’’جرنیلوں نے جب فوجی کُو کرنا ہوتا ہے تو میڈیا پر باقاعدہ اعلان کے بعد کور کمانڈروں کی میٹنگ اور پھر پریس ریلیز جاری نہیں ہوا کرتی۔ ۔ ۔‘‘
[تحریر: لال خان]
پاکستان جیسے ممالک میں سیاست، ریاست اور معیشت کا مستقل بحران جب شدت اختیار کرنے لگتا ہے تو فوجی مداخلت اور مارشل لا کی چہ مگوئیاں ہونے لگتی ہیں۔ میڈیا اور صحافت کا ایک مخصوص دھڑا یہ سنسنی مسلسل قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تیسری دنیا میں معاشی عدم استحکام اور سماجی خلفشار ریاستوں کو بھی انتشار اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار رکھتا ہے۔ حالات جب بے قابو ہوجاتے ہیں اور نیو کالونیل استحصالی ڈھانچہ ڈگمگانے لگتا ہے تو عسکری اشرافیہ کو ناگزیر طور پر اپنی ’’قانونی‘‘ حدود سے تجاوز کرنا پڑ تا ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران میں درمیانے طبقے کے کچھ خود ساختہ اور ظاہریت پسند ’’دانش ور‘‘ ایک بار پھر فوجی مداخلت کا تناظر دے رہے ہیں۔ تشویشناک حد تک عدم استحکام سے دوچار معاشروں میں محلاتی سازشوں کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔
حالیہ بحران نے ’’جمہوری‘‘ حکومت کی بے بسی اور کھوکھلے پن کو خوب عیاں کیا ہے۔ چند ہزار افراد کے یہ علامتی لانگ مارچ اور نیم دھرنے انتہائی لاغر اور بے معنی ہونے کے باوجود سویلین حکمرانوں کے لئے درد سر بن گئے ہیں۔ اس جمہوریت کا مینڈیٹ بھی بے نقاب ہوا ہے۔ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ انتخابات میں بڑی اکثریت اور عوامی حمایت دو الگ چیزیں ہیں۔ نواز شریف کے پاس اگر عوامی حمایت ہوتی تو وہ کبھی فوج، کبھی اپوزیشن اور کبھی متحارب سیاسی گروہوں سے التجائیں نہ کرتے پھر رہے ہوتے۔ مبینہ دھاندلی سے ہٹ کر بھی، مئی 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف کو امید کا نہیں بلکہ مایوسی کا ووٹ پڑا تھا۔ محنت کش عوام کی سیاسی روایت، پیپلز پارٹی نے اپنی عوام دشمن معاشی پالیسیوں اور نظریاتی انحراف سے دائیں بازو کی انتخابی فتح کی راہ ہموار کی تھی۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے نعرے اور جذبات، نظریات کی سچائی سے خالی ہیں۔ حکومتیں بدلنے اور ’’شفاف انتخابات‘‘ کرانے کے پروگرام، معاشی و سماجی حالات اور رائج الوقت نظام بدلنے کے لئے نہیں ہوتے۔ ’’نظام‘‘ کی بنیاد ذرائع پیداوار (فیکٹریوں اور جاگیروں) اور دولت کے ملکیتی رشتے ہوتے ہیں جنہیں بدلنے کے کسی پروگرام، لائحہ عمل اور نیت سے عمران خان عاری ہے۔ تو پھر ’’تبدیلی‘‘ کیسی؟ ایسے نظام میں بہتری اور اصلاحات کیونکر ممکن ہیں جو سماجی ارتقا کو آگے بڑھانے کی بجائے معاشرے کو پسماندگی کی اندھیری کھائی میں دھکیل رہا ہے؟ حکمران طبقے کے ایک دھڑے کو ہٹا کر دوسرے کو سیاسی اقتدار پر براجمان کر دینے سے ’’آزادی‘‘ نہیں ملا کرتی۔
سوشل ڈیموکریسی پر مذہب کا تڑکہ لگا کر تیار کیا گیا طاہر القادری کا ’’انقلاب‘‘ خاصا مضحکہ خیز ہے۔ متضاد نظریات اور مبہم اصطلاحات کا عجیب ملغوبہ ہے۔ وہ سوشل ڈیموکریسی جو یورپ سے لے کر جاپان اور آسٹریلیا تک ذلیل و رسوا ہو کر سیاسی انہدام کا شکار ہورہی ہے، اب پاکستان جیسی بوسیدہ سرمایہ داری میں روح پھونکے گی؟دو متضاد طبقات میں ’’لین دین‘‘ کے ذریعے مصالحت کبھی ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے۔
