[تحریر: لال خان]
گزشتہ دو دہائیوں سے بالعموم اور 2008ء کے بعد سے بالخصوص، کرہ ارض پر شاید ہی کوئی ملک عدم استحکام اور انتشار سے محفوظ رہا ہو۔ معاشی اور سیاسی بحران یا پھر خانہ جنگیاں، خونریز تصادم اور دہشت گردی۔ ۔ ۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر تیسری دنیا تک سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت اپنا اظہار مختلف سطحوں، شدت اور طریقوں سے کر رہی ہے۔ عراق، پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں کھلی بربریت انسانی سماج پر منڈلا رہی ہے تو یورپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک معاشی زوال، گرتے ہوئے معیار زندگی اور سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہوچکے ہیں۔ تاہم کسی بھی خطے میں عوام کے مصائب کا موازنہ اس اذیت، غیر یقینی صورتحال اور ظلم و استحصال سے نہیں کیا جاسکتا جس کا شکار ہوئے مشرق وسطیٰ کے باسیوں کو تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔
پہلی جنگی عظیم کے آغاز پر سلطنت عثمانیہ کے انہدام کے بعد سامراجیوں نے اپنے معاشی اور اسٹریٹجک مفادات کے تحت اس خطے کو 1916ء کے سائیکس پیکوٹ معاہدے اور 1918ء کے بالفور سمجھوتے کے ذریعے مصنوعی ریاستوں میں تقسیم کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد شعور ی طور پر قومی اور مذہبی تضادات کو ابھار کر مشرق وسطیٰ کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار رکھنے کے لئے اسرائیل کا سامراجی قلعہ تعمیر کیا گیا۔ ’’اقوام متحدہ‘‘ کے نام سے پہچانی جانے والی مغربی سامراج اور سٹالن ازم کی مکروہ مفاہمت کے ذریعے سے 1948ء میں اسرائیل کی پیدائش کے بعد سے مسئلہ فلسطین مشرق وسطیٰ کے سینے پر ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔ خطے میں تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ’’امن مذاکرات‘‘ کا نہ رکنے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عوام صیہونیت کی وحشت، اسلامی بنیاد پرستی کی رجعت، متعلق العنان بادشاہتوں کے جبر اور سامراجی استحصال کے ہاتھوں تاراج ہورہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ انتشار اور خونریزی بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت شام اور عراق میں جاری مختلف سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگ میں مذہبی جنونیوں اور قوم پرستوں کے درجنوں مسلح گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور خطے کی تقسیم در تقسیم کا تناظر روز بروز زیادہ واضح ہوتا جارہا ہے۔
1950ء، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں انقلابی تحریکوں یا عوامی دباؤ کے نتیجے میں مصر، شام، عراق، یمن اور لیبیا میں بائیں بازو کی حکومتیں برسر اقتدار آئیں جنہوں نے کم از کم سامراج کی جعلی سرحدوں کو مٹانے کی سعی ضرور کی۔ 1958ء سے 1961ء تک قائم رہنے والی مصر اور شام کی ’’متحدہ عرب ریپبلک‘‘ اور مصر، شام اور یمن کی ’’ریاست ہائے متحدہ عرب‘‘ اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ خود کو سوشلسٹ قرار دینے والی ان ریاستوں نے بڑے پیمانے پر سامراجی اثاثوں اور مقامی سرمائے کی نیشلائزیشن اور لینڈ ریفارمز کے ذریعے منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند معیشتوں کی تعمیر کا عمل شروع کیا جس کے عوام کا معیار زندگی تیزی سے بلند ہوا۔ تاہم بعث پارٹی کے علاقائی دھڑوں پر تنگ نظر قوم پرستی کی چھاپ، ’ایک ملک میں سوشلزم‘ کی تباہ کن پالیسی، منصوبہ بند معیشت میں افسر شاہانہ بد انتظامیوں اورٹھوس انقلابی لائحہ عمل کی عدم موجودگی میں بائیں بازو کے رجحانات اور حکومتیں 1980ء اور 90ء کی دہائیوں میں زوال پزیری کا شکار ہوگئیں۔
