انقلابوں کے سوداگر

[تحریر: لال خان]
پرانی دہلی کی ’’آزاد مارکیٹ‘‘ اور ممبئی کی ’’ہڑتال گلی‘‘ میں عجیب کاروبار ہوتا ہے۔ ان بازاروں کی دکانوں پر مختلف صنعتوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کے یونیفارم کرائے پر ملتے ہیں۔ یہاں مختلف فیکٹریوں کے مزدوروں کے لباس سے لے کر نرسوں، محکمہ ڈاک کے ملازمین اور خاکروبوں تک کی وردیاں وغیرہ دستیاب ہیں۔ ان دونوں بازاروں کے زیادہ تر گاہک وہ سیاسی رہنما ہیں جنہیں مختلف قسم کے مظاہرے کروانے ہوتے ہیں۔ جیسے شادی ہالوں میں شادی بیاہ کی تقاریب کی بکنگ ہوتی ہیں بالکل اسی طرح اس بازار کے دکاندار مختلف مظاہروں اور دھرنوں کی بکنگ کرتے ہیں۔ مظاہرے کی نوعیت کی مطابق وردیاں جھونپڑ پٹیوں کے بے روزگار نوجوانوں کو پہنا کر انہیں مقررہ مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ مظاہروں میں شرکت کرنے والے ناداروں کو ٹرانسپورٹ اور کھانے کی سہولت کے ساتھ ساتھ معمولی اجرت بھی دی جاتی ہے۔ مختلف سیاستدان، این جی اوز اور ’’سماجی کارکنان‘‘کرائے کے ان مظاہروں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنی ساکھ بڑھاتے ہیں اور بلیک میلنگ کے ذریعے مالی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ پیسے کے زور پر مظاہرے یا دھرنے کروانے کا یہ عمل صرف دہلی یا بھارت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان سمیت تیسری دنیا میں ایک سیاسی معمول بن چکا ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج میں جہاں سیاست ایک کاروبار کی حیثیت ہے وہاں اس قسم کے جعلی مظاہرے، ریلیاں اور دھرنے اس کاروبار کا اہم جزو ہیں۔ نظریات کے انخلا نے پاکستانی سیاست اس حد تک کمرشلائز کردیا ہے کہ انتخابی مہمات سے لے کر میڈیا کے استعمال اور جلسے جلوسوں تک، ہر ایک سیاسی عمل سرمائے کی بیساکھیوں کا محتاج ہے۔ سیاست کے اس کاروبار میں بڑے سرمایہ دار، جاگیر دار اور کاروباری حضرات گھوڑوں کی ریس کی طرح مختلف سیاستدانوں اور پارٹیوں پر داؤ لگاتے ہیں۔ سماج کی یہ کیفیت محنت کش عوام کی سیاست سے بیگانگی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ محنت کش طبقہ جب تک سیاسی طور پر متحرک نہ ہو اسے اپنی طاقت کا ادراک نہیں ہوتا۔ سماجی جمود کے ادوار میں حکمرانوں کے معاشی حملے، غربت، مہنگائی اورنان ایشوز محنت کشوں کو لاغر کئے رکھتے ہیں۔ عوام کی کوشش ہوتی ہے کہ جب تک ممکن ہو تلخ حقائق سے نظر چرا کر معمولات زندگی کو جاری رکھا جائے لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں معاشی عدم استحکام، جرائم، تشدد، بیروزگاری اور سماجی خلفشار کی اذیتیں برداشت کر لینے سے کم نہیں ہوتیں بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
حکمران جہاں عوام پر معاشی حملے جاری رکھتے ہیں وہاں نظام کا بحران ان کے باہمی تضادات کو بھی شدید کر دیتا ہے جس سے حکمرانوں کی سیاست بھی انتشار اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجاتی ہے۔ عوام کے لئے روز مرہ زندگی میں روزی روٹی جب سب سے بڑا مسئلہ بن جائے تو سیاست صرف امیروں کا کام بن جاتی ہے۔ اس قسم کے نیم رجعتی معروض میں سیاست سمیت ہر شعبے میں صرف پیسے والے ہی اوپر آسکتے ہیں۔ بھاری تنخواہوں پر ’’ماہرین‘‘ کی خدمات لینے والے یہی امراء ذرائع ابلاغ پر حاوی ہوتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر انہیں ہی گھنٹوں کے حساب سے ائیر ٹائم ملتا ہے۔ یہاں جائیداد کی طرح سیاست بھی نسل در نسل منتقل کی جاتی ہے اور سیاسی جانشینوں کی خامیاں دور کرنے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ نہ صرف ان کی زبان اور تلفظ ٹھیک کروائے جاتے ہیں بلکہ لباس، انداز اور باڈی لینگویج کو سیاسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے باقاعدہ ٹریننگ کا انتظام کیا جاتاہے۔
شیخ الاسلام مولانا ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کو بھی ہر سال شدید سردی میں اپنے مریدین کا جم غفیر اکٹھا کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ موصوف اپنے جلسوں میں اس نظام کی سیاست اور معیشت سے اکتائی ہوئی عوام کو ’’انقلاب‘‘ کا سندیسہ دیتے ہیں۔ اس موقع پر اس نظام کی خرابیاں ماہرانہ اور جذباتی انداز میں گنوائی جاتی ہیں اور حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کی تشریح بھی کی جاتی ہے۔ لیکن قادر ی صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نظام کی بنیادوں کو ہلائے بغیر نظام کی خامیاں دور کرنا چاہتے ہیں اور جہاں مشکل پیش آئے وہاں سارا کام اللہ میاں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ مولانا کے دوسرے مفروضوں کی طرح ان کا انقلاب بھی ایسا ویسا نہیں ہے بلکہ یہ خالص ’’آئینی، قانونی اور پر امن انقلاب‘‘ ہے۔
