تحریر: لال خان
ملک کی لبرل اشرافیہ کی امیدوں کے برعکس محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف نے بالآخر وہی کیا جس کی توقع اُن کے طبقے سے کی جا سکتی تھی اور جواس نظام کی حدود میں ممکن تھا۔ نوا ز شریف کا خاموشی اور مریم کا بیگانگی اختیار کر جانا ویسے کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ بس ایک خلا تھا جس میں ووٹ کے تقدس کا واویلا کیا گیا۔ ’سویلین بالادستی‘ کی لڑائی لڑنے کا تاثر دیا گیا۔ ان کی ’قانونی مظلومیت‘ سے متاثر ہونے والوں میں انصاف سے محروم لوگوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ قرضوں کے زور پر حاصل کیے گئے معاشی پھیلاؤ کے نیچے پہنچنے والے کچھ ثمرات کی وجہ سے بھی حمایت ملی۔ لیکن ہمدردیوں کی بنیاد پر کوئی دیرپا اور جرات مندانہ تحریکیں نہیں ابھرا کرتیں۔ نظام کے ستونوں کو چیلنج کرنے کیلئے نظام سے کھلی بغاوت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن بالادست طبقات کے بظاہر ’باغی‘ دھڑوں کی معاشی اور سیاسی بنیادیں بھی اسی نظام میں پیوست ہوتی ہیں۔ ایسے میں نظام بدلنے کی بات کی بھی جائے تو کھوکھلا نعرہ ہی رہتی ہے۔ برطرفی کے بعد نواز شریف کی تمام شعلہ بیانی مروجہ سیاست میں خاصی ’ریڈیکل‘لگنے کے باوجود کہیں بھی نظام کی بنیادوں سے متصادم نہیں تھی۔ بالائی ڈھانچوں اور اداروں پر تنقید کے باوجود نظام سے متصادم ہر دھارا جو کہیں لاشعوری طور پر ہی بہہ نکلا تھا، نواز اور مریم نے خود ہی کاٹ ڈالا۔ اس نظام کی حقیقی بنیادوں پر بات تک کرنا گوارا نہیں کیا گیا۔ یہاں عام لوگوں کی ذلت، استحصال اور محرومی کی وجوہات پر بات کی گئی نہ ہی ان دکھوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی مستند پروگرام دیا گیا۔ عوام تو اپنی تلخی بھری زندگیوں میں کوئی راہِ نجات اور راہبر تلاش کر رہے تھے۔ ایسے میں اِس پیسے کی جمہوریت، جسے کوئی ذی شعور انسان سنجیدہ نہیں لے سکتا، کے نام پر کہاں تک حمایت حاصل کی جا سکتی تھی؟ کیسی جمہوریت؟ جس میں ہر طرح کا طبقاتی، صنفی اور قومی استحصال جاری و ساری رہے؟ سیاسی ڈھانچہ،چاہے جمہوری ہو یا آمرانہ، مروجہ نظام کو جاری رکھنے کیلئے ہی ہوتا ہے۔ یہ خود کوئی نظام نہیں ہوتا بلکہ نظام کو چلانے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ اس میں تبدیلیاں یا اصلاحات کربھی دی جائیں تو نظام تو وہی رہے گا۔ محنت کشوں کے حالات تو نہیں بدلیں گے۔
اس ملک میں فوجی آمریتوں کے ننگے جبر کا ایک سیاسی نقصان عوام کی کچھ پرتوں میں جمہوریت سے وابستہ خوش فہمیوں کا پنپنا بھی تھا جس میں پیپلز پارٹی کی قیادتوں کا مجرمانہ کردار بھی کارفرما تھا جنہوں نے انقلابی سوشلزم کے منشور سے انحراف کرتے ہوئے ’’جمہوریت‘‘ کو ہی اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا۔ پھر نوا ز شریف کی پارٹی کونسی کوئی انقلابی پارٹی تھی۔ دوسری مسلم لیگوں کی طرح نواز لیگ بھی سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ٹھیکیداروں، آڑھتیوں اور دکانداروں پر مبنی ہے۔ اس میں محنت کشوں کا کوئی گزر نہیں ہے۔ بلکہ یہ انہیں دبانے اور کچلنے کا سیاسی اوزار رہی ہے۔ ایسی پارٹی پر تکیہ کرتے ہوئے طاقتور اداروں کو چیلنج کرنا خود ایک حماقت بن جاتی ہے۔ شہباز شریف کے دھڑے نے تو روزِ اول سے ہی کوئی برائے نام مزاحمت بھی نہ کرنے کی روش اپنائی۔ مالدار اشرافیہ کے گھرانوں میں خاندانی رشتوں کی ویسی قدر و قیمت نہیں ہوا کرتی جیسی عام لوگوں میں کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ لیکن وہ نواز شریف کو اس لئے بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھاکہ نواز لیگ کی سیاست میں سے نواز شریف کو منفی کرنا ممکن نہیں تھا۔
