لمبے دورانیے تک نہیں چلتیں۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ نوا ز لیگ حکومت میں بھی تھی اور نواز شریف سب سے بڑ ا اپوزیشن لیڈر بھی بن گیا۔ یہ صورتحال تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دوسری نام نہاد اپوزیشن پارٹیوں کے سیاسی اور نظریاتی دیوالیہ پن کی غمازی کرتی ہے۔ اگر نوا زشریف نے غریبوں کی بات نہیں کی تو اس کے مخالفوں کو بھی کرپشن کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ملا۔ ان کے اسٹیبلشمنٹ کی بی، سی اور ڈی ٹیمیں ہونے کا تاثر ہی مضبوط ہوا۔ کیونکہ اب انکی سیاست بھی عوام سے لاتعلق ہے اور وہ اقتدار کے لئے عوام کی طاقت کی بجائے سامراج اور ریاست کی پشت پناہی پر ہی تکیہ کئے ہوئے ہیں۔
لیکن اب نواز شریف نے بھی سبھی چہ مگوئیاں ختم کر دی ہیں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کی یاترا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوا ز شریف کو مقتدر اداروں سے مصالحت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق پہلے سعودی اشرافیہ کو اس ملاقات پر منانے پر اور نواز شریف کی گارنٹی دینے گئے تھے۔ اب شاہی دربار میں نوا ز شریف کو بہت سی خطاؤں کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ یمن میں فوجیں نہ بھیجنے کا معاملہ تو ویسے ہی اس کے گلے پڑ گیا تھا۔ لیکن قطری شہزادوں سے تعلقات میں تو وہ واقعی سرگرم تھا۔ اور سعودی حکمرانوں کو یمن سے زیادہ قطر پر غصہ ہے۔ کیونکہ قطر پر تو وہ بمباری بھی نہیں کر سکتے اور تمام تر پابندیوں کے باوجود قطری اپنے مال کے زور پر یورپی سامراجیوں کی آشیرباد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ اس دربار میں نواز شریف کی خطائیں تو شاید معاف ہو جائیں گی لیکن نواز مخالف دھڑوں کی بہت سی امیدوں پر بھی پانی پھر جائے گا، کیونکہ نواز شریف کے فارغ ہو جانے اور اضافی لوٹ مار کے امکانات مخدوش ہو جائیں گے۔ طاہر القادری کی چھایا تلے آل پارٹیز کانفرنس کے ناٹک میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی بس یہی باہمی رونا روتے شریک ہوئے ہیں۔ سعودی اشرافیہ کے اپنے مفادات پاکستان سے بہت حد تک وابستہ ہیں۔ ان کے پاس دولت تو اب بھی کافی بچی ہوئی ہے لیکن عسکری حمایت کے لئے جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے انکا پاکستان کی مقتدر قوتوں پر انحصار کافی پرانا ہے۔ لیکن اس سارے سیاسی ناٹک میں پاکستان کے عوام جس جبر و استحصال کا شکار ہیں، ان کی زندگی کی محرومیاں جتنی شدت اختیار کر گئی ہیں وہ ان کو کب تک برداشت کریں گے۔ یہ مقتدر سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کا ملغوبہ ہے جو انکے مسائل حل کرنے کی بجائے پاور پالیٹکس محض اپنی مالی ہوس کو پورا کرنے کے لئے کرتا ہے۔ یہاں ہر پارٹی اقتدار میں بھی ہے اور اپوزیشن ہونے کا ناٹک بھی کرتی ہے۔ پیسے کی اِس ’جمہوریت‘ نے عوام کے لئے سیاست کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں۔ ہاتھوں سے ووٹ دینے سے انکے مسائل حل نہیں ہوتے، لیکن اذیتیں ضرور بڑھتی جاتی ہیں۔ انکے پاس سوائے پیروں سے ووٹ ڈالنے اور پیسے کے اِس نظام اور اس کی سیاست کے خلاف بغاوت کرنے کے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