[تحریر: لال خان]
میاں نواز شریف کا برسر اقتدار آنے کے بعد قوم سے پہلا خطاب 1993ء اور 1997ء میں ان کے خطابات چنداں مختلف نہیں تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ تقریر ماضی کے تمام ترپاکستانی حکمرانوں کی تقاریر سے زیادہ مایوس کن تھی۔ ماضی میں نواز شریف سمیت دوسرے حکمران ایسی اہم تقاریر میں سطحی اقدامات کے اعلانات، مصنوعی خوشخبریوں، جھوٹی امیدوں اور بے بنیاد دعووں کا سہارا ضرور لیا کرتے تھے، لیکن پاکستانی معیشت اور ریاست کا بحران جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس کے پیش نظر اب ایسی کسی شعبدہ بازی کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی ہے۔ میاں صاحب کا لب و لہجہ اور الفاظ ان چند ایک وعدوں سے مماثلت نہیں رکھتے تھے جو انہوں نے اس تقریر میں کئے، یا کرنے کی کوشش کی۔ لوڈ شیڈنگ، کرپشن، دہشت گردی، قومی سلامتی، گوادر سنکیانگ شاہراہ اور عوام سے مزید قربانیوں کے مطالبوں سے بھرپور یہ تقریرکسی ٹھوس لائحہ عمل اور متن سے محروم تھی۔ اس تقریر نے معاشی و سماجی مسائل سے تباہ حال عوام کی مایوسی اور غم و غصے میں اضافہ ہی کیا ہے۔
یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جسے ’’ہنی مون‘‘ کا عرصہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ نواز شریف کا مینڈیٹ اگرچہ ابھی تک متنازعہ ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کو ملنے والے حقیقی ووٹ بھی کسی امید کی بجائے پچھلی حکومت میں برسر اقتدار سیاسی جماعتوں سے عوام کی بدظنی اور مایوسی کا نتیجہ تھے۔ خاص طور پر آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کے زوال نے دائیں بازو کی اس جماعت کے برسر اقتدار آنے کی راہ ہموار کی جو پاکستان کے کرپٹ اور رجعتی سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ ہے۔ پچھلے پانچ سال سے شدید ہوتے ہوئے معاشی بحران، مہنگائی اور دہشتگردی کے مسائل موجودہ حکومت کے پہلے چند ہفتوں میں ہی شدید تر ہوچکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہوشربا شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ نواز شریف کے برسر اقتدار آنے کے چند دنوں بعد ہی پیش کئے جانے والے عوام دشمن بجٹ میں سرمایہ داروں اور کارپوریٹ سیکٹر کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے دی گئی جبکہ معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں پر ڈال دیا گیا۔ میکرواکانومک اعشاریے معاشی تباہی کے گواہ ہیں اور روپے کی قیمت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے۔ کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے بلند بانگ دعوے چند ہی ہفتوں میں بے بنیاد اور جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ سامراجی مالیاتی اداروں سے لئے گئے نئے قرضے استحصال زدہ پاکستانی عوام کی معاشی ذلتوں میں مزید اضافہ کریں گے۔ ریاستی قرضے کے بڑھنے کے ساتھ اس قرضے پر سود کی ادائیگی میں ہونے والا اضافہ ناگزیر طور پر روپے کی قیمت اور صحت و تعلیم کے بجٹ میں مزید کمی کا باعث بنے گا۔ آئی ایم ایف کی خوفناک شرائط مکمل معاشی تباہی کے نسخے کا درجہ رکھتی ہیں۔ جلد یا بدیر حکومت کو مزید قرضے کی ضرورت پڑے گی اور قرض دینے والے مالیاتی اداروں کی شرائط پوری کرنے کے لئے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، لبرلائزیشن، ری سٹرکچرنگ اور ڈی ریگولیشن جیسی ظالمانہ پالیسیاں انتہائی سفاکی سے نافذ کی جائیں گی۔ تاہم کسی معاشی بحالی کے امکان سے عاری عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران، قومی اداروں کی دگرگوں صورتحال اور محنت کشوں کی جانب سے مزاحمت کے پیش نظر بڑی ریاستی انٹر پرائزز کی مکمل نجکاری اس حکومت کے لئے ممکن نہیں ہے۔ ریاستی اداروں کے ٹکڑے کر کے منڈی میں ان کی بولی لگائی جائے گی، بالکل ایک قصائی کی طرح جو زبح شدہ گائے یا بکرے کے مختلف حصے اپنی دکان پر سجا کے آواز لگاتا ہے۔ کسی بھی سطح کی نجکاری لاکھوں محنت کشوں کے لئے معاشی موت کا پیغام ہو گی، بیروزگاری مزید بڑھے گی اور سماجی تضادات شدید تر ہوں گے۔
