[رپورٹ: کامریڈ سنگین، فوٹوگرافی: حارث قدیر]
تین روزہ نیشنل مارکسی یوتھ سکول 2014ء (موسم گرما) کا انعقاد 8، 9 اور 10 اگست کو مالاکنڈ (سوات) میں ہوا۔ طویل فاصلوں، مہنگائی، کٹھن سفر اور علاقے میں سیکیورٹی کی نازک صورتحال کے باوجود ملک بھر سے 26 خواتین سمیت 222 نوجوانوں نے سکول میں شرکت کی۔ مارکسی سکول مجموعی طور پر پانچ سیشنز پر مشتمل تھا۔ سکول کا باقاعدہ آغاز میزبان ریجن سے آرگنائزنگ کمیٹی کے انچارج وقار احمد نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہہ کر کیا۔
پہلا سیشن عالمی تناظر پر تھا جس پر کامریڈ آدم پال نے لیڈ آف دی۔ اس سیشن کو کامریڈ خیراللہ نے چیئر کیا۔ آدم پال نے عالمی معیشت کے موجودہ بحران اور اس کے سیاسی اور سماجی اثرات پر مارکسی نقطہ نظر سے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ 18 ستمبر 2014ء کوپہلی انٹرنیشنل کے قیام کو 150 برس مکمل ہو جائیں گے۔ 1864ء میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی قیادت میں قائم ہونے والی محنت کشوں کی پہلی عالمی تنظیم سے لے کر عالمگیر سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد آج بھی جاری ہے، اس سال پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے بھی سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح کے اس قتل عام میں مختلف سامراجی ممالک کے سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس اورنو آبادیاتی ممالک پر قبضوں کے لیے قوم کے نام پر محنت کشوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا گیا اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ قتل ہوئے۔ سو سال بعد بھی سرمایہ دارانہ نظام لوگوں کو قتل کر رہا ہے، آج پھر سرمایہ داری عالمی سطح پر شدید بحران کا شکار ہے اور 2008ء میں شروع ہونے والا عالمی معاشی بحران ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ امریکہ ہر ماہ 80 ارب ڈالر کے نوٹ چھاپ کر عالمی معیشت کو سہارا دے رہا ہے لیکن یہ طریقہ زیادہ لمبا عرصہ نہیں چل سکتا۔ چین، جو عالمی معیشت کا اہم ستون ہے، معاشی بحران کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور مصنوعی طریقوں سے اس بحران کو ٹالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی معاشی عروج اور زوال کا چکر ہے اور اس نظام میں رہتے ہوئے بحران کو جتنا ٹالا جائے گا اس کی شدت اتنی ہی بڑھے گی۔
کامریڈ نے یورپ کے مختلف ممالک کی معیشتوں کے بحران پر بھی روشنی ڈالی۔ یورپ میں بیروزگاری کی شرح 25 فیصد تک بڑھ چکی ہے اور لاکھوں نوجوان روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلی نسل ہے جس کا معیار زندگی اپنے والدین کی نسبت گر رہا ہے۔ اس تمام معاشی صورتحال کے سماجی اور سیاسی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں اور یورپ میں اصلاح پسندی کا نظریہ دم توڑ رہا ہے اور اس کی مادی بنیادیں ختم ہو رہی ہیں۔ حالیہ یورپی انتخابات میں انتہائی دائیں اور بائیں جانب کے رجحانات کا ابھار بڑھتی ہوئی پولرآئزیشن کا غماز ہے۔ جہاں برطانیہ، فرانس اور یونان میں انتہائی دائیں بازو کی فاشسٹ پارٹیاں سیٹیں لیتی ہوئی نظر آئی ہیں وہاں یونان میں بائیں بازو کی جماعت سیریزا کو واضح اکثریت ملی ہے جبکہ اسپین میں پوڈیموز کے نام سے صرف چار ماہ قبل بننے والی جماعت نے 12 لاکھ ووٹ لے کر سیاسی زلزلہ برپا کر دیا ہے۔
