تحریر: قمرالزماں خاں
اگر ہم محض دن منانے کی علت کا شکار نہیں ہیں تو ہمیں ہر صورت ’یوم مئی‘کی تاریخ، قربانیوں، حاصلات اور نتائج کو آج کی کیفیت پر منطبق کر کے دیکھنا ہوگا۔ 1886ء سے کئی دہائیاں پہلے ہی محنت کشوں کے کام کے روزمرہ دورانیے کا معاملہ مزدورتحریک کے دیگر عمومی مطالبات پر حاوی آچکا تھا۔ مالکان کی طرف سے مزدوروں سے 12 سے 18 گھنٹے تک کام کروانے کی روش نے مزدوروں کو ایک طرح سے غلام داری سے بھی بدتر حالات میں دھکیل دیا تھا۔ مشینوں پر طویل دورانئے کے کام کے بعد مزدور کی ذاتی اور خاندانی زندگی کا تصور محال ہوچکا تھا۔ یہ مسئلہ ہر روز مزدور کے سامنے اپنے حل کا تقاضا کرتا نظر آتا تھا۔ یونین سازی کے اولین دور میں ہی ’مزدورکے اوقات کار‘ کا معاملہ اسکے ایجنڈے پر سرفہرست چلا آیا۔ پھر ایک صدی کے قریب جدوجہد کے مختلف مراحل نے 1886ء کے تاریخی سال میں ’8 گھنٹے کے اوقات کار‘ کے نعرے کا عملی سامان مہیا کیا۔ اس تحریک نے اس وقت پوری دنیا کے مزدوروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی جب امریکہ کے شہر شکاگو میں یکم مئی کو تین لاکھ سے زائد مختلف قسم کے نظریات کے ماننے والے مزدور،جن میں زیادہ ترانارکسٹ تھے، نے بالکل پرامن جلسے میں اوقات کار کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان میں سے ہزاروں بعد ازاں ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن تک مسلسل احتجاج اور ہڑتال کے بعد تیسرے دن پرامن تحریک کو ریاست نے جبر کا نشانہ بنایا۔ دو مزدور شہید اور چالیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ اگلے روز موسم کی خرابی اور اطلاعات نہ ہونے کے باعث تین ہزار مظاہرین جمع ہو پائے۔ کم مظاہرین کو دیکھ کر پولیس نے پھر ان مظاہرین پر دھاوا بول دیا جو اپنے شہید ساتھیوں کے خون کا حساب مانگ رہے تھے۔ اس دن مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کبھی بھی رپورٹ نہ ہوسکی۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس کے دو لوگ بھی شامل تھے جو اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں کا شکار ہوئے تھے۔ پولیس نے اپنی اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار مزدوررہنماؤں کو قراردیتے ہوئے ان پرمقدمہ قائم کیا۔ کچھ ایسے مزدورراہنما جو’ہے مارکیٹ ‘ میں موجود ہی نہیں تھے سمیت آٹھ مزدور رہنماؤں (البرٹ پارسنس، اگست سپائیز، سمیویل فیلڈن، آسکر نیب، مائیکل شوباب، جارج انجیل، ایڈولف فریشر اور لوئس لینگکو) کو موت اور قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ اس ’کنگرو کورٹ‘ کی جیوری میں متعدد سرمایہ دار بطور جج فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان واقعات نے محنت کش طبقے کے شعورپر گہرے اثرات مرتب کئے۔ بالخصوص سرمایہ دارانہ ریاست کے حقیقی کردار کو مزید بے نقاب کیا۔ چند برس بعد’’ 8گھنٹے کے دن‘‘ کے مطالبے کو تسلیم کرلیا گیا۔ یہ محنت کش طبقے کی بہت اہم جیت تھی۔ اس جیت نے محنت کش طبقے کی تحریک کو مزید ہمت اور توانائی بخشی۔ کارل مارکس کے زندگی بھر کے ساتھی فریڈرک اینگلز نے 1890ء میں پہلی دفعہ یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کااعلان کیا۔ تب سے اب تک یہ سال دنیا بھر میں محنت کش مناتے چلے آ رہے ہیں۔ یوم مئی کا دن محنت کش طبقے کی یکجہتی کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا میں یہ واحد تہوار ہے جس کو تمام رنگوں ،نسلوں،فرقوں،مذاہب اوربراعظموں کے لوگ اتنے بھرپوراندازمیں مناتے ہیں۔
