مسلم لیگیں اور پاکستان

تحریر :لال خان:-
(ترجمہ :اسد پتافی)

پاکستان میں لاتعداد مسلم لیگیں ہیں جو کہ پاکستان کی حاوی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ ،گماشتہ اور دم چھلہ چلی آرہی ہیں۔یہ حکمران طبقات کی بے بسی اور بدحواسی کا اظہار ہیں جس کے ذریعے وہ سماج کو پچھاڑنااور اس کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی طرح سے مسلم لیگوں کی بھی اپنی اپنی تاریخ ہے۔
مسلم لیگ کی ابتدا1906ء میں برطانوی راج کے دوران رکھی گئی جب مسلمان اشرافیہ کے ایک حصے نے سامراجی آقاؤں سے سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کیلئے اپنی خدمات پیش کیں۔اس سلسلے میں اس نئی پارٹی کی قیادت کی جانب سے اس وقت کے وائسرائے لارڈ منٹوکو لکھے گئے خط سے مسلمان اشرافیہ کے ارادوں کا صاف پتہ چلتاہے ۔لیکن اس طاقت کے ارتقا اور اس کی عام مسلمانوں کے نزدیک وقعت اور اہمیت کا اندازہ سر علامہ محمد اقبال کہ جنہیں دوقومی نظریے کا بانی قراردیاجاتا ہے ،کے 28مئی 1937ء کولکھے گئے خط سے ہوتاہے جو کہ محمد علی جناح کو لکھا گیا تھا ۔ اس خط میں علامہ لکھتے ہیں ’’مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آپ کو انڈیا کے مسلمانوں کی حالت زار سے بخوبی آگاہی ہوگی ۔(مسلم)لیگ کو بہرحال یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا وہ بھارت کے مسلمان امراء کی نمائندہ جماعت رہے گی یا پھرعام مسلمانوں کی ؟جو بجاطورپر اس جماعت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ذاتی طورپر میرایہ خیال ہے کہ ایک سیاسی تنظیم کہ جو عام مسلمانوں کی حالت زار میں تبدیلی اور بہتری کا کوئی وعدہ نہیں رکھتی ،کسی طور بھی عام لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکے گی ۔نئے آئین کے تحت سبھی اعلی عہدے اشرافیہ کے بیٹوں ،ان سے نیچے کے عہدے وزرا کے عزیزوں کو دیے جائیں گے ۔ہمارے سیاسی ادارے کسی طور بھی عام مسلمانوں سے کوئی نسبت کوئی وابستگی نہیں رکھتے ۔جبکہ روٹی کا مسئلہ دن بدن شدید سے شدیدتر ہوتاچلا جارہاہے ‘‘۔
اس کے بعد کی دہائیوں کے دوران بھی یہ مسلم لیگیں بہت شاذونادرہی عوام کو درپیش نظریاتی مسائل پر توجہ دیتی رہیں ۔تاہم پاکستان کی اپنی تخلیق کی ملغوبہ قسم کی تاریخ بھی ،وادی سندھ کی تہذیب سے اپنی وابستگی کے باوجود،یہ بتاتی ہے کہ یہ ملک کبھی بھی تخلیق میں نہ آسکتا اگریہ جناح اور مسلم لیگ کے فیصلوں کے مطابق ہوناہوتا۔مئی1946ء کے ابتدائی دنوں میں کیبنٹ مشن انڈیا پہنچا تھا ۔16مئی کو شائع ہونے والے کیبنٹ مشن پلان کے تحت ’’تقسیم کے آپشن ‘‘کو یکسر ختم کردیاگیاتھا ۔اور ایک ایسے انڈیا کی بات کی گئی تھی جو کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ہوتا جو کہ دفاع ،خارجہ امور،اور کمیونیکیشن کو کنٹرول کرے گی ۔اس مجوزہ پلان کے تحت برصغیر کو تین کنفیڈریشنوں اے ،بی اور سی میں تقسیم کیا جانا تھا ۔
