یوم مئی 2014ء: آج تجدید عہد کر ہی ڈالو!

[تحریر: زبیر رحمن]
1886ء کے واقعہ سے قبل 1884ء میں بھی ایک بڑی ہڑتال ہوئی جس کی خبر جرمن زبان میں امریکہ کے ایک ہفت روزہ’ دی شکاگوا ر بیٹر زیٹنگ ‘ میں اتوار کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اسے جرمنی کے 26 ہزار مہاجر مزدوروں نے پڑھا۔ یہ خبریں انگریزی، بو ہیمین اور اسکینڈینیوین زبانوں میں بھی شائع ہوئی۔ اس سلسلے میں مزدوروں کی حوصلہ افزائی کے لئے شکاگو کی مزدور یونینوں میں پکنک، تقاریر، لائبریری، رقص اور دیگر طریقوں سے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ ان عوامل سے محنت کش طبقہ منظم ہوتا رہا اور ان کی اپنی ثقافت پروان چڑتی رہی۔
یکم مئی 1886ء کو 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کے لئے شکاگو میں جب ہڑتال شروع ہوئی تو ان ہڑتالیوں میں آدھے سے زیادہ مزدور ’میکورمک ہارویسٹر کمپنی‘ کے تھے۔ دو روز بعد جب عوامی جلسہ منعقدہوا تو ’لومر شورز‘یونین کے 6 ہزارمزدوروں نے شرکت کی۔ ہڑتال میں میکورمک پلانٹ کے 500 مزدور شامل بھی ہوئے۔ پہلی تقریر میں اسپائیز نے سینٹرل لیبر یونین کو مخاطب ہوتے ہوئے مزدوروں کو متحد رہنے کی تلقین کی۔ جب ’لومر شورز ‘ کے مزدور سڑک کی جانب پیش قدمی کی تو اچانک 200 پولیس اہلکاربغیر کسی خبر داری کے پہنچ گئے۔ انہوں نے پستولوں سے حملہ کر دیا جس میں کم از کم ایک ہڑتالی ہلاک کیا اور 5 یا 6 زخمی ہوئے۔ اس کے بعد اسپائیز، اربیٹر زیٹانگ کے دفتر گئے اور ایک سرکلر چھاپا جس میں اسی شب کو مزدوروں سے ایک غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ احتجاجی اجلاس شکاگو کے’ہے مارکیٹ‘ (HayMarket) میں منعقد کیا گیا تھا جس میں اسپائز اور دیگر ٹریڈ یونین رہنماؤں البرٹ، پارسنز اور شیموئل فلڈن کو خطاب کرنا تھا۔ شکاگو کا مےئر کارٹر ہیریسن، جوشروع سے اس اجلاس کے دوران وہاں موجود تھا، کا کہنا تھا کہ ’’یہاں پولیس کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘‘ اس نے پولیس کیپٹن جون بونفلڈ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ پولیس کو اسٹیشن ہاؤس( یعنی تھانہ) میں بھیج دے۔
رات دس بجے مزدو رہنما فلڈن جلسے کے خاتمے کا اعلان کرنے جا رہا تھا۔ اچانک 180 کی نفری کا ایک پولیس دستہ برآمد ہوا جس کی قیادت بون فلڈ کر رہا تھا، اس نے لوگوں کو فورا منتشر ہونے کا حکم صادر کیا۔ مزدور رہنما فلڈن نے احتجاج کیا کہ ’ہم پر امن ہیں‘۔ اسی دوران اچانک پولیس کے جتھے پر کسی نے بم پھینکا، جس کے نتیجے میں ایک فرد ہلاک، 6 شدید زخمی اور تقریبا 70 افراد معمولی زخمی ہوئے۔ اس کے بعد پولیس نے مزدوروں پر گولی چلا دی لیکن آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ اس موقع پر کتنے مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے۔ حکومتی کارندوں کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ بم سوشلسٹوں اور انارکسٹوں کی جانب سے انتقام کے طور پر پھینکا گیا۔ اس کے بعد اجلاس کے ہالز، یونین، آفس، چھاپے خانے کے مزدور اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ حالانکہ سب کو یہ معلوم تھا کہ سوشلسٹوں اور انارکسٹوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہاں تک کہ بہت سے معصوم لوگ جنہیں سوشلزم اور انارکسزم کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا، انہیں بھی گرفتار کر کے شدید جسمانی اذیتیں دی گئی۔
اس واقعہ میں 8 افراد پر مقدمہ چلایا گیا، جن میں اسپائز، فلڈن، پارسنز، ایڈلف فشر، جارج اینجیل، میخائل شوا ب، لوئس لنگ اور اوسکر نیب شامل تھے۔ مقدمہ 21 جون 1886ء کو کریمنل کورٹ میں چلا۔ دفاع میں کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اٹارنی جنرل کو ریاست کی جانب سے مقرر کیا گیا تھا۔ ان آٹھوں افراد میں سے کسی پر بھی بم پھینکے جانے کا ثبوت نہیں تھا۔ درحقیقت ان میں سے صرف دو افراد ہے مارکیٹ چوک میں موجود تھے۔ شکاگو کے مےئر ہیریسن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی نے بھی تشدد کی کاروائی کی ہو۔ مزدور رہنما پارسنز اپنے دو چھوٹے بچوں سمیت آئے ہوئے تھے۔ اٹار نی جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’ ’یہ لوگ ہزاروں لوگوں کے رہنما ہیں، یہ واقعہ ان ہی کی وجہ سے رونما ہوا، لہٰذا آپ ہمارے ادارے اور سماج کو بچانے کے لئے انہیں سزا دیں۔‘‘ 19 اگست کو ایک کے سوا سب کو سزائے موت سنائی گئی۔ نیبے کو 15 سال کی قید کی سزا دی گئی۔ محنت کشوں کی شدید عالمی مہم کی وجہ سے شواب اور فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ لنگ نے اپنی پھانسی سے قبل خودکشی کر لی تھی۔ پھر 11 نومبر 1887 کو اینجل، اسپائز، پارسنز اور فشر کو پھانسی دے دی گئی، ان میں سے صرف دو افراد امریکی شہری تھے باقی انگلینڈ، آئرلینڈ اور جرمنی کے شہری تھے۔ یہ پرولتاریہ کی بین ا لاقوامیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے جنازے میں 6 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد ایک عرصے تک نیب، شواب اور فلڈن کی رہائی کے لئے مہم عالمی طور پر چلتی رہی۔ عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے اسپائز نے کہا تھا کہ’’ یہ سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا تھا کہ’ ’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمیں پھانسی دینے سے محنت کشوں کی آواز ختم ہو جائے گی تو یہ تمہاری بھول ہے، اس شعلے کو جتنا دباؤ گے یہ مزید بھڑکے گا۔‘‘

