نجکاری: حکمرانوں کا مزدوروں پر حملہ
[تحریر: قمرالزمان خان]
مزدور دشمن نواز حکومت، نے آتے ہی اپنے سابق ادھورے ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ سامراجی مفادات کی تکمیل کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے حکم پر پھر سے نجکاری کا طبل بجادیا گیا ہے۔ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اداروں کے حصے بخرے کرکے بیچنے کا ایجنڈا سامنے آچکا ہے۔ ’’نجکاری‘‘ پالیسی کو ایک ’’سٹیریو‘‘ طرز کے پراپیگنڈے کی بنیاد پر آگے بڑھایا جارہا ہے، جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ مزدور نااہل، کام چور اور نالائق ہیں اور پبلک سیکٹر خسارے کا سودا ہے، جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہاں پر تھوڑی سی درستگی کرلی جائے اور مزدوروں کی بجائے اگر ان الزامات کو حکمران طبقے کے چہرے پر سجا کردیکھا جائے تویہ عین حقیقت ہے۔ حکمرانوں کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ریاست کا کام اداروں اور محکموں کو چلانا نہیں ہے لہٰذا ان کو’’ نجی شعبے ‘‘ میں دینا ناگزیر ہے۔ ماضی میں نجکاری کرنے کی ظاہر کردہ ’’وجوہات‘‘مختلف رہی ہیں جو عملی طور پرغلط ثابت ہوتی رہی ہیں لہٰذا ہر دور میں نجکاری پالیسی کی’’وجوہات‘‘ تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ ماضی میں کی جانے والی نجکاری کے تحت(مکمل یا جزوی) بیچے جانے والے بیشتر ادارے جن میں مختلف بینک، گیس کمپنی، بجلی بنانے والے کارخانے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن، شوگر ملز، کھاد بنانے والی فیکٹریاں، گھی ملز، سیمنٹ فیکٹریز، خسارے میں نہیں جارہے تھے بلکہ ملک کو سالانہ سینکڑوں ارب روپے کما کردے رہے تھے۔ ان اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ملک اس خطیر رقم سے مستقل طور پر محروم ہوگیا اور اب وہ چھ سات سوارب روپے ملکی خزانے کی بجائے نجی مالکان کی جیبوں میں جمع ہورہے ہیں۔ ان اداروں کی نجکاری میں ظاہر کردہ دو مختلف اوقات میں دعوے‘1۔ اداروں کو بیچ کر قرضے اتارے جائیں گے، 2۔ بجٹ کے خسارے کو کم کرکے معیشت کو بہتر کیا جائے گا، عملی طور پر غلط ثابت ہوئے۔ ’’سرکاری تحویل میں بیمار سیکٹرز‘‘ کی نجی شعبے میں ’’صحت یابی‘‘ کے تمام دعوے ہوا میں تحلیل ہوگئے اور ان اداروں کو تقریباََ مفت خرید کر انکی مشینری بیچ دی گئی اور زمینوں پر رئیل اسٹیٹ کا بزنس چمکایا گیا۔ یہ دعویٰ کہ نجکاری کا شکار کئے جانے والے اداروں کے مزدوروں کو نہیں نکالا جائے گا، بہت بڑا جھوٹ ثابت ہوا۔ نجکاری کے بعد، مسلم کمرشل بینک کی تقریباََتمام دیہی برانچز بند کردی گئیں اور عملہ کم کرنے کے لئے سینکڑوں ملازمین کوجبری برطرف کردیا گیا اور ہزاروں کو ’’گولڈن شیک ہینڈ‘‘ نامی چھانٹی کا شکار بنا دیا گیا۔ یہی عمل تقریباََ ہر ادارے میں دہرایا گیا۔ جوفیکٹریاں نجکاری کے بعد بند کردی گئیں‘ انکے ملازمین کو واجبات تک ادا نہیں کئے گئے اوربہت سے فاقہ زدہ مزدوروں کو بھیک مانگتے تک دیکھا گیا۔ ہر نجکاری کے بعد متعلقہ شعبے کی مصنوعات کو’’ اجارہ داری‘‘کے ذریعے مہنگا کردیا گیا۔ نجی شعبے کے مالکان ٹیکس چوری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لہٰذا جو ادارے سرکاری شعبے میں اربوں روپے ٹیکس ادا کیا کرتے تھے، ملکی خزانہ اس سے بھی محروم ہوگیا۔ غیر ملکی آقاؤں اور مالیاتی اداروں کے ماہرین کی اعانت سے ’’سونے کا انڈا‘‘ دینے والے یا ملکی مفاد میں بہت ہی اہمیت رکھنے والے اداروں، پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائینز، پبلک سیکٹرز کے بینک، پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان ریلویز، واہ آرڈینینس فیکٹری، پاکستان مشین ٹولز فیکٹری، شپنگ یارڈ، آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن وغیرہ میں ایسے عناصر کوبھاری تنخواہوں اور مراعات دے کر کلیدی عہدوں پر پہنچادیا گیا جن کے ذمہ، ان ادارو ں کی تباہی اور خسارے تک پہنچانا تھا۔ لہٰذا تما م تروسائل خرچ کرکے ان اداروں کا چہرہ ’’داغدار‘‘ بنادیا گیا تاکہ انکے خلاف پراپیگنڈہ میں آسانی رہے۔ جبکہ اس کے برعکس بری کارکردگی کے حامل ’’قانون نافذ ‘‘ کرنے والے اور امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار’’ ناکام اداروں‘‘، قانون سازی اور انصاف کی تکمیل کے ذمہ دار اداروں کے تقریباََ منہدم ہوجانے کے بعد تک بھی، انکوبھاری خرچے پر چلایا جارہا ہے، جسکی تما م تر قیمت پاکستان کے محنت کش ادا کررہے ہیں۔ حکمرانوں کا یہ استدلال فضول اور لاغر ہے کہ پبلک سیکٹر کو نجی شعبے کے حوالے اس لئے کیا جارہا ہے کیوں کہ وہ امور مملکت میں بہت مصروف ہیں اور ان سے یہ ادارے نہیں سنبھالے جاتے۔ دیکھا جائے تو پاکستانی ریاست اور حکومتوں نے پچھلے ستاسٹھ سالوں میں اپنی کوئی بھی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ روزگار، بہتر معیار زندگی، تعلیم، صحت، صفائی، سفری وسائل، امن وامان، کھیل، میدان اور پارک، بچوں کی پیدائش کے وقت اموات پر قابو پانا، بیماریوں کے پھیلاؤ سے لیکر خواتین، قوموں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق، عام اور غریب آدمی کی انصاف تک رسائی، بجلی اور گیس کی ضرورت کے مطابق سستے نرخوں مسلسل فراہمی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے لیکر نکاسی آب جیسے شعبوں تک کون سا فریضہ ہے جو حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ ریاست نے ادا کیا ہے ؟ہر طرف انارکی، بدعنوانی، نااہلیت اور جہالت کا راج ہے۔ صحت اور تعلیم کے انتہائی اہم شعبوں کو کم ترین فنڈز، عدم توجہگی اور فراموش کردئے جانے کی پالیسی کے تحت، زبوں حالی کی اس نہج پر پہنچادیا گیا ہے جہاں پر انکا وجود عام آدمی کے لئے تقریباََ غیر ضروری ہوچکا ہے۔ جس کے نتیجے میں نجی شعبے کے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی چاندی ہوتی جارہی ہے۔ یہ سب ’’ منڈی کی معیشت‘‘ کے تحت نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کی نظریاتی پالیسی کی تکمیل ہے، باقی ساری وجوہات اور اسباب ثانوی اور فروعات کے ضمن میں آجاتے ہیں۔ پاکستان میں 1990ء سے شروع کی جانے والی نجکاری کی پالیسی کے تحت جتنے بھی اداروں کو سرکاری شعبے سے نجی تحویل میں منتقل کیا گیا ہے ان میں سے ہر نجکاری میں بدترین بدعنوانی اور لوٹ مار کی گئی ہے۔ اقربا پروری کی پالیسی کے تحت میاں منشا ٹائپ لوگوں کوبام عروج پر پہنچادیا گیا ہے۔ ہر نجکاری کی پشت پر فیض یاب ہونے والے حکمران طبقے کے مختلف ’’گھرانے‘‘ ہیں جبکہ سامنے ’’فرنٹ مین‘‘ ٹائپ لوگ کئے جاتے ہیں۔
