[تحریر: لال خان]
گزشتہ مہینے شہر کے بڑے اخبارات میں لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کی جانب سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں مسیحی برادری کو ایسٹر کی ’’مبارکباد‘‘ پیش کی گئی تھی۔ اشتہار کی اختتامی سطور کچھ اس طرح سے تھیں: ’’آج ایسٹر کے تہوار کے موقع پر کمپنی کے 6000 ملازمین چھٹی پر ہیں۔ عوام سے درخواست ہے کہ گھروں سے باہر کوڑا نہ پھینکیں۔‘‘ یہ ایک اشتہار اس ملک میں مذہبی اقلیتوں کی طرف روا رکھے جانے والے رویے کی عکاسی بخوبی کرتا ہے۔ ایک زحمت طلب پیشے کی تضحیک اور انسانی محنت کی تذلیل اس سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ لسانی، فرقہ وارانہ اور جنسی بنیادوں پر متعصب نفسیات رکھنے والے یہاں کے حکمران طبقے کے دل و دماغ محنت کشوں کے بغض اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں آباد عیسائی، ہندو، سکھ اور دوسری مذہبی اقلتیں صرف ضیاالحقی قوانین کا ہی شکار نہیں ہیں بلکہ انہیں کام کی جگہوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر جگہ پر تعصب آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومتی یا نیم حکومتی خیراتی سکیموں، خاص کر زکوٰۃ میں سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا ہے۔ اقلیتوں کے لئے شادی اور طلاق کے قوانین بھی تلخ اور پیچیدہ ہیں اور شادی کی رجسٹریشن تواکثریت کی مالی پہنچ سے باہر ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے سندھ میں کنواری یا شادی شدہ ہندو لڑکیوں کے اغوا، زبردستی قبول اسلام اور جبری شادی کی خبریں مسلسل منظر عام پر آرہی ہیں۔ میڈیا کے کچھ حصوں کی جانب سے مسلسل کوریج کے باوجود حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے جس کی وجہ سے ہندوؤں کی سندھ سے بھارت ہجرت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
ماضی قریب میں پوری کی پوری عیسائی بستیوں کو جلا دینے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ 98 فیصد مسلمان آبادی کے جس ملک میں مساجد اور امام بارگاہیں محفوظ نہ ہوں وہاں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں بھلا مذہبی جنونیوں کے قہر سے کیسے بچ سکتی ہیں؟ مندروں اور گرجا گھروں میں بم دھماکے، مسلح جتھوں کے حملے یا توڑ پھوڑ اب معمول کی بات ہیں۔ اس گلتے سڑے سماج سے اٹھنے والا تعفن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناقابل برداشت ہوتا چلا جارہا ہے۔ کفر کے فرقہ وارانہ فتوے ہر روز جاری ہورہے ہیں۔ درحقیقت، اس ملک میں ہر فرقے کے ملاؤں نے باقی تمام فرقوں کو کافر قرار دے رکھا ہے۔ ان فتووں کے مطابق، مجموعی طور پر پورا ملک کافر ہے۔ ماضی میں ’’بلاسفیمی‘‘ کے قوانین کا استعمال صرف ریاست، ملا یا بالادست طبقہ ہی کرتے تھے لیکن اب ان قوانین کا ’’معاشی‘‘، سیاسی اور ذاتی استعمال عام ہوگیا ہے۔ پراپرٹی کے جھگڑوں، بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے علاوہ ذاتی دشمنیوں میں بھی فقط ایک ’’الزام‘‘ لگا کر دوسرے فریق سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔ کچھ روز قبل ہی جھنگ میں ایس ایچ او کے خلاف احتجاج کرنے والے 68 وکیلوں کے خلاف پولیس نے ’’توحین رسالت‘‘ کا مقدمہ درج کیا ہے۔ اس مقصد کے لئے ایس ایچ او کے اسلامی نام کو جواز بنایا گیا ہے جس کے خلاف مظاہرین نعرے لگارہے تھے۔ متعلقہ ایس ایچ او خود کو رانا ثنااللہ کا رشتہ دار بتاتا ہے۔ ٹیلیوژن پر زبان کی پھسلن بھی وبال جان بن سکتی ہے۔
ملاؤں اور دائیں بازو کے سرکاری دانشوروں کی جانب سے عیسائیوں اور دوسرے غیر مسلموں کے ’’کم تر انسان‘‘ ہونے کا جو تاثر دیا جاتا ہے اس سے ایک مخصوص نوعیت کی سماجی نفسیات جنم لیتی ہے۔ اسی طرح سرکاری نصاب میں ’’ہندؤں نے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں سے غداری کی‘‘ اور ’’کافروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا‘‘ جیسے جملے ’’تاریخ‘‘ کے نام پر پڑھائے جاتے ہیں۔ جہاں ٹیلیوژن چینلز پر براہ راست پروگراموں میں مذہبی اقلیت کے افراد کا مذہب تبدیل کروا کے بلے بلے کی جاتی ہو وہاں سماج میں کس قسم کی نفسیات پروان چڑھ سکتی ہے؟
’’عوام قوانین کے بارے میں جتنا کم جانتے ہیں، رات کو اتنی ہی پرسکون نیند سوتے ہیں۔ ‘‘یوں محسوس ہوتا ہے کہ انیسویں صدی میں جدید اور یکجا جرمنی کی بنیاد ڈالنے والے سیاسی رہنما بسمارک نے یہ الفاظ پاکستان کی قانونی اور آئینی بھول بھلیوں کے بارے میں کہے تھے۔ ضیاالحق آمریت کے دوران 1973ء کے آئین میں مذہبی بنیاد پرستی کا زہر ایسا گھولا گیا کہ اس کے بعد آنے والی کوئی بھی ’’جمہوری حکومت‘‘ ان رجعتی قوانین کا خاتمہ نہیں کرسکی۔ آج بڑے بڑے سیکولر اور لبرل سیاستدان بھی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے سے قبل اسی آئین اور قانون کی پاسداری کا حلف دیتے ہیں۔ برطانوی راج کے قائم کردہ قانونی نظام کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین پر عملدرآمد کا متوازی نظام قائم کردیا گیاہے۔ ریاستی مشینری کی درمیانی اور نچلی پرتوں کی مدد سے ان قوانین سے بوقت ’’ضرورت‘‘ استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ رشوت ستانی کے ذریعے یہ عمل اور بھی آسان ہوجاتا ہے۔
عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق کے ساتھ ساتھ الگ نشستوں کا اجرا اگرچہ ایک مثبت قدم تھا لیکن اس سے اقلیتوں کے مسائل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ قوانین کا اجراء اور ان پر عمل درآمد دو الگ چیزیں ہیں۔ اگر تمام رجعتی قوانین کا خاتمہ کرکے اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین بھی نافذ کردئے جائیں تو بھی زمینی صورتحال جوں کی توں رہے گی کیونکہ ان قوانین پر عملدرآمد کروانے والے ریاستی اہلکاروں کی نفسیات متعصب اور جانبدارانہ ہے۔ اگر کوئی ریاستی اہلکار، جج یا وکیل مذہبی جنونیوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے راستے سے ہٹا کر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ راشد رحمان کے وحشیانہ قتل کے بعد ملتان کے 7000 وکلا میں سے کوئی ایک بھی ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود بھی کہ آبادی کی اکثریت مذہبی بنیاد پرستی اور جنون کو مسترد کرتی ہے، پاکستان میں فرقہ واریت اور مذہبی تعصب سماج کی ایک وسیع پرت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
برصغیر کی جدید تاریخ میں مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے کا جرم کرنے والوں میں ’’امن‘‘ اور ’’عدم تشدد‘‘ کا علمبردار موہن داس گاندھی سرفہرست ہے۔ جناح، گاندھی کو مکار لومڑی کہا کرتا تھا اور یہ ’’خطاب‘‘ بڑی حد تک درست بھی تھا۔ ہندوؤں، مسلمانوں، عیساؤں اور سکھوں کو گاندھی جی کی جانب سے دیا جانے والا’’ ہم آہنگی‘‘ اور ’’اخوت‘‘ کا درس دراصل ہندوستان میں مذہبی تقسیم کو اجاگر کرنے کا باعث بنا۔ اس خطے کے عوام ہزاروں سالوں سے مذہبی تفرقات کو بالائے طاق رکھے ہوئے تھے لیکن مختلف مذاہب کا نام لے کر دئیے جانے والے ’’اتفاق‘‘ کے درس سے الٹ نتائج برآمد ہوئے۔ گاندھی کو بھی اس بات کا بخوبی علم تھا۔ برطانوی نوآبادکاروں نے روز اول سے برصغیر کے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن گاندھی نے مذہبی شناخت کو ابھار کر منافرتوں کا بیچ بویا اور اس سامراجی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا۔ اسی بنیاد پر بعد ازاں برصغیر تقسیم ہوا اور خطے کے طول و ارض میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ تقسیم کے بعد سے خطے کے تمام ممالک میں مذہبی بنیادوں پر نفرت اور تشدد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی فسادات اسی ملک میں ہوتے ہیں۔
برصغیر کے حکمران ’’تقسیم کر کے حکومت‘‘ کرنے کی سامراجی پالیسی کو آج بھی جارے رکھے ہوئے ہیں۔ ایک جدید اور ترقی یافتہ سماج کی تعمیر میں ناکام ہوجانے حکمران طبقے کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی لوٹ مار اور استحصال جاری رکھنے کے لئے عوام کو مذہب اور فرقے کی بنیاد پرمسلسل تقسیم کرتا رہے۔ معیشت کے بحران اور سماجی خلفشار کے ساتھ فرقوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ نام نہاد سیکولر سیاستدان بھی بوقت ضرورت مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔
مخصوص نشستوں پر انتخاب جیسے مصنوعی اقدامات کے ذریعے سماج اور ریاست کی جانب سے اقلیتوں پر جبر خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ منتخب نمائندے اسی جابرانہ نظام کے ایوانوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بالادست طبقات کے افراد اورامرا اس ملک کے حکمران طبقے کا ہی حصہ ہیں۔ وہ ہر فیصلہ کن موڑ پر اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے غریبوں کی بجائے ریاست اور حکمران طبقے کا ساتھ دیں گے۔ نہ ہی قانون سازیوں سے مسائل ہوتے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر ہونے والے ظلم سے نجات صرف طبقاتی بنیادوں پر یکجہتی کے ذریعے سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بھوک، بیروزگاری، غربت اور مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا ہر مذہب، ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے غریب انسان کو ہے۔ نیم رجعت، مایوسی اور شعوری گراوٹ کی موجودہ معروضی صورتحال زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتی۔ طبقاتی جدوجہد کا نیا ابھار ہوکر رہے گاجسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے محنت کش عوام کو تمام منافرتوں اور تعصبات کو مسترد کرنا ہوگا!
متعلقہ:
درندگی کا راج
منافرتوں کی یکجہتی
قدامت پرستی کا جبر
مذہبی درندگی۔۔۔آخر کب تک؟
بنیادی پرستی کا چھلاوا