فوجی مداخلت کا مفروضہ بھی عجیب ہے۔ جرنیلوں نے جب فوجی کُو کرنا ہوتا ہے تو میڈیا پر باقاعدہ اعلان کے بعد کور کمانڈروں کی میٹنگ اور پھر پریس ریلیز جاری نہیں ہوا کرتی۔ سیاست اور ریاست کے سارے معاملات قابو میں کر لینے کے بعد سرکاری ٹیلی وژن چینل پر’’عزیز ہم وطنوں‘‘ کے نام رسمی پیغام نشر کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں فوجی کُو کی آٹھ کوششیں ہوئی ہیں جن میں چار کامیاب رہیں۔ ناکام ہونے والی چار بغاوتوں میں 1951ء میں جنرل اکبر کا مشہور زمانہ راولپنڈی سازش کیس، 1973ء میں میجر نادر پرویز پر نادر سینما راولپنڈی میں فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کا کیس، 1979ء میں جنرل تجمل کی طرف سے فوجی کُو کی کوشش اور 1995ء میں برگیڈئیر ظہیرالاسلام عباسی کی بے نظیر حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت شامل ہیں۔ 1958ء میں ایوب خان، 1969ء میں یحییٰ خان، 1977ء میں ضیا الحق اور 1999ء میں پرویز مشرف اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک کے درمیانی عرصے میں پاکستان کی معروضی صورتحال بہت حد تک بدل چکی تھی۔ معاشی تنزلی اور سماجی خلفشار شدت اختیار کر گئے تھے اور فوج کی داخلی کیفیت بہت مختلف تھی۔ چین آف کمانڈ کی گرفت کسی حد تک ڈھیلی ہوچکی تھی۔ پرویز مشرف کی جانب سے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کی بجائے ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کے عہدے کا اجرا محض اتفاق نہیں تھا۔ موجودہ حالات میں اسلام آباد پولیس کے سپاہیوں کے پست حوصلے اور افسران کی ’معذرت‘ سے سرکاری رٹ لاگو کروانے والے دوسرے ریاستی اداروں کی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
فریڈرک دی گریٹ کے زیر اقتدار 18صدی کی پروشین ریاست (موجودہ جرمنی کا سب سے بڑا حصہ) کے بارے میں نشاط ثانیہ کے مشہور فرانسیسی مفکر نے کہا تھا کہ ’’ باقی ریاستوں کے پاس فوج ہوتی لیکن پروشین فوج کے پاس ریاست ہے۔ ‘‘پاکستان میں فوج کا مسلسل آنا جانا بے سبب نہیں ہے۔ اس عمل کی ٹھوس معاشی وجوہات موجود ہیں۔ یہاں کے حکمران سرمایہ دار ایک جدید صنعتی ریاست کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں۔ مالیاتی طور پر نحیف، تکنیکی طور پر پسماندہ اور تاریخی طور پر تاخیر زدہ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ ٹیکس، گیس، بجلی کی چوری اور قرض خوری کے بغیر اپنی شرح منافع ہی برقرار نہیں رکھ سکتا ہے۔ یہ حکمران طبقہ ریاست کو امیر اور مضبوط کرنے کی بجائے ہمیشہ اسے لوٹنے میں مصروف رہا ہے۔ جمہوریت کے تحفظ کے لئے جان قربان کرنے کی باتیں کرنے والے سیاستدان خود اتنے کرپٹ اور نااہل ہیں کہ آج تک صحت مند پارلیمانی جمہوریت کی معاشی اور سیاسی بنیادیں فراہم نہیں کرسکے۔ ان حالات میں ریاست کا مضبوط اور منظم ترین ادارہ ہونے کی وجہ سے روز اول سے ہی سیاست اور ریاستی اقتدار میں فوج کی مداخلت موجود رہی ہے۔ اسی عمل میں رفتہ رفتہ فوج خود ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور مالیاتی ادارہ بن چکی ہے جس نے رئیل اسٹیٹ سے لے کربنکاری تک، ہر منافع بخش شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ’’جمہوریت‘‘ ہو یا آمریت، سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست کی حفاظت کے لئے فوج داخلی اور خارجی پالیسیوں پر ہمیشہ حاوی رہتی ہے۔
