بُت ہم کو کہیں کافر!

| تحریر: لال خان |

معاشی بحران سے جنم لینے والی سماجی تنزلی کے اثرات زندگی کے ہر شعبے کے لئے اندوہناک ہوتے ہیں۔ آج کے عہد میں جہاں خلق بھوک اور محرومی سے برباد ہے وہاں صاحب ثروت طبقے کے دانش وروں کی نظریاتی، نفسیاتی اور روحانی تنزلی بھی عام انسانوں کے لئے وبال جان بن گئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نفسیاتی ہیجان و پراگندگی پیدا کرنے والی بے معنی اور لاامتناہی بحثیں حکمران طبقے کی شعوری پستی کی علامت ہی تو ہیں۔
لبرل اور سیکولر انٹیلی جینشیاآزاد منڈی کی مردار معیشت اور جعلی جمہوریت کی منافقت جاری رکھے ہوئے ہے۔ مذہبی دائیں بازو کا جعلی امریکہ دشمنی کاناٹک بھی بہت پرانا ہو گیا ہے۔ فرقہ وارانہ تعصبات، مذہبی منافرت اور رجعت کا زہر ہے جو کالے دھن کے زور پر یہ ملاں سماج کی رگوں میں اتار رہے ہیں۔ بظاہر ’متضاد‘ نظر آنے والے یہ دونوں رجحان ایک بات پر خوب متفق ہیں کہ سوشلزم اور ’کمیونزم‘ ختم ہو چکا ہے اور سرمائے کی حاکمیت چاہے ’سیکولر‘ ہو یا تھیوکریٹک، انسانیت کا حتمی مقدر ہے۔ ان کا ’نظریاتی اختلاف‘ اس نظام سے نہیں بلکہ اس کو چلانے کے طریقہ کار پر ہے۔ رائج الوقت ملکیت کے رشتوں کو ’اسلامی انقلاب‘ سے کوئی خطرہ ہے نہ ہی ’سیکولرازم‘ سے۔

maulana hasrat mohani
مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے تھے

سیاسی گراوٹ، سماجی جمود اور مفاد پرستی کے اس عہد میں سٹالن ازم کی ناکامی کو سوشلزم کے ساتھ نتھی کرنے کی عادت حکمران طبقے کے دانشوروں میں عام ہے۔ کسی منطقی دلیل کا دور دور تک ان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ نظریات مر چکے ہیں لہٰذا جو منہ میں آئے بول دو، کون پوچھنے والا ہے؟ لیکن اندر سے ایک خوف بھی انہیں بے چین رکھتا ہے۔ ان میں سے تھوڑی سمجھ بوجھ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ طبقاتی سماج میں طبقاتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ جب تک محنت کش طبقہ موجود ہے، محنت کشوں کی سیاست اور نظریات مٹ نہیں سکتے۔ جب بھی انہیں مارکسزم کے سائنسی دلائل لاجواب کرتے ہیں تو کمیونسٹوں کو ’کافر‘ قرار دے کر مناظرے سے فرار کی روایتی روش اختیار کی جاتی ہے۔
دیانت، ضمیر اور اخلاص رکھنے والے بہت سے مذہبی لوگ انقلابی مارکسزم کے پرچم تلے لڑتے رہے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں ایسے ہزاروں انقلابی ملتے ہیں۔ ولادیمیر لینن او ر لیون ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے 1917ء کے بالشویک انقلاب سے متاثر ہو کرسیاسی یا مذہبی طور پر نمایاں لاتعداد مسلمانوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کی جن میں شوکت عثمانی، گوہر رحمان، رفیق احمد، سلطان محمد، میاں محمد اکبر شاہ، میر عبدالماجد، فیروزالدین منصور، فدا علی، زاہد حبیب احمد، فضل الٰہی قربان، عبداللہ صفدر، مولوی عبدالرب اور رحمت علی زکریا وغیرہ شامل تھے۔ ان میں سے بیشتر 1920ء میں سوویت جمہوریہ کے دارالحکومت ماسکو بھی گئے۔ کمیونسٹ پارٹی کی بنیادیں تعمیر کرنے میں پنجاب سے لے کر بنگال تک، ایسے ہزاروں کارکنان سرگرم رہے جن کا تعلق مسلمان گھرانوں سے تھا۔ کلکتہ میں قاضی نذرالاسلام اور مظفر احمد اور لاہور میں غلام حسین، شمس الدین حسن اور ایم اے خان کمیونسٹ پارٹی کے سرکردہ کارکنان تھے۔ شمس الدین حسن نارتھ ویسٹرن ریلوے یونین کے پریس سیکرٹری اور ایم اے خان جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔

roznama inqilab
روزنامہ انقلاب، ستمبر 1942 کا شمارہ

برصغیر کا پہلا کمیونسٹ اخبار ’انقلاب‘ لاہور سے اگست 1922ء میں نکالا گیا جس کے ایڈیٹر غلام حسین تھے۔ اس کے پہلے ادارئیے میں لکھا گیا کہ ’’سیاسی آزادی معاشی اور سماجی آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی و سماجی آزادی نہیں مل سکتی۔ دوسرے کے حقوق پامال کئے بغیر سرمایہ دارہونا ممکن نہیں ہے۔ انسان کی آزادی کے لئے اس نظام کا خاتمہ ضروری ہے جو حکمران طبقے کا عوام پر جبر ڈھانے کا آلہ کار ہے۔ ‘‘
1923ء میں لکھنو میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ کانفرس میں مظفر احمد، عبداللہ (کلکتہ)، الف دین نفیس (کیمبل پور، موجودہ اٹک) امیر الحسن (بمبئی)، شاہ حسینی (لاڑکانہ)، ایم اے خان (لاہور)، محمد ابراہیم (مدراس)، ایچ اے ملک (لکھنو) اور محمد علی (پشاور) مندوبین کے طور پر شریک ہوئے تھے۔ لکھنو میں ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی پہلی تاسیسی کانفرنس میں مولانا حسرت موہانی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ آخری وقت تک کمیونزم کے نظریات پر سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔
ایک انتہائی دلچسپ داستان مولانا عبیداللہ سندھی کی ہے۔ وہ 1872ء میں چلنوالی ضلع سیالکوٹ کے سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے، والد ان کی پیدائش سے چار ماہ قبل ہی فوت ہو چکے تھے۔ ماموں نے انہیں ضلع ڈیرہ غازی خان کے اردو مڈل سکول میں ابتدائی تعلیم دلوائی۔ 1887ء میں انہوں نے بنیادی مطالعہ کے بعد اسلام قبول کر لیا اور سندھ جا کر حافظ محمد صدیق کے شاگرد ہو گئے۔ اس سے اگلے سال دارلعلوم دیوبند چلے گئے اور1889ء سے 1909ء تک پہلے بطور طالب علم اور بعد ازاں استاد اس ادارے سے وابستہ رہے۔ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کے دوران انہیں 1915ء میں کابل ہجرت کرنی پڑی جہاں انہوں نے ہندوستان کی عبوری آزاد حکومت قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اہندرا پرتاب اس حکومت کے صدر جبکہ عبیداللہ سندھی وزیر برائے امور ہندوستان تھے۔ اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں ریشمی رومال تحریک کی سازش میں بھی ملوث قرار دیا گیا۔ اس جلاوطن ہندوستانی حکومت نے مدد کے لئے 1917ء کے بعد نومولود بالشویک حکومت سے رابطے استوار کئے۔ اہندرا پرتاب 1918ء میں پیٹروگراڈ میں لیون ٹراٹسکی سے بھی ملے۔ کیپٹن ظفر ایبک اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ طویل مسافت طے کرنے کے بعد عبیداللہ سندھی 1922ء میں ماسکو پہنچے۔ ظفر ایبک نے اپنی یادداشتوں میں ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ عبیداللہ سندھی جب ہزاروں میل کا سفر کر کے ماسکو پہنچے تو ان کے پاؤں زخمی ہو کر سوجھ چکے تھے۔ ولادیمیر لینن کی بیوی کرپسکایا نے نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر عبیداللہ سندھی کے پاؤں دھوئے اور مرہم پٹی کی۔ دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر قائم اس مزدور ریاست کے سربراہ کی اہلیہ کے اس انقلابی جذبے اور عاجزی نے جو اثرات مولانا عبیداللہ سندھی کے دل و دماغ پر مرتب کئے ہونگے انہیں شاید الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

maulana obailullah sindhi
مولانا عبیداللہ سندھی

سوویت یونین میں عبیداللہ سندھی نے بالشویک مزدور ریاست کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا مطالعہ بہت قریب سے کیا۔ اس کے بعد وہ استنبول کے سفر پر روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے سوویت جمہوریہ کی طرز پر ہندوستان جمہوریہ کا مجوزہ آئین مرتب کیا۔ جمہوریہ ہندوستان میں سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ، ذرائع پیداوار اور ریاستی انتظام پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول اور بنیادی سہولیات کی ہر فرد تک فراہمی اس دستور کے کلیدی نکات تھے جس کو حتمی شکل انہوں نے ستمبر 1924ء میں دی۔ یہ اس دور کے واقعات ہیں جب سٹالن کی قیادت میں افسر شاہی نے بالشویک انقلاب کی روایات کو برباد نہیں کیا تھا۔
بالشویک انقلاب ایسا غیر معمولی واقعہ تھا جس نے دنیا کو ہلا کر تاریخ کا دھارا ہی موڑ ڈالا تھا۔ اس عہد میں اقبال نے مارکسزم اور بالشویک انقلاب کی پذیرائی میں ’’کارل مارکس کی آواز‘‘ جیسی کئی نظمیں تحریر کیں۔ کارل مارکس کے نظریات، جدوجہد اور اس کی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مشہور مصرعہ بھی لکھا:

وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

برصغیر کے ایک اور مشہور مگر دلچسپ کمیونسٹ داد امیر حیدر خان بھی تھے۔ وہ 1900ء میں کلر سیداں ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں ہی یتیم ہو گئے اور سوتیلے باپ نے سکول بھیجنے کی بجائے مدرسے میں ڈال دیا۔ مولوی کی مار پیٹ سے انہوں نے راہ فرار اختیار کی اور بمبئی پہنچ کر گودی میں مزدوری کرنے لگے۔ ایک بحری کمپنی میں شامل ہو کر ملاح کے طور پر سمندری سفر کیا اور امریکہ کے شہر بفلو میں ریلوے انجن مکینک کے طور پر کام کرنے لگے۔ انہوں نے فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ ہوابازی اور میرین انجینئرنگ میں بھی مہارت حاصل کی۔ وہ پائلٹ تھے، بحری جہازوں اور ریلوے کے انجینئر بھی تھے اور انتھک انقلابی بھی۔ امریکہ میں ہی ان کی ملاقات مشہور مصنف اور صحافی ایگنس سملڈی سے ہوئی جو عمر بھر کی یاد بن گئی۔ واپس آئے تو میرٹ سازش کیس میں ان کے وارنٹ نکل گئے۔ انڈر گراؤنڈ کام کرتے ہوئے مدراس میں کمیونسٹ پارٹی کا نوجوان ونگ بنایا۔ فیکٹریوں میں سٹڈی سرکل چلایا کرتے تھے۔ سامراجی جبر شدید تر ہوجانے کے بعد وہ ماسکو چلے گئے۔ 1932ء میں واپس آئے تو گرفتار ہو گئے۔ دادا امیر حیدر ان جرات مند کمیونسٹوں میں سے تھے جنہوں نے سٹالن اسٹ سوویت یونین کی برطانوی سامراج سے مصالحت کے تحت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سامراج مخالف تحریک سے دستبرداری کی پالیسی کو مسترد کر دیا تھا۔ عمر بھر ریاستی جبر، قیدو بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں کاٹنے کے باوجود مرتے دم تک ایک بالشویک رہے۔

dada amir haider
دادا امیر حیدر

1941ء میں سامراج سے سٹالن کے سمجھوتے کو دنیا بھر کی طرح ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی پر بھی تھونپ دیا گیا جس سے پورے خطے میں چلنے والی قومی آزادی کی تحریک اور طبقاتی جدوجہد کو شدید دھچکا لگا۔ دادا امیر حیدر کے علاوہ جن دوسرے کمیونسٹوں نے اس موقع پرستانہ پالیسی کی مخالفت کی ان میں اسرار الحق مجاز، منیر نظامی اور جوش ملیح آبادی سرفہرست تھے۔ اسی نظریاتی جرم نے 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت سے شروع ہونے والے انقلاب کو قیادت سے محروم کر کے برباد کر دیا اور برصغیر کے خونی بٹوارے کی راہ ہموار ہوئی۔ جوش ملیح آبادی کو کئی اعلیٰ عہدوں کی پیشکش برطانوی راج نے کی لیکن انہوں نے دولت اور شان و شوکت کو ہمیشہ ٹھوکر ماری اور کمیونسٹ نظریات سے وفا کی۔ آزادی کی سرفروشوں نے انہیں ’شاعر انقلاب‘ کا لقب دیا۔
ان انقلابیوں پر بھی کفر کے فتوے لگتے تھے۔ آج بھی انقلابی مارکسزم کے نظریات پر سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو کافر اور دیوانہ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کٹھن راہ پر چلنے والے صرف اس سائنسی یقین کے ساتھ نسل در نسل اپنی زندگیوں کو وقف کرتے آئے ہیں کہ رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کی تفریق وحشت کے اس نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں دراڑیں ڈالتی ہے۔ حکمران طبقہ ان تعصبات کو ابھارتا اور استعمال کرتا ہے۔ تمام تر دولت اپنی محنت سے پیدا کر کے بھی محروم رہنے والوں کے مسائل ایک ہیں تو ان کی جدوجہد بھی ایک ہے۔ کمیونسٹوں کی لڑائی کسی مذہب سے نہیں بلکہ مذہب کا بیوپار کرنے والوں سے ہے۔ مٹھی بھر حکمران طبقے کے ہاتھوں اکثریتی محنت کش عوام پر جبر کے اس نظام کے خلاف جدوجہد کو ’کفر‘ قرار دینے والے آخری تجزئیے میں شعوری یا لاشعوری طور پر حکمران طبقے کے آلہ کار ہیں۔ اصل کافر یہ الزام لگانے والے ہیں یا کہ وہ جن پر لگایا جاتا ہے؟

متعلقہ:

مذہب کا سیاسی روپ

بالشویک انقلاب 1917ء: آزادی کا راستہ آج بھی یہی ہے!

فروری1946ء: جب آزادی کا خون ہوا!

لبرل ازم اور قدامت پرستی

ایک سکے کے دو رخ