| تحریر: نذر مینگل |
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بد ترین بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ یہ نظام اب ذرائع پیداوار اور انسانی سماج کو مزید ترقی دینے کا اہل نہیں۔ سرمایہ داری کی وجہ سے پوری انسانی تہذیب کی حاصلات کو تباہی کا سامنا ہے۔ ثقافت، فنون لطیفہ، شاعری سب زوال پذیر ہیں۔ 1989ء میں دیوار برلن کا گرنا اور 1990ء میں سوویت یونین کا انہدام عالمی سطح پر محنت کشوں کی تحریکوں کے لیے بہت بڑا نقصان تھا اور وقتی طور پر انہیں پسپائی کا سامنا کر نا پڑا۔ اس دوران سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی اور سیاسی تجزیہ نگار اور تنخواہ دار دانشور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے تاریخ کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ بنی نوع انسان کے تمام مسائل کا حل اب سرمایہ داری میں ہے۔ اس دوران سرمایہ دارانہ نظام کو سوویت یونین کے ٹوٹنے سے نئی منڈیا ں ملیں جس کی وجہ سے عالمی معیشت کو ایک عارضی ابھار ملا۔ لیکن نظام کے تضادات ختم نہیں ہوئے۔ تحریک کے عارضی طور پر پیچھے چلے جانے کی وجہ سے سامراج اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے محنت کشوں کے استحصال کو مزید تیز کردیااور اپنی شرح منافع میں ہوش ربا اضافہ کیا۔ لیکن اس معاشی ابھار سے محنت کشوں کی حالت مزید ابتر ہوئی۔ جس کی وجہ سے نئے تضادات نے جنم لیا۔ قرضوں کے ذریعے مارکیٹ کو مصنوعی طریقے سے پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ تمام تر تضادات 2008ء کے معاشی بحران کی شکل میں پھٹ پڑے۔ جو اپنی ماہیت اور شدت کے لحاظ سے 1929ء کے بحران سے بھی زیادہ گہرا ہے۔ یہ بحران قطعاً سرمایہ داری کے معمول کے بحران کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اپنے جوہر میں اس نظام کے نامیاتی بحران کی غمازی کر تا ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی گراوٹ اور بحران کی زد میں ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی بحران کے اثرات اس کمزور معیشت پر سب سے زیادہ ہیں۔ دائیں بازو کی نواز حکومت عالمی مالیاتی اداروں کی ایما پر بے رحمانہ انداز میں ان کی عوام دشمن پالیسیوں کو لاگو کر رہی ہے۔ جس سے لوگوں کی معاشی حالت دن بدن مزید دگر گوں ہوتی جارہی ہے۔ روز گار کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں اور پہلے سے بر سر روزگار افراد کو بے روزگار کیا جا رہاہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی بھی عوام کو کچھ نہ دے سکی بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے جی ایس ٹی میں اضافہ کردیا۔ بجلی اور گیس نا پید ہو تے جا رہے ہیں۔ صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ جب کہ حکمران انتہائی بے شرمی سے ملک کے تمام مسائل کا حل چینی سرمایہ کاری کو قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ سرمایہ کاری لوٹ مار اور وسائل کو ہڑپ کرنے کی جنگ ہے جو خوشحالی کی بجائے مزید تضادات کو جنم دے گی۔
ان حالات میں لوگ مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں۔ نوجوان نسل اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک تو ان کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں اور جو جیسے تیسے کر کے تعلیم حاصل کرکے فارغ التحصیل ہو تے ہیں تو ڈگریاں ہاتھ میں لے کر در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن روزگار نہیں ملتا۔ اس مایوسی کی کیفیت میں وہ ماضی کی تاریک قوتوں کے نظریا ت کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ جو انہیں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کر تے ہیں۔ خود کشیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غریب خاندان اپنے بچوں کے ساتھ نہروں میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کررہے ہیں۔ سماجی تانے بانے ٹوٹ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا احساس مجروح ہو گیا ہے۔ عظیم فلسفی کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’سیاست، سائنس، آرٹ اور مذہب پر غور و فکر سے پہلے ضروری ہے کہ انسان کو خوراک، رہائش اور لباس میسر ہو۔‘‘‘ بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی دوڑ ناگزیر طور پر نفسا نفسی، عدم استحکام اور سماجی بے چینی کو جنم دیتی ہے۔ اس ملک میں آبادی کی اکثریت خوراک، رہائش، علاج اور روزگار جیسی زندگی کی انتہائی بنیادی ضروریات سے ہر گزرتے دن محروم ہوتی جارہی ہے۔ ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم کی کیفیت در حقیقت جائز طریقوں سے باعزت زندگی گزارنے میں ناکامی کا ہی شاخسانہ ہے۔ عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہی ہے۔ اس وقت مملکت خداداد پاکستان میں ایک خاندان کی کل آمد ن کا تقریباً پچاس فیصد حصہ خوراک پر خرچ ہو جا تا ہے۔ 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام کا شکار ہے۔ پچاس فیصد خواتین اور بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر 44 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر نامکمل نشوونما کا شکار ہیں۔ کم عمر بچوں میں 35 فیصد اموات غذائی قلت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ 70 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اسی طرح 20 فیصدمحنت کش پانچ ہزار جبکہ 42 فیصد محنت کش 10 ہزار سے کم اجرت پر کام کر رہے ہیں۔ غیر سرکاری اداروں کی جانب سے ایک رپورٹ کے مطابق 80 فیصد محنت کش کم سے کم اجرت سے بھی کم پر کام کر رہے ہیں۔
اس تمام صورت حال سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ملکی اور عالمی سطح پر زمین بوس ہو رہا ہے۔ اب یہ انسانی سماج کو مزید ترقی اور خوشحالی نہیں دے سکتا۔ یہ نظام خود اپنی موت مررہا ہے لیکن ساتھ میں انسانی تہذیب کو بھی ختم کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں آسمان سے فرشتے آکر حالات کو ٹھیک نہیں کریں گے اور نہ ہی ظالم اور استحصالی قوتوں کے دل میں کچلے ہوئے طبقات کے لیے رحم پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے سرمائے کو عوام میں برابر تقسیم کریں۔ انسانیت کو اگر خوشحالی کی معراج پر پہنچنا ہے تو اسے اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگی۔ اس نظام کو تہس نہس کرکے ختم کر نا ہوگا۔ یہ کام صرف محنت کش طبقہ اپنی طاقت، اتحاد اتفاق اور طبقاتی یکجہتی کی بنیاد پر ہی کر سکتا ہے۔ ماضی میں بھی کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں اور طلبا کو اس موجودہ نظام کو چیلنج کرنا ہوگا۔ آئیں ہم مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم یہ غلامی مزید نہیں جھیلیں گے۔ جس طرح یکم مئی کو شکا گو کے محنت کشوں نے سرمایہ داروں کو للکار کر 18 گھنٹے کے اوقات کار کو کم کر کے آٹھ گھنٹے میں تبدیل کیا۔ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ یہی وجہ ہے کہ شہدائے شکاگو امر ہوگئے اور مزدوروں کو یہ پیغام دیا کہ اگر مزدور اپنی طاقت کو یکجا کریں تو انہیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اور وہ انسانی سماجوں کو تبدیل کرسکتے ہیں اور ریاستوں کو اکھاڑ سکتے ہیں۔ جس طرح روس کے مزدوروں نے سفاک زار شاہی کا تختہ الٹ کر 1917ء میں مزدورراج قائم کیا۔ جو دنیا کی تاریخ میں مزدوروں کا پہلا کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب تھا۔
2011ء میں تیونس، مصراور دوسرے عرب ممالک میں ’عرب بہار‘ کے نام سے محنت کشوں کے انقلابات نے ایک بار پھر سرمایہ داری کو ہلا کر رکھ دیا اور اپنے ملکوں میں دہائیوں سے مسلط ڈکٹیٹروں کو اکھاڑ پھینک دیا۔ اس کے بعد اسرائیل، یورپ اور امریکہ میں محنت کشوں نے علم بغاوت بلند کیا۔ اب بھی یورپ کے مختلف ممالک میں تحریکیں چل رہی ہیں۔ پاکستان کے مزدوروں میں ایک آگ سلگ رہی ہے۔ اس وقت واپڈا کے مزدور نجکاری کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ نجکاری کی تحریک میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے۔ نجکاری کی تحریک میں دوسرے ادارے بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ چونکہ دیگر ادارے بھی نجکاری کی پائپ لائن میں ہیں۔ حکمران طبقہ آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کی ایما پر تمام ادارے جلد از جلد فروخت کرنا چاہتا ہے۔ اگر نجکاری کو مزدور نہ روک سکے تو آئندہ آنے والے دنوں میں حکمران تمام اداروں چاہے صنعتی ادارے ہوں یا اس سے بڑھ کر فلاحی ادارے جن میں ہسپتال، تعلیمی ادارے، آب پاشی کے ادارے، میٹروپولیٹن میونسپل کمیٹیاں سب کو بیچ ڈالیں گے۔ جن سے پھر بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ کی جائے گی۔ لاکھوں مزدور بیروزگار ہوجائیں گے۔ اس سے مہنگائی کا طوفا ن عود کر آئے گا۔
