ملتان: این ایف سی یونیورسٹی میں طالب علم کے ادارہ جاتی قتل کیخلاف احتجاج

رپورٹ: انقلابی طلبہ محاذ ملتان

انقلابی طلبہ محاذ (RSF) کے زیرِ انتظام مورخہ 14 جون کو 9 نمبر چونگی پر شام 4:30 بجے ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا جس میں طالب علم مزمل کے ادارہ جاتی قتل کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ اس موقع پر مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جس پر ’جسٹس فار مزمل‘ اور ’مشال خان، مرجان اور اب مزمل، کیا اگلی باری میری ہے؟‘ جیسے الفاظ درج تھے۔ اس موقع پر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کامریڈ ذیشان شہزاد نے کہا کہ طلبہ یونین پر پابندی کے سبب مشال خان، مرجان اور اب مزمل جیسے طلبہ کے قتل کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں جو ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے کی جدوجہد کتنی ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہر ہونے والا حادثہ کسی نہ کسی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔

پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے رہنما کامریڈ ندیم پاشا ایڈووکیٹ نے شرکا سے اپنے خطاب میں مزمل کے ادارہ جاتی قتل کی پُر زور مزمت کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارنہ نظام میں کسی سماجی مسئلے کا حل موجود نہیں۔ تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ پر انتظامیہ اور اساتذہ کا دُھونس جمانا ایک معمول بن چُکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روز بروز رونما ہونے والے ہولناک واقعات بتاتے ہیں کہ اب یہاں تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ تعلیمی اداروں پر مسلط مافیا کے گھٹیا ذاتی نوعیت کے مفادات کی خاطر طلبہ کی زندگیاں خطرے میں ڈالی جاتی ہیں۔ والدین ایسی مہنگی تعلیم کے لیے اپنے بچوں کی خاطر اپنی خواہشات کا قتل کرتے ہیں۔ کسی نے درست کہا تھا کہ ڈگریاں دراصل تعلیمی اخراجات کی رسیدیں ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مقابلہ بازی اور حسد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور طلبہ کی شخصیات کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ یونین سازی، مفت و غیر طبقاتی تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق کے لئے ایک منظم جدوجہد کا سلسلہ صرف سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی شروع کریں جس سے اس طلبہ دشمن تعلیمی نظام کے خلاف لڑائی جیتی جا سکے۔ اس موقع پر ذیشان بٹ، احسن خان ، امین بلوچ، محمد رضا، مرزا فہد، عاصم خان، احمد فراز، ساجد، اُسامہ اور دیگر نوجوانوں نے شرکت کی۔

مُزمل کا معاملہ
کچھ دن قبل این ایف سی یونیورسٹی کے آرکیٹکچر انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والے طالبِ علم، رو ل نمبر 1، مزمل احمد نے اکیڈمک سٹاف کی آپسی چپقلش اور اساتذہ کے ناروا سلوک سے دلبرداشتہ ہوکر دریائے چناب میں کود کر خود کُشی کر لی تھی۔ طالب علم مزمل اپنی کلاس میں اول پوزیشن برقرار رکھے ہوئے تھا مگر مقالہ لکھنے کے معاملے پر شعبہ کی چیئر پرسن اور ریسرچ کے نگرانوں میں تناؤ پیدا ہو گیا۔ مقالہ مکمل ہونے سے قبل طالب علم پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس پروجیکٹ پر مقالہ نہ لکھے ورنہ اسے فیل کر دیا جائے گا۔ شعبہ کی ’HOD‘ مہوش زہرا، ندا خورشید اور آریز علی نے 31 مئی کو مزمل کو دھمکی دی کہ اسے فیل کیا جا رہا ہے اور اس مقالہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اُس نے یہ بات اپنے والد کو بتائی جس پر والد نے کہا کہ وہ خود اُس کے ساتھ یونیورسٹی جا کر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ یکم جون کو باپ اور بیٹے کو یونیورسٹی جانا تھا لیکن معلوم ہوا کہ مزمل بغیر بتائے گھر سے چلا گیا۔ اُسی روز مزمل کی تلاش شروع کر دی گئی۔ مورخہ 4 جون کو مزمل کی لاش ہیڈ محمد والہ سے ملی جبکہ اس کی شناخت مورخہ 8 جون کو ہوئی۔ اسی دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے 5 جون کو نتائج نوٹس بورڈ پر آویزاں کر دئیے جس میں مزمل کو F گریڈ دیا گیا یعنی فیل کر دیا گیا۔

مقتول مزمل احمد

مزمل کی موت کی خبر آتے ہی طلبہ میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور وہ احتجاج کرنے لگے جس پر انتظامیہ نے طلبہ کو دھمکی دی کہ اگر کوئی طالب علم مزمل کے حق میں احتجاج کرتا ہے تو اُنہیں بھی فیل کر کے شعبے سے نکال دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ سال 2018ء میں اسی ادارے میں کسی طالبِ علم کی یہ دوسری خود کُشی ہے۔
مزمل احمد کا باپ ملتان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ایک ملازم ہے جس کی اپنے بچے کو انجینئر بنانے کی خواہش بچے کی خودکُشی ساتھ ہی دم توڑ گئی۔ خودکُشی کے ایسے واقعات اِس نظامِ تعلیم کی مکروہ حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں جہاں تعلیم کے نام پر منافع خوری ایک معمول بن چکا ہے۔ جب تک منڈی کی معیشت میں تعلیم کو ایک جنس بنا کر اس کا بیوپار کیا جاتا رہے گا تب تک ایسے واقعات کی روک تھام ناممکن ہے۔ اس لیے آج کے نوجوانوں کو متحد ہو کر تعلیم کو سرمائے کی جکڑ سے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی تاکہ تمام انسانوں کو مفت تعلیم تک رسائی حاصل ہوسکے اور طلبہ کے نفسیاتی اور معاشی استحصال کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس جدوجہد میں طلبہ کا سیاسی طور پر منظم اور متحرک ہونا لازم ہے تاکہ طلبہ یونین کی بحالی کے لئے تحریک چلائی جائے۔
اساتذہ کی ایسی آپسی سیاست صرف خودکُشیاں ہی نہیں بلکہ طلبہ کے لیے اور بہت سے نفسیاتی و معاشی مسائل کو جنم د ے رہی ہے۔ طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی اس زمرے میں آتا ہے جس کی مثال مرجان کا ادارہ جاتی ریپ بھی ہے۔ لیکن اور بہت سی مرجانیں ہوں گی، کئی مزمل ہوں گے جن کی جان و عزت بچائی جا سکتی ہے۔ والدین بھی اس جدوجہد میں اپنے بچوں کا ساتھ دیں تاکہ اس گھناؤنے تعلیمی کاروبار کا خاتمہ ممکن ہو۔