مدد چاہتی ہے حوا کی بیٹی

[تحریر: لال خان]
پچھلے ہفتے مظفرگڑھ میں ایک فرسٹ ائیر کی طالبہ کا اسکے بھائی کے سامنے بلادکار کرنے کا واقعہ اس معاشرے کے بالادست طبقات کی سفاکیت کا غماز ہے۔ متاثرہ بچی کے ساتھ پولیس کا ہتک آمیز رویہ اور مجرموں کی مکمل پشت پناہی پتا دیتی ہے کہ اس ریاست کے اداروں کا حقیقی کردار کیا ہے اور وہ کس طبقے کے مفادات کے لئے بنائے گئے ہیں۔ محنت کش عوام کا تحفظ نہیں بلکہ ان پر جبرو تشدد ہی اس سرمایہ دارانہ ریاست کا اصل کردار ہے۔ متاثرہ بچی نے اس غیر انسانی معاشرے میں زندہ رہنے سے انکار کرتے ہوئے خود کو سر عام آگ لگائی ہے۔ اس کا جلتا ہوا جسم اس ریاست کے نام نہاد ’’قانون وانصاف‘‘ کے خلاف احتجاج کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ اس نظام کو مسترد کرنے کی فلک شگاف پکار ہے جس نے آبادی کی بھاری اکثریت کی زندگیوں کو نہ ختم ہونے والی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ اس نظام کا قانون غریب کی جان سے زیادہ امیر کے مال کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ مال انصاف بھی خریدسکتا ہے اور طاقت بھی۔ قانون سرمائے کی لونڈی ہے اور پولیس سرمایہ دار کی جیب میں ہے۔ بلاد کار کرنے والے درندے کتنی آسانی سے اپنے مال کے زور سے بچ نکلے اور ایک مظلوم محنت کش بچی قانون کے رکھوالوں کے سامنے دہائیاں دیتی رہ گئی۔
یہ تو بنت حوا کی حقارت اور ذلت کا محض ایک واقعہ ہے۔ اس چادر اور چار دیواری کی مقدس بندشوں میں سسکتی ہوئی خواتین تو ہر روز، ہر گھڑی اپنے عورت ہونے کی سزا پاتی ہیں۔ گھر اور خاندان کے جبر سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں تو باہر گلی اور بازار میں چیرتی ہوئی غلیظ مردانہ نظروں سے گھائل ہوتی ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں نہ صرف ان کی اجرت قلیل کردی جاتی ہے بلکہ یہاں بھی انہیں فورمینوں سے لیکر منیجروں اور مالکان کی جنسی ہوس کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ مردانہ شاونزم کی سوچ سے زہر آلود سرمایہ دارانہ معاشرہ ہے جہاں جنسی استحصال کے زخموں پر غربت نمک پاشی کرتی ہے۔ گھریلو ملازماؤں کی زندگی اس دوہرے استحصال کی درد ناک علامت ہے جنہیں ایک طرف بالادست طبقات کے مرد ہر وقت شکار بنانے کے درپے رہتے ہیں تو دوسری طرف مالک خواتین حقارت اور غیر انسانی مشقت سے دوچار کرتی ہیں۔ پھر اس نظامِ زر کی لبرل اشرافیہ ہے جس کی نظر میں عورت کی زندگی، نزاکت اور خوبصورتی کا مقصد اجناس کی تشہر سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بے ہودگی اور عریانی کو ’’ماڈرن ازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ’’ماڈرن ازم‘‘ کے متضاد ملائیت اور قدامت پر ستانہ سوچ ہے۔ یہ ملا عورت کو اس طرح قید و بند کر دینا چاہتے ہیں جیسے کوئی چور اپنا لوٹا ہوا مال چھپاتاہے۔ عورت کو نجی ملکیت قرار دے کر قدامت پرستی کے برقعوں اور پردوں میں چھپا دیا جاتا ہے۔ قدامت پرستوں کا عورت کے لئے نام نہاد ’’عزت و احترام‘‘ دراصل اسے مسلسل مرد کی جنسی غلامی میں رکھنے کی واردات ہے۔
پچھلی ایک دو دہائیوں کے دوران خواتین میں برقعہ پہننے اور چہرہ ڈھانپنے کا رجحان بڑ ھ گیا ہے۔ اسکی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو بہت سارے مرد حضرات ’’اپنی‘‘ ان خواتین کو معاشرے میں بڑھتے ہوئے بحران اور بدکرداری کی وجہ سے برقع پہننے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی ’’باغیرت‘‘ حضرات ’’دوسری‘‘ خواتین کو کھلے لباسوں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ دوسری وجہ معاشرے کا معاشی، سماجی اور ثقافتی بحران ہے جو عدمِ تحفظ کے احساس کو مسلسل بڑھاتا جارہا ہے۔ لیکن قدامت پرستوں کے بیہودہ دلائل کے برعکس ’’پردے‘‘ کا یہ رجحان خواتین کو مضبوط کرنے کی بجائے ذہنی، نفسیاتی اور سماجی طور پر کمزور کررہا ہے۔ یہ’’شرافت‘‘ کی دلیل نہیں بلکہ ان کی بے بسی اور لاچارگی کی علامت ہے۔ قدامت پرستی کے بڑھ جانے اور ’’ پردے‘‘ کے فروغ سے خواتین کی عزتیں محفوظ ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔ گینگ ریپ آج جس شدت سے ہورہے ہیں اتنے تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے تھے۔ عورت کو دبانے اور چھپانے سے اسکی زندگی خوشحال ہوتی ہے نہ ہی وہ جنسی جبر سے بچ سکتی ہے۔
