غربت کی وجہ: آبادی میں اضافہ یا سرمایہ داری؟

تحریر: عمران کامیانہ

کسی بھی طبقاتی سماج میں حکمران طبقات صرف ریاستی طاقت کے ذریعے سے برسرِ اقتدار نہیں رہتے۔ درحقیقت ریاستی طاقت کا اندھا اور جارحانہ استعمال صرف غیر معمولی اور انقلابی حالات ہی میں محکوم طبقات کی بغاوت کو کچلنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ عام حالات میں ذرائع پیداوار وسماجی دولت پر قابض رہنے اور محنت کش طبقے کو قید رکھنے کے لئے جو زنجیریں استعمال کی جاتی ہیں وہ مادی نہیں بلکہ نفسیاتی ہوتی ہیں۔ مارکس نے آج سے ڈیڑھ صدی قبل اس طرف بڑے خوبصورت الفاظ میں توجہ مبذول کرواتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’حکمران طبقات کے نظریات کسی بھی عہد میں سماج پر حاوی نظریات ہوتے ہیں، یعنی وہ طبقہ جو سماج کی مادی قوت پر حکمرانی کر رہا ہوتا ہے وہ عین اسی وقت شعوری قوت پر بھی حکمرانی کرتا ہے‘‘ (جرمن آئیڈیالوجی، 1845)۔ تعلیمی نصاب، میڈیا اور زر خرید دانشوروں کے ذریعے سے سماج پر رائج الوقت نظام کے لئے موافق فلسفہ اور سوچ مسلط رکھی جاتی ہے، مسائل کی اصل وجوہات کو چھپانے کے لئے بڑی مکاری سے من گھڑت جواز اور بیہودہ دلائل دئے جاتے ہیں، عمومی سماجی شعور کو اس حد تک پست کر دیا جاتا کہ عوام کو کسی قسم کی تبدیلی اور بہتری خارج از امکان اور ناممکن دکھائی دیتی ہے، نتیجتاً وہ ان مقاصد کیلئے کسی قسم کی جدوجہدکو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔
موجودہ عہد میں آپ درمیانے طبقے کے کسی آزاد خیال ’’دانشور‘‘ سے افریقہ یا تیسری دنیا میں غربت و افلاس کی وجوہات دریافت کریں گے تو وہ یا تو سارا الزام ان ممالک کے عوام کی جہالت کے زیرِ اثر آبادی کے ’’حد‘‘ سے بڑھ جانے پر ڈال دے گا یا پھر غربت اور معاشی بدحالی کی وجوہات میں زیادہ آبادی (Over Population) کو لازمی طور پر شامل کرے گا۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جب معاشیات کے نصاب میں ذاتی ملکیت اور معاشی اونچ نیچ کا جواز ہی اس مفروضے سے پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کی تعداد، قدرتی وسائل کی نسبت ہمیشہ زیادہ رہی ہے لہٰذا تمام انسانوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنا نا ممکن ہے اور معاشرے میں محرومی نا گزیر ہے۔ یہ مفروضہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ابتدائی بورژوا دانشوربھی اسی قسم کا واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ آج مارکسزم اور سوشلزم کے ’’پرانا‘‘ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ آزاد خیال دانشور دراصل کوئی نئی بات نہیں کر رہے بلکہ سرمایہ داری کے سب سے بیہودہ مفکر مالتھیس کی ڈھائی سو سالہ پرانی تھیوری کو ہی دہرا رہے ہیں۔ مالتھیس نے اپنی تحریر ’’آبادی کے اصولوں پر ایک مضمون‘‘ میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ’’آبادی کو موجودہ سطح پر رکھنے کے لئے بچوں کی جتنی تعداد درکار ہے اس کے علاوہ تمام بچوں کو ختم ہو جانا چاہیے۔ ۔ ۔ (اس مقصد کے لئے) ہمیں تباہی کے تمام طریقوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ غریبوں کے لئے صفائی کی بجائے گندگی کو پروان چڑھانا چاہیے، اپنی آبادیوں میں ہمیں گلیاں تنگ بنانی چاہئیں، کم سے کم گھروں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رکھنا چاہیے اور وبائی امراض کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ۔ ۔‘‘ آگے چل کر وہ مزید لکھتا ہے ’’لیکن سب سے بڑھ کر ہمیں موت پھیلانے والی بیماریوں کے علاج کے لئے بنائی جانی والی ادویات کے ساتھ ساتھ ان خیر اندیش لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو ایسی غلطی سے ایسی بیماریوں کے علاج کو انسانیت کی خدمت سمجھتے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ مالتھیس کی تمام تر ’’تعلیمات‘‘ کا نچوڑ ہیں جس کاتعارف آج بھی سماجی علوم کے نصاب میں ’’دانشور‘‘ اور ’’فلسفی‘‘ کے طور پر کروایا جاتا ہے۔ سوشل ڈارون ازم سرمایہ داری کے خمیر میں شامل ہے جس کا اظہار ماضی میں بحران کے ادوار میں فاشزم کی شکل میں ہوتا آیا ہے اور آج بھی اس نظام کی اصلیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مالتھیس کا یہ نظریہ بعد کے ادوار، خاص طور پر بیسویں صدی میں بھی مختلف اشکال میں پیش ہوتا رہا ہے، مثلاًسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پال اہرلیک نے 1968ء میں اپنی مشہور تصنیف ’’آبادی کا بم‘‘ (The Population Bomb) میں اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی آبادی حد سے تجاوز کر چکی ہے اور 1970ء کے بعد اربوں ’’زائد‘‘ افراد کا بھوک اور بیماری سے مر جانا ناگزیراور ’’ضروری‘‘ہے اور انسانیت کے پاس واحد راستہ آبادی میں نمو کی شرح کو صفر سے نیچے لے جاتے ہوئے آبادی کو ’کنٹرول‘ میں لانا ہے۔ یہ الگ بات ہے موصوف کے اس عظیم انکشاف کے بعد سے دنیا کی آبادی دوگنا ہو چکی ہے اور غربت میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجوہات اور شدت وہ نہیں ہیں جو پروفیسر اہرلیک نے بیان کی تھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں جدید ادویات، خاص طور پر پنسلین اور اینٹی بائیوٹک ادویات کی ایجاد سے دنیا کی آبادی بہت تیزی سے (Exponentially) بڑھی ہے۔ 1960ء کے بعد سے دنیا کی آبادی دوگنا سے بھی بڑھ چکی ہے اور اس ہوشربا اضافے کی بنیادی وجہ بیماریوں پر قابو، بچوں کی شرح اموات میں کمی اور اوسط انسانی عمر میں اضافہ ہے۔ اکتوبر 2011ء کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی آبادی سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے، جو کہ 2025ء میں آٹھ ارب اور 2045ء میں نو ارب سے تجاوز کر جائے گی اور اس وقت دنیا کی آبادی میں اضافے کی شرح سالانہ 1.10 فیصد ہے۔ لیکن کیا واقعی دنیا کی آبادی ’’حد‘‘ سے تجاوز کر چکی ہے اور وسائل حتمی طور پر کم پڑ چکے ہیں؟آئیے نتائج اخذ کرنے کے لئے کچھ اعدادو شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔

کثافتِ آبادی (Population Density)
کسی بھی ملک میں آبادی کی کثافت کو ماپنے کے لئے Population Density کا اعشاریہ استعمال ہوتا ہے جو کہ ملک کی کل آبادی کو کل رقبے کے ساتھ تقسیم کر کے نکالا جاتا ہے۔ اگر آبادی کا غربت کے ساتھ کوئی براہِ راست تعلق ہے تو آبادی کے لحاظ سے زیادہ کثیف ممالک میں غربت بھی زیادہ ہونی چاہئے لیکن اعدادو شمار اس مفروضے کی نفی کرتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے کثیف ترین نو ممالک میں سے صرف دو کا تعلق (بنگلہ دیش اور روانڈا) تیسری دنیا سے ہے۔ باقی ممالک میں ہانگ کانگ، سنگا پور، ہالینڈ اور بحرین جیسے ترقی یافتہ یا نسبتاً ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ ہالینڈ کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ Human Development Index رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے جبکہ روانڈا اس لحاظ سے دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہے، جبکہ ان دونوں ممالک میں آبادی کی کثافت تقریباًبرابر ہے (ہالینڈ میں 404 افراد فی مربع کلو میٹر جبکہ روانڈا میں 407افرادفی مربع کلومیٹر)۔ لہٰذا یہ مفروضہ سرے سے غلط اور بے بنیاد ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں سماجی و معاشی مسائل کی تمام تر وجہ زیادہ آبادی ہے، بلکہ بعض صورتوں میں تو اس کا الٹ درست ہے۔

غذائی ضروریات اور زراعت
