جب بھی پستی سے ظلمت کے مارے اٹھیں گے
ظالمو! پھر جنازے تمہارے اٹھیں گے
زندگی بے بسی میں گزاری جنہوں نے
ایک دو ہی نہیں اب وہ سارے اٹھیں گے
پھر تمہیں مات دینے کی امید لے کر
لوگ ہر بار تم سے جو ہارے اٹھیں گے
جو ستم سہتے سہتے جواں ہو گئے ہیں
اب وہ مفلس کے بن کر سہارے اٹھیں گے
اب فقط ایک نعرہ نہ دل سے اٹھے گا
دست و بازو بھی اب تو ہمارے اٹھیں گے
اب تو طوفاں سے بچنا ہے مشکل تمہارا
گر سمندر اٹھا تو کنارے اٹھیں گے
ہم غریبوں کے دل، ڈھیر بارود کے ہیں
جب بھی چنگاری بھڑکی شرارے اٹھیں گے
لوگ ہاتھوں میں تھامے ہوئے سرخ پرچم
قتل گاہوں سے جب ہم پکارے اٹھیں گے
جو بھی نکلے سروں پر کفن باندھ کر
بن کے لوگوں کی آنکھوں کے تارے اٹھیں گے
حکمرانی فقط حق ہمارا ہے طاہرؔ
ہر طرف، ہر گلی میں یہ نعرے اٹھیں گے
ڈاکٹر طاہرؔ شبیر