دیہی علاقوں میں دہقان خواتین ’’پردہ‘‘ نہیں کر سکتیں۔ سخت موسم میں گندم کی کٹائی، کپاس کی چنائی اور فصل کی بوائی جیسی اذیت ناک مشقت برقعہ پہن کر نہیں کی جاسکتی۔ شب و روز مسلسل جسمانی مشقت کرنے والی یہ خواتین ’’اخلاقیات‘‘ کے ٹھیکے داروں کے فرسودہ معیاروں پر پورا اتر ہی نہیں سکتیں۔ یہی کیفیت فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین کی ہے۔ لیکن یہاں درمیانے طبقے کے تمام رجعتی معیاروں کو محنت کش طبقات پر بھی ٹھونس دیا گیا ہے۔
مذہبی بنیاد پرستی اور قدامت پرستی جتنی حاوی ہوگی انسانوں کی نجی زندگیوں میں شرمناک مداخلت کرنے والے فتوے بھی اسی تناسب سے آئیں گے۔ عام انسانوں اور خواتین کی زندگیاں بھی اتنی ہی تلخ ہوتی جائیں گی۔ کردار کی پاکیزگی لباس کی محتاج نہیں ہوتی۔ ہر سماج کا حکمران طبقہ اور قدامت پرست نفسیات اس معاشرے کی محرومی اور محکومی کے حوالے سے ’’شرافت ‘‘ کے معیار مرتب کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کا سماج معاشی اور معاشرتی طور پر ایک جمود کا شکار ہے اس لیے معاشرے کی مختلف پرتیں اور خطے تاریخ کے مختلف مراحل اور ادوار میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ معاشرے پر قدامت پرستی کی چھاپ اسی جمود کی وجہ سے ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح پورا معاشرہ بدبودار ہوہورہا ہے۔ اس سماجی ڈھانچے کی معاشی اور اقتصادی بنیادیں جس نظام پر قائم ہیں وہ تاریخی متروکیت کی وجہ سے اس سماج کو ترقی کی بجائے ہر لحاظ سے تنزلی سے ہی دوچار کررہا ہے۔ معاشی و سماجی زوال اخلاقی اورثقافتی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ معاشرے کی اخلاقیات اور اقدار کی منافقت بڑھتی جارہی ہے اور انسان کے کردار سمیت ہر سماجی قدر کی تعریف بھی دوہرے معیاروں مبنی ہے۔ اسی منافقت میں آج ہر انسان خود کو شریف اور نیک سیرت ثابت کرنے کے لئے منافقت، جھوٹ اور دکھاوے پر منحصرہے۔ اس معصوم بچی کا بلاد کار کرنے والے درندے یقینااپنی ماؤں بہنوں کو پردے اور چاردیواری میں رہنے پر مجور کرتے ہونگے!
جنسی جرائم عورت کے ذہن اورر نفسیات پر کبھی نہ بھرنے والے زخم لگاتے ہیں۔ انسان کے لبادوں میں چھپے درندوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بننے والی خواتین ساری زندگی نیم ذہنی مفلوجیت کا شکار ہوکر رہ جاتی ہیں۔ خواتین کے احترام کا منافقانہ ناٹک کرنے والے مذہبی پیشوا، سیاسی جغادری اور سماجی شرفا خود ہوس کے پجاری اور اس استحصالی نظام کے حواری ہیں۔ اس ملک میں ہونے والے جنسی بلادکار کے ہر واقعے کی ذمہ داری ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ ’’چار گواہ‘‘ مانگ کر اس بھیانک جرم کی درپردہ حمایت کرنے والے ملاؤں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ان حضرات کی جانب سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین کو ’’خاموشی‘‘ اختیار کرنے کی نصیحت آن ریکارڈ ہے۔ جس ریاست کا ’’نظریاتی ادارہ‘‘ڈی این اے ٹیسٹ کو حرام اور کمسن بچیوں کی شادی کو حلال قرار دے اس سے انصاف کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟شہبار شریف صاحب نے بھی سیاست چمکانے کے لئے مظفر گڑھ جانے سے پہلے مال روڈ لاہور پر اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے والی نرسوں پر لاٹھی چارج کے احکامات ذاتی طور پر جاری کئے تھے۔ یہی ان حکمرانوں کا حقیقی کردار ہے۔
یہ مردانہ جبر، خواتین کا جنسی استحصال اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم نجی ملکیت اور تسلط پر مبنی بیمار ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ یہ سوچ سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی تقاضہ اور پیداوار ہے اور اسی سوچ نے پورے معاشرے کو نفسیاتی طور پر بھی بیمار کردیا ہے۔ ’’لبرل ازم‘‘ یا پھر قدامت پرستی کے ذریعے انسانوں کی اکثریت کو عذاب مسلسل میں مبتلا کر دینے والے اس نظام کا دفاع ایک جرم ہے!