مسلم لیگ کونسل نے اس پر فیصلہ کرنے کیلئے تین دن تک سوچ بچار کیا ۔آخری دن جناح نے اس کیبنٹ مشن منصوبے کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ کونسل نے متفقہ طورپر اس کی منظوری دے دی تھی۔یہ اعلان 1940ء کی اس نام نہاد ’’قراردادپاکستان‘‘کی صداقت کو سامنے لاتاہے اور تقسیم کے نظریے سے پسپائی کا واضح ثبوت ہے ۔پھرتحریک پاکستان کے دوران ان لاکھوں جانبازوں کی جدوجہداور قربانیوں کا کیا کہنا !یہ سب کیونکر کیا گیا؟کتنے لاکھ انسان اس خونی تقسیم کے دوران اپنی زندگیوں سمیت سب کچھ گنوابیٹھے ،اور اس تقسیم کے دوران جو المیے سامنے آئے ،ان کا اس تقسیم کی وجہ سے نابلدتھے۔
ستم یہ ہے کہ یہ نہرو کی طرف سے 10جولائی کو بمبئی میں کی جانے والی ایک اشتعال انگیز پریس کانفرنس تھی،جو کہ اس نے ایڈوینہ ماؤنٹ بیٹن اور برطانیہ کی کنزرویٹواشرافیہ کے کچھ حصوں کی شہہ پر کی تھی ۔اس پریس کانفرنس نے جناح اور مسلم لیگ کو کیبنٹ مشن پلان سے الگ ہوجانے پر مجبورکردیا ۔اور تقسیم کے منصوبے کی طرف واپس دھکیل دیا ۔انڈین نیشنل کانگریس کے معروف رہنما مولانا ابوالکلام آزادنے اپنی مشہور کتاب ’’انڈیا ونزفریڈم‘‘میں لکھاہے کہ’’اب ایک ایسی کیفیت بن چکی تھی کہ جس میں ہم لوگ ،جناح سے کہیں زیادہ تقسیم کی وکالت اورتگ ودوکررہے تھے ۔میں نے کئی بار جواہر لال نہرو کو متنبہ کیا کہ اگر ہم نے برصغیر کی تقسیم کو تسلیم کیا تو تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی،جویہ فیصلہ لکھے گی کہ برصغیر کی تقسیم مسلم لیگ نے نہیں بلکہ کانگریس نے کروائی تھی‘‘۔
اپنی تاریخ کے 64سالوں کے دوران مسلم لیگ ہمیشہ ہی اپنی سبھی کیفیتوں اور حصوں میں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے مفادات کے حصول اور دفاع کیلئے کوشاں چلی آرہی ہے ۔کہ جو ریاست کو اپنے پرانے وسائل میں بڑھوتری اور شرح منافع میں اضافے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کا یہ حکمران طبقہ تاریخی طورپر تاخیرزدہ تھا اور معاشی طورپر بہت کمزور تھا ۔اس بنیادپریہ ایک جدید صنعتی سماج پیداکرنے کی اہلیت سے قاصر تھا۔زیادہ سے زیادہ دھن دولت اکٹھاکرنے کی بے مہارہوس نے پاکستانی بورژوزی اور جاگیردار اشرافیہ کو کئی حصوں بخروں میں تقسیم کردیا ۔اس شدید بحران نے اپنا اظہار سیاسی طورپر کیا اور ان کے مابین تنازعے اور تضادات کو جنم اور فروغ دیا ۔ان گنت مسلم لیگیں اسی ہوس اور تنازعے کاہی شاخسانہ ہیں اور جو حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔جب کبھی یہ تضادات زیادہ شدید اور تلخ ہوئے تب پاک فوج براہ راست اقتدار پر براجمان ہو تی رہی ۔اپنے اقتدار کو جائز قرار دینے اور دلانے کیلئے ہر فوجی آمر نے مسلم لیگ کو اپنی سیاسی داشتہ بنانے کا وطیرہ اپنائے رکھا ۔اور اسے اپنے ایک سیاسی آلے کے طورپر کام میں لاتارہا۔
