تحریر: لال خان
جمال خاشقجی کے قتل نے دنیا میں پہلے سے موجود سفارتی تناؤ کو شدید تر کر دیا ہے۔ خاشقجی ایک مقبول سعودی صحافی تھا اور سعودی شاہی خاندان کے کچھ حصوں، جو آج کل سعودی سرکار کے عتاب کا شکار ہیں، کے کافی قریب سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ سعودی حکمرانوں (شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان) کی پالیسیوں کا ناقد ہونے کی وجہ سے اسے سعودی عرب چھوڑنا پڑا۔ ان دِنوں وہ امریکہ میں مقیم تھا اور معروف امریکی جریدے ’واشنگٹن پوسٹ‘ سے وابستہ تھا۔ 2 اکتوبر کو وہ اپنی ترک دوست سے دوسری شادی کیلئے درکار کچھ دستاویزات (پہلی بیوی کا طلاق نامہ وغیرہ) لینے استنبول (ترکی) میں واقع سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوا جس کے بعد دوبارہ نظر نہ آیا۔ اس روز سعودی قونصلیٹ کے سی سی ٹی وی کیمرے مبینہ طور پر ’خراب‘ تھے اور وہاں کام کرنے والے ترک سٹاف کو بھی چھٹی دے دی گئی تھی۔ دو ہفتوں کے مسلسل انکار اور بار بار موقف کی تبدیلی کے بعد شدید عالمی دباؤ کے تحت بالآخر سعودی حکومت کو قبول کرنا پڑا کہ جمال خاشقجی قونصلیٹ کے اندر ’’ہاتھاپائی‘‘ میں مارا جا چکا ہے۔ تاہم اس کی لاش کا اتا پتا نہیں بتا یا گیا۔
تازہ پیش رفت کے مطابق جمعرات کو سی آئی اے کا ڈائریکٹر گینا ہاسپل‘ قونصلیٹ میں خاشقجی کے قتل کی واردات، جس میں ترک حکام کے مطابق سعودی عرب سے خصوصی طور پر آئے پندرہ رکنی ’ہِٹ سکواڈ‘ نے حصہ کیا، کی آڈیو ریکارڈنگ سننے کے بعد واشنگٹن واپس چلا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے ترک حکام کیساتھ اُسکی ملاقات بارے بتایا، ’’ہاسپل نے سوموار کو ترکی کے خفیہ دورے کے دوران وہ ہولناک آڈیو ریکارڈنگ سنی۔‘‘ سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار اور بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے سکالر بروس ریڈال کے مطابق، ’’اب سب کچھ واشنگٹن کے ہاتھ میں ہے۔ اب نہ صرف میڈیا کی جانب سے دباؤ بڑھے گا بلکہ امریکی کانگریس کہے گی کہ جناب! آپ آئیں اور جو آپ نے سنا وہ ہمیں بھی بتائیں۔‘‘‘
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کئی ہفتوں کی چپ توڑتے ہوئے بڑی معصومیت سے سارے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے: ’’ یہ ایک وحشیانہ قتل ہے… یہ انتہائی دردناک ہے… انصاف ہوگا… تمام مجرموں کو سزا ملے گی اور سعودی عرب اور ترکی مل کر یہ کام کریں گے۔ ہم ترکی کے ساتھ تعاون کریں گے تاکہ خاشقجی کے قتل کے پیچھے کے سچ کو دریافت کر سکیں۔‘‘ تاہم اسی دوران محمد بن سلمان نے روسی، چینی، جاپانی اور فرانسیسی کاروباریوں، جو ریاض میں ’صحرائی ڈیووس‘ نامی اکنامک فورم میں شرکت تھے، کیساتھ مذاکرات کے بعد یہ بھی کہا ہے کہ ’’ ہم نے جان لیا ہے کہ کون ہمارے بہترین دوست ہیں اور کون ہمارے دشمن!‘‘ یاد رہے کہ خاشقجی کے قتل کا معاملہ بھڑک جانے کے بعد سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے بلائی گئی اِس کانفرنس کا بہت سے مغربی سرمایہ کاروں نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ہفتہ 27 اکتوبر کو سعودی وزیر خارجہ نے بھی بیان دیا ہے کہ ’’قتل میں ملوث تمام لوگوں پر مقدمہ چلایا جائے گا۔‘‘ یوں ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے کسی حکومتی ایما یا اشارے کے بغیر اپنے طور پر ہی خاشقجی کو قتل کر دیا ہے! معاملہ اتنا نازک اور المناک نہ ہوتا تو یقیناًمضحکہ خیز ہوتا۔
ترکی نے بھی سعودی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے ایک اعلیٰ ترک اہلکار کی بات کو نقل کیا، ’’سعودی عرب میں حقیقی تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں جب ولی عہد محمد بن سلمان خود ملوث ہے؟ اس کے شاہی گارڈ کے ارکان اس قاتل اسکواڈ کا حصہ تھے۔ امریکہ اور پوری دنیا کو اسے قبول نہیں کرنا چاہیے…‘‘
