| تحریر: لال خان |
’شنگھائی کو آپریشن تنظیم‘ کے حالیہ اجلاس کے وقفے میں میاں نواز شریف اور نریندرا مودی کی ملاقات کو پھر روایتی ڈرامائی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔میڈیا خوب تجسس پیدا کر رہا ہے۔ پچھلے68 سال سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کھیل کا مقابلہ ہو، سیاسی مذاکرات یا پھر بڑھک بازیاں،دونوں ممالک میں جذبات ابھارے جاتے ہیں، امیدیں بیدار کی جاتی ہیں اور پھر دوستی یا دشمنی کے اظہار پر لا متناہی اور بے معنی بحث و مباحث کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ تقسیم چاہے فلسطین کی ہو یا پھر خطہ لیوانت ، جرمنی ، کوریا اور برصغیر کی، اس کے مضمرات دہائیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ایسے میں ملن اورتقسیم کے جذبات پر سیاست اور کاروبار چلائے جاتے ہیں، حقیقی مسائل کو دبانے اور چھپانے کے لیے دوستی اور دشمنی کے ناٹک رچائے جاتے ہیں۔مشرقی اور مغربی جرمنی کو دوبارہ یکجا ہوئے25سال گزر چکے ہیں لیکن دوبارہ جڑ کر بھی تقسیم کے گہرے گھاؤ مٹے نہیں ہیں۔سامراج نے مصنوعی طور پر مشرقِ وسطیٰ کی جو تقسیم در تقسیم کی تھی اس کے زخم آج تلک رس رہے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے سربراہان جب کہیں ملتے ہیں تو ان کی باڈی لینگوئج سے لے کر چہرے کے تاثرات تک پہ تبصرے ہوتے ہیں۔ ان ممالک کے عوام کو ایک مسلسل دشمنی میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے جس میں وہ نا خوش ہی نہیں بیزار بھی ہیں۔لیکن ریاست، سیاست اور میڈیا وغیرہ کے ناخداؤں سے ہٹ کر عام لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لیں تو یہ ’’دشمنی‘‘ بہت سطحی محسوس ہوتی ہے۔اوپر سے مسلط کردہ دشمنی کو ذرا سا کریدنے پر محرومی اور ہجر کا دکھ بھی ملتا ہے، وصال کی تمنا محسوس ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں تجسس بھی بہت ہے اور شکوک اور شبہات بھی بے پناہ ۔دونوں اطراف کے حکمران بوقت ضرورت اس دشمنی کو بڑھانے کے لیے مختلف حادثات یا واقعات کرواتے ہیں، ان کا میڈیا اور سماجی اکابرین ایسے میں نفر ت کی آگ کو خوب بھڑکاتے ہیں، اس مصنوعی قومی اور مذہبی شاؤنزم کے جنون میں محنت کش عوام بھی کچھ وقت کے لیے فراموش کر بیٹھتے ہیں ’’حب الوطنی‘‘ کی اس آڑ میں ان پر کیا کیا معاشی حملے کئے جا رہے ہیں۔
یہ دشمنی بر صغیر کے حکمرانو ں کی ناگزیر ضرورت ہے وگرنہ وسیع ’’دفاعی اخراجات‘‘ سے یہ ریاستی آقا مال بنا سکتے ہیں نہ ہی سامراج کی اسلحہ ساز کمپنیاں۔ اگر غور کیا جائے تو یہ دشمنی اور جنگ بڑے منافع بخش کاروبار ہے۔کتنے ’’حساس ادارے‘‘ اور ماہرین صرف اسی دشمن داری کے لئے مخصوص ہیں۔ حال ہی میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابقہ سربراہ نے ایک بیان دیا ہے کہ انہوں نے کشمیر کی تحریک آزادی میں اپنے مسلح گروہ بھی چھوڑ رکھے تھے۔اس کا ایک مقصد تصادم اور خونریزی میں اضافہ کر کے اس ’’دشمنی‘‘ کو مزید تقویت دینا بھی تھا۔ایسی کاروائیاں اُدھر سے بھی ہوتی ہیں اور کمی ادھر سے بھی نہیں ہے۔دشمنی کی ایسی وارداتوں کے ایک طویل تسلسل کے بعد عوام اسکے عادی ہو جاتے ہیں تو پھریہ زہر ان کے دل و دماغ میں سرایت کرنے لگتا ہے۔ پھر’ مذاکرات کے آغاز کے لیے مذاکرات‘ کا آغاز ہو جاتا ہے۔مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے ہیں، تہواروں پر جرنیل ایک دوسرے کو مٹھائیوں کے تحفے دیتے ہیں اور درمیانے طبقے کے اصلاح پسند خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ اب دوستی اور ’’امن کی آشا‘‘ روشن ہونے والی ہے۔پھر یہ سارا امن بوریت پیدا کرنے لگتا ہے تو دہشت گردی کے کسی واقعے یا پھر سرحدوں پر جھڑپوں، گولہ باری اور چند ایک شہادتوں کے ذریعے دشمنی کو تازہ دم کیا جاتا ہے۔ چھوٹے ہتھیاروں سے آگ اور لمبی زبانوں سے زہر اگلا جاتا ہے اور اس سلسلے کو کچھ عرصہ کھینچنے کے بعد پھر اگلے مذ اکرات اور اگلی ملاقات کی جستجو پیدا کر دی جاتی ہے۔