نجکاری کی پالیسی کو اسی وقت شکست ہوگی، اور شکست دینا ضروری بھی ہے، جب پاکستان کے تمام اداروں کی ٹریڈ یونینز پہلے مرحلے میں نجکاری و ٹھیکے داری نظام کے خاتمے اور کم از کم اجرت ایک تولہ سونے کے برابر کرنے کے مطالبات پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور پورے ملک میں نظام کے پہیے کو جام کر دیں۔ تب سامراج اور سامراج نواز حکمرانوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ورنہ ایک ادارہ اپنے بلبوتے پر نجکاری کی پالیسی کو شکست نہیں دے سکتا۔ اگر کسی بھی ادارے کی یونین وقتی طور پر حکمرانوں کو نجکاری سے روکنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو بعد میں پھر ساز باز اس ادارے کی نجکاری کا آغاز کر دیا جائے گا۔ اس لیے پاکستان کے محنت کشوں کو چاہیئے کہ وہ نجکاری کی پالیسی کے یکسر خاتمے کے خلاف اپنی جنگ تیز کریں اور ماضی میں جتنے بھی اداروں کی نجکاری کی گئی، ان کو دوبارہ قومی تحویل میں لینے کا مطالبہ بھی کریں۔ یہ بات ہمیں ذہین نشین کر نی چاہیئے کہ جب تک سرمایہ داری ہے استحصال، مہنگائی، بے روزگاری اور قلت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ وقتی طور پر یونینز کے ذریعے اگر کچھ اصلاحات ملک بھی جاتی ہیں تو حکمران طبقہ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس چھین لیتا ہے۔ اس لیے مزدوروں کی معاشی جدوجہد کو ایک سیاسی جدوجہد کے منسلک کرنا ہو گا۔ پاکستان میں اب ایک مزدور انقلاب ناگزیر ہوگیا ہے۔ عالمی مارکسی رجحان نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں مزدوروں، نوجوانوں، طلبا اور محنت کش خواتین کو مسلسل طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے اور انہیں انقلابی سوشلزم کے نظریات سے لیس کر رہا ہے۔ مزدوروں کو عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی، استحصال، جنگوں، خانہ جنگیوں اور مستقبل کے بارے میں شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ معروض کے سائنسی اور درست تجزیے کی وجہ سے محنت کشوں کی وسیع پرتوں میں ہمارے نظریات پھیل رہے ہیں۔ عرب انقلاب کے نتیجے میں آمروں کا خاتمہ تو ہوا لیکن محنت کشوں کے مسائل ختم نہیں ہوئے بلکہ مزید بڑھ گئے کیونکہ سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی کا فقدان تھا۔ اگر ایک موضوعی عنصر موجود ہوتا تو اب دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔ انقلاب کی ناکامی کی وجہ سے اب سامراج اوررجعتی قوتیں محنت کشوں سے اس بغاوت کا انتقام خانہ جنگی اور کشت و خون کی شکل میں لے رہے ہیں۔ عالمی مارکسی رجحان اسی موضوع کی کمی کو پورا کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہے۔ پاکستان میں ہم پاکستان ٹریڈیونین ڈیفنس کمپئین کے ذریعے محنت کش طبقے کی اسی جد وجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں اور انکے شانہ بشانہ نجکاری، آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی سامراج کے خلاف غیر مصالحانہ انداز میں لڑرہے ہیں۔
پاکستان کے محنت کشوں کے ساتھ 1968-69ء کی انقلابی سرکشی کی میراث بھی موجود ہے جب مزدوروں نے فیکٹریوں، ملوں، کھیتوں، کھلیانوں پر قبضہ کر کے اپنی پنچایتوں کے ذریعے ان کا نظم و نسق سنبھال لیا تھااور پاکستان کے پہلے مضبوط آمر کو شکست فاش دی تھی۔ اس کے علاوہ جنرل ضیا کے ظالمانہ دور حکمرانی میں بھی بغاوتوں کا سلسلہ نہیں رکا۔ پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں کو اپنے پرکھوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر اور استحصال کا بدلہ اس نظام سے لینا ہے۔ بلدیہ فیکٹری کراچی میں سینکڑوں مزدوروں کو زندہ جلانے کا بدلہ بھی لینا ہے۔ سرمایہ داروں اور ظالموں نے جو ہمیں دیا ہے اُسے اب لوٹانے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان میں مزدور طبقہ شہدائے شکاگو کی یاد کو ایک جوش و جذبے، جرات اور یقین سے منا رہا ہے۔ شکاگو کے شہدا کے خون اور محنت کشوں کے نظریات اور فلسفے سے محنت کشوں کے اکثریتی لیڈروں نے روگردانی کی ہے۔ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر سرمایہ داروں کی چاپلوسی کر رہے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک کو مفاد پرستی اور موقع پرستی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے استحصال، جبر، نا انصافی، مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، سامراجی پالیسیوں، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ وغیرہ میں تیز ی آگئی ہے۔ مزدور قیادت طبقے کے اندر اشرافیہ بن گئی ہے اور مزدور تحریک کو آنے ٹکے کی لڑائی تک محدود کر دیا ہے۔ آخر کب تک مزدوروں کے ساتھ یہ کھلواڑ چلتا رہے گا۔ اب مزدوروں کے ان مفاد پرست لیڈروں کے سامنے دو راستے ہیں یا تو اپنے آپ کو مزدور تحریک سے الگ کر دیں، نئے لوگوں کو آنے دیں جن میں جدوجہد کرنے کا جوش و ولولہ ہو یا انہیں خود کو بدلنا ہوگاکیونکہ محنت کش طبقہ اب باشعور ہو رہا ہے اور اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کر سکتا ہے۔