تحریر: قمرالزماں خاں
صدیوں سے جاری محنت کا ایک منظر جدید دنیا کا ہے، جس میں نہ صرف اجتماعی زندگی کی ہیئت میں بدلاؤ آیا بلکہ اس محنت کے نتیجے میں انسان وحشت سے تمدن کی طرف سفرکرپایا۔ قدیم زندگی غاروں اور جنگلوں سے نکل کرجدید انسانی بستیوں، شہروں اور میٹروپولیٹن آبادیوں میں بدل گئی۔ محنت کے فیصلہ کن عامل نے آلات پیداوار کی جدت کوممکن بنا کر قدرتی وسائل کی خام شکل کوحیران کن حد تک مفید اور قابل استعمال بنادیا۔ زراعت، صنعت وحرفت، ایجادات، سائنس، ٹیکنالوجی، علوم اور بود وباش کی موجودہ شکل کروڑوں سالوں کی انسانی محنت کا حاصل ہے۔ پچھلے اربوں سالوں سے موجود قدرتی وسائل اپنی خام شکل میں ہی رہتے اگر انسانی محنت کے اطلاق سے انکی ہیت، کیفیت، شکل، استعما ل اور افادیت کو تبدیل نہ کیا جاتا۔ تاریخ میں جہاں ہمیں انسانی محنت کے انقلا ب آفرین ثمرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں وہاں ہمیں صاف طور پر پتا چلتا ہے کہ خود ’محنت‘اپنی تخلیقات، پیداوار اور ثمرات سے ہی محروم چلی آرہی ہے۔ بلکہ انسانی تاریخ یہ المناک منظر دکھاتی ہے کہ’ انسان اورسماج‘ کی مسلسل ترقی کے دوران ’محنت‘ پسماندگی، قلت اور محرومیوں کا شکار ہے۔ یہ ایک بھیانک تضاد بین بین چل رہا تھا، جس کی توجیح اوروضاحت ہمیشہ انسانی سماج کا وہ حصہ (اور انکے تنخواہ دار ترجمان) کرتا چلا آرہا تھا جو براہ راست محنت کے عمل میں نہ ہونے کے باوجود پیداور، دولت، وسائل اور بہترمعیار زندگی سے مسلسل فیض یاب ہورہا تھا۔ قدرتی وسائل اور انسانی محنت کے امتزاج سے حاصل ہونے والے وسائل سے فیض یاب ہونے والا طبقہ، پیداوار کے خالق (مگر اپنی ہی حاصل محنت سے محروم رہ جانے والے) طبقے کی اس’’حالت‘‘ کو ’قدرت‘، قسمت، نااہلیت اورناخواندگی وغیرہ کی بدولت، جبکہ خود براہ راست محنت کے عمل سے باہر ہوتے ہوئے بھی ’پیداوار‘ اور دولت کو اپنی ’ذہانت‘ اور خوش قسمتی کا شاخسانہ قراردیتا آرہا تھا۔ پہلی بار ’کارل مارکس ‘ نے متذکرہ بالا دونوں طبقات کی سائنسی جانچ پڑتال کرتے ہوئے پورے پیداواری عمل کی وضاحت کی۔ پیداواری عمل میں ’محنت کے فیصلہ کن کردار‘ کی تشریح کرتے ہوئے ’محنت‘، ’قدر‘ اور’قدرزائد‘ کی تعریفوں کو جامع انداز میں وضع کیا۔ ’اجرت‘ اور’ منافع ‘کی تشریح کی اور بطور خاص ’اوقات کار‘کو اپنا موضوع بناتے ہوئے کارل مارکس نے ثابت کیا کہ کس طرح سرمایہ دار، مالک یا منتظم، مزدور کی پورے دن کی اجرت کو اس کے کام کرنے کے دن کے پہلے ’گھنٹوں‘ میں ہی پورا کرلیتا ہے اور ان گھنٹوں کے بعد مزدور باقی دن بلا اجرت کام کرتا ہے اور سرمایہ دار کیلئے ’قدرزائد‘ پیدا کرتا ہے، یہ حقیقی طور پر اسکا ایسا منافع ہوتا ہے جو مزدور کی’غیر ادا شد ہ اجرت‘ کا ثمر ہوتا ہے۔
