[تحریر: آدم پال]
11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کو ذرائع ابلاغ پر چیخ چیخ کر جمہوریت کی بہت بڑی فتح قرار دیا جا رہا ہے اور عوام کے شعور پر اس جھوٹ کو مسلط کرنے کی سر توڑ کوشش کی جارہی ہے کہ عوام کے پسندیدہ نمائندوں پر مشتمل اسمبلیاں تشکیل پا رہی ہیں اور اب جو کچھ بھی ہو گا وہ عوام کی اپنی خواہش اور مرضی ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام پر آزاد ی رائے کی بات کرنا تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ، فریب اور ڈھونگ ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک جہاں سرمایہ دارانہ ریاست انقلابات کے ذریعے وجود میں آئی اور جہاں ریاست کے ادارے آج بھی نسبتاًمنظم انداز میں کام کر رہے ہیں وہاں بھی جمہوریت امیر افراد کے لیے اپنی حکمرانی مسلط رکھنے کا طریقہ کار جبکہ محنت کش عوام کے لیے ایک فراڈ اور پھندا ہے۔
ایسے میں پاکستان جیسے پسماندہ، خستہ حال انفرا اسٹرکچر اور ڈوبتی معیشت کے حامل ملک میں کہنا کہ انتخابات شفاف انداز میں ہوئے اور جمہوریت کے ذریعے تمام افراد کو اپنے حقیقی نمائندے چننے کا موقع ملا اس صدی کا سب سے بڑا مذاق ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اگر انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں تب بھی عوام کو صرف یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے پر حکمرانی کرنے کے لیے لٹیروں، ڈاکوؤں، قاتلوں، رسہ گیروں اور بدمعاشوں کے مختلف گروہوں میں سے کسی ایک کو چن لیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے مختلف بورژوا دانشور اور سیاستدان بھی متعدد دفعہ ووٹ ڈالنے کی تلقین اسی لیے کر رہے تھے اور لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کیا جا رہا تھا کہ کائنات میں جمہوریت سے بہتر کوئی شے نہیں۔ لیکن محنت کش عوام جانتے تھے کہ ان انتخابات سے نہ تو کوئی تبدیلی آنے والی ہے اور نہ یہ جمہوریت ان کو روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار دے سکتی ہے۔ سماج میں عمومی طور پر انتخابات سے بیزاری کا رویہ غالب تھا اور بڑے پیمانے پر لوگ ووٹ نہیں ڈالنے گئے۔ لیکن دوسری جانب اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان انتخابات میں 50فیصد سے بھی زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا جو پاکستان میں انتہائی حیرت انگیز ہے۔
جس بڑے پیمانے پر یہ ریاست ناکام ہو چکی ہے اور اس کے تمام ادارے زمین بوس ہوتے چلے جا رہے ہیں اس پس منظر میں اتنا بڑا جھوٹ ڈھٹائی سے بولنا الیکشن کمیشن کے افراد کے لیے کچھ مشکل نظر نہیں آتا۔ صرف بلوچستان میں تین فیصد سے بھی کم ووٹ ڈالا گیا۔ کراچی کے بیشتر حلقوں میں ووٹ ڈالنے کی رسم بھی ایک لمبے عرصے سے متروک ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب میں جس طرح بیلٹ بکسوں کو جعلی ووٹوں سے بھرا گیا اس سے بہت سے لوگوں کے ووٹ الیکشن والے دن گھر میں رہنے کے باوجود ڈل گئے۔ لیکن اس کے باوجود 50 فیصد سے زائد ٹرن آؤٹ ثابت کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو اعداد و شمار میں کافی زیادہ جمع تفریق کرنی پڑی ہو گی۔
پاکستان میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ 1970ء کے انتخابات میں ہوا تھا جس کی وجہ ان انتخابات سے قبل پاکستان میں ابھرنے والا انقلاب تھا جس نے اس ملک کے مغربی اور مشرقی حصوں میں ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کیا تھا اور محنت کش اس ریاست کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف انتخابات کے نتائج بھی یہ ریاست ہضم نہیں کر سکی اور ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔
