تحریر: لال خان:-
(ترجمہ: فرہاد کیانی)
جماعتِ اسلامی اور دائیں بازو کی دیگر جماعتوں کی جانب سے لاہور اور دوسرے شہروں کی گلیوں میں مصر کے صدارتی انتخابات میں مورسی کی فتح کے اعلان پر جشن اور مٹھائیاں بانٹنے کوخام خیالی اوراحمقانہ کہا جا سکتا ہے۔ اسلامی ماضی پرستی کا دنیا پر غلبہ پا جانے کا نظریہ جو کالے دھن کی معیشت پر پلنے والے رجعتی ملاؤں نے ان جماعتوں کے مذہبی جنونی کارکنوں کے ذہنوں پر مسلط کیا ہے، کششِ ثقل کے قوانین کے بر خلاف ایک مغالطہ ہے۔ ترکی میں طیب اردگان اور دیگر مسلم ممالک میں اس جیسے اسلامی بورژوا لیڈروں کے سامنے آنے سے اسلامی بنیاد پرست نوجوانوں کو عالمگیر اسلامی وحدت کے ابھار کا جھوٹا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹنے والی عوامی تحریک کے بعد، انقلابی مارکسی قیادت اور پارٹی کے فقدان کی وجہ سے انقلاب بے ترتیبی کا شکار ہو گیا۔عوام کی بے پناہ جرات اور حوصلے کے باوجود ماضی کی ریاست اور نظام قائم رہے اور صورتحال پر پھر سے کنٹرول حاصل کرنے لگے۔انقلاب عوام کے دل و دماغ میں بہت بڑی امیدیں جگا دیتا ہے، لیکن ان کے پورے نہ ہونے کی صورت میں انقلابی عمل منتشر ہو کر واپس جا سکتا ہے۔ بے حسی اور نا امیدی چھانے لگتی ہیں۔حسنی مبارک کا تختہ الٹے جانے پر فوج نے اپنی گرفت مظبوط کرنے کے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔مسلح افواج کا مصری معیشت میں بہت بڑا حصہ ہے اور ان کو حاصل مراعات اس نظام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔وہ جرنیلوں کی اکژیت والی نیشل سکیورٹی کونسل کے ذریعے اہم پالیسیوں پر اپنی مظبوط گرفت کو کمزور نہیں پڑنے دیں گے۔چناچہ اس جابر حکومت کے زیر انتظام ہونے والے انتخابات جعل سازی اور دھاندلی سے بھرپور ہیں۔مارچ 2011ء کے ریفرینڈم میں 80فیصد ووٹروں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔پارلیمانی انتخابات میں 50فیصد، لیکن مرسی اور حسنی مبارک کے آخری وزیر اعظم اور پرانے حکمران ٹولے کے نمائندے احمد شفیق کے درمیان صدراتی انتخابات کے آخری مرحلے میں محض 15سے20فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ تاہم صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مرسی اور شفیق دونوں نے قریباً پانچ پانچ لاکھ ووٹ حاصل کیے جبکہ ترقی پسند امیدواروں کو بارہ لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے۔بائیں بازو کا نمائندہ ناصرین کا امید وارحمدین صباحی بڑے شہروں اور انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کے مراکز میں کامیاب رہا۔قاہرہ، سکندریہ، سوئیز اور پورٹ سعید میں دوسرے امیدواراوں کو بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے بڑی فتوحات حاصل کیں۔امریکی سامراج اور حکمران فوجی ٹولے نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ آخری مرحلے تک نہ پہنچ پائے۔فوج نے ایک خاموش شب خون مارا۔ فوج اپنے امید واراحمد شفیق کی فتح کا اعلان کرنا چاہتی تھی لیکن امریکیوں کا زور چلا جو اس صورت میں عوام کے پر زور رد عمل کا خوف محسوس کر رہے تھے جس سے سارا نظام خطرے میں پڑ جاتا۔
سامراجیوں اور اخوان المسلمین میں کوئی بنیادی اختلافات نہیں رہے ہیں۔در حقیقت اخوان المسلمین کی تخلیق سابق امریکی وزیر خارجہ جان فوسٹر ڈولس کی سوچ کا نتیجہ تھی جس نے1956ء کی جنگِ سوئیز میں جمال عبدالناصر کی فتح کے بعد مشرق وسطیٰ میں بائیں بازو کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور سرمایادارانہ استحصال اور سامراجی لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی کو استعمال کیا۔تعلقات میں کچھ تناؤ کے بعد کچھ عرصے سے سی آئی اے اوراخوان کے مراسم میں گرمجوشی آرہی ہے۔