مزدور رہنما جنہیں سزائے موت سنائی گئی

دوسری انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس 1889ء میں پیرس میں’ انقلاب فرانس‘ کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر منعقد ہوئی جس میں ریمونڈ لیونگ نے یہ تجویز رکھی کہ 1890ء میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے۔ یوم مئی عالمی طور پر منانے کے لئے اس تجویز کو باقاعدہ طور پر 1891ء میں تسلیم کر لیا گیا۔ اب دنیا بھر میں قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور یکم مئی کو دنیا کے بیشتر ممالک میں تعطیل ہوتی ہے۔ مگر آج بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں یکم مئی کی چھٹی نہیں ہوتی اور جلسہ جلوس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، ایران، افغانستان، کویت، ترکی، دبئی اور بھوٹان وغیرہ جبکہ جاپان شاید واحد ترقی یافتہ ملک ہے جہاں یکم مئی کی چھٹی نہیں ہوتی لیکن مزدور لاکھوں کی تعداد میں جلسہ جلوس کرتے ہیں اور چھٹی کا مطالبہ بھی۔
انقلاب فرانس اور پیرس کمیون سے متاثر ہو کر شکاگو کے مزدور متحد ہوئے اور قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے مطالبات منوائے۔ اسی تسلسل میں انقلاب روس، انقلاب چین، انقلاب سپین، بلقان، بالٹک، کوہ قاف، ایشیائی کوچک اور وسطیٰ ایشیا میں انقلابات بر پا ہوئے۔ لیکن ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک تک نہ پھیل جانے کی وجہ سے یہ سارے انقلاب زوال پذیر ہو گئے۔ آج پھر مزدور یورپ، امریکہ، ایشیا اور افریقہ میں عظیم جدوجہد میں سرگرم ہیں۔ لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ عالمی طور پر سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ عالمی معیشت کی شرح نمو ایک فیصدتک آگئی ہے۔

دادو: یوم مئی 2013 کے موقع پر PTUDC کے زیر اہتمام نکالی جانے والی ریلی

ان حالات کی روشنی میں پاکستان کے مزدوروں کے حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب 1951ء میں سابقہ مشرقی پاکستان کی اکثریتی نشستیں کمیونسٹوں نے حاصل کی تھیں اور لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار کامریڈ مرزا ابراہیم نے مسلم لیگی گرمانی کو شکست دی۔ کراچی کے گلی کوچوں میں 1972-73ء کی مزدوروں کی ہڑتالوں میں چاچا علی جان، عثمان بلوچ، عزیز الحسن، ٹکا خان، فیض اللہ اور جاوید شکور محنت کش طبقے کی قیادت کرتے تھے۔ جب سائٹ ایریا سے نکلنے والے ہزاروں کے جلوس (جن میں 95 فیصد پختون مزدور ہوتے تھے) کی قیادت ایک ان پڑھ مزدور رہنما چاچا علی جان کرتے تھے۔ کوئی نہیں کہتا تھا کہ علی جان تو مہاجر ہے۔ لانڈھی کورنگی ملیر اور شاہ فیصل کالونی میں بسنے والے بیشتر مزدور اردو بولنے والے تھے مگر ان کے رہنما عثمان بلوچ اور ٹکا خان ہوتے تھے۔ لسانی تعصب کا شائبہ تک نہ تھا۔ مگر آج محنت کشوں کو رنگ و نسل اور فرقوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہی سرمایہ داروں کی چال ہے کہ محنت کشوں کو تقسیم کرو اور نان ایشوز میں الجھائے رکھو۔ مگر کچھ لوگوں کو بہت دیر تک یا بہت سے لوگوں کچھ عرصے تک توبے وقوف تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ IMT (عالمی مارکسی رجحان ) کی رہنمائی میں پاکستان اور دنیا بھر میں محنت کش متحد ہو رہے ہیں اور عالمی کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے ملکوں اور قوموں کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان قائم کرنے کی جدوجہد تیز ہو رہی ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب کوئی بھوکا مرے گا، لا علاج رہے گا، بے گھر رہے گا اور نہ ہی بیروزگار!