[رپورٹ: عمران کامیانہ]
کسی بھی انقلابی پارٹی کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے مسلح ہو کر ہی نوجوان اپنی تمام تر توانائیوں کو مجتمع کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضربیں لگا کر اسے پاش پاش کر سکتے ہیں۔ لینن نے نظریاتی تعلیم و تربیت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انقلابی تھیوری کے بغیر کوئی انقلابی تحریک نہیں چل سکتی‘‘۔ انقلابی سوشلزم اور مارکسزم کے نظریات کی پیاس کو بجھانے اور نظریاتی تعلیم و تربیت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ملک بھر سے بڑی تعداد میں نوجوان گزشتہ دنوں کینجر جھیل (ٹھٹھہ) کے کنارے جمع ہوئے جہاں 7، 8 اور 9 دسمبر کو نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ انقلابی جوش و جذبے نے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے سمیٹ کر رکھ دئیے اور مہنگائی و بیروزگاری کے اس عہد میں تما م تر مالی مشکلات کے باوجود 180 سے زائد کامریڈز نے سکول میں شرکت کی۔
سکول کا آغاز میزبان ریجن سے کامریڈ حنیف نے تمام تر حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے کیاجس کے بعد پہلے سیشن کاآغاز ہوا۔ پہلے سیشن کا موضوع ’’عالمی تناظر‘‘ تھا جس پر کامریڈ عمران کامیانہ نے لیڈ آف دی جبکہ سیشن کو کامریڈ نہال خان نے چئیر کیا۔ کامریڈ عمران نے اپنی لیڈ آف میں سرمایہ داری کے موجود بحران، جنگِ عظیم کے بعد سے شروع ہونے والے عہد میں اس کی بنیادوں، موجودہ عہد میں پوری دنیا میں اٹھنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریکوں اور آنے والے دنوں میں ہونے والے واقعات کے تناظر کے حوالے سے تفصیل سے بات رکھی۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ داری اپنے ارتقا میں پیداواری قوتوں کو اس مقام پر لے آئی ہے جہاں یہ اس کے اپنے قابو سے باہر ہیں۔ اس نظام کے زیرِ اثر زائد پیداواری صلاحیت انسانیت کو تسکین دینے کی بجائے معاشی و سماجی بحران اور غربت، بیروزگاری میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد زائد پیداوار کے بحران کو ٹالنے کے لئے معیشت میں ریاستی مداخلت کا طریقہ کار اختیار کیا گیا جس سے وقتی طور پر یورپ میں فلاحی ریاست کا مظہر دیکھنے میں آیا۔ لیکن 1970ء کی دہائی سے شروع ہونے والی آزد منڈی کی پالیسیوں اور پرائیویٹائزیشن کے بعد سے ریاستیں اپنے تمام ذرائع آمدن سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور سوائے بڑے پیمانے پر قرض لینے کے ان کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں بچا۔ دوسری طرف محنت کش طبقہ بھی آزاد منڈی کی لوٹ مار کے زیرِ اثر اپنی کم ہوتی ہوئی آمدن کی وجہ سے گرتے ہوئے معیارِ زندگی کو روکنے کے لئے بنکوں سے قرض لینے پر مجبور تھا۔ لیکن کسی بھی قرضے کا حجم لا امتناہی طور پر نہیں بڑھایا جاسکتا اور کبھی نہ کبھی اسے واپس کرنا ہوتا ہے۔ 2008ء سے پہلے عالمی سرمایہ داری کا بحرا ن جعلی بنیادوں پر قرضے کے نا پائیدار ستونوں پر قائم تھا جو ناگزیر طور پر زمین بوس ہوا اور امریکہ سے شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران نے یورپ اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سرمایہ داری کے نظریہ دانوں اور معاشی ماہرین کے پاس اس بحران سے باہر آنے کا کوئی راستہ موجود نہیں اور یورپی یونین کا بحران روز بروز بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ تمام تر طریقے جو بحران سے باہر آنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں وہ بحران کو ٹالنے کے لئے پہلے ہی استعمال کئے جاچکے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور پوری دنیا میں اس بحران کا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالا جارہا ہے اور بڑے بنکوں کو عوام کے پیسوں سے اربوں ڈالر کے بیل آؤٹ دئیے جا رہے۔ لیکن یہ طریقے آگ کو پٹرول سے بجھانے کے مترادف ہیں جن سے قوت خرید کم ہوگی، منڈی مزید سکڑے گی اور بحران مزید گہرا ہوگا۔ دوسری طرف محنت کش طبقہ ان کٹوتیوں کے خلاف مسلسل لڑائی لڑ رہا ہے۔ صرف یونان میں گزشتہ تین سالوں میں 18عام ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ مصر، تیونس اور اردن میں حالیہ عوامی مظاہروں اور ہڑتالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب انقلاب ختم نہیں ہوا اور نئی انگڑائی لے رہا ہے۔ بائیں بازو کی عدم موجودگی میں مصر اور تیونس میں سامراج کی پشت پناہی سے بننے والی ملاؤں کی حکومتیں عوامی حمایت سے محروم ہو کر انہدام کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں منڈی کے سکڑنے کے بعد چینی معیشت کی شرح نمو کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت نے مشرقِ وسطیٰ کے تمام تر معاشی وسماجی تضادات کو ایک بار پھر منظر عام پر لا کھڑا کیا ہے۔ آنے والے عہد میں دنیا میں غیر یقینی صورتحال اور عدم استحکام مزید بڑھے گا، طبقاتی جدوجہد تیز تر ہوگی، حکومتیں گریں گی اور نئی حکومتیں بنیں گی، انقلابات اور ردِ انقلاباتِ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ کئی سالوں حتیٰ کہ دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ ان حالات میں ایک مارکسی لینن اسٹ انٹرنیشنل کے زیرِ اثر سرمایہ داری کو دنیا بھر سے اکھاڑ کر عالمی سوشلسٹ سماج کی طرف سفر کا آغاز کیا جاسکتا ہے، لیکن اس انٹرنیشنل کی تعمیر کا عظیم فریضہ تاریخ نے ہمارے کندھوں پر ڈالا ہے اور اپنی تمام تر توانائیوں کو اس مقصد کے لئے صرف کر کے ہی اس فریضے کو نبھایا جا سکتا ہے۔
لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی سے کامریڈ خالد، ملتان سے کامریڈ ذیشان، راولپنڈی سے کامریڈ اویس قرنی، کشمیر سے کامریڈ خلیل بابر، کوٹ ادو سے کامریڈ عامر، فیصل آباد سے کامریڈ عصمت، حیدرآباد سے کامریڈ شاہ نواز، دادو سے کامریڈ اوشواور لاہور سے کامریڈ امجد شاہسوار نے عالمی تناظر کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بحث کو آگے بڑھایا۔ کنٹر ی بیوشنز کے بعد سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کامریڈ عمران نے کہا کہ صرف چین میں فی مزدور پیداوار میں سالانہ 10فیصد کا اضافہ ہورہا ہے، لیکن سرمایہ داری میں پیداواریت کی بڑھوتری کا الٹا نتیجہ برآمد ہو رہا ہے اور پوری دنیا میں معیشتیں سکڑ رہی ہیں، غربت اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور سیاسی و سماجی عدم استحکام میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج دنیا میں اتنی ٹیکنالوجی اور ذرائع موجود ہیں کہ ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کے زیرِ اثر صرف دو سے تین پانچ سالہ منصوبوں کے ذریعے پورے سیارے سے غربت، افلاس، بیروزگاری، قلت اور مانگ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک موضوعی عنصر کے بغیر کسی بھی انقلابی صورتحال میں سرمایہ دارانہ ریاست و نظام کو اکھاڑا نہیں جاسکتا۔ آج اپنے شہروں سے سینکڑوں کلو میٹر دور یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد اسی موضوعی عنصر کی تعمیر ہے۔
کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع ’’مارکسی معاشیات‘‘ تھا۔ اس سیشن کو کامریڈ شہریار ذوق نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف کامریڈ سعید نے دی۔ کامریڈ سعید نے اپنی لیڈ آف میں مارکسی معیشت کے بنیادی تصورات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے جنس، قدر، قدر استعمال، قدرِ تبادلہ، قدرِ زائد، قوتِ محنت کو عام فہم زبان میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا۔ مزید برآں سرمایہ دارانہ نظام کی حرکت اور ارتقاء کے عمومی قوانین، اس نظام کے طریقہ کار اور تضادات بھی بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ گرتے ہوئے شرح منافع اور منڈی میں مقابلے کی فضا کے زیرِ اثر سرمایہ دار جدید سے جدید تر ذرئع پیداوار استعمال کرنے پر مجبور ہوتا ہے جن کے ذریعے کم سے کم وقت اور قوتِ محنت سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے، لیکن یہ عمل ایک نئے تضاد کو جنم دیتا ہے جو کہ زائد پیداوار اور زائد پیداواری صلاحیت کا بحران ہے۔ کم مزدوروں سے حاصل ہونے والی زیادہ پیداوار کو منڈی میں خریدار نہیں مل پاتے جس سے پورے نظام کا پہیہ جام ہو جاتا ہے اور معاشی بحران جنم لیتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنائی جانی والی کینشین ازم کی پالیسیاں اسی تضاد کو حل کرنے یا ٹالنے کے لئے اپنائی گئیں تھیں لیکن ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے زیرِ اثر یہ تضاد ختم نہیں ہو سکتا اور بلند تر پیمانے پر ہر کچھ عرصے کے بعد اپنا اظہار کرتا ہے۔ جن ذرائع پیداوار کو سرمایہ دار انہ نظام نے خود ترویج دی ہے وہ اس کے گلے کے پھندہ بن چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام جس بند گلی میں داخل ہو چکا ہے اس سے نہیں نکل سکتا اور اس نظام کے زیرِ اثر ایک خوشحال انسانی معاشرے کا قیام نا ممکن ہے۔ صرف اور صرف ایک سوشلسٹ معیشت کے زیرِ اثر ہی ہزاروں سالوں کی انسانی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرکے مانگ اور قلت سے پاک انسانی معاشرے کا قیام ممکن ہے۔
لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کشمیر سے کامریڈ راشد شیخ، راولپنڈی سے کامریڈ آصف رشید، لاہور سے کامریڈ عمران کامیانہ اور کراچی سے کامریڈ ماجد نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مارکسی معیشت کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی اور مختلف مثالوں کی مدد سے پیچیدہ معاشی پہلوؤں کو آسان فہم زبان میں بیان کیا۔ کامریڈ سعید نے سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری نے جن بنیادوں پر اپنے ترقی پسندانہ عہد میں پیداواری قوتوں اور سماج کو ترقی دی تھی، ان پر خود چلنے سے قاصر ہے۔ معاشرے میں بے روزگاروں کی بڑی تعداد سرمائے میں اضافے کی اولین شرط ہے۔ 2008ء کے بحران کے بعد سے دنیا کے ہر خطے میں تحریکیں ابھر رہی ہیں اور مارکسزم کے نظریات مقبول ہو رہے ہیں۔ موجودہ عہد انقلابات کا عہد ہے اور انقلابات، قیادت کے بغیر ادھورے رہ جایا کرتے ہیں۔ ہم آج یہ عہد کرتے ہیں کہ بالشویک قیادت کی تعمیر کر کے ہم اس خطے میں ابھرنے والی انقلابی تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