صرف ایک ہی بار ایسا وقت آیا کہ جب مسلم لیگوں کو اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہیں ہونے دیاگیااور یہ وقت1968-69ء کا انقلاب تھا کہ جب عوام سماج کو بدلنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔اس عوامی تحریک کی بدولت پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار حاصل ہوگیا لیکن وہ بھی اپنے اعلان کردہ انقلابی سوشلسٹ پروگرام پر عملدرآمدنہیں کرسکی اور پھر اشرافیہ کے لوگ اس میں داخل اور قابض ہوتے چلے گئے۔ اصلاحات کی ناکامی کے نتیجے میں ملک پر ضیاء الحق کی وحشی آمریت مسلط کر دی گئی ۔ وقت جوں جوں گذرتارہا توں توں پاکستان کا حکمران طبقہ حواس باختہ اور وحشی ہوتا چلاگیا ۔یہ ذرائع پیداوار کو ترقی دینے میں یکسر ناکام رہا۔اس کی بجائے صنعت کا شعبہ تیزی سے زوال پذیر ہوتا چلاگیا ۔معیشت اور انفراسٹرکچر زبوں حال ہوتے چلے گئے ۔سروس سیکٹر فروغ پاتا چلاگیا ،اور پھر متوازی کالے دھن کی معیشت نے غنڈوں اور ٹھگوں کی ایک نئی پرت کو اشرافیہ پرحاوی و برترکرنا شروع کردیا۔کلاسیکل بورژوازی کی عدم موجودگی اور روایتی جاگیردار اشرافیہ کی کمزوری نے ایک نابرابرمگر مشترکہ سماجی ومعاشی طرز کی کیفیت میں اس قسم کی نئی رجعتی مالیاتی ومعاشی پرتوں کو سیاست ،خاص طورپر مسلم لیگوں پر براجمان ہونے کے مواقع پیداکردیے ۔ جرم ،بدعنوانی ،تعصبات پروری ،مافیا سرگرمیاں،اور ٹیکس چوری پاکستان اور پاکستان کی سیاست کا طرہ امتیاز بنتا چلاگیا۔
پاکستان مسلم لیگ کے سب سے بڑے دھڑے نواز لیگ کی حمایت کا بڑاحصہ تاجروں ،دکانداروں اور کمیشن ایجنٹوں پر مبنی ہے ۔مسلم لیگوں کی یہ سبھی شاخیں پیٹی بورژوازی کے مفادات کا ایک آلہ بنی آرہی ہیں۔جو اپنی جائزوناجائز کمائی اور اس کمائی کیلئے درکار مجرمانہ طورطریقوں کے تحفظ کیلئے ہمیشہ ریاست کی سرپرستی کی طلبگارہوتی ہیں ۔ مظلوم ومحروم عوام کیلئے نہ تو ان مسلم لیگوں کے پاس کوئی پیشکش ہے نہ ہی سماج کی بہتری وترقی ان کا درد سر رہاہے ۔دائیں بازوکی کمزوری کی وجہ سے ،سامراجی اور مقامی اشرافیہ نے اپنے گماشتہ و دم چھلا سیاستدانوں کو پاکستان پیپلزپارٹی میں داخل وشامل کرتے اور رکھتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کو سرمایہ داری کے مفادات کیلئے بری طرح استعمال کرتے آرہے ہیں اور جو کچلے ہوئے محروم طبقات پر تابڑتوڑ حملے کرتے چلی جارہی ہے۔یہ صورتحال دائیں بازوکی حکمرانی کیلئے سازگار ثابت ہوسکتی ہے۔
کرہ ارض کے آقاجس بات کو محسوس نہیں کر سکتے وہ یہ ہے کہ سماج جس طرح نیچے سے کراہ اور تڑپ رہاہے ،وہ کسی بھی وقت ایک لاوے کی طرح پھٹ کر اچانک سامنے آسکتاہے ۔عوام کے غیض وغضب کا یہ جوالامکھی نہ صرف سبھی متعصب رجعتی بنیادپرستوں سمیت ہمہ قسم مسلم لیگوں کو بھی خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا بلکہ حقیقی پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ایک نیا جنم دے گااور جو ایک نئی تروتازہ انقلابی صورتحال میں ایک سوشلسٹ پروگرام سے لیس ہوکر سماج کو بدلنے کا تاریخی فریضہ سرانجام دے گی۔

ڈیلی ٹائمز،22جنوری2012