آخری تجزیئے میں، ان میں معاشی پالیسی پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔رائٹرز کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق ’’مصری اخوان المسلمین نے آزاد منڈی کی معیشت کا ایک مظبوط پلان تیار کر رکھا ہے اور اس ماہ کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت میں آنے پر آئی ایم ایف سے بہت تیزی سے قرضہ حاصل کرنے کے مذاکرات شروع کرنے کاوعدہ کیا ہے‘‘۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے، جس کا بڑا مقصد 189ارب ڈالر کے دیو ہیکل قرضوں کی اقساط کی ادائیگی ہے، اخوان المسلمین کو حسب معمول ان کی شرائط قبول کرنا ہوں گی۔انہیں لازماًمصری عوام کو بڑی مقدار میں کڑی دوا پلانا پڑے گی جس میں سخت کٹوتیاں، بڑے پیمانے پر نجکاری،سبسڈیوں میں کمی اور میعاری زندگی میں گراوٹ شامل ہیں۔ فنانشل ٹائمز لکھتا ہے ’’آبادی کا قریباً نصف حصہ 2ڈالر یومیہ سے کم کماتا ہے۔۔۔جی ڈی پی کے 10فیصد کے برابر مالیاتی خسارے کے ساتھ ریاست ہر برس لیبر کی منڈی میں داخل ہونے والے700,000 بے روزگاروں کو روزگار نہیں دے سکتی۔۔۔مخالفین اخوان کو مذہبی جنون سے سرشار ایک پرا سرار تنظیم کے طور پیش کرتے ہیں، لیکن اس کا جامع پروگرام عملیت پسندی پر مبنی ہے جس میں شرح نمو نظریات سے زیادہ اہم ہے۔۔۔عرب کے موسم بہار کے بعد جو نئے تعلقات سامنے آئے ہیں ان میں انتہائی اہم مغربی پالیسی سازوں اور مصر کے اخوان المسلمین میں بڑھتی ہوئی گرمجوشی ہے۔اس کی بنیاد ضرورت پر ہے، لیکن یہ تعلق اس حقیقت سے مظبوط ہو ا ہے کہ معاشی معاملات پر اسلامی بنیاد پرست اور مغرب میں حیران کن طور پر کوئی اختلاف نہیں‘‘۔
ایلن وڈز نے مارکسسٹ ڈاٹ کام پر 12جون کو لکھا’’بورژوازی کے سنجیدہ نمائندے اخوان المسلمین کے حقیقی طبقاتی کردار کو بخوبی سمجھتے ہیں۔۔۔حکومت میں آ کر ان کے اعمال قرآنِ مقدس یا جمہوری نظریات پر نہیں بلکہ خالصتاً ان کے طبقاتی مفادات کے تابع ہوں گے۔۔۔جس کا مطلب ہے کہ یہ محنت کش طبقے کے خلاف ظالمانہ پالیسی اپنائیں گے۔۔۔اخوان سب کے لیے سب کچھ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔عوام کے آگے وہ جمہوریت پسند اور انقلاب کے حامی بنتے ہیں، جرنیلوں سے آگے وہ نظم و ضبط کے سخت ترین محافظ ہیں۔ اسلامی بنیاد پرستوں کے آگے وہ خود کو پیغمبر سے بھی زیادہ نیک جتاتے ہیں۔امریکیوں کے آگے وہ مغرب کے دوست،معزز اسلامی جمہوریت پسند ہیں۔‘‘
ابتدا میں اسلامی بنیاد پرستوں نے حسنی مبارک کے خلاف تحریک کی حمایت نہیں کی تھی، لیکن اقتدار سے اس کی رخصتی کی شکل میں ان کو مسلح افواج کی سپریم کونسل کے ساتھ کا م کرنے اور حکومت میں شمولیت کا موقع نظر آیا۔ بورژوازی کی جس حصے کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں، اس نے لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بہت طویل انتظار کیا ہے۔وہ کارواں کے چلنے کے بعد اس میں شامل ہوئے لیکن ہر مرحلے پر انہوں نے جرنیلوں سے ڈیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ انقلابِ مصر کی سب سے بڑی طاقت اس کا خود رو پن تھا، لیکن یہی اس کی بنیادی کمزوری بھی ثابت ہوئی۔ مصری جرنیل، اپنے پاکستانی ہم پلہ جرنیلوں کی طرح ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کرنے کی جستجو میں ہیں جس کی بدولت وہ پارلیمانی دکھاوے کے پس پردہ کنڑول سنبھال سکیں۔تیونس، مصر اور دیگر ممالک میں انقلابات بالائی سیاسی ڈھانچے میں کسی سطحی تبدیلی کی خاطر برپا نہیں ہوئے، بلکہ غربت بے روزگاری، مہنگائی اور اذیت کا خاتمہ کرنے کے لیے شروع ہوئے جن کی وجہ یہ گلتا سڑتا سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس جدوجہد کو مصری عوام کی اکثریت کو نجات دلانے والی سماجی و معاشی تبدیلی کی جدوجہد کی بجائے محض سامراجی مخالف کھوکھلے نعروں اور مذہب اور سیکولر ازم کی جنگ تک محدود کر دینا مصری بائیں بازو کی مہلک ترین غداری ہو گی۔ یہ واضع ہے کہ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور رجعتی میڈیا کی یلغار کی وجہ سے انقلاب کے مقاصد مسخ ہوئے ہیں۔ لیکن ان انقلابات کو ابھارنے والا معاشی اور سماجی بحران مزید گہرا ہوا ہے۔ایک سوشلسٹ تبدیلی کے بغیریہ انقلابات فتح مند نہیں ہو سکتے۔
ڈیلی ٹائمز، یکم جولائی 2012ء
متعلقہ
مصر: رد انقلاب سے کیسے لڑا جائے؟