تحریر: اویس قرنی
6 نومبر 2018ء کو امریکہ میں عام انتخابات ہوئے ہیں جنہیں وسط مدتی انتخابات (مڈٹرم الیکشن) کے نام سے جا نا جاتا ہے۔ امریکی طرزِ انتخابات میں مڈٹرم الیکشنوں کو خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان انتخابات کا منتخب صدر کے عمومی دورانیہ کے تقریباً وسط میں ہونا ہے۔ ہر چار سال بعد نومبر میں ان انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان میں ایوانِ ریاستی نمائندگان (House of State Representatives)، جو امریکی کانگریس کا ایوانِ زیریں ہے، کی تمام 435 نشستوں اور سینیٹ، جو کانگریس کا ایوانِ بالا ہے، کی 35 نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں۔ انتخابی نتائج کچھ زیادہ حیران کن نہیں تھے البتہ ان نتائج سے امریکی سماج کی عمومی کیفیت اور مستقبل قریب کی پیش بینی کی جا سکتی ہے۔
مڈٹرم انتخابات میں صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کی سینیٹ میں اکثریت نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ڈیموکریٹس کو 2010ء کے بعد ایوانِ نمائندگان میں معمولی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ بیشتر ماہرین کے مطابق یہ انتخابات توازن قائم کرنے میں کارگر ثابت ہوئے ہیں نہ کہ کسی بڑی تبدیلی کا موجب بنے ہیں۔ اگرچہ ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کی اکثریت سے ٹرمپ انتظامیہ کو کچھ مسئلہ ضرور ہو گا۔ جہاں 2016ء کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی میں ہیلری کلنٹن کی نیولبرل اقتصادیات سے بیزاری اور ’سیاسی اسٹیبلشمنٹ‘ سے عوام کی مایوسی نے اہم کردار ادا کیا تھا وہیں ان انتخابات میں ڈیموکریٹس کی ایوان میں اکثریت کے پیچھے ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات کا اہم کردار ہے۔ ان انتخابات میں ٹرمپ مخالف عوامی ردعمل نے اپنا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ ٹرن آؤٹ پچھلی ایک صدی کی بلند ترین سطح تک پہنچا ہے جو کہ 49.3 فیصد ہے لیکن اتنی بڑی تعداد کے سیاسی اظہار کے پیچھے محنت کش طبقے کی کوئی تحریک نہیں تھی۔ نوجوانوں میں ویسا کوئی تحرک دیکھنے کو نہیں مل سکا جو 2016ء کے انتخابات میں برنی سینڈرز کے گرد ابھرتی ہوئی تحریک میں نظر آیا تھا۔ ووٹنگ میں حصہ لینے والی بڑی تعداد کا تعلق مضافاتی علاقوں کے سفید فام کالج طلبہ سے تھا۔ اگرچہ حالیہ انتخابات میں سیاہ فام افریقی امریکیوں اور لاطینی پس منظر سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ٹرمپ کی مہاجرین مخالفت اور نسلی تعصبات پر مبنی پالیسیوں کے اعلانات ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کی ایوانِ نمائندگان میں شکست کی ایک بڑی وجہ سوشل سیکورٹی میں اصلاحات کے نام پر تباہی کے اقدامات ہیں جن میں صحت کی سہولیات پر متواتر کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مضافاتی علاقوں اور روایتی طور پر ریپبلکن ریاستوں میں ہونے والی ڈیموگرافی کی تبدیلیاں بھی کسی حد تک کار فرما رہی ہیں۔