آئیے اب بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا دنیا کے تمام افراد کی غذائی ضروریات کو مناسب طور پر پورا کرنا ممکن ہے؟ لیکن اس سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ زراعت میں تکنیکی ترقی کی وجہ سے زرعی پیداواریت میں ہونے والا اضافہ آبادی کی شرح نمو سے کہیں بڑھ کر ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں چونکہ پیداوار کا مقصد منافع اور شرح منافع ہے لہٰذا زرعی پیدواریت میں ہونے والا یہ اضافہ آبادی کے وسیع تر حصے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی بجائے شرح منافع کو بلند کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے کی نسبت آج دنیا میں کئی سو ملین ٹن زیادہ اناج پیدا ہو رہا ہے جبکہ زرعی رقبے میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہے، 1960ء سے 2010ء کے درمیان دنیا کے زرعی رقبے میں صرف 12فیصد اضافے کے ساتھ زرعی پیداوار میں 150سے 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی محکمہ زراعت کے مطابق 1976ء میں 579 ہیکٹر (ایک ہیکٹر میں 2.47 ایکڑ ہوتے ہیں) زمین سے 1.9ملین میٹرک ٹن اناج اگایا جا رہا تھاجبکہ 2004ء میں 3.1 ملین میٹرک ٹن اناج صرف 517.9 ہیکٹر زمین سے اگایا جارہا تھا۔ اسی طرح 1800ء میں امریکی آبادی کا تقریباً 90 فیصد حصہ زراعت سے وابستہ تھا جبکہ موجودہ عہد میں 2فیصد سے بھی کم امریکی زراعت سے وابستہ ہیں جبکہ اسی عرصے میں زرعی پیداواریت اور پیداوار میں ہوشربا اضافہ ہوا، صرف 1930ء سے 1990ء امریکی زراعت کی پیداواریت میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا اور اس وقت امریکہ اپنی کل زرعی پیداوار کا پچاس فیصد سے زائد برآمد کر رہا ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق 1950ء کی نسبت 2000ء میں ایک امریکی کسان کی فی گھنٹہ پیداواریت 12 گنا زیادہ تھی۔ موجودہ عہد میں نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عالمی منڈی میں اناج کی قیمتوں کو منافع بخش سطح پر رکھنے کے لئے امریکی حکومت کسانوں کو کاشتکاری نہ کرنے کے پیسے دیتی ہے۔ ایسا عام طور پر زمین کو ’’آرام‘‘ دینے اور ’’جنگلی حیات کے تحفظ‘‘ کے لئے جنگلات اور گھاس اگانے کے نام پر کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر زرعی پیداواری صلاحیت میں آبادی کی نسبت اضافے کے باوجود عالمی سطح پر بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تنظیم ’’Food & Agriculture Organization‘‘ کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق 1970ء کی نسبت 2009-10ء میں 300 ملین زیادہ افراد غذائی قلت کا شکار تھے۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد شدید غذائی قلت یا بھوک اور دو ارب افراد خون کی قلت کا شکار ہیں جبکہ ہر سال اتنی غذا پیدا ہوتی ہے جو دنیا کے ہر انسان کو موٹا کر دینے کے لئے کافی ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں آبادی میں 70فیصد اضافے کے باوجود عالمی سطح پر فی فرد 17حراروں (Calories) کے برابر زائد خوراک پیدا ہوتی ہے۔ FAO کی جانب سے 2009ء میں لگائے جانے والے اندازے کے مطابق زرعی پیداوار کی موجودہ سطح پر دنیا کے ہر انسان کو 2720 کیلوریزبا آسانی فراہم کی جاسکتی ہیں جبکہ ایک بالغ کے لئے تجویز کردہ روزانہ کیلوریز تقریباً 2100 ہیں۔ غذائی قلت پر کام کرنے والی ایک اور تنظیم’’Food First‘‘ کے مطابق موجودہ عالمی زرعی پیداوار سے دنیا کے ہر فرد کو 3200 کیلوریز کے علاوہ وافر مقدار میں پھل، سبزیاں، گوشت اور ڈرائی فروٹ فراہم کیا جاسکتا ہے، اسی تنظیم کے ایک اور اندازے کے مطابق ہر انسان کو 4.3 پاؤنڈ خوراک جس میں ڈھائی پاؤنڈ اناج، ایک پاؤنڈ گوشت، دودھ اور انڈے اور ایک پاؤنڈ سبزیاں اور فروٹ شامل ہے با آسانی فراہم کی جاسکتی ہے۔ ادارے کے مطابق یہ اتنی خوراک ہے جس سے غذائی قلت کا محض خاتمہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے زیادہ تر افراد صحت مند اور توانا ہوسکتے ہیں۔ ’’Food First‘‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایرک ہولٹ کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی 2045ء تک 10 ارب تک پہنچے گی جس کے بارے میں کئی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے، لیکن درحقیقت ہم پہلے ہی 10 ارب انسانوں کی ضروریات جتنا غلہ اور اناج اگا رہے ہیں۔ ایرک گولڈ کے مطابق ’’دنیا میں موجود تمام افراد کی ضروریات سے ڈیڑھ گنا زیادہ غذا پہلے ہی پیدا کی جارہی جس سے 10 ارب افراد کی غذائی ضروریات با آسانی پوری کی جاسکتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر افراد کے پاس خوراک خریدنے کے پیسے نہیں ہیں‘‘۔
مستقبل میں اگر دنیا کی آبادی مزید بڑھتی ہے تو بھی ممکنات اور زرعی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دنیا میں قابلِ کاشت زمین کا بیشتر حصہ بے کار پڑا ہے جسے یہ نظام زیرِ استعمال لانے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ میں موجود ’’گنی سواناہ زون‘‘ کا 400 ملین ہیکٹر رقبہ کاشت کاری کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ FAO کے مطابق اس رقبے کا صرف 10 فیصد فی الحال زیرِ کاشت ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اس رقبہ پر جدید طریقوں سے زراعت کو پروان چڑھایا جاتا ہے تو نہ صرف افریقہ بلکہ پوری دنیا کی غذائی ضروریات یہاں سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ ہاروڈ یونیورسٹی میں آبادی پر تحقیق کرنے والے ادارے (Center for Population Studies) کے بانی راجر راویل کے 1990ء میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق صرف افریقہ سے 10ارب لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں یا دوسرے الفاظ میں افریقہ کی آبادی ( 1990ء کی آبادی ) اگر بارہ گنا بھی ہو جائے تو اس کی غذائی ضروریات مکمل طور پر پوری ہو سکتی ہیں۔ کاشت کاری کے موجودہ طریقہ کار کے علاوہ دنیا میں ایسے جدیدطریقہ کار بھی موجود ہیں جن کو بروئے کار لا کر کم وقت، کم جگہ اور کم وسائل کے ساتھ زیادہ غذا حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی ہی ایک ٹیکنالوجی ہائیڈرو پونکس (Hydroponics) ہے، جس میں مٹی کی بجائے ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور پانی کے محلول میں پودے اگائے جاتے ہیں۔ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایکڑ سے ایک دن میں تقریباً 135000 کیلوریز حاصل کی جاسکتی ہیں جو کہ 70 افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کر نے کے لئے کافی ہیں۔ اس طریقہ کار سے 10ارب لوگوں کی غذائی ضروریات کرہ ارض کے صرف 0.4 فیصد خشک رقبے سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اگر سرمائے کے لحاظ سے بات کی جائے تو FAO کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال صرف 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دنیا میں سے بھوک کا مکمل خاتمہ ممکن ہے، جبکہ اس سے 83 گنا زیادہ رقم ہر سال اسلحے اور جنگوں پر خرچ ہوتی ہے۔
وسائل اور اجناس کا ضیاع سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی نتیجہ ہے جس کا تدارک اس نظام کے زیرِ اثر ممکن نہیں ہے۔ اکثر صورتوں میں اجناس کا ضائع ہونا منافع بخش ہوتا ہے لہٰذا اس عمل کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے والی خوراک کا بہت بڑا حصہ ضائع کر دیاجاتا ہے جبکہ دوسری طرف کروڑوں لوگ غذائی قلت کا شکار رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 2011ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پیدا ہونے والی کل خوراک کا ایک تہائی حصہ (ایک ارب ٹن خوراک) ہر سال ضائع ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امیر ممالک میں اتنی خوراک ہر سال ضائع ہوتی ہے جتنی افریقی سب سہارا کے ممالک میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے ایک ادارے انسٹیٹیوٹ آف مکینیکل انجینئرنگ کی 2013ء میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پیدا ہونے والی غذائی اشیاء کا نصف حصہ ضائع ہوجاتاہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال چار ارب ٹن غذائی اشیا پیدا کی جاتی ہیں جس میں سے 2ارب ٹن تک ضائع ہوجاتی ہیں اور اس ضائع ہونے والی خوراک کی تیاری میں پانچ سو پچاس ارب کیوبک میٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ خوراک کی ضیاع کی وجوہات جو بھی ہوں یہ بات یقینی ہے کہ منڈی کی انارکی کے زیرِ اثر ان سے چھٹکارہ پانا ناممکن ہے۔ صرف ایک منافع کی غلا ظت سے پاک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں انسانی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کی جانے والی منصوبہ بندی کے ذریعے سے ہی نہ صرف زمینی وسائل کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے بلکہ کرہ ارض کے ہر باسی کی غذائی ضروریات احسن طریقے سے پوری کی جاسکتی ہیں۔

رہائش
آزاد منڈی کی معیشت کسی قسم کی منصوبہ بندی سے عاری ہوتی ہے۔ اس ’’معاشی آزادی‘‘ کی وحشت کا اندازہ موجودہ عہد میں شہروں کی حالت پر ایک نظر ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ شہر انسان کو کسی قسم کی سہولت اور راحت دینے سے قاصر ہیں۔ بے ترتیب سڑکیں، بدنما عمارتیں، شور، دھواں، ناقابلِ برداشت گنجانی اور افراتفری جدید سرمایہ داری کا تحفہ ہیں۔ یہ آبادیاں کبھی انسان کی ضروریات کے مدنظر تعمیر ہی نہیں ہوئی تھیں بلکہ منڈی کی معیشت کی انارکی کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہیں۔ اس وقت دنیا کا ہر بڑا شہر انسانوں کے پولٹری فارم کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں زمین کا ایک ٹکڑا خریدنے کے لئے کئی نسلوں کی آمدن بھی شاید کم پڑجائے۔ ان حالات میں لاشعوری طور پر یہ سوچ تقویت پکڑنے لگتی ہے کہ دنیا میں زمین کم پڑ چکی ہے۔ تاہم یہ حقیقت بہت حیرت انگیز ہے کہ دنیا کی تمام 7ارب آبادی امریکی ریاست ٹیکساس میں باآسانی سما سکتی ہے۔ ٹیکساس کا کل رقبہ 268,820 مربع میل ہے اور اس صورت میں دنیا کے ہر فرد کو رہائش کے کیلئے 1000مربع فٹ جگہ دستیاب ہوگی۔ یہ اتنی جگہ ہے جس کا خواب یورپ کی فلاحی ریاستوں میں بھی لوگ نہیں دیکھ سکتے، ڈنمارک میں یہ اعشاریہ 570 مربع فٹ فی شہری ہے۔

وینس پراجیکٹ نامی ادارے کی طرف سے تیار کردہ مستقبل کی رہائشی کالونیوں کا تصوراتی خاکہ

 

ایک منصوبہ بند معیشت میں ایسے خود کار (Autonomous) شہر بسائے جاسکتے ہیں جہاں انسان کی تمام تر بنیادی ضروریات مقامی طور پر پیدا اور استعمال کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پرایک ماڈل کے مطابق 60 مربع کلومیڑ کا رقبہ رکھنے والے دائروی (Circular) شہر کے 45 فیصد حصے (27مربع کلومیٹر) میں دس لاکھ لوگ با سہولت رہ سکتے ہیں (12,012افراد خاندانوں کی شکل میں گھروں میں جبکہ 999,000 انفرادی فلیٹس میں)۔ باقی کا 55 فیصد رقبہ توانائی، پانی اور خوراک کی پیداوارکے ساتھ ساتھ تعلیم، علاج، ریسرچ اور تفریح کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ منصوبہ بندی سے بسائے گئے ایسے صرف 10000 شہر 10 ارب لوگوں کو رہائش کے ساتھ ساتھ دوسری تمام تر ضروری سہولیات فراہم کر سکتے ہیں اور اس صورت میں بھی کرہ عرض کے خشک رقبے کا 0.4 فیصد حصہ درکار ہوگا۔

توانائی
