رپورٹ: انقلابی طلبہ محاذ (RSF)
انقلابی طلبہ محاذ (RSF) کے زیر اہتمام موسمِ سرما کے تین روزہ نیشنل مارکسی یوتھ سکول کا انعقاد 2، 3 اور 4 فروری کو لائل پور(موجودہ فیصل آباد) میں کیا گیا۔ یہ سکول برصغیر کے عظیم انقلابی شہید بھگت سنگھ کے نام کیا گیا تھا جن کا تعلق لائل پور کے گاؤں ’بنگہ‘ سے تھا۔ بھگت سنگھ سوشلسٹ انقلاب کے نڈر سپاہی تھے جنہوں نے ذات، نسل، قومیت، صنف اور مذہب کے تمام تعصبات کو مسترد کیا اور نہ صرف انگریز سامراج بلکہ اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کی پاداش میں انہیں صرف 23 سال کی عمر میں انقلابی ساتھیوں سمیت پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ یہ سکول لائل پور میں منعقد ہو نے کے حوالے سے اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ شہر محنت کشوں کا اہم گڑھ اور 1968-69ء کے انقلاب کا مرکز رہا ہے۔ سکول میں تلخ سماجی و معاشی حالات اور سفری مشکلات کے باوجود بیس خواتین سمیت 200 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ نہ صرف معیاری بلکہ مقداری حوالے سے بھی یہ ایک تاریخی سکول ثابت ہوا۔ نظریاتی مباحث، جوش و خروش، انقلابی شاعری، موسیقی اور تفریح سے بھرپور تین دنوں نے پاکستان بھر سے آئے ہوئے انقلابیوں میں عزم و ہمت کی نئی روح پھونک دی۔
سکول مجموعی طور پر پانچ سیشنز پر مشتمل تھا جن میں پاکستان اور عالمی تناظر، زر کی سرمائے میں تبدیلی، ریاست اور انقلاب،چینی ریاست کا طبقاتی کردار اور نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار اور لائحہ عمل شامل تھے۔
سکول کا باقاعدہ آغاز 2 فروری کی صبح میزبان ریجن سے عمر رشید نے شرکت کرنیوالے تمام کامریڈوں کو خوش آمدید کہہ کر کیا۔ پہلے سیشن کا موضوع ’پاکستان وعالمی تناظر‘ تھا جسے پشاور سے سنگین باچا نے چیئر کیا جبکہ بحث کا آغاز دادو سے رمیز مصرانی نے کیا۔ انہوں نے سرمایہ داری کے بحرانات، امریکی سامراج کی کیفیت، چین کی صورتحال اور اس کے سامراجی عزائم، برطانیہ اوریورپ میں ابھرنے والی تحریکوں اورموجودہ حالات، مشرقِ وسطیٰ میں پراکسی جنگوں کی شدت و خلیجی ریاستوں کے بحرانات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اسکے علاوہ انہوں نے ہندوستان اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیائی خطے کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے پاکستانی حکمرانوں کی آپسی نورا کشتی، ریاست میں مختلف سامراجی قوتوں کی مداخلت، معاشی بحران، محنت کش طبقے کی شعوری و سیاسی کیفیت اور تحریک کے تناظرپر بھی تفصیلاً بات رکھی۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ لاہور سے اویس قرنی، ارشد، جامپور سے مقدس، دادو سے اعجاز بگھیو، کشمیر سے ابرار لطیف، شمالی پنجاب سے آصف رشید اور عمر، بلوچستان سے شکیلہ اور حسن جان نے بحث میں بھرپور حصہ لیا۔ آخر میں سوالات کی روشنی میں رمیز مصرانی نے سیشن کو سم اپ کیا۔
کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن’زر کی سرمائے میں تبدیلی‘ کا آغاز ہوا۔ وضاحت کو آسان بنانے کے لئے ایک وائٹ بورڈ کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس سیشن کو چیئر شمالی پنجاب سے عمر نے کیا جبکہ بحث کا آغاز مرکزی پنجاب سے سیفی نے کیا۔ سیفی نے واضح کیا کہ زر کس طرح سے سرمائے میں تبدیل ہو کر اپنا کردار یکسر بدل لیتا ہے۔ انہوں نے سرمائے کے بنیادی فارمولے اور مارکس کے معاشی تجزئیے کی بنیادوں پر روشنی ڈالی۔ اِسی طرح بنیادی اصلاحات مثلاً قدرِاستعمال، قدرِ تبادلہ، قدرِ زائد اور کموڈیٹی کی وضاحت بھی کی۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی سے ماجد،جامپور سے رحیم، لاہور سے اویس قرنی اور کشمیر سے التمش نے بحث میں حصہ لیا۔ عمران کامیانہ نے سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کیا۔
سکول کے دوسرے دن کا آغاز 3 فروری کو مختلف انقلابی ساتھیوں نے انقلابی گانے اور نظمیں گا کر کیا۔ سکول کا تیسرا سیشن لینن کی شہرہ آفاق تصنیف ’ ریاست اور انقلاب‘ سے متعلق تھا۔ اس سیشن کو بلوچستان سے شکیلہ نے چیئر کیا جبکہ کشمیر سے واجد نے بحث کا آغاز کیا۔ واجد نے وضاحت کی کہ سرمایہ دارانہ سماج میں ریاست کا سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے طبقاتی تضادات اورریاست اور اس کے اداروں کے تاریخی ارتقا پر بات کی اور واضح کیا کہ سرمایہ داری میں ریاست بورژوازی کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جبکہ مزدور طبقے کے استحصال کو یقینی بناتی ہے۔ قدیم کمیونزم میں ریاست موجود نہ تھی۔ ریاست کا جنم اس وقت ہوا جب سماج اپنی فوری ضرورت سے زائد پیداوار کرنے کے قابل ہوا۔ بعد میں طبقاتی بنیادوں پر سماج کی ترویج ہوئی اور ایک طبقے کے خلاف دوسرے طبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا گیا جس نے ریاست کے وجود کو ناگزیر بنا دیا۔ انقلاب کے بعد محنت کش طبقے کے ہاتھوں مروجہ ریاستی ڈھانچے کی تباہی اور ایک نئی مزدور ریاست کی تعمیر ناگزیر ہے۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ لاہور سے عمران کامیانہ، کشمیر سے بشریٰ عزیز، مرکزی پنجاب سے احسن،دادو سے عیسیٰ، کراچی سے حاتم، شمالی پنجاب سے ظفر اور پختونخواہ سے سنگین باچا نے بحث میں حصہ لیا۔ واجد نے سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کیا۔
دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے چوتھے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع ’چینی ریاست کا طبقاتی کردار‘ تھا۔ اِس سیشن کو چیئر ڈیرہ غازیخان سے رحیم نے کیا جبکہ بحث کا آغاز اویس قرنی نے کیا۔ اویس قرنی نے چین میں انقلابات کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور بالخصوص 1925-27ء کے انقلاب اور اس کی ناکامی کی وجوہات بیان کیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ 1949ء کے انقلاب نے آغاز سے ہی ایک مسخ شدہ مزدور ریاست کو جنم دیا لیکن اِس کے باوجود یہ ایک انتہائی ترقی پسندانہ قدم تھا۔ انہوں نے 1970ء کی دہائی کے اواخر میں چین کی منڈی کو کھولنے اور اِس کے مضمرات، آج کے چین کے سماجی و معاشی تضادات، چینی معیشت میں نجی سیکٹر اور دیوہیکل ریاستی سیکٹر، ریاستی اداروں (SOEs) اور جزوی طور پر ریاست کی ملکیت میں موجود اداروں (LLCs) پر تفصیلاً روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ چین کسی صورت کوئی سوشلسٹ سماج یا مزدور ریاست نہیں ہے لیکن آج بھی وہاں معیشت کے کلیدی شعبے ریاستی ملکیت میں ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے بالائی اداروں میں بہت سے ارب پتی براجمان ہیں اور موجودہ سیکرٹری جنرل ’شی جن پنگ‘ کی کرپشن کے خلاف مہم چینی افسر شاہی کے آپسی تضادات کا شاخسانہ ہے۔ انہوں نے شی جن پنگ کے اقتدار، سوشلزم کی نعرہ بازی اور چین کی دنیا بھر میں سرمایہ کاری بالخصوص ’ون بیلٹ ون روڈ‘ جیسے منصوبوں کے سامراجی کردار کی وضاحت بھی کی۔