جمال خاشقجی پر وحشیانہ تشدد اور قتل (جس میں ترک حکام کے مطابق اسے زندہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا) کی منصوبہ بندی یقیناًبڑی احتیاط سے کی گئی ہو گی لیکن سعودی ہِٹ سکواڈ سے کئی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں جس کی وجہ سے گڑبڑ ہو گئی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ خاشقجی کی منگیتر قونصلیٹ کے باہر کھڑی ہے جسے وہ بتا کے گیا تھا اگر وہ جلد واپس نہ آیا تو دوسرے لوگوں کو اطلاع کی جائے۔ خاشقجی کو شک تھا کہ اسے گرفتار یا اغوا کر لیا جائے گا لیکن وہاں ہی قتل کر دئیے جانے کی توقع نہیں تھی۔ اسی طرح قاتل یہ بھی بھول گئے کہ خاشقجی کی قونصلیٹ میں داخلے کی ویڈیو تو ہے لیکن باہر نکلنے کی نہیں اور یہ کہ ترک انٹیلی جنس نے قونصلیٹ کے اندر ریکارڈنگ کے خفیہ آلات لگائے ہوئے ہیں۔
اردگان حکومت اس واقعے کو امریکہ اور سعودی عرب سے سودے بازی کے لئے استعمال کر رہی ہے اور اپنے مفادات کے مطابق تھوڑی تھوڑی معلومات لیک کروا رہی ہے۔ اردگان آج کل انسانی حقوق اور آزادی اظہار کا بڑا چیمپئن بنا ہوا ہے۔
قتل کرنے اور کروانے والوں کا اندازہ یہ تھا کہ ان کے اتحادی، بالخصوص امریکہ، اس معاملے میں اپنی آنکھیں بند کر لیں گے۔ وہ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ نے ہر طریقے سے سعودی حکمرانوں کو ’’شک کا فائدہ‘‘ دینے اور وزیر خارجہ پومپیو نے ’’تحقیقات (جرم چھپانے کا عمل) مکمل کرنے‘‘ کیلئے وقت دینے کی بات کی ہے۔ تاہم بڑھتے ہوئے بیرونی اور اندرونی دباؤ، جس میں امریکی کانگریس کے کچھ ارکان پیش پیش ہیں، کی وجہ سے ٹرمپ نے منگل کو کہا، ’’انکی سوچ انتہائی غلط تھی۔ کام کو گھٹیا طریقے سے انجام دیا گیا اور پھر انتہائی بھونڈے طریقے سے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ میرے خیال میں یہ پہلے دن سے ہی ایک رسوائی تھی۔‘‘ وال سٹریٹ جرنل کیساتھ ایک انٹرویو میں جب ٹرمپ سے سعودی ولی عہد کے ملوث ہونے بارے پوچھا گیا تو جواب ملا، ’’اس وقت وہی تمام چیزیں چلا رہا ہے۔ اسی پر انگلی اٹھے گی۔‘‘ اگرچہ پہلے وہ کہتا رہا ہے کہ اسے ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث نہ ہونے کا یقین ہے۔
ٹرمپ کے پیش نظر سعودی عرب کو امریکی اسلحے کی فروخت کی منافع بخش ڈیل ہے۔ ماضی میں سعودی بادشاہت نے ٹرمپ کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو بچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان امریکی و یورپی ہتھیاروں کے یمن کے عوام کے قتل عام میں استعمال کو بھی بڑی منافقت سے چھپایا جاتا ہے۔ لیکن کچھ امریکی ارکانِ کانگریس نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو امریکی اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فی الحال امریکی کانگریس کی چھٹیاں چل رہی ہیں اور بل پر وسط نومبر سے پہلے تک کوئی بحث نہیں ہوسکتی۔ تاہم امریکی حکومت اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سعودی عرب کیساتھ اسلحے کی فروخت کے معاہدے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ سارا معاملہ عالمی سیاست اور سفارت میں بھونچال کی غمازی کرتا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اسی محمد بن سلمان کو مغربی سامراجی بڑا ’لبرل‘ اور ’ترقی پسند‘ قرار دے رہے تھے۔ تاریخی طور پر وہ اُن اَن گنت شخصیات میں سے ایک ہے جنہیں مغرب میں ’شدت پسندی‘ کے خلاف اصلاح پسندی یا اعتدال پسندی کا علمبردار بنا کے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ایک وقت تک صدام حسین اور معمر قذافی کو بھی یونہی پیش کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ آج بھی وحشی مصری آمر السیسی، بھارت میں نریندرا مودی اور بہت سے دوسرے سامراج نواز جمہوری آمروں کو یہی مقام حاصل ہے۔ لیکن اب محمد بن سلمان کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔ یہ سارا معاملہ سعودی شاہی خاندان اور ریاست کے اندر موجود تقسیم در تقسیم (جو کسی بھی وقت پھٹ کر دھماکہ خیز صورتحال کو جنم دے سکتی ہے) اور بحران کی غمازی بھی کرتا ہے۔ دھڑے بندیاں عروج پر ہیں۔ اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانا آل سعود کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اب کی بار جس انداز سے یہ کیا گیا ہے اس سے ساری صورتحال قابو سے باہر ہو گئی ہے۔ لیکن محمد بن سلمان ولی عہد رہتا ہے یا نہیں، دونوں صورتوں میں آلِ سعود میں تضادات مزید شدت ہی اختیار کریں گے۔