سرمایہ داری کے زیرِ اثر توانائی کا بحران روز بروز شدت پکڑتا جارہا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں خاص طور پر توانائی کا بحران خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ لیکن توانائی کے بحران کا مطلب کسی طور پر بھی یہ نہیں ہے کہ دنیا میں توانائی پیدا کرنے کے ممکنات محدود ہیں بلکہ یہاں پر بھی منافع اور پیسے کی ہوس انسانیت کی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ معدنی وسائل پر قابض ملٹی نیشنل کمپنیاں توانائی کے ایسے کسے ماخذ کے
راستے میں رکاوٹ ہیں جو ان کے شرح منافع میں کمی کا باعث بنے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اس وقت دنیا میں 1.3 ارب افراد بجلی کی سہولت سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ تاہم توانائی کی پیداوار کے موجودہ طریقے اور تکنیکی صلاحیت سے بھی تمام دنیا کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ عالمی ادارہ توانائی (IEA) کی 2011ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر سالانہ صرف 48 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے دنیا میں سے توانائی کی قلت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں دنیا کے کروڑوں لوگوں کی زندگی سہل ہو گی اور سالانہ 15 لاکھ وقت سے پہلے واقع ہونے والی اموات کا تدارک ہو سکے گا۔
اگر جدید ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو دنیا میں اس وقت فوسل ایندھن (تیل، گیس، کوئلہ وغیرہ) جلانے کی ضرورت سرے سے نہیں ہے (لاطینی امریکہ کا چھوٹا سا ملک Costa Rica اس کی ایک مثال ہے جہاں 2021ء تک فوسل فیول کا استعمال صفر ہو جائے گا)۔ سورج دوپہر کے صرف ایک گھنٹے میں زمین پر سال بھر کی ضروریات سے زائد توانائی پھینکتا ہے۔ مثا ل کے طور پر صرف امریکی ریاست واشنگٹن کے رقبے کے برابرکے شمسی سیل پوری دنیا کی توانائی کی تمام تر ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ ہوا کی توانائی، ایٹمی توانائی، جیو تھرمل توانائی، سمندری لہروں کی توانائی سمیت دوسرے بہت سے ممکنات اس کے علاوہ ہیں۔ Microcontinuum شمسی توانائی سے ملتی جلتی ایک اور ٹیکنالوجی ہے جس پر ابھی کام ہو رہا ہے اور جس کے ذریعے سے انفراریڈ شعاعوں کو استعمال کرتے ہوئے رات کے وقت بھی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

آبادی، افرادی قوت اور بیروزگاری
سرمایہ داری کے اندرونی تضادات کے زیرِ اثر معاشرے کی آبادی کے بڑے حصے کا افرادی قوت اور معاشی چکر سے باہر چلے جانا نا گزیر ہے۔ شرح منافع میں اضافے کے لئے افرادی قوت کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی وجہ بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، منڈی سکڑتی ہے اور طلب میں کمی واقع ہوتی ہے۔ طلب میں کمی کے پیش نظر رسد میں کمی ناگزیر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے پیداواری قوتیں سکڑتی ہیں، کارخانے اور فیکٹریاں بند ہوتی ہیں، نتیجتاً بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے سرمایہ دارانہ نظام کبھی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ بورژوا دانشور ’’حد‘‘ سے زیادہ آبادی کا ڈھنڈورا اسی لئے پیٹتے نظر آتے ہیں کہ ان کی سامنے سماج کی موجودہ شکل حتمی ہے، ایک سماج جس میںآبادی کا بڑا حصہ پیداواری عمل سے خارج ہے اور انسانی ترقی کے لئے کسی قسم کا تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصرہے، جسے دائیں بازو کے یہ حضرات بڑی ڈھٹائی سے معیشت پر ’’بوجھ‘‘ تصور کرتے ہیں۔