ایوانِ نمائندگان میں اب ڈیموکریٹس کی اکثریت صدر ٹرمپ کے خلاف اقدامات کی اہلیت رکھتی ہے۔ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک کی اہلیت ڈیموکریٹس کے پاس آگئی ہے۔جہاں امریکہ کا حکمران طبقہ ٹیکس میں کمی اور ریگولیشن کو محدود کرنے جیسی پالیسیوں سے اپنے منافعوں کو مزید بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے وہیں صدر ٹرمپ کی کئی حرکتیں اور اقدامات، مثلاً تجارتی جنگ، جارحانہ بیان بازی وغیرہ، خود امریکی سامراج کے سنجیدہ پالیسی سازوں کے لئے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ لہٰذا اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ بوقتِ ضرورت ٹرمپ کو مواخذے کے ذریعے فارغ کرنے کی کوشش کی جائے یا کم از کم اُس قابو کرنے کے لئے دباؤ بنایا جائے۔
بیشترامریکی ریاستوں کے قوانین کے مطابق سنگین جرائم میں ملوث افراد کوووٹ کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی 60 لاکھ امریکیوں کو ان قوانین کی بنیادپرووٹ کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ یہ قدغن زیادہ تر افریقی امریکیوں پر لگی ہے جبکہ سفید فام آبادی میں یہ شرح نہایت ہی کم ہے۔ ووٹ کے حق سے محرومی اس وقت امریکہ میں ایک سنجیدہ سیاسی مسئلہ بن کے سامنے آئی ہے لیکن امریکی طرزِانتخابات میں دیگر بے شمار پیچیدگیاں بھی موجود ہیں جس کا ایک اظہار ہمیں 2016ء کے انتخابات میں بھی نظر آیا تھا جب ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ کے مقابلے میں 30 لاکھ زائد ووٹ ملے تھے لیکن ’الیکٹورل کالج ‘ نظام کے تحت صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کو ملی تھی۔
سرمائے کی نمائندہ دونوں پارٹیوں کے غلبے، انتخابی عمل کی پیچیدگیوں اور بالواسطہ دھاندلی کے گھاگ طریقہ واردات کے باوجود حالیہ انتخابات اہمیت کے حامل تھے۔ امریکہ میں اس وقت ٹرمپ کے حمایتوں میں زیادہ تر معمر سفید فام مرد نظر آتے ہیں۔ دیگر قومیتوں و نسلوں سے تعلق رکھنے والی وسیع آبادی ، خواتین کی بڑی تعداد، ’LGBT‘ کمیونٹی و کارکنان اور زیادہ تر نوجوان یا تو تذبذب اور بیزاری کا شکار ہیں یا کسی نہ کسی نوعیت کی ٹرمپ مخالفت میں سرگرم ہیں۔ اس حقیقت نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ایوانِ زیریں میں جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے امیدواروں کی اکثریت سفید فام نہیں تھی اور خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد ان میں شامل تھی۔ البتہ خواتین کی تعداد اب بھی ایوانِ زیریں کی 435 نشستوں کے ایک چوتھائی سے تھوڑی کم ہے۔ لیکن زیادہ تر کامیاب خواتین امیدواروں کا تعلق اقلیتوں سے ہے۔ اگرچہ ڈیموکریٹک پارٹی کو کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن حالیہ نتائج نے امریکی محنت کشوں میں موجود تقسیم اور تذبذب کو بھی ظاہر کیا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے ٹرمپ کی پالیسیوں سے خوفزدہ سیاہ فام امریکیوں اور تارکین وطن کو اپیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے پاس ٹرمپ سے ہٹ کر کوئی متبادل معاشی پروگرام نہیں ہے۔ جیسا کہ گور ویڈال نے کہا تھا کہ امریکہ میں ایک ہی پارٹی ہے جو پیسے والوں کی پارٹی ہے جس کے دو دائیں بازو (ریپبلکن اور ڈیموکریٹس) ہیں۔