لیڈ آف کے بعد شمالی پنجاب سے فوزیہ، دادو سے سعید خاصخیلی، حیدر آباد سے سریش اور کشمیر سے راشد شیخ نے بحث کو آگے بڑھایا۔ سیشن کو اویس قرنی نے سوالات کی روشنی میں سم اپ کیا۔ دوسرے دن کی رات مشال خان کی یاد میں محفل موسیقی کا انعقاد کیا گیا۔
4 فروری کی صبح پانچویں سیشن’نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار اور لائحہ عمل‘ کا آغاز ہوا جس کو قرنی نے چیئر کیا جبکہ ملتان سے نادر گوپانگ نے بحث کا آغاز کیا۔ نادر نے طلبہ سیاست کے ماضی پر روشنی ڈالی اور معروضی حالات کے مطابق لائحہ عمل تجویز کیا۔ انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد،پشاور یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، جامشورو یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں میں طلبہ کی حالیہ تحریکوں کا جائزہ لیا اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں نوجوانوں کے کردار اورانکو مارکسی نظریات سے مسلح کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
لیڈ آف کے بعد تنظیمی رپورٹوں اور اہداف مقرر کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نوجوانوں نے ’انقلابی طلبہ محاذ‘ (RSF) کی تعمیر کے حوالے سے کنونشن منعقد کرنے، برانچیں بنانے اور سٹڈی سرکل شروع کرنے کے ٹارگٹ لیے۔ اس کے بعد فیصل آباد سے اشرف کھوکھر، شمالی خیبرپختونخواہ سے غفران،فیصل آباد سے حمزہ اور جامپور سے مصباح نے تنظیمی حوالے سے تجاویز پیش کیں۔ عصمت پروین نے سکول کی فنانس رپورٹ پیش کی۔ مہنگائی اور کٹھن معاشی حالات کے باوجود مالی لحاظ سے بھی سکول کامیاب رہا۔
سکول کے اختتامی کلمات کامریڈ لال خان نے ادا کئے۔ انہوں نے انقلابی پارٹی کی کیڈر سازی میں مارکسی سکولوں کی اہمیت واضح کی اور کہا کہ یہ شاندار سکول اِس بات کی گواہی ہے کہ اِس خطے کا انقلاب اب رائیگاں نہیں جائے گا اور ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں پورے کرہ ارض کو سرخ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم عزم کرتے ہیں کہ انقلاب کے بعد اِس شہر کا نام ’بھگت پور‘ رکھ کر بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ سکول کا اختتام سینکڑوں انقلابی نوجوانوں نے محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا جس کے بعد سوشلسٹ انقلاب کے فلک شگاف نعرے بلند ہونے لگے۔
سکول کے بعد پاکستان بھر سے آئے ہوئے کامریڈوں نے بھگت سنگھ کے آبائی گھر کا دورہ کیا۔ سینکڑوں نوجوان ’انقلاب زندہ باد‘ اور ’بھگت سنگھ زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بھگت سنگھ کی حویلی میں داخل ہوئے اور صحن میں ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ گایا جس کے بعد ملک بھر سے آئے کامریڈ‘ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد اور تیاری کا عزمِ نو لئے اپنے اپنے علاقوں کو روانہ ہونے لگے۔