آدم پال نے یوکرائن کی خانہ جنگی پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ آئی ایم ٹی کی حالیہ کانگریس میں یوکرائن کی بائیں بازو بورٹیبا کے رہنما کی شرکت اس بحران کے طبقاتی حل کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قومی تعصبات کو طبقاتی جڑت کی بنیاد پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ روس، یوکرائن اور یورپ کے تمام ممالک کے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت ہی تمام سامراجی قوتوں اور سرمایہ داروں کو شکست دے سکتی ہے۔ انہوں نے غزہ پر اسرائیلی حملے کی بھی شدید مذمت کی اور کہا کہ فلسطین کے نہتے عوام پر صیہونی ریاست کی جارحیت امریکی سامراج کے ایما پر کی جا رہی ہے جس میں عرب ممالک کے حکمران بھی اتنے ہی قصور وار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف طبقاتی بنیادوں پر ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی ان مسائل کو حتمی طور پر ختم کر سکتی ہے۔ انہوں نے عراق سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی صورتحا ل پر بھی روشنی ڈالی او ر کہا کہ امریکہ کی سامراجی پالیسیوں کا یہ ناگزیر نتیجہ ہے کہ ان کے بنائی ہوئی ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ رجعتی قوتیں آج لوگوں کا قتل عام کر رہی ہیں اور خود اپنے خالقوں کو خوفزدہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سامراجی حملے سے ان قوتوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جب تک ان کی سماجی اور مالیاتی بنیادیں موجود ہیں ایسے البغدادی جیسے ’’خلیفہ‘‘ پیدا ہوتے رہیں گے۔ اسلامی بنیاد پرستی ایک ایسی بلا ہے جس کا ایک سر کاٹیں گے تو کئی نئے سر پیدا ہوں گے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس بربریت کی مالیاتی بنیادیں ختم کر کے ہی انسانیت کو اس ناسور سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
اس کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملتان سے کامریڈ ماہ بلوص نے چین کی معاشی اور سماجی صورتحال پر روشنی ڈالی اور حال ہی میں قائم ہونے والے برکس بینک کا پس منظر اور تناظر پیش کیا۔ انہوں نے چین کے سامراجی کردار پر بھی تفصیلی بحث کی اور بتایا کہ کس طرح بحرالکاہل میں امریکہ اور چین کے سامراجی عزائم کا ٹکراؤ ہو رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے معاشی مفادات بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہیں۔ اس لیے کبھی جنگ کے بگل بجائے جاتے ہیں اور کبھی امن کی نعرہ بازی کی جاتی ہے۔
بلوچستان سے کامریڈ ولی خان نے افغانستان کے انتخابات کے ڈھونگ پر گفتگو کی اور کہا کہ دونوں صدارتی امیدوار سامراجی قوتوں کی نمائندگی کر رہے تھے اور جمہوریت صرف سیاستدانوں کے نعروں تک محدود ہے۔ افغانستان میں حقیقی جمہوریت صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی آ سکتی ہے۔
لاہور سے کامریڈ آفتاب نے ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں دائیں بازو کی ہندو بنیاد پرست جماعت بی جے پی کی کامیابی کی سماجی وجوہات کو بیان کیا اور ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کی زوال پذیری پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح مودی نے اپنی انتخابی مہم میں امیر اور غریب کے فرق کو ابھارا اور ہندوستان کے سرمایہ داروں کی حمایت سے تاریخ کی مہنگی ترین کمپئین کی۔ دوسری طرف کمیونسٹ پارٹیاں ’’سیکولر ازم‘‘ اور جمہوریت کی رٹ لگا کر اسی نظام سے مصالحت کا درس دیتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی سامراجی آقاؤں کے ایما پر محنت کشوں پر تاریخ کے بد ترین حملے کرے گا جس کے جواب میں محنت کش طبقہ متحرک ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا پرولتاریہ جب جاگے گا تو پورے خطے کو ہلا کے رکھ دے گا۔ اس کے بعد کشمیر سے کامریڈ دانیال، لاہور سے کامریڈ ولید، فیصل آباد سے کامریڈ رضوان، حیدرآباد سی کامریڈ حنیف اور ملتان سے کامریڈ ذیشان نے بھی کنٹری بیوشنز کئے اور سرمایہ دارانہ نظام کے سیاسی اور معاشی تضادات پر بات رکھی۔