ایسے میں واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے غیر منصفانہ اور غیر شفاف انتخابات تھے جن کے نتائج واشنگٹن میں پہلے ترتیب دیے گئے اور جی ایچ کیو میں ان پر مہر تصدیق ثبت کی گئی تھی۔ انتخابات سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے گزشتہ پانچ سال میں معاشی حملوں کے ذریعے پہلے ہی اپنے آپ کو عوام سے بہت دور کر لیا تھا اور پارٹی کے کارکنا ن میں قیادت کے خلاف شدید غم و غصے کے جذبات پائے جاتے تھے جن کا اظہار مختلف پروگراموں میں ہوتا رہتا تھا۔ لیکن ان انتخابات میں سامراجی طاقتوں کی مکمل کاسہ لیسی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت نے سیاسی سرگرمیوں کو مکمل طور پر معطل کر دیا۔ اس کی سب سے اہم وجہ تو یہ تھی کہ سامراجی طاقتیں اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ 2008ء کے انتخابات سے پہلے ہونے والے ہنگامہ خیز واقعات سے اب تک خوفزدہ تھی اور ان کے دہرائے جانے کے امکانات ان کی نیندیں اڑا رہے تھے۔ گزشتہ انتخابات سے قبل جب بینظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی ائر پورٹ پر اتریں تو 30 لاکھ کے قریب لوگوں نے استقبال کیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی جلسہ تھا۔ یہ جلسہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور اس تحریک کو سبو تاژ کرنے کے لیے ریاست نے خود کش دھماکوں کا سلسلہ تیز کر دیا تا کہ عوام کو سیاسی سرگرمی سے خوفزدہ رکھ کے دور کر دیا جائے۔ لیکن بینظیر بھٹو کی شخصیت کے محور بن جانے کی وجہ سے وہ تحریک آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ ایسے میں جب سامراجی طاقتوں کے ایما پر ان کا بہیمانہ قتل کیا گیا تو عوام کا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ چند دنوں کے لیے پوری ریاست مفلوج ہو کر رہ گئی تھی اور تمام ریاستی ادارے عوام کے غیض و غضب سے پناہ مانگتے پھرتے تھے۔ اس وقت اگر کوئی انقلابی قیادت ہوتی تو اس ظالم ریاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن عوام دشمن قیادت کے باعث سامراج سے گٹھ جوڑ کیا گیا اور عوام پر جمہوری رد انقلاب پانچ سال تک مسلط کیا گیا۔
اس دفعہ سامراجی طاقتیں اس قسم کے ہنگاموں کے دوبارہ برپا ہونے سے خوفزدہ تھیں۔ گو کہ پیپلز پارٹی کی قیادت پانچ سال میں اپنی کاسہ لیسی کے باعث عوام کی بہتری کی بجائے مزید ابتری کا باعث بنی تھی اور ضیاء الحق کی باقیات کو پارٹی پر مسلط کر کے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے زخم پر نمک چھڑکا گیا۔ اس لیے یہ امکان بھی موجود تھا کہ اگر تحریک کا آغاز ہو جاتا تو اسے روکنے کے لیے کوئی قیادت موجود نہیں تھی اور عرب ممالک کے حالیہ خود رو انقلابات کی طرح یہ تحریک کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو جاتی۔
اسی خوف اور تذبذب کے عالم میں سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کو سیاسی سرگرمی سے دور رکھا جا ئے جس کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت پہلے سے تیار تھی۔ اپنی پانچ سالہ لوٹ مار کے بعد وہ خود بھی کارکنوں کا سامنا کرنے سے خوفزدہ تھے اس لیے یہ حکمت عملی ان کے لیے سب سے بہتر تھی۔ اس مقصد کے لیے خود کش دھماکوں کے آزمودہ ہتھکنڈے کو استعمال کیا گیا اور غربت میں رہنے والی پاکستان کی 70 فیصدآبادی کو ان انتخابات سے کاٹ دیا گیا۔