نجکاری کا سب سے بڑا ہدف مزدور تحریک ہے، جس کا نحیف قسم کا وجود بھی سرمایہ داروں کو قبول نہیں، نواز حکومت نے اپنے سابق دور میں واپڈا کی یونین پر پابندی لگانے اور مزدوروں کے عالمگیر دن ’’یوم مئی ‘‘کی چھٹی ختم کرنے جیسے اقدامات سے اپنے ’’مزدوردشمن ‘‘ نظریات کو واضح کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا تھا۔ موجودہ نواز حکومت نے پھر واپڈا، پی آئی اے، آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن، پاکستان ریلویز، پاکستان اسٹیل ملزسمیت ساٹھ سے زائد اداروں پر نجکاری کی چھری چلانے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایسا اگر ہوجاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں لامحالہ لاکھوں مزدوروں کی برطرفیاں کی جائیں گی۔ ملکی خزانے میں جانے والے مزیدکئی سو ارب روپے، نجی جیبوں میں گرنا شروع ہوجائیں گے اورتعلیم، علاج معالجہ، سفری سہولیات، بجلی، گیس سمیت خدمات اور پیداوار کے شعبے اور مہنگے ہوکر سرمایہ داروں کے منافعوں میں خطیر اضافے کا باعث بنیں گے۔ جس کے نتیجے میں ناقابل برداشت مہنگائی، جینے کے تمام راستوں کو بند کرے گی۔
ان مضمرات کے علاوہ جو زیادہ بھیانک صورتحال پیدا ہوگی وہ نجی شعبے میں محنت کشوں کے تمام حقوق کی سلبی ہوگی، جیسا کہ اس وقت نجی شعبے کی صنعتوں، اداروں میں ہمیں عملاً یہ نظر آرہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں نجی شعبے کے مزدوروں کے کام کرنے کے گھنٹے روزانہ وار دس سے چودہ گھنٹے تک ہیں جبکہ ملکی قانون کے مطابق آٹھ گھنٹوں کے بعد کام کو اوور ٹائم تصور کرکے ڈبل اجرت دینا لازم ہے۔ عملی طور پر نجی شعبے کے اٹھانوے فی صد حصے میں مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لئے ٹریڈ یونین بنانا ایک ایسا جرم ہے جس کا مرتکب نہ صرف روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے بلکہ جھوٹے مقدمات کے نتیجے میں کئی کئی سال تک معاشی، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نجی شعبے میں مزدوروں کو یونین بنانے کی پاداش میں آگ کی بھٹیوں میں جلاکر راکھ بنانے کی روایات موجود ہیں، اس بھیانک جرم کے ذمہ داران کوئی سزا پانے کی بجائے آج کل مملکت کی حکمرانی کے عہدے پر فائض ہیں۔ نجی شعبے میں حالات کار ایسے ہیں کہ بیشتر کارخانوں میں کام کرنے کی جگہ پر ٹمپریچر، روشنی، ماحول غیر انسانی ہوتا ہے۔ مزدوروں کی صحت اورزندگی کی حفاظت سرمایہ داروں کی آخری ترجیح میں بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فیکٹری میں سینکڑوں مزدور زندہ جل کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کو ’’آزاد منڈی‘‘ کے خلاف سازش قراردیا جاتا ہے۔ کم ازکم تنخواہ کا تعین بے انصافی اور طبقاتی تعصب کا آئینہ دار ہے، مگر ستم یہ ہے کہ اس نام نہاد اور شرمناک ’’کم از کم تنخواہ‘‘ کے نوٹیفیکیشن پر بھی عمل درآمد نجی شعبے میں کام کرنے والے ایک فی صد سے بھی کم حصے پر ہوتا ہے۔ نجی شعبے میں روزگار کی(بدترین شرائط کے ساتھ) فراہمی اور اسکو چھین لینا کسی بھی سیٹھ( یا چند افراد) کا ایسا استحقاق ہے جسکی مسلسل مشق سے مزدور ہردم سولی پر لٹکتا رہتا ہے۔ خو د ہر قسم کے قانون اور ضابطے سے ماورا پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اپنے ذاتی کاروبار یا ادارے میں مزدور کو غلام داری نظام کے اصولوں کے تحت برداشت کرنے پر آمادہ ہوتا ہے، اس سے زیادہ کی مانگ اسکی برہمی کا با عث بنتی ہے۔ یہ اس نجی شعبے کا ایک معمولی سا تعارف ہے جو اب نجکاری کے تحت پبلک سیکٹر کے ان مزدوروں کا مقدر ٹھہرے گا جو جبری برطرفی، گولڈن ہینڈ شیک یا وی ایس ایس آرکے بعد بچ جائے گا۔
