یوم مئی: محنت نے دولت کو للکارا ہے!

| تحریر: قمرالزماں خاں |

انسانی سماج کی تاریخ ’’طبقاتی کشمکش‘‘ کی تاریخ ہے۔ غلام کی آقا، مزارعہ کی جاگیر دار، مظلوم کی ظالم اور مزدورکی سرمایہ دار کے خلاف جدوجہد کی تاریخ۔ اگرچہ محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد سے حتمی منزل تک نہیں پہنچا، مگرشکستوں اور فتوحات کی مختلف لہروں سے نظر آتا ہے کہ اس کشمکش کے دوران کی جانے والی جدوجہد نے انسان کوبراہ راست شدید ظلم واستبداد، استحصال سے کافی حدتک چھٹکارا دیا۔ مزدوروں سے سولہ سے بیس گھنٹے غلامانہ مزدوری لینے والے حالات کار ’عمومی‘ طورپر بدل چکے ہیں۔ تمام طبقاتی جدوجہد ہی قابل ستائش اور قابل تقلید ہے مگراس جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل ’’یوم مئی‘‘ کی تاریخی جدوجہد ہے۔
مئی کی بے نظیر جدوجہد نے وقت کے ساتھ مزدوری کے دن کو سولہ یا بعض اوقات بیس گھنٹے تک سے نکال کر آٹھ گھنٹے کے اوقات کار میں تبدیل کراکے گویا ’مزدورتحریک‘ کی نئی سمتوں کا تعین کرادیا۔ پہلی دفعہ مزدورکی اجرت کو کام کے دورانئے سے منسلک کرنے سے ’انسانی محنت‘ کی قدر اور منڈی میں اسکے ’بدل‘ کے رشتوں کی کھلے عام وضاحت کی گئی ہے۔ یہ ایک نظریاتی اور طبقاتی لڑائی ہے جو حتمی فتح یابی تک جاری رہے گی۔ ’’یوم مئی‘‘ مزدوروں کے حوصلے، جرا ت، جدوجہد، قربانیوں اور فتح یابی کی علامت ہے۔ غلام ’محنت‘ کے اوقات کار میں کمی کا مطالبہ سترھویں صدی کے آخر سے ہی شروع ہوگیا تھا، مگرتب تک باقاعدہ مزدورانجمنوں کی نشوونما نہیں ہوپائی تھی۔ اٹھارویں صدی میں براعظم آسٹریلیا سے اس تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، جس نے یورپ میں پذیرائی حاصل کرنے میں دہائیاں لگا دیں۔ مگر تب تک یہ مطالبہ محض نعرہ تھا۔ اس نعرے کو سائنٹیفک اورٹھوس نظریاتی دلیل مارکس اور اینگلز کے سرمایہ، اجرت اور قدرسے متعلق مضامین سے ملی۔ ’اجرت اور اوقات کار‘کے باہمی تعلق کے مکالمے نے سرمایہ داری نظام کے استحصال کو ننگا کرکے رکھ دیا۔ منافع اور سرمائے کے یک طرفہ بہاؤکے پیچھے سرمایہ دارانہ لوٹ مار کی کہانی طشت ازبام ہوگئی اور نہ صرف اس سے اوقات کار میں کمی کے مطالبے میں شدت اور زور آگیا بلکہ بات ’اوقات کار‘ میں کمی کے مطالبے سے بھی آگے بڑھ کر سرمایہ داری کے خاتمے اور اس کی جگہ پر ’محنت کے راج‘ یعنی ذاتی ملکیت کی بجائے ذرائع پیداوارپر اشتراکی کنٹرول کے (سوشلزم) نظام کی داغ بیل کی بحث کا آغاز بھی ہوگیا۔ خیالی سوشلزم یا غیر سائنسی سوشلز م جس کو یوٹوپیائی سوشلزم بھی کہا جاتا تھا کی جگہ پر سائنٹیفک یا سائنسی سوشلزم کے نظریات پوری وضاحت اور دلائل کے ساتھ محنت کش طبقہ کے سامنے آگئے۔
تاریخ واضح کرتی ہے کہ استحصال اور جبر کے قوانین ہمیشہ حکمرانی کی طاقت سے لاگو کئے جاتے ہیں۔ ان قوانین کو لاگو کرنے کے لئے جن اداروں کی (طاقت) ضرورت ہوتی ہے، اس کے لئے ریاست کو معرض وجود میں لانا پڑتا ہے۔ اوقات کار کے مطالبے سے شروع ہونے والی بحث نے آگے چل کر تاریخ کی وہ تعبیریں جو حکمرانوں اور بالادست طبقے کے نقطہ نظر سے وضع کی گئی تھیں اور جس میں انسانی سماج کی تمام تر حرکت اور ارتقا کو بادشاہوں، حکمرانوں، ’’سیانوں‘‘ اوردیگر ’پراسرار‘ طاقتوں کے مرہون منت ٹھہرایا جاتا تھا، کو جھٹلا دیا۔ اس کی بجائے پیداوری قوتوں کے ارتقا اور انسانی سماج کی ترقی، ’پیداواری رشتوں‘ اور اونچ نیچ، غریب امیر، آقا اور غلام، طاقت ور اور کمزورکے ظہور میں آنے کی وجوہات کو اجاگر کردیا۔ ریاست کے اداروں کی وہ تشریح جو ریاستی ’پروہت‘ اور دیگر ’ذہن ساز ‘ ادارے کرتے چلے آرہے تھے، باطل ٹھہری۔ ریاست کے بظاہر ’مقدس‘، پاک باز اور اعلیٰ و ارفع قراردیے جانے والے اداروں کے ظالمانہ، جانبدارانہ، طبقاتی اور پرتشدد کردار کو تاریخی مادیت کے اصولوں سے واضح کردیا گیا۔ ایک دنیا کے اندر دوناقابل مصالحت اورلازمی طور پر متحارب ’دنیاؤں‘ کی حقیقت کو ریاکارانہ تقدس اورجھوٹی اخلاقیات اور جعل سازی سے مسلط کرنے کے دن لد گئے۔
مئی 1886ء کی تحریک ’پیرس کمیون‘ کی بغاوت کا اگلا مرحلہ تھا، جس میں مزدوروں نے پہلی دفعہ ستر دن تک اپنی حکمرانی قائم کی تھی۔ اس کمیون میں مزدوروں نے اپنی شکست کے باوجود یہ ثابت کردیا تھا کہ مزدورجب اپنے لئے طبقہ بن جاتے ہیں تو وہ ریاست کو شکست بھی دے سکتے ہیں اور سماج کو چلا بھی سکتے ہیں۔
کارل مارکس نے جینوامیں ہونے والی پہلی انٹرنیشنل کی کانفرنس (1866ء) میں اپنی غیر حاضری کے باجود دیگر مطالبات کے ساتھ ’اوقات کار‘ کے آٹھ گھنٹوں کا مطالبہ کانفرنس کے شرکا تک پہنچا دیا تھا۔ تب سے یہ مطالبہ باقاعدہ طور پر مارکس کی قائم کردہ پہلی مزدوروں کی عالمی انجمن کا مطالبہ بن گیا۔ مئی 1886ء کوامریکی سرمایہ دارریاست کے ہاتھوں شکاگو میں جب مزدوروں کے پرامن جلسے کو خون میں ڈبو کرانکے ہاتھوں میں امن کے سفید جھنڈوں کو سرخ رنگ میں بدل دیا گیا تو مزدورکا جھنڈا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سرخ قرار پایا۔ مزدوروں کے ریاستی قتل عام کے بعد مقدمہ مزدوررہنماؤں پر چلا کران کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ خوف اور دہشت پھیلانے کا سرمایہ دارانہ ریاست کا وہ حربہ تھا جو ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر مزدوروں کی تحریک ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہونے کی وجہ سے وقتی پسپائی اور شکست کے بعد رکتی، تھمتی یا ختم نہیں ہوتی بلکہ اگلے مراحل میں زیادہ شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔ آٹھ گھنٹے کے کام کی تحریک تو 1889ء میں اور اس کے بعد مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں کامیاب ہوگئی۔ مگر محنت کش طبقے کی جدوجہدنظریاتی فہم کے بعد اس مطالبے پر رکنے والی نہیں تھی۔ ریاست اور حکمران طبقے کے کردار، محنت کی لوٹ مارکے سرمایہ دارانہ نظریات کو سمجھ جانے کے بعد اورسرمایہ دارانہ پیداواری رشتوں کے رہتے ہوئے مزدورکی قسمت نہ بدلنے کی حقانیت کو جان لینے کے بعد، محنت کش طبقے کے پاس موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست اور اسکے استحصالی رشتوں کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں بچتا۔
اکتوبر 1917ء میں مزدوروں کی دوسری بین الاقوامی انجمن کی اپوزیشن کی قیادت میں روس میں مزدوروں نے سرمایہ داری نظام کو شکست دے کر دنیا میں پہلی مزدورریاست قائم کردی۔ ’کچھ نہیں بدلے گا اور دنیا ایسی ہی رہے گی‘ کی فرسودہ اور مکارانہ تاویل کو شکست ہوئی۔ مزدورنے عملی طور پر ثابت کردیا کہ وہ ہی ہے جو پیداواری عمل میں ناگزیر ہے۔ سرمایہ دار، ٹھیکے دار، مالکان اور انتظامیہ ’’پیداواری عمل‘‘ میں طفیلی، زائداور غیر ضروری عاملین ہیں۔ پیداواری عمل میں ’قدرتی وسائل اور محنت‘ ناگزیر ہیں۔ سرمایہ دار اوراسکے ’سرمائے‘ کے بغیر سویت یونین میں تما م تر غلطیوں، نظریاتی انحرافات کے باوجود منصوبہ بندمعیشت نے غیر معمولی معاشی پیش رفت کی۔ روزگار کی فراہمی یقینی بنا کر بے روزگاری کو جرم قراردے دیا گیا۔ مفت تعلیم کے ذریعے سو فی صد خواندگی کی شرح قائم کی گئی۔ مفت علاج معالجے کے نظریے سے 46 سال اوسط عمرکو 68 سال تک پہنچادیاگیا۔ ہر کسی کو رہنے کے لئے چھت فراہم کی گئی۔ بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کو چھوڑ کر سوفی صد آبادی کو فعال کرکے معاشی اور ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل کرلیا گیا، یوں پانچ سالہ منصوبوں کے دوران کل داخلی شرح نموبیس بائیس فی صد سے پچپن فی صد تک پہنچا کر غیر معمولی صنعتی، زرعی، سماجی ترقی کے راستے ہموار کئے گئے۔ ایک نیم سرمایہ دارانہ اور زرعی ملک دو دہائیوں میں ہی سپر پاور کہلانے لگا۔ یہ سب پیداورا کا مقصد منافع یا شرح منافع کی بجائے ’ضروریات کی تکمیل‘ قراردینے کے باعث ممکن ہوا۔
سویت یونین اور اسکے انقلاب کی تپش سے دنیا بھر میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں، انقلابات اور مزدوروں کی بغاوتوں نے سرمایہ داروں کو اصلاحات پر مجبور کیا۔ مگر وہ تما م ’ماڈل‘ جو نظام کے عروج میں سرمایہ دار سوویت یونین سے ’تقابلی‘ بنیادوں پر دکھایا کرتے تھے، آج سرمایہ داری کے شدید بحران کے بعد تیزی سے تنزلی کا شکار ہیں۔ سرمایہ داری چھ سات دہائیوں کی مراعات کو پچھلے بیس سالوں میں چھین چکی ہے۔ بچی کھچی سہولیات تیزی سے کٹوتیوں کی پالیسوں کی زد میں ہیں۔ پنشن، گریجویٹی، صحت کی سہولیات، گھر، ٹرانسپورٹ کی سہولیات ایک خواب بنتی جارہی ہیں۔ مستقل مزدورکو گھنٹوں کے حساب سے مزدوری کرنا پڑتی ہے اور انہی گھنٹوں کی اجرت اسے ملتی ہے جس میں کام کا موقع ملے۔ بعض اوقات ایک مزدور کو زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کے لئے ایک دن میں کئی جگہوں میں گھنٹہ دو گھنٹہ کام کرنا پڑتا ہے تب زندگی رواں دواں رہ سکتی ہے۔ تیسری دنیا میں پاکستان جیسے ممالک میں حالات اور زیادہ خراب ہوتے جارہے ہیں۔ مسلم کمرشل بینک، یو بی ایل اور حبیب بینک کے شیئر ز کی فروختگی اورپی ٹی سی ایل، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے بعد واپڈا، پی آئی اے، کراچی اسٹیل ملز، آئل اینڈ گیس کی نجکاری کے اعلانات ہورہے تھے کہ یکا یک صوبہ سندھ میں اسپتالوں اور صوبہ پنجاب میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کا اعلان کرکے عمل درآمد بھی شروع کردیا گیا ہے۔ پنجاب میں اب تک پانچ ہزار پرائمری سکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کے ذریعے نجی شعبے کے حوالے کرکے اب اگلے مرحلے میں دوہزارآٹھ سو پرائمری سکول ستمبر تک نجی شعبے کے حوالے کئے جائیں گے۔ سندھ میں تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی نجکاری کے خلاف مزدوروں کی مزاحمت جاری ہے۔ پنجاب میں اساتذہ تنظیموں نے 2015ء میں شاندار انداز میں مزاحمت کا آغاز کیا مگر ایک سائیکل میں کئے گئے مختلف اضلاع میں مظاہروں کے بعد اگلے مرحلے پرمنصوبہ بندی کے فقدان، لائحہ عمل کے تذبذب اور خاص طور پر محنت کش طبقے کی دیگر پرتوں کو ساتھ شامل کرنے میں ناکامی نے اس تحریک کو اپنے عروج میں ہی خاتمے سے ہمکنارکردیا۔ پنجاب ٹیچرز یونین میں لیڈرشپ کے مسائل پر گروہوں اور اساتذہ تنظیموں کے کئی حصوں میں بٹ جانے کے عمل سے وہ شاندار تحریک اپنے اوائل میں ہی رک گئی، جسکی وجہ سے ریاست کے لئے بغیر کسی روک رکاوٹ پہلے مرحلے میں سکولوں کی نجکاری مکمل کرکے دوسرے مرحلے کا اعلان کرنا ممکن ہوگیا۔ سرکاری سکولوں کی نجکاری اور تعلیم کو بیوپاریوں کے ہاتھوں بیچ دینے سے صرف اساتذہ کی چھانٹیوں کا سنگین مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوگا بلکہ سرکاری سکولوں میں محنت کشوں کے بچے پڑھتے ہیں، ابتدائی جھانسوں کے بعد بتدریج ان نجی تحویل میں دئے گئے سکولوں میں فیسوں کا اجرا ہوگا اور تعلیم غریب کے بچے کی دسترس سے بالکل ہی نکل جائے گی۔ اس حملے کا جواب اساتذہ کی ایک ناقابل مصالحت جدوجہد ہے جس میں بلاتفریق دیگر شعبوں کی مزدورتنظیموں، انجمنوں، یونینز اور فیڈریشنز کی شمولیت ناگزیر ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں کے شدید دباؤ کے باعث نجکاری، چھانٹیاں، مراعات کا خاتمہ، ٹھیکے داری نظام کے تحت عارضی روزگار اور شدید استحصال کے گھن چکر میں مزدورپھر اسی چکی میں پس رہا ہے، 1886ء کی اوقات کا رکی تحریک کی حاصلات اور پھر مزدوراقتداراورسوشلسٹ انقلاب کی تحریکوں کے دباؤ کی وجہ سے حاصل سہولیات کا خاتمہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کا تجزیہ یہی بنتا ہے کہ دنیا بھر کے محنت کشوں نے جس وسیع تناظر میں یوم مئی کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا، اوقات کارمیں کمی اس کا ایک مرحلہ تھا حتمی منزل نہیں تھی، لڑائی ادھوری رہ جانے سے دشمن طبقات نے پھر سے بالادستی حاصل کرلی ہے۔ مزدوروں کی حتمی منزل ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کا اشتراکی کنٹرول اور سیاسی نظام پر اکثریتی طبقے کی حاکمیت ہے۔ اس مقصد کے ادھورے رہ جانے کے سبب سرمایہ داروں کو سنبھل کر پھر مزدوروں پر وار کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ حاصلات جو مزدوروں نے دہائیوں کی شدید جدوجہد سے حاصل کی ہوتی ہیں پھر واپس چھین لی جاتی ہیں۔ آج جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے استعمال سے اوقات کار کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھ ہی رہے ہیں اور دنیا بھر میں یہ صورتحال ہے۔ اب بہت سے شعبوں میں آٹھ گھنٹے کام کے قانون کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ بہت سی معروف صنعتوں میں سرکاری طور پر 9 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ ٹھیکے داری کے تحت 12 گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ استحصال کئی گنا زیادہ گہرا اور ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس سال یوم مئی تہوار کے طور پر نہیں بلکہ ایک عہد کی تجدید کے طور پر منانے کی ضرورت ہے۔ مزدوروں کے دشمنوں کی صف بندی اور حملوں کی یلغار مسلسل ہورہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش ہر قسم کے تعصبات اور حد بندیوں کو روندتے ہوئے فیصلہ کن طبقاتی جدوجہد کا آغاز کرکے اس نظریاتی جنگ کو منزل مقصود تک پہنچائیں جس کے مقاصد محنت کشوں کی پہلی، دوسری، تیسری اور پھر چوتھی عالمی تنظیموں نے طے کئے تھے۔ پوری دنیا کی پیداوار پر دنیا بھر کے لوگوں کا یکساں حق، ذرائع پیداوار اور قدرتی وسائل کو ذاتی ملکیت سے نکال کر مشترکہ ملکیت میں لاکر ہی دیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہوجاؤ۔ تمہارے پاس کھونے کو محض زنجیریں ہیں اور پانے کے لئے پوری دنیا!