دشمنی کے ایشوز بہت ہیں۔ کچھ پرانے ہیں اور نئے بھی گھڑے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا مسئلہ کشمیر کاہے۔ بھارت کے حکمران اور ریاست اسکو اپنا’’اٹوٹ انگ‘‘ گردانتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران اسکو اپنی ’’شہ رگ‘‘ کہتے ہیں۔ کشمیریوں کی حالت دونوں طرف ہی برباد ہے۔روزگار اور بنیادی سہولیات سے محروم، مہنگائی اور غربت سے بدحال کشمیری عوام کی کون سی اور کیسی آزادی ہے جس کے لئے بر صغیر کے حکمران چھ دہائیوں سے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں؟ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ برصغیر کے جن علاقوں کے سب سے زیادہ افراد یورپ، مشرق وسطیٰ اور ہندوستان یا پاکستان کے دوسرے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ان میں کشمیر سرِ فہرست ہے۔لیکن بر صغیر کے باقی ڈیڑھ ارب انسانوں کے حالات زندگی بھی بھلا کون سے مختلف ہیں۔اس خطے میں دنیا کے 22 فیصد آبادی بستی ہے اور 44 فیصد بھوک پلتی ہے۔
دونوں ممالک کے سرمایہ داروں،سیاسی اشرافیہ، مشہور شخصیات اور امراکے لیے ویزے کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے اور نہ ہی آنے جانے کا۔ مودی اور نواز شریف کی حالیہ ملاقات میں جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں ’’مذہبی ٹورازم‘‘ کے لیے اقدامات کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن دونوں ممالک کے عام انسانوں کے لیے ویزا حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور میزبانوں کو ہراساں کرنا دونوں طرف کی ایجنسیوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ کیونکہ عام لوگ اگر ملیں گے تو پھر زندگیوں کے اصل حقائق پر بات ہوگی اور دونوں طرف کے دکھ درد ایک ہی محسوس ہوں گے۔ ضروریات، مسائل اور انکے حل پر جب محنت کش طبقے کے افراد تبادلہ خیال کریں گے تو انہیں دونوں طرف استحصال کرنے والوں اور استحصال سہنے والوں کے آپسی رشتوں کا ادراک ہو گا، وہ اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچاننے لگیں گے۔قوم یا مذہب کی بجائے طبقاتی تضاد کا یہ ادراک دونوں حکمران طبقات کے لیے بڑا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے اپنے جبر و استحصال کا نظام، جو انگریز سے انہوں نے وراثت میں حاصل کیا تھا،اسکے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے یہ ’دشمنی‘ انکی بڑی ضرورت ہے۔
دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، جدید طیارے بنائے جا رہے ہیں، انسانی تباہی کے آلات پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، لیکن عوام کی بھوک، تنگ دستی اور ذلت دونوں طرف بڑھتی ہی جا رہی ہے۔نریندرا مودی اور نواز شریف، دنوں ہی نیو لبرل سرمایہ داری کے کٹر سیاسی نمائندے ہیں۔دنوں کا معاشی پروگرام نجکاری، روزگار اور بچی کھچی عوامی سہولیات کو چھیننے اور سرمایہ داروں کو نوازنے پر مبنی ہے۔ اس واردات کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ’’دشمنی‘‘ کا یہ ناٹک بھی دونوں اطراف کی ضرورت ہے۔اس کے لئے مذہب کا سہارا بھی لیا جاتا ہے اور ’سیکولر نیشل ازم‘ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔دونوں طرح کے تعصبات کے لئے مخالف قوم یا مذہب کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر یہ تعصبات مٹ جائیں تو پھر قوم اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے کاروبار ٹھنڈے پڑجاتے ہیں، حکمرانوں کی گرفت اپنی رعایا پر ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔ سامراج ہو یا تیسری دنیا کے نو دولتیے حکمران، داخلی تضادات کو دبانے کے لئے بیرونی تضادات ابھارنا بڑی قدیم پالیسی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ محنت کرنے والے انسان اس استحصال اور ظلم و جبر کو کب تک برداشت کر سکتے ہیں جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اسکے خلاف طبقاتی بنیادوں پر بغاوتیں ہندوستان میں بھی ہوئی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ ایسی کوئی تحریک اگر کسی ایک طرف بھی انقلابی فتح حاصل کر لیتی ہیں تو پھر دشمنی کا یہ گھن چکر ٹوٹ جائے گا اور پورے خطے پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔ بھوک اور غربت کا کوئی دیس، کوئی مذہب، کوئی فرقہ نہیں ہوتا۔ برصغیر اور دنیا بھر کے تمام محکوم انسانوں کے درمیان ایک رشتہ ضرور بنتا ہے۔زندگی کا یہ سب سے بڑا رشتہ معاشی، سماجی اور سیاسی ذلت کے اس نظام کے خلاف جدوجہد کا رشتہ ہے۔برصغیر میں ’’آزادی‘‘ کے 68 سال نے ثابت کیا ہے کہ اس نظام سے نجات حاصل کئے بغیر کوئی آزادی ممکن نہیں ہے، عوام کے اصل دشمن یہ حکمران خود ہیں!
متعلقہ:
برباد بستیوں میں بربادی کے سامان