اے این پی کی صورتحال بھی ملتی جلتی ہے جو سیکولر ازم کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی لیکن سوات اور دیگر جگہوں پر طالبان سے معاہدے کیے۔ اسی طرح سامراجی کاسہ لیسی کے بھی تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور پشتونخواہ کی عوام پر مہنگائی اور بیروزگاری کے پہاڑ توڑے۔ امریکی سامراج اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے مابین چلنے والی لوٹ مار کے حصوں پر لڑائی میں امریکہ کا مکمل ساتھ دینے پر انہیں زیادہ شدت کے ساتھ ٹارگٹ کیا گیا۔ ان کے لیڈروں کی خود کش حملوں میں ہلاکتیں قابل مذمت ہیں لیکن عوامی سطح پر انہیں ہمدردی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس کی بنیادی وجہ گزشتہ پانچ سالوں میں ان ہلاک ہونے والے اور بچنے والے لیڈروں کی بد عنوانی، لوٹ مار اور عوام دشمن پالیسیاں ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ ان کی موت عوام کی جنگ لڑتے ہوئے نہیں بلکہ اپنی دولت میں اضافے کی بے لگام ہوس کے باعث ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم جیسی غنڈہ گرد اور قاتلوں کے جتھوں پر مشتمل جماعت پر ہونے والے حملے بھی ریاست اور سامراجی طاقتوں کی اندرونی لڑائیوں کا حصہ ہیں جن سے عوام کا کوئی سروکار نہیں۔
ایسے میں ان حکمران طاقتوں نے انتخابات کے معرکے کو دائیں بازو کی جماعتوں نون لیگ اور تحریک انصاف تک محدود کر دیا۔ گو کہ جماعت اسلامی اور فضل الرحمان گروپ کی بھی ذرائع ابلاغ پر خاطر خواہ تشہیر کی گئی لیکن مذہبی جماعتوں کے خلاف عمومی عوامی نفرت کے باعث وہ پرانی سطح تک ہی محدود رہیں۔ نون لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے معرکے میں بیروزگاری، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا اور لڑائی صرف گالم گلوچ اور ذاتی کردار کشی تک محدود رہی جو موجودہ حکمران طبقے کے نمائندوں کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔
انتخابات کے نتائج میں نون لیگ کو واضح اکثریت اور تحریک انصاف کو دوسری بڑی پارٹی قرار دے کر ایک دفعہ پھر یہ رائے عامہ استوار کی جا رہی ہے کہ عوا م ترقی پسند قوتوں کو رد کرتے ہیں اور انہی عوام دشمن سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ درمیانے طبقے کی چند بالائی پرتوں کے علاوہ کسی نے بھی ان انتخابات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ پیپلز پارٹی سے بیزاری کے باعث لوگ ووٹ ڈالنے ہی نہیں گئے اور جو گئے بھی انہوں نے اپنے ووٹ کا بہترین استعمال اس کو بیچ کر کیا۔ کچھ محنت کشوں کے لیے جمہوریت کا اس سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں کہ پانچ سالوں بعد انہیں ایک دن اچھا کھانا کھانے کے لیے مل گیا۔ سندھ میں کوئی دوسرا متبادل نہ ہونے کے باعث مجبوراً پیپلز پارٹی کو ہی دوبارہ اقتدار میں لایا جا رہا ہے لیکن ضرورت نہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی جا رہی ہے۔ اس سے پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے نظریاتی اور سیاسی دیوالیہ پن کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح آنے والے عرصے میں تحریکوں کو روکے رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کے وفاقی حکومت میں شامل ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے ہی نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے لیے قومی اسمبلی میں متفقہ رائے دہی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
