[تحریر: قمرالزماں خاں]
رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے عاملین کا ہمیشہ سے راج چلا آرہا ہے مگر یہ دہائی جدید عہد میں سب سے نرالی ہے۔ یا تو ملک عزیز میں کسی کو کچھ نہیں پتا ہوتا تھا اورملک کے وسیع تر مفادات میں سب کچھ دوچار سینوں میں بند ہوجاتا تھا اور یا پھر یہ عالم ہے کہ جو موجود بھی نہیں ہے اس کا چرچا اتنا ہوتا ہے کہ غائب کے باجود موجود کا یقین دلادیا جاتا ہے۔ صدارتی الیکشن کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا ایم کیو ایم کے پاس جاکر ووٹ مانگنا کچھ ’’صاحب فہم و فراست‘‘ کے لئے اچنبھے کا باعث بنا ہوا اور کچھ کو اس ضمن میں غم وغصے کی کیفیات اپنے سینوں میں موجزن ہوتی محسوس ہورہی ہیں۔ نواز شریف اور اسکے حواریوں کی طرح ان ’’صاحبان ِ قلم و کیمرہ‘‘ کا بھی گمان تھا کہ نواز شریف ’’اصول پرست‘‘ یا ’’اقدارکی پاسدار‘‘ شخصیت ہیں اور ان کی سوچ اب کچھ مختلف اور عمومی سیاسی اذہان سے نسبتاََ بہتری کی طرف گامزن ہے۔ شائد یہی ہمالیہ سے بڑا مغالطہ ان صاحبان فہم و فراست کے تمام تجزیوں کو غلط ثابت کرکے انکی سبکی، مایوسی اور بالآخر فرسٹریشن کا باعث بن رہا ہے۔ اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایم کیو ایم اور نواز شریف اینڈ کمپنی ایک ہی انڈسٹری کے دو مختلف برانڈز ہیں اور ان کو خلق کرنے والے عاملین کے مقاصد اور اہداف تب سے اب تک زیادہ نہیں بدلے۔ چانکیہ اور میکاولی کے سکول ہائے تھا ٹ سے متعلق ہونے کی وجہ سے موجودہ عہد کے سیاسی عناصر کی دشمنیاں یا اختلافات انکی مفاہمت کی طرح یکساں مقاصد کے حامل ہوتے ہیں۔ ان مخاصمتوں اور جدل کی کیفیات میں عمومی طور پر ایک ایسی مساوات کو مضبوطی سے قائم رکھنا ہوتا ہے جو کسی نئے عامل کے خلق ہونے میں رکاوٹ بنا رہے اور مصنوعی لڑائیوں سے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں ڈھانپ کر رکھا جاسکے۔ اگر دو مختلف پارٹیاں یا گروپ باہم دست و گریبان ہوں اور مغلظات کا تبادلہ بھی کررہے ہوں حتیٰ کہ لڑائی میں خون خرابہ اور قتل و غارت گری بھی ہوجائے تو ضروری نہیں کہ یہ لڑائی کسی سنجیدگی کی حامل، بنیادی مقاصد سے اختلاف کانتیجہ ہویا ظاہری طور پر مرتب ہونے والے نتائج سے حقیقتاََ میل کھاتی ہو۔ دنیا میں بہت سی جنگوں میں آمنے سامنے کی افواج کا مقصد مشترکہ ہوتا ہے حالانکہ اس مقصد کے حصول میں لاکھوں جانوں کادو طرفہ نقصان ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ متحارب قوتوں کی باہمی مخاصمت کسی مخصوص ’’توازن‘‘ کو قائم رکھنے کے لئے لازم ہوتی ہے اور اس مخاصمت کو برقرار رکھنے کے لئے کڑی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