کارل مارکس کی اس دریافت سے کئی دہائیاں قبل صنعت کاری کے میدان میں نوآمیز سرمایہ دار کو زرعی غلامی سے سرمایہ داری کی طرف مراجعت کرنے والا ایسا مزدور میسر آچکا تھا، جو نسل در نسل سے بدلتے ہوئے نظاموں میں لٹتا، برباد ہوتا چلا آرہا تھا۔ دور غلامی کی پاؤں سے بندھی زنجیریں اب کھل کر اسکے پورے جسم، سوچ، روح، جذبوں اوررشتوں تک کو اپنی گرفت میں لے چکی تھیں۔ جاگیرداری کے خلاف جنگ میں زرعی مزدوروں کو جس ’’انقلاب‘‘ اور تبدیلی کا خواب دکھاکر اس جنگ میں جھونکا گیا تھا، اسکی تعبیر ’استحصال‘ کرنے والے طبقے کی تبدیلی تک ہی محدود رہی۔ صنعتی غلامی میں بھی مزدوروں کو زرعی غلاموں کی طرح بیس بیس گھنٹے کام کرنا پڑتا۔ ایک ہی جگہ پر محنت کشوں کی بڑی تعداد کے کام کرنے سے انکی باہمی جڑت ناگزیر ہوچکی تھی، اس میں ایک جیسا کام، ایک جیسے مسائل اور ایک جیسا استحصال ان کو جوڑنے کے عاملین کے طور پر موجود تھے۔ یہیں سے مزدورانجمنوں کی بنیاد کا سامان مہیا ہوا۔ ٹریڈ یونین کی ابتدائی سالوں میں مزدوروں کے اوقات کار کا دورانیہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے تک آچکا تھا۔ محنت کش صنعتی اجتماعیت کی وجہ سے بہت سے بنیادی نتائج پر مشترکہ طور پرپہنچ چکے تھے۔ مزدورہر روز اپنی محنت کا استحصال ہوتا دیکھ کر اپنی غربت اور افلاس کی وجوہات کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرچکا تھا۔ وہ غریب اورامیر کے فرق، محنت کا پیداور میں کردار اور محنت کے بدل میں دی جانے والی اجرت اور غیر ادا شدہ اجرت یعنی ’قدر زائد‘ کے فلسفے کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرچکا تھا۔ ’طبقاتی کشمکش‘ نے اس تحریک کو جنم دیا جس کا مقصداوقات کار کا دورانیہ کم کرکے ’آٹھ گھنٹے کام کا دن‘ کرانا تھا۔ پہلے پہل یہ تحریک ’قدرزائد‘ اور’اجرت میں لوٹ مار‘ کی اس سائنسی وضاحت سے خالی تھی جو کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے مہیا کی۔ مگر ان دونوں راہنماؤں نے ماضی کی تحریکوں سے آگے بڑھ کر تاریخی مادیت اورجدلیاتی مادیت کی مددسے محنت کش طبقے کو وہ دلائل مہیا کئے جو ماضی سے اب تک استحصال کرنے والے طبقے کے تمام ظلم وجبر، حاکمیت، استحصال اور ناقابل شکست ہونے کے تاثر کوزائل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کام کے اوقات کار میں کمی کی تحریک، جس کا ایک مرحلہ مئی 1886ء کی تحریک میں طے ہوا، مزدورتحریک کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ مگرموجودہ عہد میں جب ’پیداواری ذرائع‘ اتنی پیداواری صلاحیت حاصل کرچکے ہیں کہ مزدورکے کام کے بعد اسکو اپنے انسان ہونے کا احساس دلانے کا ’وقت‘ مہیا کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک طرف کام کے اوقات کار کو 1886ء کی تحریک سے آگے بڑھا کر ’چھ گھنٹے کام کا دن‘ پر لانے کی ضرورت ہے دوسری طرف اجرتوں کو محنت کے قریب لانے کی ضرورت ہے۔ مگر یہاں بالکل الٹ ہے، پاکستان میں دیکھیں تومزدوروں سے نہ صرف اکیسویں صدی میں بھی پھر بارہ گھنٹے کام کرایا جاتا ہے بلکہ اسکی اجرت کام کی مناسبت سے مزید سکڑ گئی ہے۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین کا موجودہ مطالبہ ’مزدورکی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابرکی جائے‘ نہ تو غیر حقیقی ہے اور نہ ہی خیالی اور یوٹوپیائی۔ اگر ماضی میں جائیں توجنوری 2003ء میں سونے کی قیمت فی دس گرام 6030 روپے تھی اور سرکاری شعبے میں کم ازکم اجرت 6650 روپے ماہانہ اور فارمل سیکٹر میں 5596 روپے ماہانہ تھی۔ اب 2017ء میں کم ازکم تنخواہ سرکاری طور پر 14000 روپے طے گئی ہے جبکہ دس گرام سونے کی قیمت 44000 روپے ہے۔ گویا اجرت تین گنا کم ہوچکی ہے۔ دوسری طرف ’آٹھ گھنٹے کا م کادن‘ اب معروف انڈسٹریز میں ’9گھنٹے کا م کا دن‘ اور نجی شعبے کے 90 فی صدحصے میں ’12گھنٹے یا زیادہ دورانیہ کا دن‘ ہوچکا ہے۔ اگر ہم اوقات کار کے بڑھنے کے ساتھ، مشینوں کی پیداواری استعداد کار کو دیکھیں تو 2004ء کے اجرت کے پیمانوں کے اعتبار سے آج مزدور کی کم ازکم اجرت 66000 روپے ماہانہ بنتی ہے۔ مگر حقیقی صورتحال کہیں سنگین ہے۔ حکومت کی طرف سے اجرت کا غیر حقیقی تعین اگرچہ 14000 روپے ماہانہ ہے، مگراس شرح سے اجرت کی ادائیگی گنتی کے چند اداروں میں کی جاتی ہے جبکہ پھر 90 فی صد سے زیادہ ادارے، کارخانے ’’طے شدہ اجرت‘‘ کا نصف ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سرمایہ داری نظام کا طے شدہ حربہ کار فرما ہے، یعنی محنت کی منڈی میں ایک خاطرخواہ تعداد بے روزگاروں کی رکھ کر ’نام نہاد روزگار‘ پر موجود مزدور کا شدید استحصال کیا جائے، اگر وہ چوں چرا کرے تو اسکو فارغ کردیا جائے۔ اس ظلم واستحصال کے کاروبار میں ریاستی قوانین، لیبر ایکٹ، مزدوروں سے متعلق عدالتیں اور نچلی سطح کے ادارے مزدورکی بجائے سرمایہ داروں کی طرفداری کرتے نظر آتے ہیں۔ فیکٹریوں میں مستقل ملازمت کی نسبت دس سے تیس فی صد تک رکھی جاتی ہے، باقی مزدوروں کو کم ترین اجرت اور ’قانونی‘ مراعات سے محروم رکھنے کیلئے نام نہاد ٹھیکے داری نظام قائم کیا گیا ہے، جس میں کمیشن کے عوض مزدوروں کو تھرڈ پارٹی سے لیا جاتا ہے۔ اس طرح فیکٹری یا ادارہ، مزدور کے جملہ معاملات سے لاتعلق رہتا ہے البتہ زیادہ سے زیادہ کام کرانے، سزاؤں اور تعزیروں کے معاملات میں کسی طور تساہل برتا جاتا ہے نہ ہی تب تھرڈ پارٹی آڑے آتی ہے۔
1886ء سے 131 سال گزرنے کے بعد دنیا بھر میں، بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں مزدورتحریک کو زیادہ کڑے حالات کا سامنا ہے۔ اگرچہ یوم مئی کا دن ’اوقات کار‘ کم کرانے والی تحریک میں شہید ہونے والے اور قربانیاں دینے والے مزدورساتھیوں کی یاد کا دن ہے، مگر اس دن کو اسی حد تک محدود کردینا شکاگو کے شہیدوں کی قربانیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ بنیادی طور پر نہ صرف ’یوم مئی کی تحریک‘ کے اگلے مراحل طے ہونا باقی ہیں، جن کو طے کرکے محنت کش طبقے کے ’کام کے اوقات کار‘کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے، بلکہ موجودہ عہد میں مزدورتحریک اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے کیلئے صف بندی کی ضرورت ہے۔ صرف دن منانا، ریلیاں اورجلسے منعقد کرنامحنت کشوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ نجکاری اورنام نہاد پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، دیہاڑی داری نظام، چھانٹیاں، کالے قوانین اور سرمایہ دارانہ جبر کے خلاف جدوجہد اور درست نظریاتی سمت کا تعین کرنے کیلئے مزدورقیادت کو اپنی کوتاہیوں، غلطیوں اور غیر نظریاتی انداز فکر کا جائزہ لینا ہوگا تاکہ آگے بڑھنے کیلئے درست لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