حالیہ انتخابات میں چند غیر معمولی نتائج بھی سامنے آئے ہیں ۔ ریاست میساچوسٹس میں ’آیاناپر یسلے‘ پہلی سیاہ فام ممبر کے طور پر ایوان زیریں میں منتخب ہوئی ہیں۔ ریاست مشیگن میں راشدہ طلیب پہلی فلسطینی امریکی ہیں جو کانگریس کی رکن منتخب ہوئی ہیں ۔ ان کی انتخابی مہم کی بنیاد ’صحت سب کے لئے‘، فی گھنٹہ کم از کم اجرت 15 ڈالر اور امیگریشن اور کسٹم سروسز کے خاتمے پر تھی۔ راشدہ کے علاوہ پہلی سومالی امریکن خاتون ’الہان عمر‘ ریاست مینیسوٹا سے منتخب ہوئیں۔ جن کی انتخابی مہم فی گھنٹہ کم از کم اجرت 15ڈالر اور سستی تعلیمی کے لئے تھی۔ کم عمر ترین رُکن کانگریس کے طور پر نیویارک سے کامیاب ہونے والی ’الیگزنڈریا اوکاسیو کارٹز‘ نے بھی ریڈیکل نعروں پر جیت حاصل کی۔ اسی طرح ان انتخابات میں پہلی مرتبہ ایک ’نیٹو امریکی‘ (امریکہ کے قدیم مقامی باشندے) خاتون کامیاب ہوئیں اورایک علی الاعلان ہم جنس پرست شخص سٹیٹ گورنر کے طور پر کامیاب ہوئے۔ لیکن ان تمام غیر معمولی کامیابیوں کی بنیادی وجہ ریڈیکل انتخابی مہمات اور پروگرام تھے ۔ ان نعروں کی بنیاد پرحاصل ہونے والی کامیابی جہاں امریکی حکمران اشرافیہ کے کچھ حصوں کے لئے تشویش کا باعث بنی ہے وہاں ان امیدواروں کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی قیادت بھی دانت پیس رہی ہے۔ حکمران طبقے کے شاطر حصے ایسی کچھ آوازوں کے سامنے آنے کو عوام کے غصے کو بتدریج زائل کرنے کا طریقہ بھی سمجھتے ہیں۔
اپنی متوقع شکست کے پیش نظر صدر ٹرمپ نے ستمبر سے ہی چین پر انتخابات میں دخل اندازی کے الزامات لگانے شروع کردئیے تھے۔ اس سے قبل ڈیموکریٹس نے اس قسم کے الزامات روس پر بھی لگائے تھے۔ یہ درست ہے کہ ماڈرن ٹیکنالوجی نے انتخابی عمل میں دخل اندازی ممکن بنائی ہے لیکن اگرکوئی حکومت یا پارٹی محنت کشوں کی امنگوں کی ترجمانی کر رہی ہو تو پھر اس قسم کی دخل اندازیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جیسا کہ خود امریکی سامراج نے ہی سالہا سال کیوبا اور وینزویلا کی انقلابی حکومتوں کے خلاف وارداتیں جاری رکھیں لیکن وہاں کے عوام نے انہیں مسلسل ناکام و نامراد بنایا۔
اپنی بھونڈی پالیسیوں، مضحکہ خیز حرکتوں اور ڈھٹائی پر مبنی بیانات کیساتھ صدر ٹرمپ آج عالمی سرمایہ داری کے زوال کا مجسم اظہار ہے۔ ٹرمپ کے علاوہ ہندوستان میں نریندرامودی، پاکستان میں عمران خان، فلپائن میں ڈیوٹرٹے اور اب برازیل میں بولسنارو نے بھی اس نظام کے بحران کو آشکار کیا ہے ۔ اس سے پہلے بھی سامراجی جبر کچھ کم نہیں تھا لیکن ٹرمپ نے لبرلزم کے اُن تمام پردوں کو چاک کر دیا ہے جو اس جبر پر چڑھائے جاتے رہے ہیں۔ ماحولیات کی تباہی ہو یا خواتین اور نسلی اقلیتوں کے مسائل، ہر محاذ پر ٹرمپ نے امریکی سامراج کی پراگندگی کو کھول کے سامنے رکھ دیا ۔ لیکن نہ صرف چین بلکہ اپنے ہی اتحادی ممالک کیساتھ تجارتی جنگ کی بڑھک بازیاں ہوں، فرانسیسی صدر میکرون، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان یا پھر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کے ساتھ ٹوئٹر پر مضحکہ خیز لڑائیاں ہو ں ان سب واقعات سے امریکی سامراج کا خصی پن بھی ظاہر ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ سب سے بڑھ کر اس معاشی، سفارتی، عسکری اور ثقافتی بحران کا اظہار ہے جس کا شکار امریکی حکمران طبقہ ہو چکا ہے۔ میکسیکو کے باڈر پر کمسن بچوں کو ماؤں کی گود سے محروم کیا جا رہا ہے۔ دسیوں ہزار بے یارو مددگار تارکین وطن ٹرمپ انتظامیہ کے ظلم کے نشانے پر ہیں۔ سعودی حاکمیت کے ایک حصے کے ہاتھوں جمال خشوگی کے وحشایہ قتل پر ٹرمپ کے ردعمل نے انسانی حقوق کی علمبردار امریکی ریاست کی قلعی کھول دی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اس نظام میں پیسے کے مفادات‘ انسانی جانوں اور سفارتی آداب سے کہیں زیادہ مقدم ہوتے ہیں۔ فلسطین میں صیہونی ریاست کی مسلسل جارحیت اور قتل و غارت ہو یا پھر یمن میں بھوک اور بارود سے معصوم بچوں کی بچھتی ہوئی لاشیں ‘ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سامراج کے وحشیانہ کردار کی محض کھلی عکاسی ہی کی ہے۔
ریاستِ کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگی تاریخ کی بدترین آگ کے المیے پر ٹرمپ کے بیانات نے عام امریکیوں کے زخموں پر نمک ہی چھڑکا ہے ۔ کئی لاکھ ایکڑوں پر پھیلی اس آگ میں درجنوں افراد جھلس کے مر گئے اور سینکڑوں ابھی تک لاپتہ ہیں لیکن ٹرمپ نے اس آگ کی ذمہ داری جنگلات انتظامیہ کے عملے پر عائد کر دی ہے۔ پس پردہ یہ کاوش جاری ہے کہ اربوں ڈالر مالیت کی اس اراضی کو کارپوریٹ سیکٹر کے چنگل میں پھینک دیا جائے۔ جبکہ ماہرین کے مطابق آگ لگنے کی بنیادی ذمہ داری ایک نجی کمپنی ’پیسفک گیس اینڈ الیکٹرک‘ (PG&E) پر عائد ہوتی ہے۔ وارننگ کے باوجود خراب موسم میں بجلی کی سپلائی معطل نہیں کی گئی جو آگ لگنے کی وجہ بنی۔ ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات پر پی جی اینڈ ای کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دائر کی گئیں لیکن آج تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
ٹرمپ ایک ساہو کار اور بیوپاری کے انداز میں امریکہ کو چلانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے مطابق ماضی میں پالیسیاں امریکی مفادات کے مطابق تشکیل نہیں دی گئیں اور اب وہ سب کچھ ’امریکی مفادات‘ میں کرے گا۔ لیکن اس کی پالیسیاں نہ صرف امریکی سامراج بلکہ عالمی سرمایہ داری کے بحران کو مزید گہرا ہی کر رہی ہیں۔جس کا اظہار کچھ ہی دن قبل جنرل موٹرز کی جانب سے 15 ہزار ملازمین کو فارغ کیے جانے اور پانچ اسمبلی پلانٹ بند کرنے سے بھی ہوتا ہے۔ جس پر ٹرمپ نے خاصے غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور کمپنی کی سبسڈیاں ختم کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو جس نظام پر وہ براجمان ہے وہ خود ایسی متروکیت کا شکار ہے کہ اس کے پاس کچھ اور کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ آج نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایسے مسخروں کی حکومتیں، جو انتظامی عوامل کو ہی سارے مسائل کا موجب قرار دے رہی ہیں، اسی مظہر کا اظہار کرتی ہیں۔ کرپشن و بد انتظامی کا بہت شور مچایا جاتا ہے جبکہ یہ مسائل سرمایہ داری کے اپنے بحران کی ناگزیر پیداوار ہیں۔ نہ کہ اس کی وجہ۔
12 ستمبر 2018ء کے امریکی ادارہ مردم شماری کے جاری کردہ 2017ء کے اعداو شمار کے مطابق امریکہ میں 3 کروڑ 97 لاکھ لوگ غربت میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ جو کل آبادی کا 12.3فیصد بنتا ہے یعنی ہر 8میں سے ایک فرد۔ جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق 1 کروڑ 85 لاکھ امریکی اتھاہ غربت میں غرق ہو رہے ہیں ۔