موجودہ صورتحال میں میڈیا کا کردار بھی واضح ہوا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ کس کے اشاروں پر کون سا چینل کس قسم کی منظر کشی کررہا ہے۔ نہ صرف ’’آزاد‘‘ میڈیا کی جانبداری عیاں ہوئی ہے بلکہ اس کوریج میں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی لڑائی بھی جھلک رہی ہے۔ فوجی مداخلت کے شور میں جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کی ملاقات کے مناظر بھی بار بار ہر زاویے سے دکھائے جارہے ہیں۔ کچھ اینکر حضرات کے مطابق اس ملاقات میں جنرل راحیل خاصے جلال میں نظر آرہے تھے۔ لیکن یہ باڈی لینگویج غصے سے زیادہ تناؤ اور ہچکچاہٹ کی عکاس تھی۔ ملک کی بھیانک معاشی صورتحال اور سماج کے بکھرتے ہوئے تانے بانے پر فوجی اشرافیہ کی گہری نظر ہے۔ کراچی سے لے کر بلوچستان اور وزیرستان تک جاری خانہ جنگی اور مسلح تنازعات اس کے علاوہ ہیں۔ ان حالات میں براہ راست فوجی اقتدار کوئی خوشگوار آپشن نہیں ہے۔
اس ملک کا اقتدار اب اتنا پرکشش بھی نہیں رہا ہے۔ حالات کا ادراک رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور انسان کانٹوں کا یہ تاج سر پہ سجانا نہیں چاہے گا۔ حالیہ حکمرانوں کے لئے حکومت، سیاست اور کاروبار میں چونکہ کوئی خاص فرق نہیں ہے لہٰذا اقتدار سے چمٹے رہنے پر بضد ہیں۔ کاروبار سے آگے یہ کچھ سوچ سکتے ہیں نہ سوچنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی بے حسی اس ملک پر حکومت کرنے کی بنیادی شرط ہے۔ فوج کی کوشش یہی ہو گی مصالحت کے ذریعے کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے۔ لیکن حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان تصادم جتنی شدت اختیار کر گیا ہے وہاں درمیانی راستہ نکالنا بھی اتنا آسان نہیں ہوگا۔
اس سارے سیاسی بحران اور انتشار کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آمریت سے ڈرا کر جمہوریت کے نام پر عوام کا استحصال اور معاشی قتل عام کرنا اب آسان نہیں رہے گا۔ ’’آمریت‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کا یہ جعلی تضاد اب محنت کش عوام کو انقلابی راستے اور تحریک سے ہٹانے کے لئے موثر نہیں رہے گا۔ نواز شریف اگر وسیع عوام حمایت سے محروم ہے تو عمران خان اور قادری کے دھرنے بھی کوئی عوامی تحریک نہیں ہیں۔ ’’بلیک کامیڈی‘‘ کے اس سرکس سے بیزار اور سیاست سے نالاں عوام اپنے عذابوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن رکے ہوئے یہ دریا اگر بہہ نکلے تو پہاڑوں کے کلیجے چیر ڈالیں گے۔ انقلابات آئین، قانون، ’’شفاف‘‘ انتخابات، دھرنوں اور مذاکرات سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی دولت اور طاقت چھین کر برپا ہوتے ہیں۔ غلام داری سے جاگیر داری اور پھر سرمایہ داری تک کے نظاموں کی تاریخ میں اب صرف سوشلسٹ انقلاب ہی انسانی سماج کے ارتقاء کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ یہی انقلاب سامراجی لوٹ مار، لولی لنگڑی سرمایہ داری، جاگیر داری کی فرسودہ باقیات اور بدعنوانی کے استحصالی ملغوبے سے اس ملک کے کروڑوں انسانوں کو نجات دلا سکتا ہے۔ یہ تاریخی فریضہ کوئی فرد یا شخصیت نہیں بلکہ محنت کش طبقہ ایک لینن اسٹ بالشویک پارٹی کی قیادت میں ادا کرے گا!
متعلقہ:
جمہوریت کا بہروپ
غدار کون؟
آمریتوں کا آسیب
دولت والوں کی تکرار، عوام بیزار
جمود کا خلفشار
لانگ مارچ: افلاس سے بے مہر ٹکراؤ!
انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