بنیادی مسئلہ ’’نظریات‘‘ کی یکسانیت یا اختلاف کا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہاں بھی ایک عجب کہانی ہے کہ موجودہ عہد میں لفظ ’’انقلاب‘‘ کی طرح ’’نظریات‘‘ کی اصطلاح کو بھی شعور ی طور مسخ کیا جارہا ہے تاکہ نظریات کا استعمال جن وسیع اور گہرے معنوں اورتاریخی، سیاسی اور فلسفیانہ بنیادوں کے طور پر ہوتا ہے ان کی جگہ سطحی فرق، جزوی اختلاف، فروعی تنازعات اور غیر اہم حاصلات کے مقاصد پر طریقہ کار جیسے اختلافات کو ’’نظریاتی‘‘ فرق کے طور پر ظاہر کیا جاسکے۔ آج کل کسی بھی پارٹی میں قدرے کچھ زیادہ عرصہ تک وابستہ رہنے والے خواتین و حضرات کو’’ نظریاتی‘‘ سمجھا یا کہا جانے لگا ہے حالانکہ اس وابستگی میں نظریات کی جگہ پر بعض دفعہ حالات و واقعات یا پھر لمبی مدت کی موقع پرستی کا طریقہ کار شامل ہوتا ہے۔
اب اگر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ نواز گروپ اورانکے پروپرائٹرز کی مماثلتوں کا جائیزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دونوں کا خالق ایک ہی تھا یعنی جمہوریت مخالف ضیاء الحق اور اسکی فوجی جنتا۔ ملک کے مختلف خطوں میں پیپلز پارٹی کو پچھاڑنے کے لئے ان دونوں قوتوں کا ظہور عمل میں لایا گیا تھا۔ جزوی اختلافات کے ساتھ دونوں سیاسی قوتوں کامخصوص ’’دوست ممالک‘‘، خفیہ ایجنسیوں اور عسکری حلقوں کے ساتھ گہرا تعلق ثابت ہوتارہا ہے اور یہی قوتیں اقتدار تک رسائی، اتحادوں، مفاہمتی سیاست، اشتراک اور اختلافات کے جنم اور فروغ تک کے معاملات میں ان کی راہنمائی کرتی نظر آتی ہیں۔ دیگر فروعات کو زیادہ اہمیت دئیے بغیر اگر ہم کلیدی معاملے کا جائیزہ لیں اور’’نظریات‘‘کے حوالے سے مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کا موازنہ کریں تو ان میں کوئی بنیادی اختلاف نظر نہیں آتا۔ دونوں کا سرمایہ داری نظام، ذاتی ملکیت، شرح منافع پر ایمان کی حد تک اتفاق ہے اور اس ضمن میں حاوی سامراجی قوتوں سے کسی قسم کا نظریاتی یافلسفیانہ اختلاف نہیں ہے۔ سارے اختلافات پاور پالٹیکس کے چھوٹے موٹے مقابلوں کے ہیں یا اقتدار اور مفادات تک رسائی کے طریقہ کارکے۔ اگر ایم کیو ایم کے پاس مسلح ونگ، بھتہ پرچی اور پارٹی فنڈ کے نام پر لوٹ مار، ڈکیتیاں، تشدد اور بوری بند لاشیں، ٹھپہ الیکشن، نجی جیلیں اور عقوبت خانوں کا طریقہ کار ہے جس سے انہوں نے اپنی سیاست کو قائم و دائم رکھا اور دو کروڑ آبادی کو پچھلے تیس سالوں سے تگنی کا ناچ نچارہے ہیں تو دوسری طرف نواز لیگ کی اپنے اقتدار میں ریاست کے مسلح اداروں کو اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے استعمال کرنے، سٹوڈنٹس ونگز کے لیڈروں، مذہبی شدت پسندوں، جرائم پیشہ عناصر کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے اور بعد میں پولیس مقابلوں میں پار کرانے کی خونی تاریخ ہے۔ ان کی فونڈریوں کے خون آشام واقعات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے ایک سابق آرمی چیف کو غیر طبعی موت تک پہنچانے کا بندوبست کرایا تھا۔ سیاسی دہشت گردی کسی جان لیوا دہشت گردی سے کم مضر نہیں ہوتی۔ نواز لیگ نے بدعنوانی، دھونس اور دھاندلی کے ہر ہمالیہ کو سر کیا اور نئے نئے ریکارڈ بنائے۔ ایک اتفاق فونڈری سے چالیس فیکٹریوں کی سلطنت ایک مختصر عرصہ میں قائم کی۔ ملکی اثاثوں کو اپنے دوستوں میں یا فرنٹ مینوں میں بانٹا۔ جمہوریت کا نعرہ لگایا مگر ہمیشہ ڈپٹی کمشنروں، ضلعی پولیس آفیسروں اور بیوروکریسی کے بل بوتے پرآمرانہ طرز حکومت کو پروان چڑھایا۔ دیکھا جائے تو ایم کیوایم اور مسلم لیگ نواز گروپ کا کوئی تصادم اور بیر نہیں ہے بلکہ ان کو ہم آہنگی کے لئے کوئی زیادہ پاپڑ بیلنے نہیں پڑتے، پھر حیرانگی کیسی اور غصہ کاہے کا۔ ایم کیو ایم کی تاریخ اقتدار پرستی کے حوالے سے بھری پڑی ہے۔ جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی ایم کیو ایم اقتدار کے بنا زندہ نہیں رہ سکتی۔ ویسے ’’حیران کنندگان‘‘دانشوروں پر حیرانگی ہوتی ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر سیاسی پارٹیوں میں جداپن، اختلاف، فرق ہوا کرتا تھا اگر وہ وجوہات ہی موجود نہ ہوں تو پھر ان کے مابین اشتراک اقتدار اور ہم آہنگی میں کیسے کوئی پہاڑ حائل ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی سے لیکر جماعت اسلامی تک تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ تحریک انصاف سے لیکر تمام مسلم لیگوں اور نام نہاد قوم پرست اور مذہبی پارٹیوں کا موجودہ سامراجی نظام اور مارکیٹ اکانومی پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ اور جیسا ولادی میر لینن نے کہا تھا کہ ’’سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے‘‘، مذکورہ بالا اور ذکر سے باہر تمام سیاسی، قومی اور مذہبی پارٹیوں کی سیاست موجودہ منڈی کی معیشت کا ہی سیاسی اظہار ہے۔ اس صورتحال کی ایک بڑی ذمہ دار مرحومہ بے نظیر بھٹو نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’نظریات پچھلی نشست پر چلے گئے ہیں‘‘ تو اس کے جواب میں نظریات پر یقین رکھنے والوں نے کہا تھا کہ ’’جب نظریات پچھلی نشستوں پر چلے جائیں تو موقع پرستی اور بے ہودگی اگلی نشست پر براجمان ہوجاتے ہیں۔‘‘ موجودہ عہد کے تمام مسائل اور مشکلات کی ذمہ دار قوتوں میں زیریں سطح پر ایک غیر تحریری معاہدہ موجودہ ہے جس کے تحت اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے مفاہمت، صلح اور شرکت اقتدار سے لیکر لڑائی، مخاصمت اور دشنام طرازی تک کے تمام طریقوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ اپنے تمام زیر نگین ملکوں کے حکمران طبقوں کے لئے پینٹا گان میں تیار کئے گئے ’’مفاہمت‘‘ کے ڈاکومنٹس پر توانکے ہرکاروں نے اپنی مصنفی میں کتابیں تک لکھ ماری ہیں، جن میں محنت کشوں اور عوام کے خلاف اس شیطانی نظام کو قائم رکھنے کے لئے ہر قسم کی مفاہمت کا کلمہ پڑھا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز گروپ، ق گروپ، ایم کیوایم، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور دیگرعلاقائی اور چھوٹی پارٹیوں کے مابین امریکی مالکان کی طرف سے عائد ’’مفاہمت‘‘کے تحت اشتراک اور اختلاف کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک چپ رہنے والامحنت کشوں کا سب سے بڑا طبقہ تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنے خلاف قائم حکمرانوں کے اس غیر مقدس اتحاد کے خلاف آخری فتح تک جنگ کا اعلان نہیں کردیتا۔