اسی طرح سے امارت اور غربت کے مابین خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریوں میں دولت کے انبار لگ رہے ہیں تو دوسری طرف آبادی کی وسیع اکثریت بنیادی ضروریات زندگی کی متلاشی ہے۔ 1فیصد امیر ترین طبقہ ‘نچلے 99 فیصد سے 26.3 گنا زائد دولت سالانہ اکٹھی کر رہا ہے۔ لیکن امریکی سماج بالخصوص نوجوانوں میں بغاوت کی روش تقویت پکڑتی نظر آ رہی ہے۔ 2016ء کے انتخابات میں برنی سینڈرز کے گرد متحرک ہونیوالے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس حقیقت کی نشاندہی کی تھی۔ یہ عمل کبھی کچھ پسپائی کا شکار ہو سکتا ہے یا زیر زمین جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں ہو سکتا۔ پچھلے عرصے میں ڈیموکریٹک پارٹی میں ’ڈیمو کریٹک سوشلسٹس آف امریکہ‘ کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ جس کے ملک بھر میں پچاس ہزار کے قریب ممبران ہیں جن میں نوجوانوں کی بھاری اکثریت ہے۔ نوجوانوں کی یہ بڑی تعداد ریڈیکل نظریات کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ انہیں انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر جیتا جا سکتا ہے۔ لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے تاریخی رجعتی کردار اور سخت کارپوریٹ جکڑ بندی کے پیش نظر اس کے اندر یہ لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ آنے والے واقعات اور حالات، جو بہت تیزی سے بدل سکتے ہیں، محنت کشوں کی اپنی پارٹی اور انقلابی قیادت کا سوال ناگزیر طور پر اٹھائیں گے۔ امریکی محنت کشوں کو حقیقی معنوں میں اپنی نمائندہ پارٹی، جو اپنی شروعات سے ہی انتہائی ریڈیکل پروگرام کی حامل ہو گی، کی تشکیل کے لئے سخت لڑائی لڑنا ہو گی اور سرمائے کی سیاست کے ہر بندھن سے خود کو آزاد کروانا ہو گا۔ اگر ڈیموکریٹک امید وار 15 ڈالر فی گھنٹہ اجرت، سب کے لئے صحت کی سہولیات ، سستی تعلیم کی فراہمی وغیرہ کے پروگرام پر تاریخ ساز کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں تومحنت کشوں کے آزادانہ سیاسی پلیٹ فارم سے ان مطالبات پر کہیں زیادہ وسیع حمایت حاصل کی جا سکتی ہے اور ان 50 فیصد عوام کو بھی سیاست میں متحرک کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ان انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالا ہے۔
اکتوبر 2018ء میں صدر ٹرمپ کی ’کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز‘ نے ایک طویل دستاویز مرتب کی ہے جس کا عنوان ہی امریکی ریاست کے خوف کو عیاں کرتا ہے۔ 72 صفحات پر مبنی اس دستاویز کا عنوان ’’The Oppertunity Cost of Socialism‘‘ رکھا گیا ہے۔ پہلی سطرمیں ہی یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ کارل مارکس کے200ویں جنم دن پر سوشلزم نے امریکی سیاست میں اپنی واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ دستاویز حکمران طبقات کے پالیسی سازوں کے ہیجان کو بیان کرتی ہے کہ وہ کس قدر سوشلزم سے خوفزدہ ہیں۔ سٹالنزم کی تمام تر ناکامیوں و نامرادیوں کو سوشلزم کے ذمے ڈال کر سرمایہ داری کی بربریت کو صدا دوام نہیں بخشا جا سکتا۔کا مریڈ لینن کے بقول مارکسزم اٹل اور ناقابل شکست ہے کیونکہ یہ سچ ہے۔ آج ایک بار پھر سوشلسٹ نظریات کی سچائی نہ صرف سرمایہ داری کے بڑھتے بحران بلکہ تحریکوں کے میدان عمل میں آشکار ہو رہی ہے اور ثابت کررہی ہے کہ انسانیت کا مقدر بربادی نہیں سوشلزم ہے!