یقینی طور پر یہ سب ناقابل قبول ہے۔ پبلک سیکٹر کا مزدور نجکاری کی کسی بھی شکل (مکمل یا نام نہاد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نجکاری محنت کش طبقے پر ایک کاری وار ہے، جس کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کو استوار کرنا ہوگا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شب نجکاری کی انتہائی خوفناک شکل ہے جس کا مقصد محنت کشوں کو حقیقت کے ادراک سے دور رکھنا ہے۔ یہ میٹھی گولی دکھا کر محنت کشوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ محنت کش طبقے کو یہ باور کرنا ہوگا کہ یہ اداروں کے مزدوروں کی علیحدہ علیحدہ لڑائی نہیں بلکہ ایک طبقاتی جنگ ہے، جس کا جواب بھی پاکستان بھر کے محنت کش طبقے کو یکجا کرکے دیا جاسکتا ہے۔ نجکاری سرمایہ داری نظام کا ایک نظریاتی موقف ہے تو پھر محنت کش طبقے کے پاس بھی اپنے نظریات اور نقطہ نظرہے جس کی رو سے ذاتی ملکیت اور شرح منافع کا نظام غیر انسانی فلسفہ ہے جو اکثریتی طبقے کو بھوک، افلاس، جہالت، بیماریوں اور بے بسی میں دھکیلنے اور ایک حقیر اقلیت کی تجوریاں بھرنے کا طریقہ کار ہے۔ محنت کش طبقے کو اپنے نظریات اور اپنی قیادت کے پرچم تلے جمع ہوکر نجکاری اور اسکے خالق سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے خلاف لڑنا ہوگا۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں (کسی نہ کسی شکل میں) نجکاری کی مجرمانہ پالیسی کی حامی ہیں، پیپلز پارٹی اقتدار میں ہو تو نجکاری کی وزارت قائم کرکے نجکاری کرنے کا اعلان کرتی ہے مگر اپوزیشن میں نجکاری کے خلاف بیان بازی کا ناٹک کرتی ہے۔ تمام لیگیں، ایم کیو ایم، اے این پی، مذہبی جماعتیں نجکاری کی حمائتی ہیں، اس لئے محنت کش طبقے کو اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی تاکہ سیاسی بازیگروں کی دھوکہ بازی سے بچا جاسکے۔
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے زیر اہتمام پاکستان بھر میں نجکاری، مزدوروں اور مزدور انجمنوں پر حملوں، مزدور مخالف قوانین کے اور سرمایہ داری کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ تمام مزدوروں، ٹریڈ یونینز، ایسوسی ایشنز، فیڈریشنز، کنفیڈریشنز کو (انکے تشخص، نام، جھنڈے اور پروگرام پر قائم رہتے ہوئے) اس لڑائی میں ایک ساتھ منظم کیا جائے تاکہ حکمران طبقے کی مزدور دشمن سازشوں کو شکست فاش دی جاسکے۔ اس مہم کو منظم کرنے کے ایک طریقہ کار کو اپناتے ہوئے مندرجہ بالا پروگرام کے تحت ایک ممبر شپ کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ بکھرے ہوئے مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں، دانشوروں، طلبا، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو یکجا کرکے اس تحریک کا آغاز کیا جائے جس کا کم ازکم اور ابتدائی ہدف نجکاری اور نجکاری کی وزارت کا خاتمہ ہو اور آگے چل کرکم ازکم تنخواہ، مراعات کے حصول سمیت دیگر مزدور دشمن قوانین، حالات کاراور مضمرات کا خاتمہ کیا جاسکے۔
محنت کش ساتھیو! دشمن طبقے اورمیدان جنگ سے بھاگے ہوئے تمام بھگوڑوں کی ’’فضول گوئی‘‘ اور بزدلانہ استدلال کے برعکس حالیہ دنوں میں نوجوان نرسوں اور لیڈی ہیلتھ وزٹرز کی دلیرانہ اور پرعزم جدوجہد کی کامیابی ہم سب کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ اگر نظریات اور جذبے سچے ہوں تو جیتنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ آئیے اور اپنے طبقاتی دشمن کی گھناؤنی سازش کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان بھر کے مزدوروں کو ایک جگہ منظم کرنے والی اس تحریک کا حصہ بنیں۔