کامریڈ آدم پال نے سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ اس تمام تر بدلتی ہوئی صورتحال میں عالمی مارکسی رجحان (IMT) نے مارکسزم کا پرچم بلند کر رکھا ہے، مختلف ممالک میں ہماری ممبر شپ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور نئے سیکشن قائم ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ IMT لاطینی امریکہ، شمالی امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے مختلف ممالک میں کام کر رہی ہے اور اس کے نظریات زیادہ بڑی تعداد میں نوجوانوں اور محنت کشوں تک پہنچ رہے ہیں۔ ویب سائٹ پر آنے والے افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور مستقبل مارکسزم کے نظریات کا ہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں عربی زبان میں شائع ہونے والے کمیونسٹ مینی فیسٹو کو عرب ممالک کے نوجوانوں میں بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ انہوں نے سکول کے شرکا پر زور دیا کہ وہ مارکسی نظریات سے لیس ہو کر انہیں پاکستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں تک تیزی سے پھیلائیں تا کہ انقلابی پارٹی کی قوتوں کو تیزی سے تعمیر کیا جا سکے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے عوام کواس متروک نظام کے ظلم اور جبر سے نجات دلائی جا سکے۔
پہلے دن کے دوسرے سیشن کا موضوع ’’ادب اور انقلاب‘‘ تھا۔ کھانے کے وقفے کے بعد شروع ہونے والے سیشن کو شہریار ذوق نے چیئر کیا۔ کامریڈ پارس جان نے اپنی مفصل لیڈ آف میں سب سے پہلے موضوع کی اہمیت کو اجاگر کیا اور بتا یا کہ کس طرح مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی نے اس اہم سماجی پہلو کو انقلابی نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ خود مارکس اور اینگلز بھی عالمی ادب کو انہماک سے پڑھتے تھے اور شیکسپیئر، بالزاک، دانتے اور دیگر بڑے ادیبوں کے مداح تھے اور ان کے مختلف جملوں کو اپنی تحریروں کو پر اثر بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اردو ادب میں بھی بائیں بازو کے نظریات اور انقلابی تحریکوں کے اہم اثرات ملتے ہیں اور فیض، ساحر، جالب، پریم چند، کرشن چندر جیسے بڑے ادیب محنت کش طبقے کی جدوجہد کے نمائندہ تھے۔ انہوں نے ترقی پسند ادب کے بنیادی خد و خال بھی بیان کیے اور بتایا کہ کس طرح ایک بڑا ادیب زندگی کے بنیادی تضادات کو گہرائی میں دیکھتے ہوئے انہیں اپنی تصنیف میں سامنے لے کر آتا ہے اور مستقبل کا رستہ دکھاتا ہے۔ انہوں نے گورکی کے ناولوں اور ڈراموں کا روس کے انقلاب میں کردار بھی واضح کیا۔ انہوں نے پرولتاری ادب اور ثقافت پر بھی روشنی ڈالی اور اسی طرح فیوچر ازم کے رجحانات پر بھی خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے ٹراٹسکی کی کتاب ’’ادب اور انقلاب‘‘ میں دیے گئے سوشلسٹ انقلاب کے بعد ادب کی طرف سوشلسٹ ریاست کے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔
لیڈ آف کے بعد فیصل آباد سے کامریڈ علی زریون، گوجرانوالہ سے کامریڈ صبغت وائیں اور کامریڈ ناصرہ بٹ، اور ملتان سے کامریڈ انعم پتافی نے بحث کو آگے بڑھایا اور ادب کے مختلف سماجی اور سیاسی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ پارس جان نے سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کیا۔
سکول کے دوسرے دن کا پہلا سیشن اور مجموعی طور پر سکول کا تیسرا سیشن ’’پاکستان تناظر‘‘ پر تھا، جس پر لیڈ آف کامریڈ عصمت نے دی اور اس سیشن کو چیئر کامریڈ عرفان نے کیا۔ لیڈ آف سے پہلے مختلف کامریڈز نے انقلابی شاعری سنائی۔ کامریڈ عصمت نے لیڈ آف میں کہا کہ پاکستانی ریاست اپنے جنم دن سے ہی ایک ناکام ریاست ہے اور یہاں کا حکمران طبقہ ہمیشہ عالمی سامراج کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ تاریخی طور پر تاخیر زدگی کاشکار اور مالیاتی و تکنیکی طور پر نحیف یہاں کی بورژوازی کبھی بھی اپنا آزادانہ کردار ادا نہیں کر سکی اور عالمی سامراج اور عالمی مالیاتی اداروں پر تکیہ کرنے کی وجہ سے ریاست حقیقی معنوں میں کبھی کوئی آزادانہ پالیسی مرتب نہ کر سکی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست کے سیاسی اور معاشی بحران میں سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت اور عالمی مالیاتی اداروں کی سامراجی پالیسیوں کا کلیدی کردار ہے۔ ہر آنے والا سال سماج کی مزید خستہ حالی اور تباہی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ سیاست، ریاست، صحافت، مذہب، ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، خاندان غرضیکہ کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جو شدید انتشار کا شکار نہ ہو۔ سماج کا یہ بحران عوام کی زندگیوں کو جہنم بناتا جا ر ہا ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ بحران اس نظامِ سرمایہ داری کا بحران ہے۔ نسلِ انسانی کو اس بحران سے نکالنے کا واحد حل اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر سے منسلک ہے۔
لیڈ آف کے بعد پشتونخوا سے کامریڈ سلیمان، کوئٹہ سے کامریڈ حیدر، لوئر دیر سے خورشید علی خان، ملتان سے کامریڈ آصف لاشاری، راولپنڈی سے کامریڈ عادل اورکامریڈ زبیر، رحیم یار خان سے کامریڈ کجل، کشمیر سے کامریڈ ریحانہ اور کامریڈ عبدالواحد، لاہور سے کامریڈ اعجاز ایوب، کامریڈ عاطف اور کامریڈ آفتاب نے اپنے کنٹری بیوشنز میں ریاست پاکستان کے داخلی تضادات، سیاسی انتشار، معاشی بحران اور ملک کے مختلف حصوں میں جاری پراکسی جنگوں پر تفصیل سے بات رکھی۔ سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کامریڈ عصمت نے کیا۔
کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے دن کا دوسرا جبکہ مجموعی طور پر سکول کا چوتھا سیشن شروع ہوا جسے کامریڈ راشد شیخ نے چیئر کیا۔ سیشن کا موضوع 1868ء میں فریڈرک اینگلز کا تحریر کردہ ’’سرمایہ کا خاکہ‘‘ تھا۔ کامریڈ عمران کامیانہ نے اپنی لیڈ آف کا آغاز معیشت کے تجزئیے کے مارکسی طریقہ کار اور مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ کے تاریخی پس منظر سے کیا۔ انہوں نے کموڈیٹی، قدر، قدر استفادہ، قدر تبادلہ، سماجی طور پر ضروری محنت، لیبر پاور، قدر زائد، کام کے اوقات کار کی ضروری محنت اور زائد محنت میں تقسیم، منافع، شرح منافع، قیمت، مشین کے کردار اور سرمایہ دارانہ معیشت کے تضادات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بورژوا معیشت کی مارکسی تنقید کے نقطہ نظر عالمی سرمایہ دار کے حالیہ معاشی بحران کی وجوہات اور تناظر پر بھی روشنی ڈالی۔
لیڈ آف کے بعد دادو سے کامریڈ خالد جمالی، راولپنڈی سے کامریڈ آصف رشید، گوجرانوالہ سے کامریڈ صبغت وائیں اور سوات سے کامریڈ خورشید نے معاشیات کے مارکسی تجزئیے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ سوالات کی روشنی میں گفتگو کو سمیٹتے ہوئے عمران کامیانہ نے سوشلسٹ سماج میں قدر کے قانون اور منصوبہ بند معیشت کی حرکیات، کرنسی اور مانیٹری سسٹم، کینشین ازم، سنٹرل بینکنگ اور سرمایہ دارانہ معیشت میں قیمتوں کے کردار پر روشنی ڈالی۔
دوسرے دن کی شام کو انعم پتافی کی صدارت میں خواتین کمیشن منعقد ہوا جس میں خواتین تک سوشلزم کے نظریات پہچانے اور انہیں انقلابی قوت کا فعال حصہ بنانے کی حکمت عملی پر بحث کی گئی۔ رات کو کامریڈ علی زریون کی زیر صدارت انقلابی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔
تیسرے دن کا واحد سیشن ’’نوجوانوں میں کام کی حکمت عملی اور طریقہ کار‘‘ تھا جسے کامریڈ عمر رشید نے چیئر کیا۔ کامریڈراشد خالد نے اپنی لیڈ آف میں پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ، انقلاب میں نوجوانوں کے کردار، طلبہ سیاست کی موجودہ صورتحال، بیروزگاری اور نوجوانوں کے تعلیمی مسائل، تنظیمی امور اورنوجوانوں کو انقلابی تنظیم کا حصہ بنانے کی مجوزہ حکمت عملی پر بات رکھی۔ اس کے بعد تمام ریجنز سے تنظیمی کام اور آنے والے دنوں میں سیاسی سرگرمیوں کی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ آدم پال کے ولولہ انگیز اختتامی الفاظ کے بعد سکول کا باقاعدہ اختتام انٹرنیشل گا کر کیا گیا جس کے بعد کامریڈز نے سوشلسٹ انقلاب کے فلک شگاف نعرے بلند کئے۔