دوسرے دن (8دسمبر) کے پہلے سیشن (اور مجموعی طور پر سکول کے تیسرے سیشن) کا موضوع ’’پاکستان تناظر‘‘ تھا جس پر کامریڈ گلباز نے لیڈ آف دی جبکہ سیشن کو چیئر کامریڈ ماہ بلوص نے کیا۔ کامریڈ گلباز نے اپنی لیڈ آف میں کہا کہ سرمایہ داری کا عالمی بحران نا گزیر طور پر اپنا اظہار پہلے سے ہی بدحال پاکستانی ریاست اور معیشت کی مزید اور تیز ہوتی ہوئی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں کر رہا ہے۔ آج پاکستانی میڈیا پر آنے والے نام نہاد دانشوروں اور بورژوا کالم نویسوں میں سے کسی کے پاس حالات کا تجزیہ کرنے کی سکت اور مستقبل میں بہتری کا کوئی لائحہ عمل سرے سے موجود نہیں۔ برِ صغیر کی سامراجی تقسیم کے نتیجے میں قائم ہونے والی پاکستانی ریاست روزِ اول ہی سے بحران کا شکار رہی ہے اور یہاں کا خصی حکمران طبقہ جدید سرمایہ دارانہ ریاست اور انفراسٹرکچر قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ توانائی کے بحران نے کمزور پاکستانی صنعت کا بیڑا بالکل ہی غرق کر دیا ہے اور صنعتی یونٹوں کی بندش یا بیرون ملک منتقلی سے بیروزگاری کی شرح آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ دوسری طرف امن و امان کی خراب صورتحال، سیاسی عدم استحکام اور توانائی کے بحران سے بیرونی سرمایہ کاری کئی گنا کم ہو کر ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئی ہے۔ اگرچہ تیسری دنیا کے ممالک میں سرمایہ کاری کا مقصد بھی استحصال اور لوٹ مار ہوتا ہے لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ سرمایہ داری کے اپنے معیارات کے مطابق بھی پاکستانی معیشت مکمل انہدام کا شکار ہے۔ نہری نظام مسلسل زوال کا شکار ہے اور نئے ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پانی کی قلت نے زرعی شعبے میں کسی قسم کی بہتری کے امکانات کو ختم کر دیا ہے۔ کالے دھن نے سماج، معیشت اور ریاست کوکھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اور FBR کی اپنی رپورٹس کے مطابق لیبر فورس کا 73فیصد سے زائد کالی معیشت سے منسلک ہے۔ اصغر خان کیس نے واضح کر دیا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں کس طرح سے اپنے سیاسی مفادات کو پروان چڑھانے کے لئے کالے دھن کا استعمال کرتی ہے جبکہ عوام کے سامنے یہ حکمران جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ افغانستان اور قبائلی علاقہ جات میں جاری جنگ و بربریت جس نے رفتہ رفتہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اسی کالے دھن پر مقامی اور سامراجی ایجنسیوں کے درمیان اختلافات کا نتیجہ ہے۔ موجودہ عہد میں سیکولر قوم پرستوں سے لے کر مذہبی بنیاد پرستوں تک، سب کے سب کسی نہ کسی ریاستی یا سامراجی قوت کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں اور ان کے مفادات اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ پاکستان محروم قومیتوں کا جیل خانہ ہے لیکن قومی محرومی کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں ہے۔ محنت کشوں کی روایت پیپلز پارٹی نے پنے موجودہ دورِ حکومت میں ریاست اور سرمایہ داری کے آگے اپنا سر مکمل طور پر تسلیم خم کر دیا ہے اور عوام پر وہ معاشی حملے کئے ہیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہر ایک پرت میں بے چینی موجود ہے اور لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر تمام تر ریاستی قوت کو چکنا چور کر سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں بڑی انقلابی تحریک ابھر سکتی ہے جس میں موضوعی عنصر کی مداخلت سے سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام کو اکھاڑ پھینک کر پورے خطے کا منظر نامہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اس سیشن میں بلوچستان سے کامریڈ نہال خان، فیصل آباد سے کامریڈ عمر، کراچی سے کامریڈ ماجد، کشمیر سے کامریڈ دانیال، راولپنڈی سے کامریڈ آصف، دادو سے کامریڈ سہیل، رحیم یار خان سے کامریڈ شہزاد، حیدرآباد سے کامریڈ راہول اور فوٹومل، سوات سے کامریڈ مالک، جام پور سے کامریڈ شہریار ذوق نے کنٹری بیوشن کئے۔ اس سیشن کا سم اپ کامریڈ پارس نے کیا۔ انہوں نے سوالات کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی صورتحال مجموعی طور پر اس قدر پیچیدہ ہے کہ مشروط تناظر ہی تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ کالے دھن کی حد سے بڑھی ہوئی مداخلت نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کالے دھن پر مبنی نہ نظر آنے والی معیشت کی شرح نمو سرکاری معیشت سے کئی گنا زیادہ ہے (9فیصد)، اور یہ معیشت منشیات، اسلحے کی سمگلنگ، اغواء برائے تاوان، جرائم، دہشت گردی اور کرپشن پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے سرکاری معیشت کی بجائے پورا ملک اس وقت اسی کالے دھن پر چل رہا ہے اور ان حالات میں کرپشن یا جرائم کے خاتمے کی بات کرنا مضحکہ خیز ہے۔ بلوچستان کے وسائل، اس خطے کے عوام کے لئے عذاب بن چکے ہیں اور بلوچستان میں سامراجی طاقتوں کے درمیان مسلسل پراکسی جنگ جاری ہے۔ پاکستانی ریاست کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں جو کہ نظام کے شدید بحران کا نتیجہ ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستانی ریاست کا بحران مزید شدید ہو گا اور ایسے حالات میں محنت کش طبقے کی تحریک ابھر سکتی ہے۔ اس تحریک کی تیاری کے لئے ہمیں اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہر پرت میں جانا ہو گا۔ سرمایہ داری اپنے تضادات کو حل کر سکتی ہے نہ بحران سے نکلنے کے قابل ہے، انسانیت کے پاس صرف ایک راستہ بچا ہے کہ سرمایہ داری کو سماج سے نکال باہر کرے اور غیر طبقاتی معاشرہ قائم کرتے ہوئے جہالت، غربت اور قلت کا خاتمہ کرے۔
کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے دن کے آخری سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع ’’جرمنی انقلاب سے ردِ انقلاب تک‘‘ تھا۔ اس سیشن کو چیئر کامریڈماجد نے کیا جبکہ لیڈ آف کامریڈ سرتاج نے دی۔ کامریڈ سرتاج نے اپنی لیڈ آف میں پہلی جنگِ عظیم کی وجوہات، 1917ء کے روسی انقلاب اور دنیا بھر میں اس کے اثرات، جرمن سرمایہ داری کے بحران، 1918ء سے 1923ء تک جرمن محنت کش طبقے کی اٹھان، جرمنی میں محنت کشوں کی روائتی پارٹی SPD کی انقلاب سے غداری اور قیادت کی مصالحت پسندی پر مبنی پالیسیوں، USPD کے قیام، تیسری انٹرنیشنل اور جرمن کیمونسٹ پارٹی کے قیام، سٹالن ازم کے زیرِ اثر تیسری انٹرنیشنل کی زوال پذیری اور غلط پالیسیوں، ہٹلر اور نازی ازم کے ابھار، جرمن انقلاب کی ناکامی اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق کے حوالے سے تفصیل سے بات رکھی۔ سوالات کے بعد کشمیر سے کامریڈ سعد ناصر، واہ سے کامریڈ ثاقب زین، ملتان سے کامریڈ جاوید، کراچی سے کامریڈ فارس اور فیصل آباد سے کامریڈ ارتقا نے اپنی کانٹری بیوشنز میں جرمن انقلاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بحث کو پر مغز بنایا۔ آخر میں کامریڈ سرتاج نے سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کیا۔
تیسرے دن کا واحد سیشن ’’نوجوانوں میں کام کا لائحہ عمل اور طریقہ کار‘‘ کے حوالے سے تھا جسے کامریڈ راشد شیخ نے چیئر کیا جبکہ کامریڈ امجد شاہسوار نے لیڈ آف دیتے ہوئے نوجوانوں میں مارکسزم کے نظریات کی ترویج کے طریقہ کار اور حکمتِ عملی پر تفصیل سے بات رکھی۔ انہوں نے روسی انقلاب میں نوجوانوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ بالشویک پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کی اوسط عمر 30 سال سے کم تھی۔ اس کے علاوہ برصغیر اور پاکستان میں مختلف ادوار میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں میں نوجوانوں کے کردار کا جائزہ بھی لیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عہد میں جب ریاست اور حکمران طبقات مذہبی بنیاد پرستی کو سماج پر مسلط کر رہے ہیں اور سرمایہ داری کا بحران گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے، نوجوانوں میں عمومی طور پر سوشلزم کے انقلابی نظریات کی پیاس موجود ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم نوجوانوں کی ہر پرت تک جا کر انہیں ایک نظریاتی متبادل فراہم کرتے ہوئے اپنے ساتھ جوڑیں اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کو تیز کریں۔ لیڈ آف کے بعد ریجنل رپورٹس کا سلسلہ شروع ہوا اورسیاسی کام کے حوالے سے ٹارگٹس لئے گئے۔
سکول کا سم اپ کامریڈ پارس نے کرتے ہوئے کہا کہ آج جب لالچ، ہوس، دھوکہ دہی ایک معمول بن چکے ہیں اور سماجی اقدار گراوٹ کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، کامریڈز نے یہ کامیاب سکول منعقد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ہم ثقافتی اور تنظیمی حوالے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن مارکسسٹ انقلابی محنت کش طبقے کے بغیر کبھی بھی انقلاب نہیں کر سکتے۔ ہمارا کام اپنے آپ کو سماج کے عمومی شعور تک گرالینا نہیں ہے، نہ ہی ہمیں اپنے آپ کو اعلیٰ انسان خیال کر کے محنت کش طبقے سے کاٹنا ہے، بلکہ ہمیں محنت کش طبقے تک مارکسزم کے نظریات لے جاکر انہیں اپنے معیار تک بلند کرنا ہے۔ آج ہزاروں سالوں کے ارتقا کے نتیجے میں حاصل ہونے والے انسانی علم کا نچوڑ مارکسزم کے نظریات کی صورت میں ہمارے ذہنوں میں سرایت کر چکا ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد تمام عمر مادی ضروریات کی تگ و دو میں گزار دینا نہیں ہے بلکہ انسانیت کی معراج مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت حاصل کرتے ہوئے اسے اپنی مرضی سے تخلیق کرنا ہے۔ مارکسزم کے نظریات ہمیں مستقبل کا تناظر تخلیق کرنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں اور اس سے بڑی خوشی کوئی نہیں ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے تناظر کو سچ ہوتا ہوا دیکھے۔ آج ہم ایک نیا عہد، نیا معاشرہ، نیا سماج تخلیق کر رہے ہیں، اور اس عظیم مقصد کے سامنے ہماری زندگی کی اہمیت اور روز مرہ مسائل کی اہمیت بہت کم ہو کر رہ جاتی ہے۔ سرمایہ داری کے کاسہ لیس تو دو دہائیوں پہلے تاریخ کے خاتمے کا اعلان کر چکے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ان کی تاریخ کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انسانیت کی تاریخ کا آغاز ابھی تک نہیں ہوا۔ انسانیت کی تاریخ تب شروع ہو گی جب انسان قلت اور مانگ سے آزاد ہو کر تسخیرِ کائنات کا آغاز کرے گا اور اپنیذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشے گا۔ ہم وہ معاشرہ تعمیر کریں گے جہاں انسان حقیقی معنوں میں انسان بنے گا۔ ہم آج ریاست اور حکمرانوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ جو جی میں آئے کریں ہمارا سفر نہیں رکے گا اور ہم اس نظام اور اس کے دلالوں کو روندتے ہوئے گزر جائیں گے۔
وقت کی قلت کے باعث بہت سے کامریڈز مختلف سیشنز میں کانٹری بیوشنز نہیں کر سکے۔ ثقافتی حوالے سے سکول انتہائی اعلیٰ معیار کا حامل تھا جس میں کامریڈ نے شاندار انقلابی ڈسپلن کا مظاہرہ کیا اور بہت سے کامریڈز نے انقلابی نظمیں اور ترانے سنا کر جوش و ولولے کو برقرار رکھا۔ سکول کا اختتام انٹرنیشنل گا کر کیا گیا جس کے بعد کامریڈز نے بھرپور نعرہ بازی کی۔