| تحریر: لال خان |
25 دسمبر کو ’بے خودی‘ میں نریندرا مودی کا اچانک لاہور آنے کا فیصلہ، جاتی امرا آمد، نواز شریف کی سالگرہ اور ان کی نواسی کی شادی میں شرکت برصغیر کے ڈیڑھ ارب باسیوں کے باعث حیرت تھی۔ اکثریت کے لئے یہ خوشگوار حیرت تھی۔ریاست کے مخصوص حصے کی نمائندگی کرنے والے میڈیا کے ایک دھڑے اور سما ج کی پسماندہ پرتوں کی جانب سے بہرحال تنقید جاری ہے۔ مجموعی طور پر واضح ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت دشمنی، جنگی جنون اور تناؤ سے تنگ ہے اور قومی یا مذہبی منافرت میں اب جان باقی نہیں رہی۔ ہر نارمل انسان امن، ترقی اور خوشحالی کا خواہاں ہوتا ہے۔ دشمنی کا جنون عام طور پر محرومی اور ذلت سے جنم لینے والی پراگندگی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
پاکستان کے میڈیا اور سیاسی اشرافیہ کی اکثریت نے مودی کے اس اچانک دورے کو خوش آئند قرار دیا۔ ناضرین کسی بریک تھرو کی امید میں ٹیلی وژن سکرین پر نظریں جمائے رہے۔ اتنی توجہ سے شاید سسپنس بھری فلم یا کرکٹ کا کانٹے دار میچ بھی نہیں دیکھا جاتا۔ کرکٹ میچوں کی طرح اس معاملے میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بالادست طبقات اور استحصال زدہ عوام کا موقف ایک ہے۔ یہی دکھایا اور بتایا جا رہا ہے، لیکن طبقاتی معاشرے میں ایسا ممکن نہیں۔
سرمایہ دارانہ معیشت کا عالمی بحران پاکستان اور ہندوستان کی معیشتوں کو بھی لپیٹ رہا ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک کے حکمران طبقات کا ایک حصہ گرتی ہوئی شرح منافع کو بحال کرنے کے لئے دوطرفہ تجارت کھولنا چاہتا ہے کہ وسیع منڈی میسر آ سکے۔ یہ ملاقات کوئی اتنی اچانک یا خودرو نہیں تھی۔ اس سے صرف چند گھنٹے قبل امریکی وزارت خارجہ کے اہم مشیر نے باور کروایا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کو تعلقات کی مزید بہتری کے لئے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بیان مودی صاحب کے دورے کا پیش خیمہ تھا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی سامراج افغانستان میں جس بری طرح سے پھنسا ہوا ہے اس کے پیش نظردونوں ممالک کے بہتر تعلقات کو اپنی اسٹریٹجک پالیسی کے تحت استعمال کرنا چاہتا ہے۔
یہ سب کچھ یونہی چلتا رہا تو کیا ہی بات ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ محبت کی پینگیں بڑھانا وقت کی ضرورت ہے لیکن دو طرفہ دشمنی کا مکمل خاتمہ پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سامراجی طاقتوں کے مفادات کے لئے بھی زہر قاتل ہے۔ دنیا کی سب سے منافع بخش صنعت اسلحہ سازی اور بربادی کے جدید آلات کی صنعت ہے۔ معاشی بحران کے موجود حالات میں تو یہ صنعت امریکہ، روس اور کئی یورپی ممالک کی معیشت کا اہم آسرا بن چکی ہے۔معاشی بحران سے نکلنے کے لئے جنگ کا استعمال سرمایہ داری کی پرانی واردات ہے، جنگ کے ذریعے پہلے بربادی پھیلائی جاتی ہے اور جنگی صنعت میں سرمایہ کاری کر کے بھاری منافع کمایا جاتاہے، بعد ازاں ’’تعمیر نو‘‘ کے وسیع ٹھیکوں کے ذریعے مال بنایا جاتا ہے۔ لینن نے اسی لئے کہا تھا کہ ’’جنگ ہولناک ہوتی ہے لیکن ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہے۔‘‘ آج ایٹمی ہتھیاروں کے پیش نظر کھلی جنگ کے امکانات تو معدوم ہیں لیکن ان حالات میں جنگی صورتحال، جنگی جنون اور پراکسی جنگوں کا استعمال کیا جارہا ہے، تاکہ مسلسل عدم استحکام کے تحت اسلحے کی فروخت جاری رکھی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی قوتیں ان دونوں ممالک کے تعلقات کو تناؤ سے بڑھ کر ٹکراؤ کا شکار ہونے دیتے ہیں نہ ہی ’خیر سگالی‘ اور مذاکرات کو اتنا طویل کرتی ہیں کہ دشمنی ختم ہو جائے اور ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کا بیڑا غرق ہو جائے۔ اسی طرح اسلحے کی تجارت میں بھاری کک بیکس اور کمیشن سے ریاستی مشینری بھی فیض یاب ہوتی ہے اور عسکری اشرافیہ کے مالی مفادات مرتب ہوتے ہیں۔ دشمنی اور تناؤ کے بغیر یہ سب ممکن نہیں۔