لیکن جہاں معاشی اور نظریاتی یکجہتی کے باعث تمام سیاسی پارٹیوں میں تفریق ختم ہوتی جا رہی ہے اور ایک سے دوسری پارٹی کا سفر اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے وہاں سماجی دباؤ، ریاستی خلفشار اور نظام کی ناکامی کے باعث تمام سیاسی پارٹیاں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سب سے زیادہ لڑائیاں اور اختلافات پیپلز پارٹی میں ہیں جو اقتدار میں رہنے کے باعث ان پر کسی حد تک پردہ ڈالنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اقتدار سے باہر ہونے کے باعث یہ تضادات زیادہ شدت سے پھٹنے کی طرف جا سکتے ہیں۔ سندھ میں ابھی بھی اقتدار میں رہنے کے باعث ان تضادات کو دبانے کی کوشش کی جائے گی لیکن وہ اتنی ہی شدت سے سر اٹھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ کراچی کے حالات کو بہتر بنانا اب اس ریاست اور حکمرانوں کے بس میں نہیں رہا۔ زمینوں پر قبضوں، بھتوں کی وصولی اور دیگر جرائم پر ہونے والی مختلف سیاسی پارٹیوں کے کریمینل ونگ میں لڑائیاں اور قتل و غارت ریاست کے مختلف حصوں اور ان کی سرپرستی کرنے والی مختلف سامراج طاقتوں کے درمیان لڑائی کا نتیجہ ہے۔ اس کا حل ریاست کا استحکام اور معیشت کی بحالی ہے جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ بلکہ ریاست کے ستونوں کو جو دیمک لگ چکی ہے اب وہ اسے گرا کر ہی دم لے گی۔
بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ انتخابات میں کامیابی کی بنیادی وجہ بھی قوم پرست پارٹیوں کا انتخابات کا بائیکاٹ تھا۔ اس دفعہ پہلے ہی مختلف قو م پرست پارٹیوں کی قیادتوں کو اقتدار کا لالچ دے کر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کیا گیا۔ کچھ سے وعدے پورے کیے گئے اور کچھ کو ابھی بھی انتظار کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ لیکن اس سارے عمل میں بلوچستان کے عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار دینے کا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ لیکن جس طرح تین فیصد سے بھی کم ووٹ ڈالا گیا اور انتخابات والے دن مسلح جدوجہد کرنے والے قوم پرستوں کی جانب سے ہڑتال کروائی گئی اس سے واضح ہے کہ بلوچستان میں نہ صرف یہ ڈرامہ بری طرح فلاپ ہو گیا ہے بلکہ وہاں ریاست کی عملداری کا پول بھی کھل گیا ہے۔ بلوچستان کی آزادی جہاں پارلیمنٹ کے ذریعے حاصل نہیں کی جا سکتی وہاں مسلح جدوجہد بھی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کا راستہ ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تمام محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے ہی اس ریاست کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ ایک مزدور ریاست میں حقیقی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔
انتخابات کے بعد حکومت سازی کے معاملات پر لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے اور بجٹ اجلاس میں تاخیر کو بہت سنجیدہ مسئلہ بتایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی پر بیٹھے اینکر اور اخباروں کے کالم نگار سنجیدہ شکلیں بنا کر اور مختلف ثقیل الفاظ استعمال کر کے انتہائی مضحکہ خیز گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ عوام پر ہونے والے مظالم میں شریک نہ ہوتے تو ان کارٹونوں پر صرف ہنسا ہی جا سکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ نگران حکومت ہی بہت سے معاشی فیصلے کر رہی ہے تا کہ آنے والے حکمرانوں کو اس سے لگنے والے داغوں سے بچایا جا سکے۔ لیکن اس وقت معیشت کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر کوئی بھی سمجھدار شخص وزیر اعظم بننے کی غلطی نہ کرتا۔ اور ہوا بھی ایسے ہی ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر کا قرضہ پہلے کی نسبت زیادہ شرح سود اور سخت شرائط کے ساتھ حاصل کرنا ہے۔ اس قرضے کا مقصد پچھلے قرضے کی اقساط کی واپسی ہے۔ یعنی قرضہ اتارنے کے لیے قرضہ لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں تیز گراوٹ کی شرط بھی معیشت کو بڑے دھچکے لگائے گی۔