لوڈ شیڈنگ میں کمی کے بارے میں بہت شور مچایا جارہا ہے۔ حقیقی صورتحال بارشوں کے خاتمے کے بعد پن بجلی کی پیداوار میں کمی کے ساتھ خود بخود واضح ہوجائے گی لیکن جس ڈھٹائی سے گردشی قرضہ اتارنے کے نام پر نجی پاور کمپنیوں کے مالکان کی جیبیں اربوں روپوں سے بھری گئی ہیں اس سے فسکل اور جی ڈی پی خسارہ بڑھ جائے گا۔ فی الوقت جس معاشی دیوالیہ پن کو آئی ایم کے ’ٹیکے‘ سے ٹالا گیا ہے وہ آنے والے دنوں میں زیادہ تباہ کن شکل میں اپنا اظہار کرے گا۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جماعت حکمران اشرافیہ کو خوب نوازرہی ہے۔ اہم کارپوریٹ آقا معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی سے متعلق اہم اجلاسوں میں ویٹو طاقت کے ساتھ شریک ہورہے ہیں۔
پاک چین دوستی کے شور شرابا اور چینی سرمایہ کاری سے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور معاشی جمود کو توڑنے کی باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ چینی اشرافیہ کو پاکستان کی ’’ہمالیہ سے بلند دوستی‘‘ اور اس کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے۔ کوئی بھی سامراجی طاقت خیرات کی مد میں سرمایہ کاری نہیں کرتی۔ چینی حکمرانوں کے سامراجی عزائم امریکہ سے مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی خطے میں ان کی سرمایہ کاری کا مقصد مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنی شرح منافع میں اضافہ ہے۔ علاوہ ازیں گوادر سنکیانگ شاہراہ جیسے منصوبے خواب ہیں اور قومی امکان یہی ہے کہ یہ خواب کبھی مادی حقیقت میں تبدیل نہیں ہونگے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کا راستہ دہشت گردی، کشت و خون اور پراکسی جنگ کی تنگ و تاریک گھاٹیوں سے گزرتا ہے۔ یہ معاشی بحران اور داخلی خلفشار سے مفلوج پاکستانی ریاست کے بس کے بات نہیں ہے۔ فی الوقت منافع اور منڈی کے لالچ نے چینی حکمرانوں کو اندھا کیا ہوا ہے لیکن صورتحال کی نزاکت کا اندازہ انہیں بھی جلد ہی ہوجائے گا۔
دہشت گردی کے حوالے سے میاں صاحب نے ’’مذاکرات یا طاقت کے استعمال‘‘ والا پرانا راگ پھر سے الاپ دیا ہے۔ کیا پچھلی ایک دہائی میں بار بار کی کوششوں کے باوجود یہ دونوں طریقے ناکام نہیں ہوئے ہیں؟ میاں صاحب دہشتگروں کے کس دھڑے (یہاں دھڑے کے دھڑے کہنا مناسب رہے گا) سے مذاکرات کریں گے اور کس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا؟’’دہشتگردوں‘‘ یا ’’طالبان‘‘ جیسی تجریدی اصطلاحات بالکل ہوائی اور جعلی ہیں۔ ہیروئن، اغوا برائے تاوان، سمگلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث درجنوں گروہ مختلف سامراجی، علاقائی اور ریاستی قوتوں کی پشت پناہی سے اپنے اپنے آقاؤں کے مفادات کے لئے سرگرم ہیں۔ ان کی وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں اور یہ اکثروبیشتر ایک دوسرے سے بھی متصادم رہتے ہیں۔ خان صاحب کی طرح میاں صاحب کا مذاکرات کا شوق جلد ہی پورا ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں پراکسی جنگ اور کشت و خون کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ انتظامی تبدیلیوں، سیکیورٹی اداروں کی تنظیم نو اور ’’نئے اداروں‘‘ جیسے سطحی اقدامات صرف مذاق ہیں۔ پاکستانی ریاست جس نظام پر قائم ہے وہ متروکیت اور بحران کا شکار ہے جس کے نتیجے میں ریاستی ادارے اندر سے گل سڑ کر مفلوج ہوچکے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے اس نظام میں اصلاحات کی گنجائش بہت پہلے سے ختم ہو چکی ہے۔ ’’اصلاحات‘‘ کے نام پر سرمایہ داروں اور سامراجی اداروں کے منافعوں میں اضافے اورمزید لوٹ مار کی سہولت فراہم کرنے والی پالیسیاں لاگو کی جارہی ہیں۔ ان پالیسیوں سے امیر، امیر تر ہوں گے، کالی معیشت کا حجم اور سماجی تباہ کاری بڑھے گی، استحصال زدہ عوام غربت، ذلت اور محرومی کی دلدل میں اور بھی بری طرح دھنس جائیں گے۔ ناکامی دائیں بازو کی اس حکومت کا مقدر ہے۔ نتیجتاً یا تو پاکستانی سماج پہلے کبھی نہ دیکھے گئی تباہی، انتشاراور افراتفری کا شکار ہوجائے گا یا پھر عوام ایک انقلابی تبدیلی کے لئے تاریخ کے میدان عمل میں داخل ہوں گے۔ بھاری اکثریت سے برسر اقتدار آنے والی دائیں بازو کی حکومت کی کھلی سرمایہ دارانہ پالیسیاں پہلے ہی عوام میں اشتعال کا باعث بن رہی ہیں۔ اس حکومت کی ہر پالیسی اور معاشی اقدام عوام کو دیوار کے ساتھ لگارہا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے عوام دشمن اقدامات پر سوشل ڈیموکریسی اور اصلاح پسندی کے غلاف چڑھا ہوا تھا لیکن اب دو متضاد طبقات درمیان میں کسی رکاوٹ یا پردے کے بغیر آمنے سامنے صف آرا ہیں۔ اس طبقاتی جنگ میں محنت کش عوام کو حتمی فتح تک لڑنا ہوگا۔