دو دہائیوں بعد 2011ء میں انقلاب کے نئے ابھار کا آغاز تیونس میں ہوا۔ بحر اوقیانس سے بحیرہ عرب تک، بپھرے ہوئے محنت کشوں اور نوجوانوں کا یہ ریلا، ایک کے بعد دوسرے ملک میں سرایت کرتا چلا گیا۔ بظاہر چٹان کی طرح مضبوط نظر آنے والی دہائیوں پرانی متعلق العنان آمریتیں ریت کے پہاڑ کی طرح ڈھے گئیں، بچ جانے والی آج تک لڑکھڑا رہی ہیں۔ عوام نے انقلابی تحریکیں اس معاشی نظام اور اس کے سیاسی ڈھانچوں کے خلاف برپا کی تھیں جس نے ان کی زندگیوں کو نسل در نسل استحصال اور جبر کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ مصر اور تیونس کے نوجوان سرمائے کی ’’جمہوریت‘‘ کی بجائے بے روزگاری سے تنگ آکر سڑکوں پر نکلے تھے۔ جولائی 2011ء میں اسرائیل میں بھی بڑے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ملک کی کل اسی لاکھ آبادی کا دس فیصد حصہ ’’سوشلزم اور سماجی انصاف‘‘ ، ’’ایک مصری کی طرح آگے بڑھو‘‘ اور ’’مبارک، اسد، نیتن یاہومردہ باد‘‘ کے نعروں کے ساتھ یروشلم، حائفہ اور تل ابیب کی سڑکوں پر تھا۔ ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے پکارا جانے والا انقلابات کا سلسلہ پورے خطے کا جغرافیہ، معیشت اور سیاست کو یکسر بدل سکتا تھا لیکن قیادت کا بحران جدید تاریخ کا سب سے بڑا انسانی المیہ ہے۔ درست تناظر اور لائحہ عمل فراہم کرنے والی لینن اسٹ سیاسی قوت کی عدم موجودگی میں ان تحریکوں کی زوال پزیری ناگزیر تھی۔ ان حالات میں عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں کو اپنی سیاسی کٹھ پتلیوں اور پراکسی گروہوں کے ذریعے مداخلت کے مواقع میسر آئے اور کئی ممالک میں انقلابی تحریکیں خانہ جنگی اور انارکی میں تبدیل ہوگئیں۔ شامی خانہ جنگی میں امریکہ، سعودی عرب اور قطر کے حمایت یافتہ جنگجو گروہوں سے برآمد ہونے والے ISIL نامی مذہبی جنونی گروہ کے ابھار سے شام اور عراق میں بربریت اور خونریزی کے نئے سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے۔
گزشتہ چند روز سے فلسطین اسرائیل تنازعہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ اسرائیل کی صیہونی ریاست کی جانب سے باقاعدہ حملے کا آغاز ہو چکا ہے اور حماس کے راکٹ صرف بنیامین نیتن یاہو کو سفاکی کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ صرف بدھ کی رات کو اسرائیلی فوج نے غزہ پر 160 فضائی حملے کئے۔ اب تک اسرائیل کے 500 سے زائد فضائی حملوں میں 88 فلسطینی ہلاک اور 450 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ 9 جولائی کو ہونے والے حملوں میں پانچ بچوں سمیت سات فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں کے’مزید‘ 64 گھر مسمار کئے جا چکے ہیں۔ تباہ حال غزہ مزید برباد ہورہا ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے فوج کو40,000 تک ریزو فوجی طلب کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے۔ اسرائیلی ٹینک اور توپیں سرحد پر جمع ہورہے ہیں اور سرکاری اہلکار غزہ میں ایک طویل فوجی مہم کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیرِ دفاع موشے یالون نے منگل کو کہا کہ ’’ہم حماس کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے ہیں جو چند دنوں میں ختم نہیں ہوگی۔‘‘