ریاست کے طاقتور حصوں سے جب تھوڑی بہت چپقلش شروع ہوئی تو نواز لیگ کے لیڈروں کے مالی مفادات آڑے آنے لگے۔ اس طبقے کو اپنی دولت باقی ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہوتی ہے۔ وہ دولت کو بڑھانے کے لئے ہی سیاست کرتے ہیں، گنوانے کے لئے نہیں۔ لیکن سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اپنے آغاز سے ہی ناکام و نامراد تھا۔ طاقتور صنعت کاری کی بنیاد پر ملک گیر ہموار و دیرپا ترقی کے ذریعے وہ پاکستان کو ایک یکجا قومی ریاست اور جدید صنعتی ملک بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ انگریز سامراج کے پیوند کردہ اس حکمران طبقے میں اتنی تکنیکی اور مالیاتی صلاحیت نہیں تھی کہ عالمی منڈی پر حاوی اجارہ داریوں کا مقابلہ کرسکے اور اپنی معاشی، سیاسی اور سفارتی سالمیت استوارکرے۔ اسی تاریخی تاخیرزدگی اور مالی و تکنیکی کمزوری کی وجہ سے وہ سامراجی طاقتوں کی کمیشن ایجنٹی تک ہی محدود رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے منافعوں اور طبقاتی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں روزِ اول سے بدعنوانی کا طریقہ کار اختیار کرنا پڑا۔ چنانچہ یہاں کے حکمران طبقات کے مختلف دھڑے جو مختلف حاوی سیاسی پارٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں ان کو ریاستی اقتدار کا آسرا چاہیے ہوتا ہے۔ بالکل جیسے انسانی جسم کو آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں روزِ اول سے ریاست کے تابع طبقے کا ریاست سے ٹکر لینا تو دور کی بات ہے وہ ریاستی اداروں کے سامنے ’چوں‘ بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں سویلین حکومتیں ریاست کے ماتحت ہوتی ہیں نہ کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ریاست کو اپنی گورننس کا آلہ کار بناتی ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقے کی یہی تاریخی نامرادی نواز شریف اور مریم کی پسپائی کے پیچھے کارفرما رہی ہے۔ انہوں نے ’جمہوریت‘ کی بالادستی کی لڑائی کا جو کھیل شروع کیا وہ اپنے آغاز سے ہی ناکام تھا۔ علاوہ ازیں نوا ز شریف اپنی نواز لیگ سے ہی جان چھڑانے میں ناکام رہا اور پھرہر ناکام لیڈر کی طرح عوام کو ہی دوشی ٹھہرا دیا گیا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ حکمران طبقے کا کوئی فرد اپنے طبقے سے بغاوت کر کے انقلاب کے راستے پر نہ چلا ہو۔ بھٹو نے کم از کم کہا ضرور تھا کہ ’میں اپنے طبقے سے بغاوت کرکے محنت کش طبقے کے ساتھ آن ملا ہوں۔‘ لیکن اس بغاوت کو عملاً مکمل نہ کر سکنے پر اس کے آبائی طبقے نے ہی اسے نشان عبرت بنایا۔ لیکن بھٹو نے آنے والی نسلوں کے لئے یہ سبق اپنی آخری تحریر میں ضرور چھوڑا تھاکہ ’’میں نے دو ناقابل مصالحت طبقات کے درمیان سمجھوتہ کروانے کی کوشش کی لیکن میرا انجام اس بات کا ثبوت ہے کہ متضاد طبقات کے مابین مصالحت کی کوشش محض دیوانے کا خواب ہوتی ہے۔‘‘ لیکن نواز شریف نے تو اس ڈگر پر ایک قدم بھی نہیں رکھا۔ اس کا چو این لائی بننا تو بہت دور کی بات تھی۔ اس کے وہم وگمان میں بھی شاید اتنی جرات اور ہمت نہیں تھی۔ تاہم نوا ز شریف کی اس پسپائی سے حکمران طبقات کو ایک وارننگ ضرور مل گئی ہے: ’’جو قاعدے میں رہے گا وہی فائدے میں رہے گا۔‘‘ لیکن یہ سیاسی خلفشار بھی چلتا رہے گا۔ نورا کشتیوں کا بازار گرم رکھ کے ہر بنیادی ضرورت کی قیمت بڑھائی جاتی رہے گی۔ مہنگائی زخم پہ زخم لگاتی رہے گی۔ بیروزگاری اور محرومی بڑھتی رہے گی اور ذلت اس نظامِ سرمایہ میں معاشرے کی وسیع تر آبادی کو عذابوں میں مبتلا رکھے گی۔
احتساب ایک کھلواڑ ہے جسے حکمران طبقات اپنی آپسی لڑائیوں میں جاری رکھتے ہیں۔ اپنی وارداتوں کے ظلم سے توجہ ہٹانے کے اوزار کے طور پر کرپشن کا شور مچایا جاتا ہے۔ پرانی پارٹیوں سے عوام تنگ ہیں ۔ ساری مروجہ سیاست سے وہ بیزار ہیں۔ لیکن ’نئی پارٹی‘ نے پرانی پارٹیوں سے بھی زیادہ معاشی جبر شروع کررکھا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے’’بدعنوانی‘‘ نے جو حالیہ پانچ ہزار اکاؤنٹوں کی پٹاری کھولی ہے اس دوران اس نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ معیشت کالے دھن پر مبنی ہے۔ یہ کالا دھن اِس نظام سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اپنے مالیاتی فنانسروں سے ٹکرانے کا مطلب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔ لیکن یہ ساری حکمران سیاست اور حاکمیت روبہ زوال ہے۔ کیونکہ جس نظام پر یہ کھڑی ہے اس کا وقت گزار چکا ہے۔