اسی طرح لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ اس نظام میں رہ کر حل کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس نظام میں سب سے مقدس شے کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ان کے منافع ہیں۔ کوئی سیاستدان، جج یا کوئی بھی ریاستی اہلکار ان کے خلاف عمل تو کیا ان کے خلاف دل میں بھی برا نہیں سوچ سکتا۔ ایسا کرنے والے کی نوکری فوری طور پر ختم ہو جائے گی۔ بجلی پیدا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہوشربا منافعوں کو جب تک ختم نہیں کیا جاتااس وقت تک لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی۔ ہر کوئی سرکلر ڈیبٹ اور اس میں اربوں روپے کے بقایا جات کی بات کرتا ہے لیکن یہ سوال کبھی نہیں اٹھایا جاتا کہ یہ پیسے کیونکر ادا کیے جاتے ہیں اور اگر ان پیسوں کو ادا کرنے کی بجائے ان کمپنیوں کے اثاثوں کو ضبط کر لیا جائے اور حکومت خود بجلی پیدا کرے توایسا کرنے سے چند گھنٹوں میں بجلی کا بحران ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں میں بھی نیشنلائزیشن کر کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن موجودہ حکمران طبقات اور آنے والی حکومت کا نصب العین مزید نجکاری ہے جس کے نتیجے میں پی آئی اے، واپڈا، ریلوے اور دیگر اداروں کو سرمایہ دار گدھ کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گدھ پاکستان کا امیر ترین شخص میاں منشا بھی ہے جس نے انتخابات سے قبل بلوم برگ کو انٹرویو کے دوران کہا کہ میں ہر قسم کی نجکاری میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہوں خواہ وہ وزیرستان میں ہی کیوں نہ ہو۔ انتخابات کے بعد کے ایس ای 100 انڈیکس میں پانچ فیصد کا اضافہ اور کراچی اسٹاک ایکسچینج میں تیزی سرمایہ داروں کے منہ میں سرکاری اداروں کی نیلامی کے لیے آنے والے پانی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس نجکاری سے یقیناًٹریڈ یونین کو کچلا جائے گا اور نوجوانوں پر بیروزگاری کے بڑے حملے ہوں گے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ دیوار سے لگے شخص پر مزید حملہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی طرح آبادی کی وسیع اکثریت کو جس طرح بم دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعے منظم انداز میں سیاسی عمل سے باہر دھکیلا جا رہا ہے وہ زیادہ عرصے تک اس سیاسی عمل سے باہر نہیں رہ سکتی۔
آنے والے عرصے میں جہاں ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور گراوٹ کے باعث دہشت گردی اور افرا تفری میں اضافہ ہو گا وہاں عوامی رد عمل اور مزدور تحریک بھی مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرے گی۔ یہ بات نوشتہ دیوار بن چکی ہے کہ پاکستانی سماج کسی بھی وقت ایک سماجی دھماکے سے پھٹ سکتا ہے جس میں یہ نام نہاد جمہوریت، ریاست، پارلیمنٹ، میڈیا اور دیگر تمام سامراجی گماشتے ہوا میں معلق ہو جائیں گے اور عوام ایک متبادل نظام کی جستجو کریں گے۔ یقیناًمارکسی قوتوں کے لیے یہ کڑا وقت‘ ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا وقت ہوگا جس کی تیاری زور و شور سے ملک کے طول و عرض میں جاری ہے۔
متعلقہ:
ن لیگ کی حکومت: کیا عوام پچھتائیں گے؟
برق گرتی ہے تو۔۔۔؟
پاکستان: لڑکھڑاتی معیشت، سسکتی انسانیت
بلوچستان کی بیگانگی