موجودہ عہد میں بالغ آبادی کا وہ حصہ جو پیداواری عمل سے لاتعلق ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے بیروزگاری کے اعشاریوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ دنیا بھر کی ریاستیں اپنی سہولت کے مطابق بیروزگاری کی تعریف کو توڑ مروڑ کر مرضی کے نتائج حاصل کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ایک اعشاریے Employment to Population Ratio کا استعمال کر کے زمینی حقائق کا درست اندازہ کیا جاسکتاہے، جو کہ باروزگار آبادی کا کل بالغ آبادی کے ساتھ تناسب ہے۔ اس سلسلے میں ورلڈ بنک کے جاری کردہ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی کل بالغ آبادی کا کم از کم نصف حصہ پیداواری عمل سے مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ مثلاً امریکہ، جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک کے لئے یہ اعشاریہ بالترتیب 58، 57 اور 55 فیصد ہے، جس میں 2008ء کے معاشی بحران کے بعد سے مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ آبادی کے اس وسیع تر حصے کو معاشی و پیداواری سائیکل کا حصہ بنانے کی راہ میں صرف سرمایہ دارانہ نظام بذاتِ خود حائل ہے۔ باقی کی جو آبادی پیداواری عمل میں شریک ہے وہ بھی یقیناًاس نظام کے زیرِ اثر اپنی توانائی اور صلاحیتیں انسانیت کی بہتری کے لئے موثر طور پر بروئے کار لانے سے قاصر ہے۔ صرف ایک عالمی منصوبہ بند معیشت کے ذریعے سے دنیا کے تمام تر انسانوں کی صلاحیتوں اور افرادی قوت کو منافع کی بجائے انسانیت کی فلاح اور ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں دنیا کی پیداوار (GDP) میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ کام کے اوقات کار میں کمی بھی ممکن ہو گی۔ ایک ایسا سماج جو ہر انسان کو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں شامل ہونے کا موقع دے گا وہاں آبادی میں اضافہ کبھی بھی مسائل کا باعث نہیں ہو سکتا۔

کیا دنیا کی آبادی لا متناہی طور پر بڑھ سکتی ہے؟
آبادیات کے ماہرین کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے بعض اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی 2040ء تک 9ارب تک پہنچ جائے گی جس کے بعد آبادی میں کمی متوقع ہے۔ دنیا کی آبادی میں زیادہ سے زیادہ شرح نمو 1963ء میں 2.2 فیصد دیکھی گئی جو کہ اب کم ہو کر 1.1فیصد ہو چکی ہے۔ 2012ء میں لگائے گئے ایک اور اندازے کے مطابق 2030ء تک دنیا کی آبادی 8.5 ارب تک پہنچنے کے بعد کم ہونا شروع ہو جائی گی۔ آبادی میں کمی کا یہ رجحان شہری آبادی میں اضافے (Urbanization) کی وجہ سے ہے۔ شہروں میں آبادی کی شرح نمو دیہات کی نسبت کم ہوتی ہے۔ دیہات اور قصبات میں آبادی کے بڑھنے سے لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے آبادی کی شرح نمو میں کمی واقع ہوتی ہے۔

نتیجہ
دنیا کی آبادی کو شعوری طور پر کنٹرل کرنا درست ہے یا غلط اس بات کا فیصلہ ہم اخلاقیات کے ٹھیکیداروں پر چھوڑتے ہیں، تاہم مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں سماجی و معاشی مسائل آبادی میں اضافے کی وجہ سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور تکنیک کو انسانی فلاح کے لئے استعمال کرنے کی نا اہلی کی وجہ سے ہیں۔ پروفیسر جیکولائن کاسن نے 1988ء میں شائع ہونے والی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’آبادی کے خلاف جنگ‘‘ (The War against Population) میں ثابت کیا تھا کہ دنیا کی آبادی اگر 8 سے 22 گنا تک بھی بڑھ جائے تو موجودہ ٹیکنالوجی (1988ء) کے زیرِ اثر ہی اس کی تمام تر ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ سرمایہ داری کی پیدا کردہ ٹیکنالوجی میں ممکن ہے تو ایک سوشلسٹ سماج میں نفع اور ذاتی ملکیت کی بندشیں ہٹنے کے بعد ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کا اندازہ کرنا بجا طور پر محال ہے۔ ایسا سوشلسٹ سماج ہی صحیح معنوں میں انسانی سماج کہلوانے کا حقدار ہو گا جہاں انسان بھوک، افلاس، غربت اور بے روزگاری کے الفاظ سے بھی شاید نا آشنا ہو جائے اور کسی پیدا ہونے والے بچے کو زائد تصور نہیں کیا جائے۔