حماس کی طرف سے اسرائیلی شہروں پر 200 راکٹ داغے گئے ہیں۔ اسلامی جہاد اور حماس کی جانب سے داغے جانے والے زیادہ تر راکٹ اسرائیلی’’ آئرن ڈوم سسٹم‘‘ کے ذریعے فضا میں ہی تباہ ہورہے ہیں تاہم تل ابیب کے جنوب اور مشرق میں بچ جانے والے راکٹوں کے پھٹنے کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ حماس کے عسکری ونگ قسام برگیڈ نے کے مطابق وہ مقامی ساختہ ایم 75-راکٹ داغ رہے ہیں جو 80 کلو میٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ ایک راکٹ غزہ سے تقریباً ایک سو کلو میٹر دور واقع حضیرہ تک بھی پہنچا ہے۔
اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ تل السطان میں رہنے والی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں امِ فادی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’بچوں کو سیاست سمجھانا دشوار ہے۔ وہ محلے کے دوسرے بچوں سے سنتے ہیں کہ اسرائیل غزہ پر ایک مرتبہ پھر سے بمباری کر رہا ہے لیکن میں انہیں اس کی وجہ نہیں سمجھا سکتی۔‘‘ منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان الزامات کی تردید کی کہ اسرائیل عام فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’اسرائیل کا نشانہ حماس کے دہشت گرد ہیں نہ کہ بے گناہ شہری۔ اس کے بر عکس حماس والے اسرائیل کے عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں اور عام فلسطینیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا اسرائیلی اور عام فلسطینی شہریوں کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کی مکمل ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے۔‘‘ امریکی سامراج نے منافقت اور بربریت کا یہ سبق نیتن یاہو اور دوسرے اسرائیلی حکمرانوں کو بڑی اچھی طرح یاد کروایا ہے۔ بارود ’’گناہ گار‘‘ اور بے گناہ میں فرق نہیں جانتا۔ ڈی سی آئی فلسطین کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی پچھلی فوجی کاروائی کے دوران33 بچے ہلاک ہوئے تھے جبکہ2008-09ء میں تین ہفتوں پر محیط آپریشن کاسٹ لیڈ میں 353 بچے ہلاک اور860 زخمی ہوئے تھے۔ PLO میں پھوٹ ڈالنے، آزادی فلسطین کی طبقاتی تحریک کو مذہبی رجعت میں غرق کرنے اورمسلح جدوجہد میں شامل PFLP جیسے بائیں بازو کے گروہوں کو ’کاونٹر‘ کرنے کے لئے حماس جیسی اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کو بھی موساد اور سی آئی اے نے پروان چڑھایا تھا۔ آج دونوں اطراف کے عوام صیہونیت اور اسلامی بنیاد پرستی کی اس چکی میں پس رہے ہیں۔
خون اور دہشت کی یہ بد مستی آخر کب تک ان بے گناہ اور بد نصیب لوگوں کو گھائل کرتی رہے گی جن کی اکثریت دہشت اور جنگ کے ساتھ ساتھ غربت، بدحالی اور محرومی سے نڈھال ہے۔ نیم رجعت کے ان ادوار کا المیہ ہوتا ہے کہ عمومی طور انسانی سوچ پیچھے چلی جاتی ہے اور انسان معمولی یا وقتی آسودگی کے لیے بھی بے قرار ہوجاتے ہیں۔ لیکن سامراجی طاقتوں کی پے درپے مداخلت نے مشرق وسطیٰ کے حالات کو جس قدر بگاڑ دیا ہے اس میں معمولی سی بہتری بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ یہ تنازعات درحقیقت مقامی سرمایہ داروں، سامراجی آقاؤں اور مذہبی بنیاد پرستی کے سرغناؤں کی ضرورت ہیں۔ ان کا حل موجودہ نظام میں ممکن ہے نہ ہی سرمایہ دارانہ ریاستوں اور سیاسی طاقتوں کے آقا ایسی کوئی نیت رکھتے ہیں۔ جنگوں اور مسلح جدوجہد نے محنت کش عوام کے جسم اور شعور پر گھاؤ لگائے ہیں تو 66 سالوں پر محیط ’’امن مذاکرات‘‘ نے ان زخموں پر نمک ہی چھڑکا ہے۔ عوام کے لیے قتل و غارت گری اور ان اذیت ناک معاشی مصائب سے نجات کا واحد راستہ سامراج کے اس نظام کے خلاف طبقاتی بغاوت ہے جو سرمائے اور منافع کی آگ میں پورے خطے کو جلا کر راکھ کر رہا ہے۔
متعلقہ:
آزادی فلسطین کہاں کھو گئی؟
اقوام غیر متحدہ
آزادی فلسطین: مذاکرات یا انقلاب؟
فلسطین کے رستے ہوئے زخم
غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