29 دسمبر کو طاہرالقادری کی ریلی سے پیشتر عمران خان نے بھی اسی قسم کی احتجاجی ریلی نکالی تھی۔ ایم کیو ایم نے بھی ایسی ہی ایک ریلی کے ذریعے عدلیہ پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا انتخابی ڈھانچہ استوار کروالیا ہے جس کو ’’استعمال‘‘ کرنے میں اس جماعت کے کارکنان ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کی حالت پر نظر دوڑائی جائے تو گزشتہ 20 سال سے ایم کیو ایم کے مسلسل اقتدار کا کوئی جواز نظر نہیں آتا لیکن کالے دھن کے زور پر چلنے والے اس سیاسی نظام میں جیت ہمیشہ زر کی ہوتی ہے، عوام کی نہیں۔
شہباز شریف اور عمران خان سے لے کر الطاف حسین اور منور حسن تک، انقلاب کی باتیں تو سبھی کرتے ہیں لیکن ان تمام حضرات کے ’’انقلابات‘‘ اس نظام کو بچانے کے لئے ہیں، مٹانے کے لئے نہیں۔ طاہر القادری کا انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کے لئے نہیں بلکہ اسے آئینی اور ریاستی ڈھانچے کے طابع کر کے ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے لئے ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ رنگ برنگ کے ان تمام انقلابیوں کی پشت پر وہ سامراجی اور ریاستی سپانسر موجود ہیں جو خود اس استحصالی نظام کی پیداوار ہیں اور جن کی دولت میں مسلسل اضافہ اس نظام کے قائم رہنے سے مشروط ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد انقلاب کے نام پر یہ ناٹک اس خوف کے پیش نظر رچایا جاتا ہے کہ عوام کہیں حقیقی انقلاب کے لئے ہی کھڑے نہ ہو جائیں۔
معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر صرف سوشلسٹ انقلاب ہی سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ سکتا ہے۔ انقلاب سماج کے ملکیتی اور پیداواری رشتوں میں بنیادی تبدیلی کا نام ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جاتا ہے، خونخوار سامراج قرضے ضبط کئے جاتے ہیں، حکمرانوں کی تجوریوں میں یرغمال بنی ہوئی دولت کو عوام کی انقلابی طاقت سے بازیاب کروایا جاتا ہے، انقلابی ٹریبونلز عوام کے مجرموں کو سزائیں سنا کر موقع پر ہی عملدرآمد کرواتے ہیں، مراعت یافتہ بالادست طبقے کے استحصال کو تحفظ فراہم کرنے والی سرمایہ دارانہ ریاست کو پاش پاش کر کے مزدور ریاست تشکیل دی جاتی ہے اور منافع پر مبنی منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند اشتراکی معیشت کی تعمیر کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
اس ملک کی سیاست پر براجمان دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کی طرح طاہرالقادری خود مالیاتی سرمائے کے ایک مخصوص دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں جو ان کی ریلیوں پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کر سکتا ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے۔‘‘ اس لئے سماجی جمود کے عمومی ادوار میں سماج پر اوپر سے حاوی ہونے والا ہر سیاسی رجحان حکمران طبقے کے کسی نہ کسی حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن غیر معمولی انقلابی ادوار میں جب نیچے سے محنت کشوں کی خود رو تحریکیں ابھرتی ہیں تو انہیں بسوں میں بھر بھر کے جعلی جلسہ گاہوں میں لانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایسے عہد میں عوام اپنی منازل کا تعین خود کرتے ہیں۔ انقلابی پارٹیاں سرمایہ داروں کے سرمائے کی بجائے محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی سے پروان چڑھتی ہیں، عوام خود بینزر اور پوسٹر لکھ کر دیواروں پر چسپاں کرتے ہیں، کروڑوں استحصال زدہ انسان انقلابی پراپیگنڈا کے چلتے پھرتے پیغامبر بن جاتے ہیں اور مارکس کے الفاظ میں ’’جب عوام نظرئیے کو اپناتے ہیں تو یہ مادی قوت بن جاتا ہے۔‘‘ محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایسی تحریکیں پاکستانی معاشرے نے دیکھی ہیں اور آنے والے وقت میں یہ پھر ابھریں گی۔ انقلاب کوئی مذاق نہیں ہے کہ کوئی ایک فرد آئے اور برپا کردے۔ انقلابات صرف سیاست، ریاست اور معیشت کو ہی تبدیل نہیں کرتے بلکہ تاریخ کے دھارے کو موڑ دیتے ہیں، پرانے نظام کی ہر قدر کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچیں اور رویے بھی بدل ڈالتے ہیں، خطوں کے جغرافیے الٹ پلٹ جاتے ہیں۔
آج حکمران طبقہ اور اس کے سیاسی حواری انقلاب کے مبہم سے تعارف سے ہی اس قدر گھبرائے ہوئے ہیں کہ انقلاب انقلاب کھیل کر لوگوں کو انقلاب کے نام سے ہی متنفرکرنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کے نام پر مداری کرکے غریب عوام کی تذلیل کرنے والوں کو اگر سوشلسٹ انقلاب کا ادراک ہو جائے تو شاید یہ حضرات دوبارہ انقلاب کا لفظ زبان پر نہ لا سکیں۔ اس ملک کے کروڑوں محنت کش عوام بہت جلد تاریخ کے میدان عمل میں اترکر انقلاب کی نعرہ بازی کرنے والوں بتائیں گے کہ انقلاب ہوتا کیاہے!

متعلقہ:
لانگ مارچ کا ڈھونگ؛ انقلاب کے نام پر انقلاب کا سبوتاژ