اس دن عام طورپرمحنت کش طبقے کی یکجہتی کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ عہد حاضر میں محنت کش طبقے کی حالت زار کیا ہے؟ محنت کش طبقے کی تحریک کس نہج پر ہے اور وہ تحریک جس کاآغاز ’کام کے اوقات کار‘ کم کرانے کے نکتے سے شروع ہوا تھا اس میں کس حد تک پیشرفت ہوسکی۔ یقینی طور پر یوم مئی کی جدوجہد اور اسکی کامیابی کے بعد مزدوروں نے بے نظیر کامیابی حاصل کیں جب انہوں نے کرہ ارض کے پانچویں حصے پر مزدورراج قائم کیا۔ مگر 1886ء سے 1917ء کا عرصہ محنت کش طبقے نے بالکل سیدھی لکیر میں کامیابیاں حاصل کرتے نہیں گزارا بلکہ انہیں بہت زیادہ ناکامیوں اور کامیابیوں کی متضاد کیفیات سے گزرنا پڑاتھا۔ مزدوروں نے جس وضاحت سے اوقات کار میں کمی کرائی تھی وہ کارل مارکس کے انہی نظریات کے دلیل تھی جن کے تحت انہوں نے سرمائے کے ہاتھوں محنت کی چوری کو پکڑا تھا۔ انہی نظریات کی روشنی میں ہی ولادیمیر لینن نے روس میں مزدورراج قائم کیا تھا اور یہ مارکسی فلسفہ ہی تھا جس نے واضح کیا کہ اگر ایک ملک میں مزدور راج (سوشلزم کی استواری) کو جدید ممالک میں سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کاتسلسل نہ دیا جاسکاتو پہلے والی حاصلات بھی کھو دی جائیں گی۔ چونکہ سوشلزم کا قیام تب تک ممکن نہیں ہے جب تک پوری دنیا کے جدید ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کے کنٹرول میں مشترکہ ملکیت نہ بنادیا جائے۔ سویت یونین کے انہدام کی درست تشریح صرف یہی ہے کہ ایک عالمگیر انقلابی تسلسل کی فتح یابی کی جدوجہد کی بجائے سویت انقلاب کو ایک ملک کے اندر بند کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ مارکسی اساتذہ کی اپنی ہی پیش بینی کے عین مطابق ایک قومی حدود میں سمٹ کر رہ جانے والا انقلاب بالآخر زوال پذیر ہوگیا۔ تاہم اس کے باوجود بالشویک انقلاب کے ثمرات انسانی تاریخ میں بے نظیر ہیں۔ خاص طور پر دنیا بھر میں مزدورتحریکوں نے جتنی کامیابیاں حاصل کیں ان کے پیچھے سویت یونین کی موجودگی کا دباؤ ایک اہم عنصر تھا۔ بالکل اسی طرح سویت یونین کی زوال پذیری نے محنت کش طبقے کی شکستوں، مایوسی اور تحریک کی زوال پذیری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن آج پھر حالات بدل رہے ہیں اور سرمایہ داری کے بحران کے تحت دنیا بھر میں نئی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ سرمایہ داری کی زوال پذیری نے اسکو ماضی سے کئی گنا زیادہ وحشی بنا دیا ہے۔ وہ تمام مراعات جوماضی میں محنت کش طبقے نے اپنی جدوجہد سے حاصل کی تھیں، بتدریج واپس لی جا رہی ہیں۔ سرمایہ داری کا وجود شرح منافع پر قائم ہے۔ سرمایہ داری کے زوال کے گہرے ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کے استحصال میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ماضی میں مستقل نوعیت کی ملازمتوں کو دیہاڑی اور کنٹریکٹ کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ اس طرح وہ تمام مراعات جو مستقل مزدوروں کودینا لازم ہوتی ہیں ،دیہاڑی داری کے نظام میں چھین لی گئی ہیں۔ زیادہ محنت اور کمترین اجرت کے فارمولے کے ساتھ ساتھ بے روزگاروں کی بڑی کھیپ کو دباؤ کیلئے استعمال کرنے کی پالیسی کو اور زیادہ وسعت دے دی گئی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں بالخصوص نجی شعبے میں کام کے اوقات کار مزیدکم ہونے کی بجائے اب 132 سال کے بعد پھر مسلسل بڑھ ہی رہے ہیں۔ 12 سے 14 گھنٹے تک کام لینا ایک معمول بن چکا ہے۔ بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کے بعد کم مزدوروں سے زیادہ کام لینے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ لیبر قوانین محض کاغذی ٹکڑے بن کے رہ گئے ہیں۔ سوشل سیکورٹی اور پنشن کے قانون پر بہت ہی جزوی پیمانے پرعمل کیا جاتا ہے۔ لیبر کورٹس عملی طور پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے اورمزدوروں کے حق میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمدکرانے سے قاصرہوچکی ہیں۔ مزدوروں کے ضمن میں دکھاوے کیلئے بھی کسی قانون اور انصاف کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ سوائے پبلک سیکٹرکے چند حصوں کے نجی شعبے میں ٹریڈیونینیں کم و بیش ناپید ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں محنت کش طبقے کا ایک فیصد بھی ٹریڈ یونینوں میں منظم نہیں ہے۔ انقلابی نظریات کے بغیر ٹریڈ یونینیں بھی مالکان کی خدمت گزاری کا ایک اوزار بن جاتی ہیں۔ اسکے باوجود کہ ماضی میں جماعت اسلامی کی رجعتی ٹریڈ یونینیں مزدوروں کی نہ تو نمائندہ بن سکی ہیں اور نہ ہی اپنی نظریاتی اساس کی وجہ سے مزدوروں کی نجات کا پروگرام دینے کی اہلیت رکھتی ہیں ، آج پھر ریاستی اداروں کی مدد سے ’ملی مسلم لیگ‘ کا لیبر ونگ معرض وجود میں لایا جا رہا ہے۔ ان کا طریقہ واردات ہڑتالوں ،دھرنوں اور محنت کشوں کے احتجاج میں جاکربے پناہ پیسے کا استعمال کرنا ہے تاکہ بے سروسامانی کے شکار مزدوروں کو ٹینٹ، کھانے اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سہولیات دے کر زیر کیا جاسکے۔ دریں اثنا بہت سے دھرنوں اور احتجاجی معاملات (بطور خاص پبلک سیکٹر) میں مزدوروں کے چھوٹے موٹے معاملات ’غیر مرئی‘ ٹیلی فون کالوں پر حل ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ طریقہ واردات دائمی طورپر کامیاب نہیں ہے مگر ریاستی مداخلت کے اس نئے طریقہ کار کو استعمال میں لاتے ہوئے پہلے سے ہی نحیف اور تھکی ہوئی ٹریڈیونینوں کو اور زیادہ ضعف پہنچانے کی ایک کوشش ضرورہے۔ مگر پچھلے کچھ عرصہ سے محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں میں اٹھنے والی چنگاریاں محنت کش طبقے کے وجود اور انقلابی صلاحیت کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ طبقہ اپنی اپنی لڑائیاں الگ تھلگ رہ کر لڑ رہا ہے۔ مگرکوئی ایک بڑی تحریک ،کوئی نیا حملہ، مالکان یا ریاست کی کوئی اشتعال انگیزی ان کو جوڑ کرایک نئی تحریک کاباعث بن سکتی ہے۔ محنت کش طبقہ غیر روایتی اندازمیں ایسے ہی ہر کسی کوحیران کر سکتاہے جیسے حالیہ پی ٹی ایم کی تحریک نے کیا ہے۔
یہ یومِ مئی غیر معمولی حالات میں منایا جا رہا ہے۔ اس نظام کی معیشت، سیاست اور ریاست کے بڑھتے ہوئے تضادات محنت کش طبقے کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ جہاں ایک طرف 26 دن کی ہڑتال کے بعد پنجاب کے زرعی کھیت معاونین نے اپنی مانگوں کومنوا کر ایک مثال ثبت کی ہے کہ جدوجہد کو جیتا بھی جاسکتا ہے۔ دوسری طرف پی آئی اے اور اسٹیل مل کی نجکاری جیسے معاملات پر حکمران طبقے کے تضادات روایتی قیادتوں کی نظریاتی غداری اور انحراف کے باوجود’رکاوٹ‘ بنتے نظر آتے ہیں۔ حکمران طبقے کی کمزوری بہت اہم عنصر ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں بوکھلاہٹ میں کئے گئے اقدامات ان کو تشدد اوربربریت کی کسی ایسی نہج تک پہنچا سکتے ہیں جہاں سے تاخیر زدہ تحریک بھڑک سکتی ہے۔ ایسی صورت میں موجودہ تمام عوامل کا کردار یکسر بدل کر رہ جائے گا۔ ایک لمبے عرصے سے خود کو مروجہ سیاست سے الگ تھلگ رکھے ہوئے محنت کش طبقے کے کسی بھی تحریک میں امڈ آنے سے طاقتوں کا موجودہ توازن بالکل لڑکھڑاکے رہ جائے گا۔ یہ اکثریتی طبقہ اپنے لئے طبقہ بن گیا تو پھر ایک نئے جہاں کی تخلیق کا خواب حقیقت بنانے کا سفر شروع کرسکتاہے۔ محنت کش طبقے کو آج 2018ء میں اسی عزم، جرات اور ارادے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ اس نے 132 سال پہلے شکاگو میں کیا تھا۔ بعض اوقات آگے بڑھنے کیلئے پچھلی فتوحات سے شکتی لینا ناگزیر ہوجاتاہے۔ یوم مئی کی تاریخ میں ایسی ہی اہمیت ہے۔ تب بھی حالات بہت کٹھن تھے، پاؤں آبلہ پا تھے، زندگی ایک مسلسل مشقت کے سوا کچھ نہیں تھی۔ آج بھی محنت کش طبقے کے پاس کھونے کیلئے سوائے مشقت، استحصال اور ظلم کی زنجیروں کے کچھ نہیں ہے۔ ان زنجیروں کے ٹوٹنے کے بعد ہی وہ دنیا معرض وجودمیں آسکتی ہے جہاں ضروریات زندگی کی فراوانی اور فراغت سے حقیقی معنوں میں انسانی تاریخ کا آغاز ہو سکے گا۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!