تجارت، منڈی اور دوستی سے زیادہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کے لئے قوم پرستی کے نظریات اور ’’بیرونی دشمن‘‘ کی موجودگی ضروری ہے جس کے ذریعے داخلی بغاوت کو زائل کیا جاتا ہے۔ بصورت دیگر دونوں ممالک میں طبقاتی تضادات پھٹ کر پورے نظام کو اکھاڑ سکتے ہیں۔این جی اوز اور ’’سول سوسائٹی‘‘ کی محبت اور دوستی کی طرح قوم پرستی، دشمنی اور مذہبی منافرت بھی ایک منافع بخش کاروبارہے۔ ریڈ کلف لائن کے دونوں طرف میڈیا کے کئی ان داتاؤں سے لے کر ملاں، پنڈت اور مذہبی سیاست کرنے والے اسی ’’دشمنی‘‘ پر اپنی دکانیں چمکاتے ہیں۔ کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دوستی اور دشمنی کے وقفوں میں اپنی اپنی باریاں لگا کر مال بنایا جاتا ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں یہی کھلواڑ جاری رہا ہے۔ غربت اور بھوک سے دوچار عوام پر کبھی جنگ اور جنگی جنون مسلط کیا گیا اور کبھی انہیں دوستی اور امن کے فریب دئیے گئے۔
آج یہ حکمران جنگ کر سکتے ہیں نہ دور رس امن قائم کر سکتے ہیں۔ جنگ محکوموں کو تو ہمیشہ ہی برباد کرتی ہے لیکن جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کا ٹکراؤ حکمرانوں کی حکمرانی کے لئے بھی کچھ نہیں چھوڑے گا۔ اس لئے جنگ کی بجائے حالت جنگ کے ادوار لائے جاتے ہیں۔ جب یہ تناؤ دم توڑنے لگتا ہے تو ڈیڑھ ارب انسانوں کو ’’مذاکرات‘‘ اور امن کی بتی پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ دنیا کی آدھی غربت جنوب ایشیا میں پلتی ہے۔ جنگ نہ بھی ہوتو محرومی اور معاشی جارحیت کی آگ یہاں بھڑکتی ہی رہتی ہے۔
عالمی سرمایہ داری کے سامراجی پالیسی ساز آج کل ہندوستان کی معاشی ترقی کے خوب راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہندوستان کی معاشی شرح نمو اگر 7.5 فیصد پر برقرار رہتی ہے تو یہ امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس سلسلے میں دو طرفہ تجارت کے فوائد دونوں ممالک کے حکمرانوں کو گنوائے جا رہے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد برقرار رکھنے کے لئے اس طرح کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ پہلے چین کے قصیدے پڑھے جا تے تھے کہ یہ عالمی سرمایہ داری کو بحران سے نکالے گا۔ جب چین کی معیشت بیٹھنے لگی تو اس کے ساتھ روس اور برازیل وغیرہ کو شامل کر کے BRICS کا نظریہ دیا گیا کہ یہ ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ دنیا کو معاشی بحران سے نکالیں گی، لیکن یہ تمام معیشتیں ’’ابھرنے‘‘ سے پہلے ہی کریش لینڈ کر چکی ہیں یا کر رہی ہیں۔ ہندوستان کی شرح نمو بھی مصنوعی ہے اور جعلی طریقے سے بھی اس سطح پر برقرار نہیں رہ پائے گی۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی رینگ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں ’’میگا پراجیکٹس‘‘ کا پول بھی کھل جائے گا۔ ایسے میں جب دونوں ممالک میں بے چینی بڑھے گی اور محنت کش عوام متحرک ہوں گے تو انہی حکمرانوں کی اکثریت اپنی ساری حمایت نفرت کے بیوپاریوں کے پلڑے میں رکھ دے گی۔ میڈیا اینکرز، مذہب کے ٹھیکیدار اور سیاستدان منہ سے جھاگ نکالیں گے اور جنگی جنون عوام پر مسلط کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ سات دہائیوں میں برصغیر کے حکمران طبقات یہاں کے عوام کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے، زراعت سے لے کر صنعت تک جدید قومی ریاست کی تشکیل کا ایک فریضہ بھی ادا نہیں کر سکتے تو امن کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں؟بٹوارے کے زخم آج تک رِس رہے ہیں۔یہ حکمران اپنی تجوریاں بھرتے چلے جار رہے ہیں اور مذہبی و قومی تعصبات کا زہر سماج میں گھول کر ڈیڑھ ارب انسانوں کو بھوک، افلاس اور بیروزگاری میں غرق کئے ہوئے ہیں۔ جن طبقات کا جنم دشمنی اور مذہبی حقارت پر مبنی ہو وہ امن کے پیامبر بھلا کیسے بن سکتے ہیں؟ لیکن دوستی دشمنی کا یہ گھن چکر عوام کو صدا مجروح نہیں رکھ سکتا۔ انقلابات سرحدوں کا احترام نہیں کیا کرتے۔جب محنت کش اور نوجوان بغاوت پر اتریں گے تو سامراج کی کھینچی ہر لکیر کو مٹا ڈالیں گے۔ اس نظام کے ساتھ ہر تعصب اور دشمنی کی بنیاد بھی ختم ہو جائے گی۔ محنت کشوں کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور جیتنے کو سارا جہاں پڑا ہے۔
متعلقہ: