| رپورٹ: PTUDC صادق آباد |
موجودہ نظام اقلیتی طبقے کی حکمرانی کا ہے۔ پاکستان میں ’جمہوریت‘ نہیں بلکہ دولت مندوں کے ’سرمائے کی آمریت‘ ہے۔ طبقاتی تقسیم کے شکار پاکستانی سماج، اونچ نیچ کے نظام، غریب اور امیر کی تقسیم اورسامراجی نظام معیشت کاخاتمہ کرتے ہوئے، ذرائع پیداوار، جاگیروں اور دولت کی مساوی تقسیم کے لئے اقتدار اکثریتی محنت کش طبقے کو منتقل کیا جائے تاکہ ایک فی صد اقلیتی دولت مند طبقے کی بجائے 99 فی صداکثریت یعنی محنت کش طبقے کی حکمرانی قائم ہوسکے۔ نجی تعلیم، نجی علاج معالجے، ادویات کے نجی پیداوار کے نظام کا خاتمہ کیا جائے، اس کی بجائے ریاست یہ ذمہ داریاں بلامعاوضہ، ایک جیسی اور ہر کسی کولازمی طور پر فراہم کرے۔ پی آئی اے، واپڈا، اسٹیل ملز، سکول، کالجز، اسپتالوں اور دیگر اداروں کی نجکاری پالیس کو واپس لیا جائے۔ 1886ء کی تحریک کے مقاصد کا حصول، سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور مزدوروں کے راج کے بغیر ممکن نہیں۔ موجودہ سامراجی نظام گل سڑکر انسانیت کے لئے ناسور بن چکا ہے، اسکا خاتمہ ناگزیر ہے جو کہ محنت کشوں کی عالمگیر تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس لمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام صادق آباد میں یوم مئی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔
پی ٹی یو ڈی سی کے مرکزی سیکرٹری جنرل قمرالزماں خاں، پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر محمد خالد چوہدری، پراونشل ہائی وے یونین کے ضلعی چیئرمین حبیب چانڈیہ، جہانزیب بابر، عباس تاج، فقیر محمد، فرانسس بھٹی، معروف شاعرامان اللہ ارشد نے خطاب کیا۔ انہوں نے شکاگو کے شہیدوں سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں محنت کش طبقے کے تمام شہدا کو خراج عقید ت پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کراچی بلدیہ ٹاؤن کے 289 مزدوروں کو زندہ جلا کرمار دینے والے عناصر اور انکی پشت پناہی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس موقع پر پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر خالد چوہدری نے کہا کہ پنجاب میں سکولوں کی نج کاری کرنے والوں کو ہماری لاشوں پر گزرنا ہوگا، انہوں نے اگلے ہفتے سے سکولوں کی نجکاری کے خلاف تحریک چلانے کا اعلا ن کیا۔ یوم مئی کے جلسے میں قراردادوں کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب میں پانچ ہزار سکولز، پی ٹی سی ایل، مسلم کمرشل بینک، پاک سعودی فرٹیلائزرسمیت ماضی میں نجکاری کے شکار تمام اداروں کو ان کے اصلی سٹیٹس پر واپس لاتے ہوئے نجکاری منسوخ کی جائے اور نجی شعبے میں چلنے والی صنعتوں، آئی پی پیز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومی تحویل میں لیکر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لیا جائے۔ ٹھیکے داری نظام، کنٹریکٹ، دیہاڑی داری یا عارضی ملازمتوں کی جگہ مکمل روزگارفراہم کیا جائے۔ مزدورکی کم ازکم تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر کی جائے۔ بے روزگاروں کو جب تک روزگار فراہم نہیں کیا جاتا دس ہزارروپے بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ تمام صنعتی اداروں، فیکٹریوں اور کام کرنے والی جگہوں پر ’محفوظ ماحول‘ فراہم کیا جائے تاکہ مزدوروں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرتے ہوئے، خونی حادثات کو روکا جاسکے۔ حکومت پاکستان، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور عالمی سامراج کی ہدایت پر مزدوردشمن پالیسیوں، لبرل لائزیشن، ریسٹرکچرنگ، چھانٹیوں، ڈاؤن سائیزنگ، کٹوتیوں کی پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انکے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ فوجی فرٹیلائیزرکمپنی، فاطمہ فرٹیلائزر کمپنی، جمالدین والی شوگرملز، شاریکس لیباریٹریز، داتااسٹیل ملزاور دیگر صنعتی اداروں میں قانون شکنی، مزدوردشمنی، مزدورقوانین کی خلاف ورزی کا خاتمہ کرایا جائے اور مزدوروں کو قانون کے مطابق حقوق دئیے جائیں۔ یونین سازی کا حق عملی طور پر بحال کیا جائے اور مزدوروں کو اپنی قیادتوں کو چننے کا آزادانہ اور منصفانہ موقع فراہم کیا جائے۔ ضلعی لیبر آفس کا جانبدارانہ رویہ قابل مذمت ہے۔ اپنے کردار کے حساب سے یہ ادارہ سرمایہ داروں اور انتظامیہ کی کٹھ پتلی ہے۔ سوشل سیکورٹی اورایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹ کے ادارے مزدوروں کو سہولیات فراہم کرنے کی بجائے بھتہ وصول کرنے والے ادارے بن چکے ہیں، انکی تحلیل کرتے ہوئے متبادل موثر نظام کی تشکیل دیا جائے۔ لیبر قوانین کا ازسر نو تعین کیا جائے۔ موجودہ لیبر سے متعلق عدالتوں، این آئی آر سی اور ضلعی لیبر آفیسرز کے مزدورمخالف کردار کے برعکس مزدوروں کی حق رسی کرنے والے ادارے اور عدالتیں بنائی جائیں۔ ’’لازمی سروس ایکٹ‘‘ ختم کیا جائے اور یونین سازی کے حق کو غیر مشروط تسلیم کرتے ہوئے اسکے راستے سے تمام قانونی اور غیر قانونی رکاوٹیں ختم کی جائیں۔
جلسے کے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض مسعود افضل کاشی سے سرانجام دئے۔ قبل ازیں یوم مئی کی ریلی کا آغاز باغ بہشت سے ہوا جس میں نواب دین لاشاری، ملک غلام رسول محمد صدیق کی قیادت میں فاطمہ فرٹیلائیزرکمپنی، فوجی فرٹیلائیزر کمپنی، جمال دین والی شوگرملزکے مزدور شامل تھے، واپڈا کی ہائیڈرو یونین کی ریلی عابد علیم کی قیادت میں شامل ہوئی، پلے داروں کی لالہ اکبر کی قیادت میں ریلی غلہ منڈی سے شروع ہوئی، اساتذہ کی بہت بڑی ریلی محمد خالد چوہددری کی قیادت میں بلاک نمبر ایک سے شروع ہوئی۔ مزدوروں کی تمام ریلیاں ریسکیو 1122 کے دفتر کے سامنے پہنچ کر ایک بڑے جلوس میں تبدیل ہوگئیں جہاں سے وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی سیکرٹری جنرل قمرالزماں خاں کی قیادت میں اسپتال روڈ، انڈر پاس، ریلوے روڈ سے ہوتے ہوئے بھٹو شہید چوک پر پہنچ کر جلسے میں بدل گئی۔